واہگہ خود کش بم دھماکہ: یہ سنّی نہیں، دیوبندی وہابی دھشت گردی کا شاخسانہ ہے

Pakistan

واہگہ باڈر لاہور میں ایک مبینہ خود کش حملہ آور نے 5 کلو گرام بارود کے ساتھ خود کو اڑایا ، جس کے نتیجے میں 55 افراد شہید اور 70 سے زائد لوگ زخمی ہوگئے جبکہ شہید ہونے والون میں عورتیں ، بچے اور پنجاب رینجرز کے تین اہلکار بھی شامل ہیں
واقعے کی زمہ داری کے حوالے سے ابتک دو تنظیموں کے ترجمانوں کی جانب سے بیانات آئے ہیں
جماعت الاحرار جوکہ تحریک طالبان پاکستان سے الگ ہونے والی جماعت ہے کے ترجمان شاہد اللہ شاہد نے اس واقعے کی زمہ داری قبول کی ہے
جبکہ دوسری طرف جند اللہ نے اس واقعے کی زمہ داری قبول کی ہے اور یہ دونوں تنظیمیں دیوبندی وہابی تکفیری دھشت گرد تنظیميں ہیں
ابھی تک خود کش حملہ آور کی شناخت نہیں ہوسکی اور یہ خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ کہیں یہ وہی خود کش حملہ آور تو نہیں ہے جس کا نام عبدالرحمان بتایا جارہا تھا ، عمر 20 سال اور دیوبندی تنظیم اہل سنت والجماعت / سپاہ صحابہ پاکستان سے اس کا تعلق بتایا جارہا تھا ، گھر سے غائب تھا اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کے مطابق لاہور میں خودکش بم دھماکہ کرنا چاہتا تھا
اس خودکش بم دھماکہ سے پتہ چلتا ہے کہ اس واردات کی منصوبہ بندی کرنے والے کا مقصد بڑے پیمانے پر ہلاکتیں کرنا اور تباہی پھیلانا تھا اور جب سے آپریشن ضرب عزب اور خیبر ایجنسی میں آپریشن شروع ہوا ہے دفاعی تجزیہ نگاروں کا کہنا تھا کہ اس آپریشن سے دیوبندی تکفیری دھشت گرد تنظیموں کی کمر ٹوٹنے اور ان کا زور کم ہونے کے جو دعوے پاکستانی فوج کے ترجمان ادارے آئی ایس پی آر کی جانب سے کئے جارہے ہیں ، ان دعوؤں کو غلط ثابت کرنے کی کوشش دیوبندی تکفیری دھشت گرد ضرور کریں گے اور خاص طور پر تحریک طالبان پاکستان کے جملہ گروپ اس حوالے سے کاروائیاں ضرور کریں گے
تحریک طالبان پاکستان کے پانچ کمانڈر بشمول ترجمان شاہد اللہ شاہد کی جانب سے داعش میں شمولیت کے اعلان اور داعش کے حوالے سے پورے پاکستان کے اندر جگہ جگہ وال چاکنگ اور کتابچوں کا تقسیم ہونا بھی اسی طرف اشارہ کرتا تھا کہ دیوبندی تکفیری دھشت گردوں کے خلاف سیکورٹی فورسز کی جانب سے شمالی وزیرستان ، خیبر ایجنسی کے اندر جو آپریشن جاری ہے اور اس کے ساتھ انٹیلی جنس بنیادوں پر جو کاروائیاں جاری ہیں ان کا ردعمل سامنے آسکتا ہے
ہم آپ کو آپریشن ضرب عضب کے سابق انچارج کور کمانڈر پشاور جنرل خالد ربانی کے نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی میں کئے گئے خطاب کی جانب بھی توجہ مبذول کرانا چاہیں گے ، انھوں نے ستمبر میں اپنے خصوصی لیکچر میں پاکستان کی حکومت کو متنبہ کیا تھا کہ آپریشن ضرب عزب کی کامیابی کے لیے کراچی ، اندرون سندھ اور پنجاب خاص طور پر جنوبی پنجاب میں انٹیلی جنس معلومات کی بنیاد پر ٹارگٹ آپریشن ضروری ہیں اور یہ ایک طریقہ ہے آپریشن ضرب عزب کے خلاف دھشت گردوں کے ردعمل سے بچنے کا
لیکن پاکستان کی موجودہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں اس حوالے سے سنجیدگی کے ساتھ کوئی بھی قدم اٹھانے سے قاصر رہی ہیں بلکہ وفاقی اور پنجاب حکومت نے تو اپنی گود میں تکفیری دیوبندی دھشت گردوں کے عذرخواہوں کو بٹھا رکھا ہے اور وہ ضرب عزب آپریشن کے خلاف پروپیگنڈا کرنے والی مذھبی سیاسی قوتوں ، عدالتی ، عسکری ، صحافتی اسٹبلشمنٹ میں موجود طاقتور تکفیری لابی کی سرپرستی کرنے میں مصروف ہے
آج کے افسوس ناک واقعہ پر وفاقی وزرات داخلہ اور پنجاب حکومت کے ترجمان اور آئی جی پنجاب کی جانب سے جو بیانات سامنے آئے ہیں ، ان سے یہ لگتا ہے کہ وہ اس واقعے کی زمہ داری پنجاب رینجرز پر ڈالنا چاہتے ہیں اور اس طرح سے درپردہ وہ اس کی زمہ داری پاکستان کی ملٹری قیادت پر ڈالنے کے خواہش مند ہیں
جبکہ دوسری طرف ملٹری اسٹبلشمنٹ کے اندر تکفیری لابی اور سٹریٹجک گہرائی کی پالیسی کے ہمنواء اس واقعہ کی زمہ داری ہندوستان پر ڈالنے کی کوشش کررہے ہیں
اسی طرح سے پاکستان کی عسکری اسٹبلشمنٹ میں تکفیری لابی کو پاکستان کی اس عسکری قیادت سے الگ نہ کرنے والے جوکہ اس وقت تکفیری دیوبندی دھشت گردوں کے خلاف شمالی وزیرستان ، خیبر ایجنسی میں پوری طرح سے سرگرم ہے اس حوالے سے ” ملٹری اسٹبلشمنٹ ” کی عمومی اصطلاح استعمال کرتے ہوئے دیوبندی تکفیری لابی اور اس کے حامیوں کی شناخت کو ایک مرتبہ پھر ابہام کے پردے میں چھپانے کی کوشش کررہے ہیں اور وہ دیوبندی تکفیری دھشت گردی کا سارا الزام محض ملٹری اسٹبلشمنٹ پر ڈال رہے ہیں اور دانستہ نادانستہ وہ اس دھشت گردی کی حامی صحافتی ، عدالتی ، سیاسی اور مذھبی دیوبندی تکفیری لابی کو بچانے کی سعی کررہے ہیں
پاکستان کے اندر تزویراتی گہرائی اور نام نہاد جہادی پراکسی کے حامی صرف ملٹری اسٹبلشمنٹ میں نہیں بیٹھے بلکہ وہ سیاسی ، مذھبی ، عدالتی اور صحافتی اسٹبلشمنٹ میں بھی موجود ہیں
پاکستان کی ملٹری اسٹبلشمنٹ کے اندر تکفیری لابی کے ترجمان اگر حمید گل ، اسلم بیگ جیسوں کو قرار دیا جائے تو غلط نہيں ہوگا اور یہ وہ لابی ہے جس کا پلڑا نواز شریف اینڈ کمپنی کی جانب جھکا رہا ہے جبکہ اس قماش کے لوگ پاکستان کی صحافتی اسٹبلشمنٹ میں سلیم صاف؛ ، اوریا مقبول جان ، انصار عباسی وغیرہ ہیں اور عدالتی اسٹبلشمنٹ میں جواد ایس خواجہ ، شوکت عزیز صدیقی سمیت درجنوں لوگ ہیں اور یہ وہ سب لوگ ہیں جنھوں نے دھرنوں کے دوران ” لندن پلان ” کا شور مچاکر دیوبندی تکفیری دھشت گردوں کو عظیم مجاہدین ، امریکہ و مغربی سامراج کو چیلنج کرنے والے قرار دے کر اس ملک کے اعتدال پسند سنّی اور شیعہ کی کردار کشی اور ان کو امریکی ایجنٹ بتلانے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی تھی

مارو ی سرمد نے ایک آدمی کا ٹوئٹ ری ٹوئٹ کیا ہے اور اس ميں کہا ہے کہ

ٹوئٹ آف ماروی سرمد

ان دھشت گردوں کو اسلام آباد دھرنوں اور پی ٹی آئی و پی اے ٹی کے جلسوں مین عوام کا سمندر کیوں نظر نہين آیا
ایک اور نام نہاد کمیونسٹ بلونگڑے نے اپنے کمنٹس میں اس واقعے کو ” لال مسجد ” کا ردعمل بتلایا ہے اور کہا ہے کیونکہ پاک فوج دھشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر قرآن پڑھتی بچیوں کو زندہ جلانے اور ہزاروں بے گناہوں کو مارنے کی مرتکب ہورہی ہے تو اس لیے اسے ایسے ردعمل کا سامنا کرنا پڑے گا
ہمارے لیے ایک مرتبہ پھر پاکستان پیپلزپارٹی کے بعض حلقوں کی جانب سے آنے والے گول مول ردعمل خیرانی کا سبب ہے
پاکستان پیپلزپارٹی کے چئیرمین بلاول بھٹو کے آفس کی ترجمان معروف سیاسی دانشور سابق سینٹر مرحوم اقبال حیدر کی بیٹی علیزہ حیدر نے سانحہ واہگہ باڈر پر جو ٹوئٹس کئے ہیں ، ان میں ایک ٹوئٹ میں بھی دیوبندی تکفیری دھشت گردوں کی مذمت نہیں کی گئی بلکہ پاکستان کی ملٹری اسٹبلشمنٹ کو عمومی حثیت میں رگیدا گیا ہے اور انھوں نے پاکستان کی ملٹری اسٹبلشمنٹ کے اندر جنرل راحیل شریف کی جانب سے فوج کی قیادت سنبھالنے کے بعد سے آنے والی بہتر تبدیلیوں کی وجہ سے ملٹری اسٹبلشمنٹ کی ہائی کمانڈ کی تکفیری دھشت گردوں سے واضح دوری کے ملنے والے اثرات کے باوجود ” ملٹری اسٹبلشمنٹ ” کو تزویراتی گہرائی کی علمبردار قرار دے کر ان پر ہی اس واقعے کی زمہ داری ڈالنے کی کوشش کی ہے اور اس طرح سے دھشت گردوں کی شناخت کے عمل کو دھندلانے والوں کی صف مين خود کو شامل کرلیا ہے
ہم سمجھتے ہيں کہ پاکستان کے اندر دھشت گردی کو جڑ سے اکھاڑنے کے لیے دیوبندی وہابی تکفیری آئیڈیالوجی کے زیر سایہ کام کرنے والے نیٹ ورک کو جڑ سے اکھاڑنا بہت ضروری ہے اور اس نیٹ ورک کی جڑیں پاکستان کی ریاست کے تمام اداروں ، صحافتی ، سیاسی حلقوں میں موجود ہیں اور ان کی شناخت کو چھپانے اور ان پر پردہ ڈالنے کا عمل بند ہونا چاہئیے
صدائے اہل سنت اس دھشت گردی کے واقعہ کی شدید مذمت کرتا ہے اور مطالبہ کرتا ہے کہ پاکستان بھر ميں جو بھی مدارس ، سیاسی مذھبی تنطیمیں اور صحافتی نیٹ ورک تحریک طالبان پاکستان ، جماعت الاحرار ، جنداللہ ، لشکر جھنگوی ، جیش العدل ، جیش محمد سمیت دیوبندی تکفیری دھشت گردوں کی نظریاتی حمآئت اور ان کو کسی قسم کی سپورٹ فراہم کررہی ہيں ان کے خلاف فوری طور پر کاروائی ہونی چاہئیے

Comments

comments

Latest Comments
  1. Rafique
    -
  2. Jaleel ur Rehman Malik
    -
  3. junaid hasan
    -