وادی سندھ کا تصور الم اور مرثیہ گوئی – شمیم عارف قریشی

live-shrine

خطہ ملتان وادی سندھ کے جغرافیائی مرکز ، تاریخی امیں اور تہذیبی وارث کی صورت ابد آباد ہی سے قرطاس زمین پر صورت گر حیات رہا ہے – دیگر خطہ ہائے تہذیب کے مماثل یہاں بھی روایات و اقدار نے معاشرت سے جنم لیا اور نمو پائی مگر دیگر تہذیبی مراکز کی روایات کے برعکس یہاں کی روایات و اقدار نے صرف و صرف الہیات و صنمیات ہی سے پروش نہیں پائی
ازراہ مثال وادی سندھ میں بالعموم اور ملتان میں بالخصوص پروان چرھنے والے تصور الم کی خالصتا انسانی صورت حالات ہی سے ایک قدر انسانی کے طور پر تشکیل ہوئی – معلوم و موجود تاریخ انسانی کی تہذیب کے مراکز فارس و روما اور یونان کے برعکس سندھ وادی ہی ایک ایسا منفرد خطہ رہا ہے جہاں عدم تشدد کا تصور ، ادراک ظلم و تفہیم تشدد ، ایک قدر انسانی کے طور پر تاریخ کے تسلسل میں اس طرح سے ابھر کر سامنے آیا شکہ اس کی ںطیر مراکز دیگراں سے دستیاب نہیں -اس کی اساس اور بنیادی وجہ یہی قرار پاتی ہے کہ دیگر تہذیبوں کی تاریخ حملہ آوری سے لبریز ہے جبکہ وادی سندھ کی تاریخ عدم حملہ آوری سے مزین ہے – روما و فارس کی تہذیبیں بیک وقت اور تسا اوقات غالب و مغلوب کے تجربے کی حامل نظر آتی ہیں جبکہ وادی سندھ کی تاریخ امن باطن کی پیمبر نظر آتی ہے – جہاں کے مراکز (موئن جو داڑو ہڑپہ ، ٹیکسلا ) آج بھی آلات حرب کی بجائے سامان لطف سے مزین نظر آتے ہیں اور جہاں بمطابق انسائیکلو پیڈیا برٹنیکا تاریخ انسانی کا پہلا شعر بصورت ” وید ” ضبط تحریر میں آیا
وادی سندھ کے تصور الم کی صورت بھی یہی ہے کہ غصب و جبر کے غیر حامل باشندگان وادی ہی نے اسے اپنے حب الوطنی کے جذبابت اور اپنے خون شہداء کے احترام سے سینچا ، اسے ہزاروں برس پر مبنی اپنی آشتی سے راگ جوگ اور صدہا برس پر مبسوط یہاں کی شاعری صنف کبیر ” مرثیہ ” کی صورت عطا کی جس میں یہاں کے ابنائے خاک کے شہداء پر ماتم کناں اس خطے کی پسماندگان بیٹیوں ، بہنوں اور ماؤں کا بین کا وہ آہنگ سنائی دیتا ہے جو کسی اور تہذیبی خطے بشمول یونان و فارس ناپید ہے
مورخین شعر و ادب یونان کے تصور الم کو خدائے ڈیانسس کے مندر کے خصور گربہ گشتن کے نرخرے سے برآمدہ آہ و بکاء میں تلاش کرتے ہیں – المیہ یونان اور المیہ ملتان میں بنیادی فرق آج بھی وہی ہے جو کسی کو ‍ڑبان گاہ میں کسی کو قربان کرنے اور خود قربان ہونے یا کسی قتل گاہ میں کسی کو قتل کرنے اور خود قتل ہونے میں ممّیز و مظہر ہے
تاریخ ملتان سے آشکار ہے کہ یہاں خطّہ زمین کے المیات نے خالص انسانی صورت حالات سے جنم لیا – ویداؤں کی اس سرزمین سے نمو پانے والی شعریات نے یہاں کی انسانی رنج و الم کی حقیقی اساس سے وجود پایا نہ کہ ارض یونان کی طرح کسی اکتسابی حثیت سے فروغ پایا ، یہاں کی سرزمین پر بیرونی خطوں کی الہیات و مذبیہات سے فزوں تر وہاں کے المیات نے ایک قدر مشترک کے طور پر جگہ پائی
تاریخ شاہد ہے کہ مڈل ایسٹ کی الہیات سندھ وادی میں اپنے آثار ونفوز کے حصول میں کامیاب نہ ہوسکیں مگر شہادت حسین یقینا ایک ایسا المیہ ثابت ہوئی کہ جس نے بعذریعہ زبان وبیان فارسی اس خطّے کے المیاتی اشتراک کی بنیاد پر ایک قدر کی حثیت سے یہاں نہ صرف پذیرائی حاصل کی بلکہ یہاں کے تاریخی الم میں اور یہاں کی شعریات میں مرثیہ کی صورت سسی کی اندوناک مرگ کے حوالے کے بعد حسینی مرثیہ کی تشکیلات اختیار کرگئیں
راگ جوگ کی اساس کی ادائیگی میں نم ناک اور رلادینے والا المیہ ، سندھ وادی کی مقامی زوال پذیر اشرافیہ کی داستان کا ترجمان بن کر حسینی مرثیے کی صورت گر ثابت ہوا
ملتان جو ایک موڑ پر قرامطیوں اور پس ماندگان حسین کی ایک مختصر عرصے کے لیے جائے پناہ ثابت ہو ، تاریخ میں مشرق وسطی کے اموی اور وسط ایشیا کے ترک و افغان طالح آزما حکمرانوں اور حملہ آوروں کی آمجگا بن گیا ،وادی سندھ کے قریب قریب تمام شہروں اور خصوصی طور پر ملتان کی بیش از بیش اینٹ سے اینٹ بجادی گئی کہ یہاں کے باشندوں نے ژظلوم و مقہور غربائے وطن کو جائے امان فراہم کی تھی
آرایائی دور سے جاری وساری حملہ آوری تاریخ کے ازمنہ وسطی کے اس دور میں بھی اپنی انتہا پر پہنچ گئی جس نے یقینا وادی سندھ کی زبان سرائیکی کے تاریخی المیہ اور اس کے شعری قالب کی صورت حزنیہ شاعری پر گہرے اثرات مرتب کغۓ
ارض ملتان بشمول سندھ وادی کے طور و ارض مين ہونے والی شاعری صنف کبیر یعنی مرثیہ کی وہ تاریخی پرداخت ہوئی جس کی تمثیل تاریخ ادب عام میں ناپید ہے
سرائيکی مرثیے کی تاریخ اس قدر قدیم ہے جس قدر واد؛ سندھ میں ورود اسلام اور صوفیائے عظام کی آمد اور یہاں قیام پذیری کی تاریخ – بنو امیہ کے دور ميں سندھ وکدی اور ملتان پر حملے کے بعڈ عربی نژاد حکمران مذھب اسلام کی ترویج میں ناکام ثابت ہوئے
وسط ایشیائی اور ایرانی النسل صوفیائے کرام نے اسلامی عقائد کو مقامی ثقافتوں ميں رنگ کر مقامی باشندوں کے قابل قبول بنایا – ارض ملتان کے اولین صوفیاء حضرت شاہ یوسف گردیز اور شاہ شمس سبززاری و مابعد بھی وسط ایشیا اور ایران و عراق کی اسلامی خلافتوں کے استعماری و توسیع پسندانہ رویوں کے ردعمل میں یہاں پناہ گزین ہوئے جو شعائر اسلام کے ساتھ غم حسین بھی لیکر گئے جو کہ مقامی شعریات کی تاريحی الم ناکی ميں فروغ کا عنصر ثابت ہوا
سرائیکی شاعری ميں مرثیہ نگاری الگ صنف ہونے کے علاوہ قدیم اصناف کافی ،ڈوہڑہ یہاں تک کہ جدید اصناف نثر اور نظم غم حسین سے فیض یاب نظر آتی ہے

شمیم

Comments

comments