عید قربان پر پیغام – از عامر حسینی

10469856_10205002256444479_8605718762327949126_n

موبائل فون اور فیس باکس کے ان باکس میں بہت سے پیغامات تبریک موصول ہورہے ہیں اور میں بهی سوچنے لگا کہ کوئی پیغام میں بهی اس حوالے سے اپنے جاننے والوں تک اس موقعہ کی مناسبت سےدوں ، پیغام میں دو نظمیں آپ سے شئیر کی ہیں ، ایک احمد سہیل کی ہے اور دوسری سارہ شگفتہ کی ہے اور دونوں نظموں میں اس آشوب کا زکر ہے جس کا سامنا ہماری کئی ایک نسلیں کررہی ہیں اور جب سے عید قربان پر ٹی ٹی پی ، سپاہ صحابہ ، لشکر جهنگوی نے 27 سے زائد شیعہ نوجوان ، بوڑهے ، بچے، عورتوں کو بموں میں بهرے بارود سے جلایا ، بال بیرنگ سے چهلنی کیا ہے اور عید قربان پر ان کے گهر والوں کو ان کے اپنے پیاروں کا زبیحہ ہی پیش کردیا ہے تو مجهے کسی پل چین نہیں آرہا

کل ایک پوسٹ کارڈ اپنے نیوریارک جلاوطنی کاٹنے والے دوست کو بهیجا اور اس میں دل کے پهپهولے پهوڑے تهے تو میرے بزرگ صباح حسن نے لکها تها کہ ان کو شدید غصہ ہے اور وہ اس بڑهاپے میں بهی بندوق اٹهانے کی خواہش دل میں سراٹهانے کا زکر کرتے ہوئے کہہ رہے تهے کہ ان کو آئمہ اہل بیت اطہار کی تعلیمات اور اسوہ ایسا کرنے سے روکتے ہیں

میں بهی ایسی کیفیات سے کئی مرتبہ گزرا ہوں اور میرے پاس تو ایسے راستے بهی تهے کہ جو بارود اور بندوق سے بهرے ہیں اور مجهے بار ، بار بلاتے بهی ہیں لیکن ماضی اور حال میں میرے سامنے بہت سے ایسے واقعات موجود ہیں جن میں مظلوموں کے نام پر اٹهائی گئی بندوقوں سے نکلنے والی گولیوں سے ایسے ہی معصوم مارے گئے جیسے وہ کمبل سے باہر نکلا لہو لہان چہرہ ہے جس کی معصومیت پر بهی علی آباد میں داخل ہونے والے خودکش بمبار کو رحم اور ترس نہیں آیا تها تو میں کسی معصوم و بے گناہ کے خون سے اس لئے ہاته رنگنے کا سوچ بهی نہیں سکتا کہ وہ نام سے اور عقیدے کے لحاظ سے دیوبندی وهابی تها

میں عید قربان پر ایسی ایک خاتوں کو یاد کرنے کا قصد کررہا ہوں جس نے صداقت کو معتبر کرڈالا تها – بہت سے لوگ تهے اس دور میں جنهوں نے سچائی کو دفن کرنے کے لئے رجعت پرستی کے بیلچے سے قبر کهودنے والے ضیاء الحق کو للکارا تها اور ان للکارنے والوں میں کئی ایک خواتین بهی تهیں جن میں فہمیدہ ریاض ، افضل توصیف کے ساته ساته اگر کسی خاتون کا نام زهن میں آتا ہے وہ سارا شگفتہ کا نام ہے اور آج فہمیدہ ریاض و افضل توصیف زندہ ہیں ان کی جانب سے انسان پرستی کا پرچم بلند تو ہوتا ہے لیکن اس پرچم کو اس جوش و ولولے سے وہ اب اٹهاتی نہیں ہیں جس جوش و جذبے سے انهوں نے اس کو ضیاء دور میں اٹها رکها تها

لیکن میں یہ بهی شکر مناتا ہوں کہ ان کی آوازوں میں اب وہ طنطہ نہ سہی ، کمزور اور نحیف ہی سہی لیکن چند مراعات کے عوض انہوں نے وقت کے یزید اور عصر حاضر میں ضیاء الحق کے جانشین کے هاته پر ویسے تو بیعت نہیں کی نا جس طرح سے بہت سی خواتین نے آج بیعت کررکهی ہے

سارا شگفتہ جیسی باغی و بے باک آوازیں آج اور بہت سی اٹه چکی ہیں جن کو جعلی ، جهوٹی سول سوسائٹی کی بکی ہوئی ، کمرشل آوازیں اعتبار کا سرٹیفیکٹ دینے کو تیار نہیں لیکن یہی آوازیں معتبر ہیں اور آج مظلوم ، کچلے ہوئے اور لوٹ کهسوٹ کا شکار ہونے والی جنتا کی دل کی آواز ہیں

میں سمجهتا ہوں نسیم سید ، ثمینہ تبسم ، طلعت زهرا ، شبانہ یوسف جیسی شاعرات کی آوازیں سارا شگفتہ اور فہمیدہ ریاض کی آوازوں کا تسلسل ہیں اور یہ ہی آوازیں اپنے خلوص اور مقصد کی لگن کی وجہ سے معتبر ہیں اور ان آوازوں کے ساته کئی اور آوازیں بهی ہم آواز ہونے کی تیاری کررہی ہیں

لاہور سے ہجرت کرنے والی امرتا پریتم کا زکر میں نے یہاں اس لئے نہیں کیا کہ اگر نام نہاد سرحدکے اس پار کی آوازوں کا شمار کروں تو بات بہت طویل ہوجائے گی پاکستان میں عورتوں پر جبر اور ان کی محکومی کے خلاف ردعمل ، احتجاج اور مزاحمت کی تاریخ میں نئے باب کهلنے والے ہیں اور میں ہرگز مایوس نہیں ہوں

نوجوان عورتوں کی ایک پوری کهیپ ایسی ہے جس کے پاس جذبہ ، جوش ، جنون ، خیالات سب کچه ہے اور یہ وہ عورتیں ہیں جو غلامی ، محکومی ، مجبوری اور کمتر و ناقص العقل کہہ کر جکڑنے والی زنجیروں کو توڑ ڈالنے کے لیے جدوجہد کرررہی ہیں اور یہ وہ خواتین ہیں جنہوں نے تعلیم حاصل کرنے کے بعد معاشی خود کفالت کی طرف قدم بڑهایا ہے اور ان کے ہاں برابری اور عزت کا مقام پانے کی جستجو بهی ہے اور یہ اپنے آپ کو ایک کاموڈیٹی کے طور پر ٹریٹ کروانے کو تیار نہیں ہیں

میں نے زاتی طور پر سینکڑوں نوجوان خواتین کو اس جذبے سے سرشار پایا ہے اور اسی لیے بہت زیادہ امید پرست واقع ہوا ہوں کامریڈ نغمہ ، کامریڈ جویریہ ، شمائل زیدی ، نور مریم ، رامش فاطمہ ، مدیحہ عباس نقوی ، توصیف چیمہ ، منزہ هاشمی ، عابدہ بخاری ، صائمہ عامر ایڈوکیٹ ، انعم سمیت کئی ایک نام ہیں جن کی جدوجہد کو اپنی آنکهوں سے دیکها ہے ، یہ نوجوان ہیں اور روشن گر خیالات سے بهرپور ہیں

یہاں ایک اور پرت کا تذکرہ ضروری ہے جن کی خانگی اور ورکنگ مصروفیات بہت زیادہ ہیں اور وہ اپنے بچوں کی پرورش بهی کررہی ہیں اور ڈومیسٹک لیبر و جاب ورک دونوں کرتی ہیں اس کے باوجود وہ کچه نہ کچه وقت پاکستان میں رجعت پرستی ، تاریک گری ، مذهبی فاشزم اور عورتوں کو محکوم بنانے والے ضابطوں کے خلاف غیر معمولی جدوجہد کررہی ہیں ،ایسے بہت سے کردار میرے سامنے ہیں اور میں ان عورتوں کو بهی امید کی کرن سمجهتا ہوں

اور یہاں پر یہ بهی بتانا چاہتا ہوں کہ اگرچہ مرد شاونزم بہت زیادہ ہے اور مردوں کی بالادستی نے عورتوں کی آزادی میں بہت سے روڑے اٹکائے ہیں لیکن یہ بهی حقیقت ہے کہ بہت سے باپ ، بهائی ، چچا ، ماموں ، کزن ایسے بهی ہیں جنهوں نے عورت کی آزادی اور اس کی برابری کی جدوجہد کو سامنے لانے میں کردار ادا کیا ہے ، میرے سامنے جن خواتین کا ماڈل ہے ان میں بہت سی خواتین کی جدوجہد میں ان کے گهر کے مردوں کا بڑا هاته ہے

آج جب عید قربان منائی جارہی ہے اور پاکستان کی دهرتی پر معصوم جانوروں کا بہت سا خون بہایا جانے والا ہے اور گندگی و آلائش میں اور اضافہ ہونے والا ہے تو میں نے سوچا ہے کہ میں اس موقعہ پر سارہ شگفتہ کو ہی یاد کرلوں ، سارہ شگفتہ کو جس طرح امرتا پرتیم نے یاد کیا تها میں اس طرح تو یاد نہیں کرسکتا ، کیونکہ جو آگ امرتا کے سینے میں تخلیق کے لفظوں کو کندن بنایا کرتی تهی اس کا تو مجهے عشر عشیر بهی نہیں ملا اور ایسی آگ سارہ شگفتہ کے سینے میں بهی فروزاں تهی

پورے سماج کی آزادی عورتوں کی آزادی سے جڑی ہوئی ہے اور میں فریڈرک اینگلس و کارل مارکس کی اس بات سے متفق ہوں کہ اجرت کی غلامی اور اس سے جنم لینے والی بے گانگی سے نجات مرد و عورت دونوں ہی حاصل کریں گے یا کوئی بهی آزاد نہیں ہوگا اور اس کے لئے مرد و خواتین محنت کشوں کو مل کر جدوجہد کرنی ہوگی

10653679_10205002256164472_761330078799379973_n

Comments

comments

WordPress › Error

There has been a critical error on this website.

Learn more about troubleshooting WordPress.