نواز لیگ، جیو گروپ، تکفیری خوارج، لفافہ صحافی اور بھارتی خفیہ ایجینسی “را” – از خرم زکی
بھارتی انٹیلیجنس ایجینسی “را” نواز لیگ اور کالعدم تکفیری خارجی دہشتگرد تنظیموں کے حامی و حمایتی “جیو نیٹ ورک” کو خرید رہی ہے. یہ تہلکہ انگیز انکشاف کیا ہے روزنامہ “ڈیلی میل نیوز” نے اپنی ایک تحقیقاتی رپورٹ میں. اس سودے کا مقصد بھارتی انٹیلیجینس ایجینسی “را” اور جیو ٹی وی کے درمیان خفیہ تعلقات کا راز ماضی قریب میں افشا ہونے کی وجہ سے جیو نیٹ ورک کو پہنچنے والے نقصانات کا ازالہ کرنا ہے. یہ سودا “تھرڈ پارٹی” کے ذریعہ انجام پاۓ گا. ماضی قریب میں رو نما ہونے والے واقعات کا سلسلہ پچھلے سال ستمبر/اکتوبر سے شروع ہوتا ہے جب مؤقر ہندوستانی اخبار “ہندوستان ٹائمز” نے بھارتی انٹیلیجینس ایجینسی “را” اور جیو ٹی وی کے درمیان قریبی تعلقات و روابط کا بھانڈا پھوڑا. یہ سلسلہ بڑھتے بڑھتے یہاں تک پہنچا کہ اسی سال اپریل کے مہینے میں جیو ٹی وی سے وابستہ “بلوچ علیحدگی پسندوں” کے سب سے بڑے حامی حامد میر پر کراچی میں قاتلانہ حملہ ہوا. ان واقعات سے بھارتی خفیہ ادارے “را” کے بڑوں کو بخوبی اندازہ ہو گیا کہ جیو نیٹ ورک کے ساتھ ان کے قریبی تعلقات و تعاون کا راز اب فاش ہو چکا ہے. ایک اعلی سطحی اجلاس، جس میں را کے سابق سربراہ سنجیو تری پاٹھی نے بھی شرکت کی، میں یہ فیصلہ ہوا کہ جیو نیٹ ورک کو اپنا بھرم قائم رکھنے کے لیۓ ایک موقعہ دیا جاۓ تاکہ جیو نیٹ ورک یہ ثابت کر سکے کہ بھارتی خفیہ ادارے را کے ساتھ اس کے مزید کوئی تعلقات نہیں ہیں. اندرونی ذرائع نے بتایا کہ میٹنگ میں فیصلہ کیا گیا کہ سنجیو تری پاٹھی، جو اب ہندو انتہا پسند تنظیم “بھارتیہ جنتہ پارٹی” کے ممبر ہیں، اس صورتحال کو قابو میں کرنے اور اس سے نمٹنے کے لیۓ ایک جامعہ پروپوزل تیار کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی. سنجیو تری پاٹھی نے سب سے پہلے تو اپریل میں حامد میر پر ہونے والے حملے کے بعد “را” کی جانب سے آئ ایس آئ کے سربراہ جنرل ظہیر السلام کو ہدف بنانے کی حکمت عملی پر نا پسندیدگی کا اظہار کیا. واضح رہے کہ را کے کہنے پر جیو نیٹورک نے مسلسل کی گھنٹوں اور دنوں تک آئ ایس آئ کے سربراہ جنرل ظہیر السلام کے خلاف براہ راست مہم چلائی تھی اور ان کو ذاتی طور پر حامد میر پر ہونے والے حملے کا ذمہ دار قرار دیا تھا. کیو گھنٹوں تک جنرل ظہیر السلام کی تصویر کسی دہشتگرد کی طرح جیو ٹی وی پر فلیش کی جاتی رہی، دکھائی جاتی رہی اور ایسا محسوس ہوتا تھا کہ جیسے جنرل ظہیر السلام پاکستانی خفیہ ایجینسی کے سربراہ نہیں بلکہ کسی دہشتگرد تنظیم کے سربراہ ہوں اور کوئی نائن الیون جیسے واقعہ کے ذمہ دار ہوں. میر شکیل الرحمن اور جیو ٹی وی جنرل ظہیر السلام کو بدنام کرنے کے لیۓ یہ مہم براہ راست “را” کے اشاروں پر چلا رہے تھے. سنجیو تری پاٹھی کہ کہنا تھا کہ جس انداز میں را کی جانب سے یہ مہم چلائی گئی وہ بے ڈھنگا تھا اور اس سے کئی بہتر پیشہ ورانہ اور محفوظ طریقے سے یہی کام کیا جا سکتا تھا. را کے سربراہ نے اس مہم کو بد ترین غلطی قرار دیا
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ را کے سربراہ سنجیو تری پاٹھی کافی عرصہ سے اسی تگ و دو میں لگے ہوۓ تھے کہ بھارتی خفیہ ادارے “را” کے بھارتی میڈیا کے ساتھ تعلقات کی بہتری اور فنڈنگ کے ساتھ ساتھ کسی طرح پاکستانی پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا تک بھی رسائی حاصل کر سکیں اور پاکستانی صحافیوں کے ساتھ بھی روابط استوار کر لیں. اور یہ موقعہ ملا ان کو “امن کی آشا” نامی پروجیکٹ سے. سنجیو تری پاٹھی “امن کی آشا” اور اس جیسے کئی اور پروجیکٹس کے بانی و معمار تصور کیۓ جاتے ہیں. امن کی آشا کے لیۓ ان کی جد و جہد کا آغاز ان کے را کے سربراہ بننے سے پہلے ہی ہو چکا تھا
وہ ذرائع، جو اس حوالے سے اندرونی معلومات رکھتے ہیں،بتاتے ہیں کہ تری پاٹھی صاحب نے را اور جیو کی اس مشکل صورتحال سے جان بخشی کے لیۓ کوشش کرنے پر آمادگی ظاہر کرنے کے بعد متحدہ عرب امارات کے کئی چکر لگاۓ اور وہاں ان کی جنگ اور جیو گروپ کے خود ساختہ جلا وطن سربراہ میر شکیل الرحمان سے کئی ملاقاتیں ہوئیں جن میں پیدا حامد میر کے قاتلانہ حملے کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال پر تفصیلی غور و خوض ہوا. ان ملاقاتوں میں سنجیو تری پاٹھی نے میر شکیل الرحمان کو مشورہ دیا کہ وہ ان تجاویز پر غور کریں جو وہ نئی دہلی سے اپنے ساتھ لاۓ ہیں
وہ تجاویز جو را کے سربراہ نے جنگ اور جیو گروپ کے سربراہ میر شکیل الرحمان کو دیں ان میں سرفہرست تو یہ تھی کہ جیو گروپ پاکستانی مسلح افواج اور آئ ایس آئ کے خلاف یہ مہم چلاۓ کہ ان اداروں کے غیض و غضب کی وجہ سے جیو گروپ کو شدید مالی نقصان و خسارہ اٹھانا پر رہا ہے (اس حوالے سے جنگ گروپ کے اشتہارات تو آپ سب کی نظروں سے گزرے ہوں گے) اور پھر اسی کو بنیاد بنا کر احتجاجی مظاہرہ اور ریلیاں نکالی جائیں (یہ سب کچھ بھی ہو رہا ہے اور حامد میر کا ٹوئٹ پیغام اس حوالے سے قابل ذکر ہے جس میں انہوں نے آئ ایس آئ کے دفاتر کے باہر دھرنا دینے کی بات کی ہے) اور پھر اس مہم کے اختتام پر جیو گروپ اس بات کا اعلان کرے کہ اس کے پاس اور کوئی چارہ نہیں رہا سواۓ اس کہ کے وہ اپنے گروپ کو بند کر کے اس کے حصص کسی اور کو بیچ دے. یہ بات بھی جنگ گروپ کے اشتہارات اور مہم میں اشارتا کنایتا کہی جاتی رہی ہے
تحقیقات سے پتہ چلا ہے کہ سنجیو تری پاٹھی نے جیو کی خرید کے لیۓ مشرق وسطیٰ سے تعلق رکھنے والی ایک کاروباری شخصیت کو آمادہ کر لیا ہے جن کا متحدہ عرب امارات، بھارت اور ساؤتھ افریقہ میں بہت بڑا کاروباری نیٹ ورک پہلے ہی سے موجود ہے. یہ کاروباری شخصیت را کے فرنٹ مین کی حیثیت سے جیو نیٹ ورک خریدنے کے لیۓ تیار ہیں. سنجیو تری پاٹھی نے اس کاروباری شخصیت کو یہ یقین دہانی بھی کروائی ہے کہ جیو کو خریدنے کے لیۓ ساری فنڈنگ بھارتی خفیہ ایجینسی را فراہم کرے اور اس کے ساتھ ساتھ چینل چلانے کے لیۓ تین سال کے آپریشنل اخراجات بھی را کی طرف سے ادا کیۓ جائیں گے جبکہ اس کاروباری شخصیت کو صرف اس نیٹ ورک کے باس کی حیثیت سے خدمات انجام دینی ہوں گی. ذرائع کا کہنا تھا کہ اس خفیہ سودے میں مشرق وسطیٰ اس نمایاں شخصیت کو درمیان میں ڈال کر اس تاثر کی بلکل نفی کر دینی مقصود تھی کہ جیو اور را کا کسی بھی قسم کا رابطہ یا ساتھ باقی ہے. اس طرح خریدے گئے نیٹ ورک کی ساکھ قائم کرنے میں مدد ملتی
ذرائع نے مزید انکشاف کیا کہ سودے کی بنیادی باتیں طے ہونے کے بعد میر شکیل الرحمان کے بیٹے میر ابراہیم نے اپنے جیو گروپ کے تین ممبران کے ساتھ اوائل اگست میں ممبئی کا دورہ کیا. اس دورے میں متحدہ عرب امارات کے نام نہاد خریدار گروپ کے ٤ ارکان بھی ان کے ساتھ شامل تھے
تفصیلی تحقیقات سے یہ بھی پتہ چلا ہے کہ ممبئی میں را کے ساتھ ان دورہ کرنے والے ارکان کے مزاکرات کے کم از کم تین دور ہوۓ جس میں بھارتی میڈیا نیٹ ورکس سونی اور زی ٹی وی کے بھی کچھ نمائندہ شامل تھے. ملاقاتوں کے یہ ادوار را ہیڈ کوارٹرز میں انجام پاۓ جس میں سنجیو تری پاٹھی اور دیگر افراد کے ساتھ ساتھ را کے جائنٹ سیکرٹری براۓ پاکستان (ایریا ١)، جائنٹ سکریٹری براۓ مشرق وسطیٰ اور افریقہ (ایریا ٣) اور جائنٹ سیکرٹری براۓ الیکٹرونکس و ٹیکنیکل سیکشن بھی شامل تھے
اس میٹنگ میں یہ بھی طے پایا کہ “امن کی آشا” نامی مہم کو خاموشی اور مہارت کے ساتھ ختم کر دیا جاۓ کیوں کہ موجودہ حالات میں یہ مہم اپنی سارا بھروسہ و اعتماد کھو چکی ہے، خاص طور پر سنجیو تری پاٹھی کے را کی سربراہی سے ہٹنے کے بعد جس طرح حامد میر والے معاملے کو ہینڈل کیا گیا، اس نے اس پوری مہم کو ہی مشکوک بنا ڈالا. ان ملاقاتوں کے درمیان ابتدائی پلان میں ترمیم و تنسیخ کی گئی، جبکہ اگلی ملاقات کی تاریخ و ایجنڈہ وغیرہ کا تعین کیا گیا
یہ بات بھی دلچسپی کا سبب ہو گی کہ انہی ملاقاتوں کے درمیان پاکستانی اور متحدہ عرب امارات کے کاروباری وفد کی ملاقات سونی ٹی وی کی ہوسٹ تریشکھا اشیش تری پاٹھی سے بھی کروائی گئی اور یہ تجویز سامنے رکھی گئی کہ اسی نیٹ ورک سے اس میزبان کا ایک شو کروایا جاۓ جس میں آزادی صحافت کے بہانے دو قومی نظریہ پر تنقید کی جاۓ
غیر مصدقہ ذرائع کی اطلاعات کے مطابق میر شکیل الرحمان اسی “کاروباری” ڈیل کے کچھ کاغذات پر دستخط کرنے کے لیۓ ایک خفیہ دورے پر پاکستان واپس پہنچ چکے ہیں
یہاں یہ بات یاد دلاتا چلوں کہ جنگ گروپ کے انڈین خفیہ ادارے را کے ساتھ تعلقات پر سے پچھلے سال ٢٠١٣ میں اس وقت پردہ اٹھا جب ٢٩ ستمبر کو مؤقر بھارتی روزنامہ ہندوستان ٹائمز میں “بول ٹی وی” کے حوالے سے ایک خبر شایع ہوئی. اس خبر میں دعوی کیا گیا تھا کہ “بول ٹی وی” کے پیچھے بھارتی انڈر ورلڈ کے ڈان داؤد ابراہیم کا سرمایہ ہے. اس خبر نے ایسی سنسنی پھیلائی کہ جلد ہی متاثرہ فریق نے بھارتی روزنامہ ہندوستان ٹائمز کو عدالتی کاروائی کی دھمکی دے دی اور لیگل نوٹس بھجوا دیا. جلد ہی یہ خبر ہندوستان ٹائمز نے واپس لے لی اور اس خبر کی پہلے صفحے پر اشاعت کی تحقیقات شروع کر دی
اس تحقیقاتی کمیٹی میں ہندوستان ٹائمز کے غیر ملکی امور سے متعلق خبروں کے ایڈیٹر پرمیت پال چودھری اور ہندوستان ٹائمز کے قانونی مشیر کرنجا والا اینڈ کو بھی شامل تھے. ہندوستان ٹائمز کی تحقیقات سے جو بات کھل کر سامنے آئ وہ یہ تھی کہ اس خبر کی اشاعت کے پیچھے جنگ/جیو گروپ کے سربراہ میر شکیل الرحمان کا ہاتھ تھا جن کے ایک انڈین خفیہ ایجینسی (را) سے گہرے تعلقات اس بات کا سبب بنے کہ ہندوستان ٹائمز کے سینئر ایڈیٹر نے ایک ایسی خبر اپنے فرنٹ پیج پر شایع کر دی جس کا کوئی سورس ہی موجود نہ تھا بلکہ یہی بے بنیاد خبر ہندوستان ٹائمز میں شایع ہونے سے نوے روز قبل جیو گروپ کے اخبار جنگ میں چھپ چکی تھی. ہندوستان ٹائمز کے ایڈیٹر کے پاس اس بات کا بھی کوئی تسلی بخش جواب موجود نہ تھا کہ انہوں نے اس بات کے حوالے اور وضاحت کے بغیر کہ، یہ خبر پہلے روزنامہ جنگ میں چھپ چکی ہے اور جنگ گروپ اور بول گروپ کے مابین شدید قسم کی کاروباری رقابت موجود ہے ، اپنے اخبار کر فرنٹ پیج پر کیوں چھاپی. ہندوستان ٹائمز میں شایع ہونے والی خبر میں بول ٹی وی کے ساتھ ساتھ عقیل کریم ڈھیڈھی کو بھی نشانہ بنایا گیا تھا اور کہا گیا تھا کہ کراچی اسٹاک ایکسچینج کے اس بے تاج بادشاہ کے تعلقات بھی داؤد ابراہیم کے ساتھ ہیں جبکہ اصل حقیقت محض اتنی تھی کہ عقیل کریم کی میر شکیل الرحمان کے سمدھی یعنی بیٹی کے سسر جہانگیر صدیقی کے ساتھ کاروباری مسابقت و اختلافات تھے جس کی وجہ سے جنگ/جیو گروپ عقیل کریم کے خلاف مہم بھی چلا رہا تھا. تحقیقات سے پتہ چلا کہ ہندوستان ٹائمز کے ایڈیٹر (غالبا سنجے نارائن) کو قابو کرنے کے لیۓ میر شکیل الرحمان نے بھارتی خفیہ ایجینسی میں روابط کو استعمال کرتے ہوۓ ٢٧ ستمبر ٢٠١٣ کو ممبئی کے گرینڈ حیات ہوٹل میں ایک میٹنگ ارینج کی. اس ملاقات میں جنگ گروپ کی طرف سے خود جہانگیر صدیقی نے شرکت کی جبکہ ہندوستان ٹائمز کے ایڈیٹر کے ساتھ ساتھ را کا رابطہ اہلکار بھی میٹنگ میںموجود تھا جبکہ میر شکیل الرحمان جو اس وقت لندن میں تھے بذریعہ ٹیلی فون اس میٹنگ میں شریک ہوۓ. میٹنگ میں طے پایا کہ پاکستانی اور بھارتی وزراۓ اعظم کی پہلے سے طے شدہ ملاقات کے پس منظر میں داؤد ابراہیم کا نام بول ٹی وی اور عقیل کریم سے جوڑنا دونوں فریقین کے لیۓ بہتر رہے گا. ٢٨ ستمبر کی شام اس سورس لیس “خبر” کو “او کے” دیا گیا اور اگلے ہی دن یعنی ٢٩ ستمبر ٢٠١٣ کو یہ خبر ہندوستان ٹائمز کے صفحہ اول کی زینت بنی. ہندوستان ٹائمز کی یہ اندرونی تحقیقاتی رپورٹ ٤ اکتوبر ٢٠١٣ کو اسی اخبار کے چیئر مین کو پیش کر دی گئی جنہوں نے بول ٹی وی کے خلاف شایع ہونے والی خبر کو واپس لینے اور انٹر نیٹ ایڈیشن سے یہ خبر اتارنے کا حکم جاری کیا اور اس حوالے سے ایک تصیح بھی شایع کی
اب اس سارے تناظر میں آپ موجودہ سیاسی صورتحال، انقلاب مارچ، آزادی مارچ، پاکستان کی مسلح افواج کے حوالے سے جیو نیوز اور اس سے وابستہ پرو طالبان و پرو سپاہ صحابہ لفافہ صحافیوں جیسے نجم سیٹھی، سلیم صافی اور حامد میر کا مؤقف دیکھیں اور ڈاکٹر طاہر القادری، عمران خان اور مسلح افواج کے خلاف جو زہر یہ نیٹ ورک اگل رہا ہے اس پر غور کریں تو بات واضح ہو جاۓ گی کہ موجودہ مودی “نواز” حکومت جیو نیٹ ورک کی پشت پناہی اور عمران خان اور طاہر القادری کی مخالفت اور ان کے حامیوں اور کارکنوں کا قتل عام کس کے اشارے پر کر رہے ہیں، اور یہ تکفیری خوارج، انجمن سپاہ صحابہ و لشکر جھنگوی اور ان کے حمایتی و اتحادی کس قسم کی موروثی “جمہوریت” کے حق میں مظاہرے کر رہے ہیں
very interesting sir. a class of investigative journalism good keep it up
An eye opener article. I always had good image of Safi but after reading all these details it looks,”Iss Hammam Main sab nangay hain” God may save the country and nation from such people.