عزاداری پر ایک ملحد دوست ارشد محمود کے اعتراض کے جواب میں – عمار کاظمی
کل ارشد محمود صاحب نے کسی کا یہ اسٹیٹس میسیج شیر کیا تھا۔ وہ خود بھی اس سے ملے جلے خیالات کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔ جواب کو اپنا اظہار راے کا حق سمجھتے ہوے جواب تحریر کر رہا ہوں۔
بلاتبصرہ “۔۔۔۔محرم صفر دیگر ایام میں کی جانے والی عزاداری حقیقتا ایک رسم ہے, مشق لا حاصل ہے۔ پیسہ وقت توانائیوں کا ضیاع ہے جس سے معاشرے پہ کوئی مثبت تبدیلی ہرگز رونما نہیں ہوسکتی بلکہ معاشرے میں تقسیم، تفریق، تناؤ، تشدد جیسے منفی رویوں کو فروغ مل رہا ہے۔ درحقیقت یہ عزاداری اب ایک خاص گروہ کا کاروبار ہے، دھندہ ہے جو مجالس ماتم تعزیوں کی صورت اس رسم میں طرح طرح کے نئے اضافوں سے جاہل مسلمانوں کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہا ہے۔ یہ کاروبار مذہب کی مقدس چھتری تلے کیا جارہا ہے لہذا اصلاح کی آواز اٹھانے والا گستاخ ٹھہرتا ہے۔ اس ساری صورتحال پہ افسوس ہی کیا جاسکتا ہے۔۔۔۔۔”
اگر کسی نے خدا کو دیکھا ہے تو بتاے؟ اگر آپ ملحد ہیں اور ایمان والے نہیں ہیں تو حج کیا ہے؟ قربانی کیا ہے؟ تبلیغی اجتماع کیا ہے؟ شیعہ اسلام انہی رسومات کے ذریعے ہی واقعہ کربلا کو لوگوں تک پنچا کر خود کو زندہ رکھے ہوے ہے۔ ان کے بغیر اس کا کوی تصور تبلیغ نہیں۔ دیسی ملحدین اور ایک مخصوس فکر کے حامل براے نام سیکولرز عزاداری اور میلاد کے جلوس معیشت پر بوجھ محسوس ہوتے ہیں۔ مگر یہی لوگ حج پر ایسے سوالات نہیں اٹھاتے جہاں ہم کثیر مقدار میں زرمبادلہ مذہبی رسومات کی غرض سے خرچ کرتے ہیں۔ اور یہی نہیں انھیں تو دیوالی کے پٹاخوں پر بھی کوی اعتراض نہیں ہوتا جبکہ ہندوستان کی مظبوط معیشت کے باوجود وہاں غربت ہم سے کسی طور کم نہیں۔ تو پھر یہ منافقت کیسی؟
کسی کو سکاچ وسکی کے دو پیگ لگا کر خوشی نصیب ہوتی ہے جو غریب آدمی کے دو دن کے کھانے کے برابر بن جاتے ہیں اور کوءی غریب ہندو دیوالی پر پٹاخے پھوڑ کر خوشی محسوس کرتا ہے جبکہ کوءی میلاد اور محرم کے جلوسوں سے ذہنی اور روحانی تسکین حاصل کرتا ہے۔ سب اپنے اپنے پیسوں سے اپنی پسند کے کام کرتے ہیں اور سب کو ہی اس کا حق حاصل ہے۔ تو پھر یہ حضرات میلاد اور محرم کو ملکی میعشت پر بوجھ کیسےتصور کر لیتے ہیں؟ آپ اپنی جیب کے پیسے سے بوتل خریدو، کپڑے، مہنگی گاڑی یا کچھ بھی خریدو یہ آپ کا پیسہ ہے۔ تو آپ کو دوسروں کی جیب کے پیسے پر کیا اعتراض ہے؟ یعنی ریاست اگر حج اور سکھ یاتریوں کی سکیورٹی پر پیسہ خرچ کرتی ہے تو کیوں کرتی ہے۔ شاید سکھ یاتری یہاں زرمبادلہ لاتے ہیں۔ شاید انھیں جلوسوں پر ریاستی سکیورٹی اخراجات پر تکلیف ہوتی ہے۔ اس ملک میں پونے چار کروڑ شیعہ اور اس سے کم از کم دو گنا زیادہ تعداد میں بریولی موجود ہیں۔
یہ سب لوگ کسی نہ کسی مد میں ریاست کو انہی حقوق کے بدلے میں ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ اسی طرح سے عیساءی اور ہندو رسومات کی سکیورٹی بھی ریاست کا فرض ہے۔ اگر آپ ہندو کو کافر خیال کر کے اس کی رسومات کا تحفظ ختم کر دیں تو پھر شاید وہی ہوتا ہے کہ آپ ان کی بچیاں اغوا کر کے ان سےسے زبردستی نکاح پڑھواتے اور انھیں اسلام قبول کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔ ابھی کل ایک شیرخوار بچی دہشت گردی کا نشانہ بنی مگر ان کے قلم خاموش رہے۔ ان کے مطابق ان رسومات سے معاشرے میں کوی مثبت تبدیلی رونما نہیں ہوی۔ کیا میں ان سے پوچھ سکتا ہوں کہ حج، نماز اور روزے کے بعد معاشرے میں کونسی مثبت تبدیلی رونما ہوی؟
کیا انسانوں کو زبح کرنے والے حج، نماز روزہ کے پابند نہیں ہیں؟ اگر ان رسومات سے معاشرے میں تقسیم، تفریق، تناؤ، تشدد جیسے منفی رویوں کو فروغ مل رہا ہے تو تبلیغی جماعت کے راے ونڈ میلا سے کیا حاصل ہو رہا ہے؟ گردن زنی کی وڈیوز بھی تو اسی فکر سے منسلک لوگ بنا رہے ہیں۔ 1867 میں وجود میں آنے والی خالص اسلامی ہندوستانی تحریک کے پس منظر کے حامل ملحدین ہی اپنے اجداد کی اس تحریک سے صدیوں پرانی شیعہ بریلوی رسومات پر معترض کیوں نظر آتے ہیں؟ ویسے خالص اسلام ہے کیا؟ اگر یہ مذہب کی کسی قسم کو مانتے ہیں تو ان کے تصور اسلام اور عبادی اسلام اور خارجی تصورات میں کیا فرق ہے؟ سرمایہ دارانہ نظام معیشت نے کتنے ملکوں سے غربت ختم کر دی ہے؟ یہ دکانداروں والی معاشی سمجھ کے ساتھ ریاستی معیشت پر بات کرنا کتنا درست ہے؟
شادی گھروں پر پابندی کے بعد روزگار میں اضافہ ہوا یا کمی؟ ون ڈش سے معیشت میں کتنی بہتری آے؟ کیا ان کے ایسے خیالات سے لوگ میلاد اور عاشورہ کے جلوس چھوڑ دینگے یا اس سے پہلے سے دہشت گردی کا شکار لوگ اور زیادہ مشتعل ہونگے؟ اور کیا اس سے اور زیادہ تقسیم نہیں ہوگی؟ کل تک مذہبی لوگ تقسیم کا شکار تھے اب براے نام روشن خیال بھی اس متعصب اور منتخب سوچ کی وجہ سے تقسیم کا شکار ہونے لگے ہیں۔ کیا یہ لوگ “سیکولرازم” کے درست ترجمہ اور معنی سے واقف بھی ہیں؟ یا پھر اپنے سابقہ علما کی طرح سیکولرازم کو کفر کے معنوں میں ہی لیتے ہیں؟ جب یہ مذہب کو ہی قبول نہیں کرتے تو ان کے نزدیک مذہبی آزادی کا تصور کیا ہے؟ مذہب کیا ہے؟ سب سے مشترکہ معزرت کے ساتھ میرے نزدیک یا مذہب ہے یا پھر نہیں ہے۔ اگر ہے تو رسومات بھی مذہب ہیں اگر نہیں ہے تو فرض بھی مذہب نہیں ہے۔
پتا نہیں ان ڈارون کے ان آدھے مریدوں کو کس نے بتا دیا ہے کہ مسلک اور رسومات جہالت ہیں مگر مذہب نہیں۔ یا تو سب کو مکمل طور پر ملحد بنا لیں یا پھر سب کو اپنی مرضی اور ان کی مذہبی رسومات کے ساتھ زندہ رہنے دیں۔ سب مسالک، سب مذاہب اپنی اپنی جگہ درست ہیں بشرطیکہ وہ کسی دوسرے کو قتل نہ کریں۔ جب گردن زنی سے لے کر اجتماع تک تمام کام مذہب کی چھتری تلے ہی ہو رہے ہیں تو میلاد اور عاشور کے جلوسوں پر ہی اعتراض کیوں ہے؟ کون جانے ان جاہلوں کو جلوسوں پر پابندی سے دہشت گردی کا حل کس داعش کے مفکر نے بتا دیا ہے؟ یعنی اگر ریاست کسی مذہب مسلک کا دفاع کرنے میں ناکام ہے تو اسی پر پابندی لگا دی جاے تاکہ جو لوگ آج تھوڑے بہت ریاست کے ساتھ کھڑے ہیں وہ بھی بندوق اٹھا لیں۔
محترم عمار کاظمی صاحب:
آپ نے جواب دینے کا اپنا حق استعمال کیا، بالکل ٹھیک کیا۔ لیکن یہ میری پوسٹ یا میرا بیان نہیں تھا۔ میں نے اس پر ‘بلاتبصرہ’ لکھ کر شیئر کیا تھا۔ یعنی اس پر ایک سوالیہ نشان ڈال دیا۔ جہاں تک ‘فلاں فلاں چیز پر تنقید کیوں نہیں کی جاتی’۔ آپ کو پتا ہے، سوشل میڈیا پر ان سب خیالات، روایات، رسومات پر تنقید کی جاتی ہے۔ کم از کم لبرل طبقے پر یہ دلیل نہیں ڈالی جا سکتی۔آپ خود بھی لبرل اور سیکولر خیالات کے مالک شخص ہیں۔ میرا خیال ہے، ہم تفرقہ بازی، اور عقائد کی دنیا سے اٹھ کر انسانی سطح پر بات کرتے ہیں۔ ہمارے لئے سب انسان بطور انسان عزیز ہیں۔ لہذا ان کے اپنے اپنے جذبات کا احترام ہمارے نظری اخلاقیات میں شامل ہے۔ ہمیں انسانیت کا وسیع تر مفاد عزیز ہوتا ہے۔ تاکہ سماجی، نظریاتی، معاشی اور علمی ارتقا کا سفر جاری رہے، انسانیت کہیں ایک جگہ جامد ہو کر نہ رہ جائے۔ چنانچہ جب ہم جیسے لوگ کسی ایشو پر تنقید کرتے ہیں،تو مطلب ان قوتوں پر تنقید کرنا ہوتا ہے۔ جو معاشروں کو جامد بنانا چاہتے ہیں اور ان کے مذہبی جذبات کا استحصال کررہے ہوتے ہیں۔ آپ سے گزارش ہے، کہ آپ ایشوز پر لکھا کریں۔ جو دل چاہیں لکھیں۔ لیکن شخصیات کے حوالے دینے شائد کوئی اچھی بات نہیں۔ جو چیز آپ کو خود پسند نہیں، یعنی تکفیری فتوے۔۔۔تو آپ بھی دوسروں کو الحاد کے فتوے نہ دیا کریں۔ ورنہ کوئی فرق نہ رہ جائے گا۔ آپ جیسے تعلیم یافتہ زی شعور سے توقع ہو سکتی ہے، کہ تہذیب کا دامن نہ چھوڑیں۔ یہ بڑی چھوٹی سطح ہوتی ہے، کہ میں یوں بات کروں۔۔۔ “اوے فلانے۔۔کافر۔۔ملحد۔۔۔سلفی۔۔وغیرہ وغیرہ۔۔” اگر آپ نے لوگوں کو اسی طرح فتوے دینے ہیں، تو پھر تکفیریوں کی مذمت کیسے کرتے ہیں۔ عمار صاحب، ہمارا ملک مذہبی شدت پسندی، اور تشدد پسندی کی بے حد انتہاوں کو پہنچ چکا ہے۔ جب ہم ملائیت کے بڑھتے ہوئے اثر رسوخ کو کم کرنے کی بات کرتے ہیں۔ اور ان چیزوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں، جن سے ملائیت کا اثر رسوخ کم ہو۔۔تو آپ کو بھی ساتھ دینا چاہئے۔ اس کا مقصد کوئی فرقہ وارانہ تفریق اور امتیاز نہیں ہوتا۔ پاکستان کو پرامن اور ترقی کرتا ہوا ملک دیکھنا ہے۔ تو ہمیں ہر طرح کی مذہبی شدت پرستی کو کم کرنے پر زور دینا ہوگا۔ امید ہے، آپ میرے خیالات کو ٹھنڈے دل اور دوستانہ لہجے میں لیں گے۔ خوش رہیں۔