ملالہ کے لیے ایک خط – از وسعت اللہ خان
ایڈیٹر نوٹ : جناب وسعت اللہ خان صاحب نے ملالہ کے نام لکھے گیے اپنے خط میں ڈھکے چھپے لفظوں میں اس بات کی جانب صاف اشارہ کر دیا ہے کہ ملالہ پر حملہ کرنے والے کوئی بریلوی ، شیعہ ، احمدی یا مسیحی نہیں تھے – بلکہ صرف اور صرف تکفیری سوچ کے حامل دیوبندی مسلک سے تعلق رکھنے والے دہشت گرد تھے جو اپنے سوا یا اپنی مخالفت میں اٹھنے والی کسی بھی آواز کو کفر و شرک کے پردوں میں چھپا کر مار ڈالنا چاہتے ہیں – تاہم ہم وسعت اللہ خان صاحب جیسے جہاندیدہ اور دریدہ دھن صحافی سے اس بات کی امید کرتے ہیں کہ وہ ان اشارے کنایوں کو ایک طرف رکھتے ہوے صاف اور کھلے الفاظ میں تکفیری دیوبندی دہشت گردوں کی شناخت بیان کرتے ہوے ان کی مذمت کریں گے –
پیاری گل مکئی ملالہ،
جب تک رہو یونہی کامیابیاں سمیٹتی رہو۔ ایک کے بعد ایک پہاڑ سر کرتی رہو۔ تم نے وہ شعر تو سنا ہی ہوگا۔ نہیں سنا تو اب سن لو۔
وہ پھول سر چڑھا جو چمن سے نکل گیا
اچھا وہی رہا جو وطن سے نکل گیا
مجھے یقین ہے اگر تمہارے پیشرو ڈاکٹر عبدالسلام یہیں رہتے رہتے تو زیادہ سے زیادہ ایک سرکاری نوکری سے ریٹائرمنٹ کی پنشن کھا رہے ہوتے اور پھر کہیں ٹیوشن سنٹر کھول کے بچوں کو فزکس پڑھا رہے ہوتے اور ایک دن کوئی ایمان والا انہیں اسی ٹیوشن سنٹر میں گھس کے گولی مار کر اپنی آخرت سنوار جاتا۔
مگر یہاں کسی کے ہاتھوں مرنے کے لیے کسی کا غیر مسلم، نیم مسلم یا گمراہ مسلم ہونا بالکل ضروری نہیں اور یہ بات تم سے بہتر کون جانتا ہے۔ تمہارا تو قادیانیت، شیعت، بریلویت، عیسائیت یا کسی بھی یت سے دور دور کوئی لینا دینا بھی نہیں تھا۔ یہ تو خدا کا بڑا کرم ہوا کہ تمہاری زندگی تمہاری جنم بھومی میں تنگ کردی گئی تاکہ تم ہجرت کرو اور خود کو پہچانو، اپنے سکڑے پروں کو پھیلا کر انہیں دیکھ سکو اور پھر آسمانوں میں اس خوف سے آزاد اڑ سکو کہ کہیں سے کوئی گولی نہ آجائے۔اب تمہیں اوپر والےشعر کا مطلب بھی سمجھ میں آرہا ہوگا۔
پیاری گل مکئی ملالہ،
کہیں یہ مت فرض کرلینا کہ پاکستان تمہیں امن کا نوبیل انعام ملنے پرخوش نہیں۔ یہ جو ہماری آنکھوں میں آنسو ہیں خوشی ہی کے تو ہیں کیونکہ رنج و الم پر مدت ہوئی یہاں کوئی نہیں روتا ووتا۔
اس بات پر پلیز رنج نہ کرنا کہ تمہارے وطن کے اکثر چینلوں کو ایک روز پہلے تک نہیں معلوم تھا کہ تم بھی نوبیل انعام کی دوڑ میں شامل ہو۔ ایسی بے پر کی پچھلے برس بھی مغربی زرائع ابلاغ نے اڑائی تھیں شائد اس لیے یہاں احتیاطاً کسی کا دھیان نہیں گیا۔
مگر کل دس اکتوبر کی دوپہر کو جب تمہیں انعام ملنے کی خبر ٹوٹی تو تمہیں یہ جان کر خوشی ہوگی کہ ہر پاکستانی ٹی وی چینل نے اسے بریکنگ نیوز کے طور پر اپنا لیا۔ بلکہ ایک چینل نے تو یہ انکشاف بھی کیا کہ تمہیں امن کا نوبیل انعام ملنے کی سب سے پہلی پیش گوئی اسی چینل نے کی تھی۔ ہم میڈیا والے اور بھی خوشی مناتے اگر ملتان میں عمران خان کا جلسہ نہ ہوتا اور اس سے پہلے وزیرِ داخلہ چوہدری نثار اور وزیرِ اطلاعات پرویز رشید کی لائن آف کنٹرول پر کشیدگی کے سلسلے میں مشترکہ پریس کانفرنس نہ ہوتی، اور اس سے پہلے جماعۃ الدعوۃ کے امیر حافظ محمد سعید کی جانب سے لائن آف کنٹرول پر اشتعال انگیز بھارتی گولہ باری کے تعلق سے یومِ احتجاج منانے کی خبر نہ ہوتی اور اس سے بھی پہلے کراچی میں نگلیریا وائرس سے ایک اور آدمی کے مرنے کی خبر نہ ہوتی اور اگر کل ہی ایم کیو ایم کے قائد کا کارکنان سے ہنگامی خطاب بھی ہو جاتا تو سوچو جتنا تمہارا تذکرہ ہوگیا اس کی بھی گنجائش بے چارے میڈیا پر کہاں رہتی۔
مگر گل مکئی ملالہ،
فیس بک اور ٹویٹر تمہارے انعام کی خوشی میں جگمگا رہے ہیں کیا یہ کافی نہیں۔اتنی کوریج تو حیدرآباد اور کراچی میں زہریلی شراب پی کر مرنے والے بیالیس لوگوں کو نہیں ملی جتنی تمہیں مل گئی کیا یہ کافی نہیں۔اے این پی کے چند کارکن پشاور میں ڈھول کی تھاپ پر رقص کناں ہوئے کیا یہ کافی نہیں۔ تمہارے سوات میں کل بھی تمام بچیوں نے تمہیں انعام ملنے کی خوشی میں دل لگا کے تمام کلاسیں پوری طرح اٹینڈ کیں اور آج بھی وہ تمہاری خواہش کے مطابق تمہیں دل ہی دل میں یاد کرتے ہوئے پڑھیں گی کیا یہ کافی نہیں۔ کسی طالبان تنظیم یا ہم نواؤں کی جانب سے اس خط کے لکھے جانے تک کوئی شدید ردِ عمل نہیں آیا کیا یہ کافی نہیں۔
پیاری گل مکئی ملالہ،
فکر تو خیر تمہیں کبھی بھی کسی بات کی نہیں رہی لیکن اب تم جب چاہو اسی بےفکری سمیت وطن لوٹ سکتی ہو۔ پاکستان میں تمام کتاب گھر بے چینی سے منتظر ہیں کہ جب تم آؤ گی تب ہی وہ تمہاری سوانح عمری ’آئی ایم ملالہ‘ کھلے عام ڈسپلے کریں گے۔ مینگورہ میں جب اپنے گھر جاؤ گی تو پاک فوج کے جوان اپنی اس بہادر بیٹی کی حفاظت کریں گے۔ تم جب ایوانِ وزیرِ اعظم میں مدعو کی جاؤ گی تو عین ممکن ہے کہ میاں صاحب جذباتی ہو کر تمہارے نام پر کسی اہم شاہراہ معنون کرنے کا اعلان کر ڈالیں۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اگلے ملالہ ڈے پر تمہارا یادگاری ٹکٹ جاری ہوجائے۔ یہ بھی گمان ہے کہ تمہیں اعلیٰ ترین سول اعزاز نشانِ پاکستان پہنا دیا جائے۔ لیکن ان تمام باتوں، امیدوں اور گمانوں کا انحصار اس پر ہے کہ تم کب اور کتنا جلد اپنی سرزمین کا رخ کرتی ہو۔ اب تو یہاں آپریشن ضربِ عضب بھی خیر سے کامیاب ہوچکا ہے۔ فوج کےسربراہ دھڑلے سے جب چاہتے ہیں شمالی وزیرستان آتے جاتے ہیں۔ اسی لیے ایک پراعتماد آئی ایس پی آر کی جانب سے بھی تمہیں مبارک باد دی جا چکی ہے۔ حتیٰ کہ وزیرِ اعظم تک پہلی بار وہاں جا کر واپس اسلام آباد پہنچ گئے۔تو پھر تم سمیت کسی کو بھی کاہے کا ڈر۔
پیاری گل مکئی ملالہ ،
میں نے تمہیں پہلی بار دو ہزار نو میں چیف منسٹر ہاؤس پشاور میں بہت سے بچوں اور بڑوں کے درمیان دیکھا تھا جب سوات قانونی طور پر وفاق اور صوبے نے باہمی رضامندی سے مولانا صوفی محمد کے توسط سے مولوی فضل اللہ صاحب کے شاہینوں کے حوالے کرنے کا فیصلہ کرلیا تھا۔ مگر تم لوگ وزیرِ اعلی کو لہو روتے سوات کی کہانی سنانے آئے تھے۔تم نے بھی بہت ٹھہر ٹھہر کے بات کی تھی اور جوں جوں تمہارا بیان سننے والوں کو پریشان کررہا تھا توں توں تمہاری آنکھوں کی چمک بڑھ رہی تھی۔ آج اتنے برس بعد مجھ پے کھلا کہ وہ چمک تمہاری آنکھوں میں کیوں تھی۔ تمہارے سوات کے ہی ایک شاعر احمد فواد کا شعر سن لو۔
گردش ِ وقت کو خاطر میں نہ لانے والی
شہر میں دو نئی آنکھوں کا بڑا چرچا ہے
پیاری گل مکئی ملالہ
شاید یہ تم ہی نے کہیں کہاں تھا کہ جب مکمل سناٹا ہو تو ایک آواز بھی بہت طاقت ور ہوتی ہے۔
خوش رہو ، پھلو پھولو ملالہ۔
Source:
http://www.bbc.co.uk/urdu/interactivity/2014/10/141010_wusat_letter_to_malala_tim
Boht khob