اپنا نام بدل لیں؟ خوف میں جینے کی عادت ڈال لیں؟ – از عامر حسینی

جرآت تحقیق2

مئی کا مہینہ تھا اور سال تھا 2007ء جب ایم ایس یونیورسٹی برودا گجرات انڈیا کے ایک طالب علم چندر موہن نے تین مذھبی تھیم پر مبنی پینٹنگز ایک مقامی گیلری میں طالب علموں اور ماہرین کے معائنے کے لیے پیش کیں تو جس گیلری میں یہ نمائش ہورہی تھی اس گیلری پر وشوا ہندو پریشد والوں نے نتیش جین نامی ہندؤ فاشسٹ لیڈر کی قیادت میں دھاوا بول دیا اور اس نے الزام لگایا کہ چندر موہن کی تصویریں ہندؤ مذھب کی توھین کرتی ہیں ،چندر موہن کو گرفتار کرلیا گیا اور اسے تین دن اور تین راتیں جیل میں گزارنا پڑیں اس سے پہلے ہندؤ فسطائیوں نے معروف مصور ایف ایم حسین کی جانب سے ہندؤ دیوی و دیوتاؤں کی جو پینٹنگز بنائی تھیں اس پر طوفان کھڑا کردیا تھا ، ان کی گیلری پر حملہ کیا گیا ، ان کے گھر پر حملے ہوئے اور ان کی جان کو خطرہ لاحق ہوا تو وہ ہندوستان سے باہر چلے گئے

نوث : ایف ایم حسین کی اس تصویر میں گاندھی کے مقابل ہٹلر کو جان بوجھ کر ننگا دکھایا ہے اور ایسا اس نے اس کو بے عزت کرنے کے لیے کیا ہے ، لین کسی کو لباس فطرت میں پوز کرنے کا مطلب ہر مرتبہ تذلیل نہیں ہوتا جو ہندؤ فسطاغيوں نے لیا جب ایف ایم حسین نے بعض نیوڈ تصویریں بنائیں

ساجد رشید نے ممبئی سے نکلنے والے ایک ہندی اخبار کا اداریہ لکھا جو اگلے روز شایع ہوا تو جب اس شام وہ اخبار کے دفتر سے باہر گھر جارہے تھے تو ان پر حملہ کیا گیا اور ان کو قتل کرنے کی کوشش کی گئی ، ان پر توھین مذھب اسلام کا الزام لگادیا گیا جب یہ واقعات یکے بعد دیگرے رونما ہوئے تو ممبئی کے سب سے پرانے آرٹ مرکز جہانگیر آرٹ گیلری میں “موہن چندر رہا کرو کیمٹی ” کے تحت ایک تقریب کا اہتمام کیا گیا تھا 2007ء میں اس تقریب میں 200 کے قریب ہندوستان کے آرٹسٹس ، بلاگرز ، لائرز ، ٹریڈ یونین کارکن ، بیوروکریٹس اور یہاں تک کہ صدر آف روٹری کلب ممبئی بھی شامل ہوئے

اور یہ سب کے سب اس بات پر متفق تھے کہ چندر موہن ، ایف ایم حسین اور ساجد رشید سمیت کسی کے خلاف بھی ہندؤ فاشزم کی فسطائیت برداشت نہیں کی جائے گی ، اس کے خلاف بھرپور مزاحمت کی جائے گی میں نے اس تقریب کی براہ راست کاروائی انٹرنیٹ پر دیکھی تھی اور اس تقریب میں میں بہت سے لوگوں کو چند ایک پوسٹر کے ساتھ کھڑے دیکھا جس پر لکھا ہوا تھا Do,nt Sing , Paint , write , Love , live in Fear اور اس تقریب میں بار بار یہ بات کی گئی کہ جرمنی میں بھی نازی ازم کا آغاز کتابیں جلانے اور آرٹ پر پابندیاں لگانے سے ہوا تھا اور ہندؤ فاشزم بھی اسی راستے پر گامزن ہے میں نے یہ دیکھا کہ ہندوستان کے شاعر ، ادیب ، سماجی علوم کے ماہر ، فنون لطیفہ کے خلاق ، صحافی ، بلاگرز اپنے اپنے فن کے زریعے ہندوتواء ، ہندؤ فاشزم ، اور دیوبندی -وہابی فاشزم کے خلاف جدوجہد میں مصروف ہوگئے

اور کسی حد تک انھوں نے اس فاشزم کے خلاف کامیاب جدوجہد کی اسی دوران مجھے جرمنی کا جان فیلڈ ہارٹ بھی یاد آیا جو 1891ء میں پیدا ہوا اور 26 اپریل 1968ء میں اس کی وفات ہوئی جوکہ جارج گروس کے ساتھ ملکر نازی ازم اور فاشزم کے خلاف فوٹو مونو ٹیگ آرٹ کو استعمال میں لایا تھا اور اس کے بعد فوٹو مونو ٹیگ آرٹ کی مدد سے جرمنی کے آرٹسٹوں نے اینٹی نازی آرٹ کو فروغ دیا تھا اور جان فیلڈ ہارٹ وہ آرٹسٹ تھا جس کا اصل نام تو ہملیٹ جان ہرش تھا اور اس نے اسے جان فیلڈ ہارٹ اس وقت کردیا تھا جب جرمنی میں برٹش لوگوں کے خلاف جنونیت اپنے عروج پر پہنچ گئی تھی

نوٹ :اوپر دی گئی تصویر جان ہارٹ فیلڈ کا نازی مخالف ، فسطائی مخالف انتہائی غیر معمولی فوٹو مونو ٹیگ آرٹ ہے

نوٹ: اوپر نازی مخالف فوٹو مونو ٹیگ آرٹ کی امثال ہیں میں بے اختیار سوچنے لگا تھا کہ ہمارے ہاں کیا کوئی آرٹسٹ ایسا بھی ہوگا کہ جس نے بلوچ ، شیعہ ، صوفی سنّیوں ، احمدیوں ، کرسچن ، ہندؤ کے خلاف بڑھتے ہوئے جنون کے خلاف احتجاج میں اپنا نام تبدیل کیا ہوگا اور خاص طور پر شیعہ اور صوفی سنّیوں میں تو آئمہ اہل بیت اطہار کے ناموں پر رکھے جانے والے نام تو آجکل نام والے فرد کے لئے موت کا سرٹیفکیٹ خریدنے کے مترادف ہوچکا ہے فوٹو مونو ٹیگ ایسا آرٹ تھا جس میں دو یا دو سے زیادہ تصویروں کو جوڑ کر اینٹی نازی و اینٹی فاشسٹ بیانیہ جرمن آرٹسٹ تیار کرتے تھے اور جدید دور میں یہ کام سافٹ وئیرز کے زریعے فوٹو شاپ میں ہوتا ہے اور اس میں بعد میں برش اور وژیول کو بھی استعمال کیا گیا
سوویت روس میں آرٹسٹوں کے ایک پورے مکتبہ فکر نے اس آرٹ کو استعمال کیا اور اس آرٹ کو برتھولیٹ بریخت ، سنکلئر ، ایرون پیسیکٹر کے سٹیج ڈراموں کو پیش کرتے ہوئے سٹیج پر استعمال کیا گیا جوزف رینوا نامی ایک آرٹسٹ نے تھیم آف ڈریمز کے عنوان سے امریکی اور نارتھ امریکہ کی سرمایہ دار معاشرتوں میں صارفیت کے کلچر پر تنقید کے لیے اس آرٹ کو استعمال کیا اور جب ارجنٹائن کا معروف مصور گریٹ سٹرن جرمنی میں جلاوطنی کے دن گزار رہا تھا تو اس نے بھی اس آرٹ کے زریعے ارجنٹائن میں آمریت ، نیوکالونیل ازم پر تنقید کے لیے اس آرٹ کو استعمال کیا تھا میں یہ سب باتیں اصل میں اپنے مضمون “تصویری نمائش ، مقابلہ کہانی نویسی ” کے اندر بیان کردہ ٹریجڈی کے تناظر میں کررہا ہوں کل جب یہ مضمون لکھ چکا تو مجھے سید عمیر شاہ نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر دوستی کی درخواست ارسال کی اور میں نے جب ان کی وال کا جائزل لیا تو مجھے پتہ چلا کہ انھوں نے وہاں پر ایک بلاگ “جرآت تحقیق ” کے بہت سے امیج شئیر کئے ہوئے تھے اور مجھے یہ فوٹو مونو ٹیگ کی ہی قسم لگے اور پاکستان میں میرے خیال میں کم از کم مذھبی فاشزم کے خلاف یہ سب سے بہتر کام ہے

رضوان عطاء بھی ویسے اس معاملے میں خاصے تخلیقی ذھن کے حامل ہیں

لیکن مجھے ابھی بھی یہ کہنا ہے کہ “شیعہ نسل کشی ” پاکستان کے اندر ایک ایسی ٹریجڈی اور پاکستان کے اندر مذھبی فاشزم کا ایسا پہلو ہے جس کی پاکستانی آرٹ ، ادب اور صحافت میں ابھی تک ٹھیک ٹھیک عکاسی نہیں ہوئی ہے اور اس حوالے سے بہت سا ابہام موجود ہے ، بہت سی پیچیدگی ہے اور بہت حد تک گول مول ، ڈھلمل رويے پاکستان کی لبرل ، ترقی پسند اور لیفٹ کمیونٹی کے اندر پائے جاتے ہیں

بدقسمتی یہ ہے کہ پاکستان میں اس دوران وہ ہوا ہے جو شاید پوری دنیا میں مذھبی فاشزم کے ابھار اور اس کی مزاحمت کی تاریخ میں کسی بھی جگہ دیکھنے کو نہیں ملا ہمارے پڑوسی ملک بھارت اور بنگلہ دیش ، ایران میں بھی یہ دیکھنے کو نہیں ملا اور وہ یہ ہے کہ یہاں بہت سے لبرل اعلانیہ یا غیر اعلانیہ مذھبی فاشسٹوں سے اتحاد بناکر بیٹھ گئے ہیں اور یہ اتحاد انھوں نے شیعہ ، صوفی سنّی ، غیر مسلم اقلیتوں کے قاتل اور ان پر فسطائيت مسلط کرنے والے دیوبندی فاشسٹوں سے کیا ہے اور وہ مظلوموں کی بجائے ظالموں کے کیمپ میں جاکر کھڑے ہوگئے ہیں اور ان کا بہت بڑا ہاتھ ہے

اس وقت شیعہ نسل کشی ، صوفی سنّی نسل کشی اور مذھبی اقلیتوں کے خلاف منظم دھشت گردی کے مرتکب دیوبندی مذھبی فاشسٹوں کے خلاف ایک منظم اور صاف و واضح جدوجہد کے سامنے نہ آنے دینے میں اور اس حوالے سے مسلسل ابہام پھیلانے میں اگرچہ اس حوالے سے بعض لوگوں کا کام عمومی مذھبی و نسلی فاشزم کے خلاف کافی ولولہ انگیز ہے جیسے کے بی فراق کی نظمیں ہوں ، رفیع رضا کی شاعری ہے ، احمد فقیہہ ہیں ، عابد حسین عابد ہیں ، شہزاد نئیر ہیں ، اسد فاطمی ہیں اوربہت زیادہ استعاراتی شعروں کے لبادے میں بات کہنے کی کوشش کرنے والے قمر رضا شہزاد ہیں ، رضی الدین رضی تو شعر اور نثر دونوں میں اس بارے میں بہت کچھ لکھ رہے ہیں لیکن شیعہ نسل کشی جس بڑے پیمانے کی ٹریجڈی ہے اسے محض فرقہ واریت جیسی انتہائی گمراہ کن اور فریب و ابہام میں لپٹی اصطلاح بلکہ میں عینک کہوں تو زیادہ بہتر ہوگا

اس ٹریجڈی کی وسعت اور پھیلاؤ کو انتہائی سیکڑ کر دیکھنے کے مترادف ہے میں پاکستانی آرٹ میں فیقا کے خاکوں ، کارٹون ، ظہور نظر ، صابر نظر کے آرٹ کو کہہ سکتا ہوں کہ انھوں نے اپنے فن میں اس ٹریجڈی کی ریفلیکشن دینے کی کوشش بہت عمدگی سے کی لیکن جوکہ ان کا کام مالکان میڈیا انڈسٹری کی پالیسی کے تابع ہوتا ہے اور جو کہانی سنسر شپ اور بے جا گلہ گھونٹنے والی سرمایہ دار زھنیت کی کہانی فیکا نے سنائی اس کے بعد یہآں سے اس لہر کے اٹھنے کی امید کم نظر آتی ہے جس لہر کی نایابی کا تذکرہ میں پاکستان کے آرٹ کی غلام گردشوں پائے جانے کا مسلسل کررہا ہوں میں آرٹ کی دنیا کا آدمی نہیں ہوں ، نہ ہی اس ماحول میں پلا پڑھا ہوں کہ جہاں آرٹ اور بورژوائی خصلتوں کے ساتھ ساتھ خودکار طریقے سے من میں جگہ بناتا چلا جاتا ہے لیکن شاکر علی مرحوم کے بقول کسی بھی شہ پارے کو جان لینے کے لیے اس کو بار بار دیکھو کہیں نہ کہیں وہ اپنے حضور آپ کو باریاب ہونے کی اجازت دے ہی دے گا ، جیسے شائستہ مومن کا مشکور ہوں کہ ان کے فن پاروں کے امیج دیکھ دیکھ کر اس فن کی تھوڑی بہت شد بد مجھ میں آنے لگی ہے

Source:

http://aamirfiction.blogspot.com/2014/09/blog-post.html

Comments

comments