شہید ڈاکٹر شکیل اوج کے خلاف دیوبندیوں کے مفتی رفیع عثمانی کا فتویٰ منظرعام پر آ گیا – خالد نورانی
posted by SK | September 21, 2014 | In Editorial, Original Articles, Urdu Articlesڈاکٹر شکیل اوج جوکہ کراچی یونیورسٹی میں اسلامیات و شریعہ ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ تهے اور صحیح العقیدہ سنی صوفی تهے ان کو کالعدم دیوبندی دہشت گرد تنظیم سپاہ صحابہ نام نہاد اہلسنت والجماعت کے دہشت گردوں نے شہید کردیا اور ان کی شہادت کے تمام تر اشارے دیوبندی دہشت گردوں کی طرف جاتے ہیں
اگرچہ جن دیوبندی پروفیسروں نے ڈاکٹر شکیل اوج کو دھمکیاں دیں تهیں اور ان کو قتل کرنے کے ایس ایم ایس ارسال کیے تهے ان کو کراچی پولیس نے گرفتار کرلیا ہے لیکن دیوبندی دہشت گردی کا سرغنہ اور ڈاکٹر شکیل اوج کے قتل کو باقاعدہ شرعی جواز دینے والا اور لوگوں کو ان کے قتل پر اکسانے والا نام نہاد مفتی ، دیوبندی گستاخ رفیع عثمانی اب تک آزاد گهوم رہا ہے
یہ شخص جو خود کو مفتی اعظم پاکستان اور شیخ الاسلام اور نہ جانے کیا کچه کہلاتا ہے اس کی اخلاقی حالت کس قدر پست ہے کہ جب ڈاکٹر شکیل اوج شهید کردئے گئے اور میڈیا پر یہ خبریں آنے لگیں کہ دارالعلوم کورنگی کراچی کے صدر الشریعہ مفتی رفیع عثمانی نے ڈاکٹر شکیل اوج کے خلاف فتوی کفر جاری کیا تها اور ان کو مرتد ، مشرک ، زندیق قرار دیا تها تو پہلے دارالعلوم کے ترجمان نے میڈیا کو یہ بیان جاری کیا کہ انہوں نے ڈاکٹر شکیل اوج کے خلاف کوئی فتوی جاری نہیں کیا اور پهر مفتی رفیع عثمانی نے میڈیا پر آکر جهوٹ بولنا شروع کردیا کہ ان کا اس فتوی سے کوئی تعلق نہیں ہے
اس دیوبندی نام نہاد مفتی کا خیال یہ تها کہ چونکہ انهوں نے یہ فتوی دوسال قبل جاری کیا تها اور کس نے اس فتوے کو سنبهال کر رکها ہوگا اور صورت حال بهی ایسی بنی کہ جب ڈاکٹر شکیل اوج کی شهادت کی خبر آئی تو میڈیا کے رپورٹرز نے یہ فتوی تلاش کرنے کی بہت کوشش کی لیکن ان کو یہ فتوی مل نہ سکا ، دیوبندی مولوی تو فوری طور پر میسنے بن گئے اور کہنا شروع کردیا کہ فتوی کی کاپی تو تب دیں نا جب ایسا کوئی فتوی موجود ہو لیکن یہ جهوٹ زیادہ دیر قائم نہیں رہ سکتا تها ، فتوی کی کاپی حاصل ہوچکی ہے ، یہ ہے وہ فتوی جو دارالعلوم کورنگی کراچی سے خود مفتی رفیع عثمانی کے لیٹر پیڈ پر درج کیا گیا
دیوبندی مولویوں کے ہاں جهوٹ بولنے اور پینترا بدل لینے کی ایک لمبی تاریخ موجود ہے ، دارالعلوم دیوبند کے بڑے مولوی سے لیکر چهوٹے مولوی تک اس عادت بد میں مبتلا چلے آرہے ہیں – گزشتہ چند سالوں میں کراچی اور ملک کے دیگر علاقوں میں جہاں پر بھی سنی صوفی نسل کشی، شیعہ نسل کشی اور دہشت گردی کے دیگر واقعات ہوۓ ہیں جن کی ذمہ داری دیوبندی تکفیری تحریک طالبان یا لشکر جھنگوی سپاہ صحابہ نے فخریہ طور پر قبول کی، ان کے بارے میں مفتی رفیع عثمانی دیوبندی کا کہنا تھا کہ یہ سب بلیک واٹر کی سازش ہے اور اسی مفتی نے حکومت پاکستان اور پاک فوج کی درخواست رد کرتے ہوۓ تکفیری خوارج اور خود کش حملہ آوروں کے خلاف فتوی جاری کرنے سے بھی انکار کیا، یہی منافقانہ رویہ دوسرے دیوبندی مولویوں مفتی تقی عثمانی، مفتی نعیم، حنیف جالندھری، احمد لدھیانوی، عدنان کاکا خیل وغیرہ نے اختیار کیا
مجدد دین و ملت الشاہ احمد رضا خان بریلوی نے دیوبندی مولویوں کی وهابیت اورتشدد پسندی کا پردہ چاک کیا اور حجاز جس کے اندر سنی علماء ہی امامت و خطابت و افتاء کی زمہ داریاں سرانجام دیتے تهے اور یہ ترک عثمانیوں کی خلافت کا زمانہ تها اور ان کو دیوبندی مولویوں کے وهابی عقائد بارے آگاہ کیا تو اس وقت کے مکہ و مدینہ کے جید علمائے عظام نے ان کے خلاف فتوی صادر کرڈالا – جب اس فتوے کے جاری ہونے کا ان دیوبندی مولویوں کو معلوم ہوا تو انہوں نے ” المهند ” کے نام سے ایک مشترکہ بیان تیار کیا اور اس میں صاف صاف جهوٹ بولا کہ یہ محد بن عبدالوهاب اور اس کے نجدی پیروکاروں کو مثل خوارج خیال کرتے ہیں اور ان کے بارے میں ان کا عقیدہ وہی ہے جو علامہ ابن عابدین شامی رحمہ اللہ کا تها اور انہوں نے اس بیان میں حیات النبی ، علم غیب و توسل و زیارت وبر النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم و زیارات قبور پر اپنا عقیدہ وہی بتلایا جس کو رشید احمد گنگوہی بدعت و شرک لکھ چکے تهے
دیوبندی مولوی حسین احمد مدنی جو مدینہ میں تها تو اسے اپنی بےدخلی کا خدشہ ہوا تو اس نے ایک کتاب ” الشہاب الثاقب ” لکهی اور اس میں کہا کہ وہ وهابیہ خبیثہ کا انتہائی سخت مخالف ہے اور وهابی گستاخ رسول ہیں اور ان سے ان کو اور ان کے اخابر کو منسوب کرنا غلط بیانی ہے لیکن جب حجاز پر برطانوی سامراج کی مدد سے محمد بن عبدالوهاب نجدی کے چیلے ابن سعود نے قبضہ کرلیا اور ابن سعود نے پہلی نام نہاد موئتمر رابطہ عالم اسلام کانفرنس بلائی تو دیوبندی مولویوں کا وفد نام نہاد شیخ الاسلام مولوی شبیر احمد عثمانی کی قیادت میں گیا اور وہاں ابن سعود نے نہ جانے کون سی پهونک دیوبندیوں کے شیخ الاسلام پر ماری کہ اس نے وہاں خطبات کے دوران نجدی وہابیوں کی تعریف کے ڈونگرے برسائے اور خطبات عثمانی پڑھلیں کہ کیسے کیسے مدح وهابیان پر مستمل قصیدے عثمانی نے پڑهے اور آج تک سعودی ریالوں کی خاطر یہ وهابیت کا دامن تهامے ہوئے ہیں
اب تو یہ دیوبندی یہ بهی کہتے ہیں کہ حسین احمد مدنی کی کتاب الشہاب الثاقب میں وهابیہ کے آگے خبیثہ ان کے متعصب شاگرد کاتب نے خود بڑها دیا تها عجیب بات ہے کہ اس کا انکشاف خود حسین احمد مدنی کی وفات کے کئی عشرے گزرجانے کے بعد لندن میں بیٹهے ایک دیوبندی مولوی خالد محمود کو ہوا
جهوٹ ان کی گهٹی میں پڑا ہوا ہے ، ایک طرف تو یہ اپنے فتووں میں حضور علیہ الصلوات والتسلیم پر ندائے یا کے ساته درود بهیجنے کو بدعت قرار دیتے ہیں اور دوسری طرف مولوی اشرف علی تهانوی اپنی کتاب نشر الطیب میں الصلوات والسلام علیک یارسول اللہ کا وظیفہ اپنے مریدوں کو پڑهنے کو کہتا ہے اور یا کے ساته رسول کریم سے منظوم اشعار میں استمداد اور مدد طلب کرتا ہے اور یہاں تک کہ دیوبندی عاشق اللہی میرٹهی اپنے استاد رشید گنگوہی کو بعد از وفات ایک مرثیہ لکهکر یاد کرتا ہے اور طالب امداد ہوتا ہے – دیوبندیوں کی تاریخ جهوٹ اور دروغ گوئی سے بهری پڑی ہے اور یہ بغل میں چهری منہ میں رام رام کی کلاسیک تصویر ہیں – یہی وجہ ہے کہ گرفتاری، بدنامی اور عوامی ردعمل کے خوف سے مفتی رفیع عثمانی نے اپنے ہی جاری کردہ دو سال پرانے فتوی سے لاتعلقی کا اظہار کر دیا وہ بھی ڈاکٹر شکیل اوج کی درد مندانہ شہادت کے بعد
Ahsan Raza
آج ڈاکٹر شکیل اوج کی شہادت کے بعد اخباری بیانات جاری کیۓ جا رہے ہیں، تردیدیں شایع کی جا رہی ہیں، اگر یہی کام رفیع عثمانی صاحب، ڈاکٹر شکیل اوج کی زندگی میں کرتے تو شائد وہ آج زندہ ہوتے.
Khurram Zaki
2 hours ago
دارالعلوم کورنگی کے مہتمم مفتی رفیع عثمانی کا وہ “فتویٰ” جو جامعہ کراچی کے کلیہ اسلامی علوم کے رئیس پروفیسر ڈاکٹر شکیل اوج کی شہادت کا سبب بنا. اسی “فتویٰ” کی روشنی میں پروفیسر ڈاکٹر شکیل اوج کے خلاف ایس ایم ایس مہم چلائی گئی جس میں ان کو مرتد واجب القتل قرار دیا گیا تھا. اب بعد از شہادت یہ واویلا کیا جا رہا ہے کہ جناب فتویٰ جعلی تھا، ضرور ہو گا، مگر مہر اور لیٹر پیڈ کس کا تھا ؟ کیا تحقیقات کی آپ نے اور اسی وقت ایک اخباری بیان کے ذریعہ کیوں نہیں اعلان کیا گیا کہ یہ فتویٰ جو گردش کر رہا ہے محض جھوٹ ہے اور ڈاکٹر شکیل اوج مسلمان اور مومن ہیں ؟ آج ڈاکٹر شکیل اوج کی شہادت کے بعد اخباری بیانات جاری کیۓ جا رہے ہیں، تردیدیں شایع کی جا رہی ہیں، اگر یہی کام رفیع عثمانی صاحب، ڈاکٹر شکیل اوج کی زندگی میں کرتے تو شائد وہ آج زندہ ہوتے.
Zafar Hasan Reza
خرم ذکی صاحب درست کہتے ہیں –
اگر یہ فتوی جعلی تها اور عوام میں رائج ہو چکا تها تو ساری عوام تو اس سے واقف ہوئی لیکن صاحبءفتوی یا جنکے نام سے یہ جعلی طور پر نشر ہوا تها وهی صرف اس سے لاعلم کیوں رہے-قتل ہو جانے تک اس فتوی سے لا تعلقی کا اعلان یا اظہار کیوں نہ کیا-
تو پهریہ لاعلمی نہیں مجرمانہ غفلت ہے اور جرم میں شراکت کے مترادف ہے-اسکے لئے مفتی مذکور کو باقاعدہ نامزد ہونا چاہئے اور ان کو شاملء مقدمہ کیا جانا چاہیے-تاکہ اسطرح کی فتوی بازاری کو ختم کیا جا سکے اور کسی مولوی مفتی کو جرآت نہ ہو کہ کسی مسلمان کو کافر ،ملحد یا زندیق قرار دے-
اسطرح کی فتنہ پرور اور فتنہ انگیز تحریر ہماری اسلامی تارخ(حضرت عثمان کے دور) میں ملتی ہے جس کا انجام اسلامی ریاست کی تباہی اور مدینہ پر یلغارکی صورت میں منتج ہوا-
41 minutes ago · Edited · Like
Abid Gilani
رفیع عثمانی پر قتل کا مقدمہ درج ہونا چاہیئے
50 minutes ago · Like · 2
Syed Anis Jafri
محمود الحق صاحب خرم بھائی کی تحریر سے تو صاف طاہر ہورہا ہے کہ انہوں نے خوب تحقیق کرکے ہی یہ بات کی ہے جب کہ آپ نے ہی شاید انکی تحریر کو صحیح طرح نہیں پڑھا۔آپ نے جو وضاحتی خط لگایا ہے اسکے مندرجات پر ہی تو خرم بھائی نے بات کی ہے جو اس میں لکھا ہے اس پر ہی تو بحث ہورہی ہے ۔ اصل وضاحت کہاں ہے؟ یہ تو قتل کے بعد کی وضاحت ہے نا اس پر تو ظاہر ہے بڑے سے بڑا اپنی بات سے مکر جائے گا کہ کہیں قتل پر اکسانے کا مقدمہ نہ بن جائے۔
Muhammad Raza Syed
مفتی رفیع عثمانی کو شامل تفتش کی جانا چاہیئے کیونکہ ڈاکٹر شکیل اوج کا قتل بھی مسجد بیت المکرم کے قریب ہوا یہ مسجد انہی کے کنٹرول میں ہے
اب زرا رابطہ کمیٹی اور الطاف حسین صاحب کو بھی شامل تفتیش کرنے کی مہم چلائیں نا
مفتی رفیع عثمانی صاحب نے اپنے اس فتوی کو جعلی قرار دے دیا ہے ۔ ان کے بیان کے مطابق شہید شکیل اوج کو مطلع کر دیا تھا کہ فتوی سے انکا کوئی تعلق نہیں ۔ بفرض محال اگر مفتی صاحب کے بیان پر یقین کر لیا جائے تب بھی ان کے کردار اور مسئولیت کے بارے میں سوال اٹھتے ہیں
ہمارے بد بخت معاشرے میں جہاں شیطان ملا کا ایک فتوی یا توہین رسالت مآب (ص) کا غلط الزام ایک مسلمان کو بے موت مار دیتا ہے۔ اس قدر حساس موضوع ہونے کے باوجود فتوی کے جعلی ہونے کی اطلاع صرف شہید شکیل اوج کو دی جاتی ہے۔ مفتی صاحب کا فرض تھا کہ فتوے کے متاثر کومدرسے میں مدعو کرتے اور پریس کانفرنس کے ذریعے اس سازش کو بے نقاب کرتے تاکہ ایک انسان کی جان کو تحفظ ملتا۔ لیکن سازش کا مرکزی کردار جب مفتی صاحبان خود ہوں تو یہ کیسے ممکن ہے ؟
مفتی رفیع عثمانی نے اپنا فتوی جعلی قرار دے کر اسکی تکذیب تو کر دی مگر انکا بد نام زمانہ تنظیم سپاہ صحابہ کے دہشت گرد اورنگ زیب فاروقی کو سینے سے لگا کر تصویر بنوانا اور زخمی دھشت گردوں کی ھسپتال جا کر عیادت کرنے کی کس طرح تکذیب کی جا سکتی ہے؟
عبدالباقی
اور قاتل آپ کی سگی جماعت ایم کیو ایم کا نکلا آیا ، اب کیا ہو گا اس آرٹیکل کا اور اس محنت کا ؟
اور اب ڈوب کے ہی مرجانا چاہیے ان لوگوں کو جو فورا! کی جج بن جاتے ہیں، اور اب اپنے انکل الطاف صاحب کے لئے کچھ بھی بولتے ہوئے منہ میں زبان نہیں رہتی ہے
پاکستان بنانے کے نام پر پاکستان کا بیڑا غرق کرنے والے خبیثو، کمینو اب یہ اب اپنا تھوکا چاٹ بھی لو ۔
یہ پوری تحریر ہی تعصبانہ انداز میں لکھی گئی ہے۔ اس لئے اس تحریر کا مدعا تو اس کے اسٹائل سے ہی سمجھ آ جاتا ہے با آسانی۔ مزید اس میں کتنے جھوٹ بولے گئے اس کو تو رہنے ہی دیجئے کہ کیا کیا بیان کریں۔
سب بدعتوں اور شرک کے کرشمے ہیں کہ جانتے بوجھتے جھوٹ لکھا اور پھیلایا جا رہا ہے۔ اللہ معافی
جب مان لیا کہ مفتی صاحب نے ڈاکٹر صاحب کو آگاہ کر دیا تھا تو اب انہوں نے کیوں نہ پریس کانفرنس کی یا کوئی اور اقدام ضرور کیوں نہ اٹھایا کہ ان کی جان بچ جاتی۔ اگر اقدام نہ اٹھانے کی ذمہ داری مفتی صاحب پر کوئی عائد کرے تو اتنا ہی بلکہ اس سے ڈبل الزام ڈاکٹر صاحب پر عائد کرے کہ انہوں نے کوئی اقدام اپنی جان بچانے کی خاطر کیوں نہ کیا۔ آخر جان تو ان کی اپنی تھی۔ یعنی سمجھ میں آتا ہے کہ سب بکواس ہے جان لینے والے تو اب انہی کے بڑے بھائی نکلے سیکولر لبرل لسانی جانباز۔ باقی سب دین اور دینی لوگوں کو بدنام کرنے کے چنگل ہیں اور کچھ نہیں
LUBPوالوں کے اندر اخلاقی جرأت نامی کوئی چیز نہیں بلکہ یہ سائٹ خود فرقہ واریت کی ترویج واشاعت کا کام کررہی ہے ، اگر تھوڑی سی بھی اخلاقی جرأت اور شرم وحیا باقی ہو تو اس آرٹیکل کی تردید اور پکڑے گئے قاتلوں کے بارے میں چند سطورہی تحریر کردیتے