ویل ڈن طاہر القادری – از عامر حسینی
posted by Guest Post | September 3, 2014 | In Featured, Original Articles, Urdu Articlesآج طاہرالقادری نے شاہراہ دستور پر قومی اسمبلی اور سینٹ کے مشترکہ اجلاس میں ہونے والی تقریروں میں لگائی جانے والی آئین ، جمہوریت اور قانون کی بالادستی کی رٹ کے جواب میں جو تقریر کی وہ میری زندگی میں اب تک کی سنی جانے والی بہترین سیاسی تقریروں میں سے ایک تقریر تهی
اگر آپ ایوب خان کے خلاف 67ء سے لیکر 69ء تک چلنے والی تحریک کے واقعات اور حالات کو اس وقت کے اخبارات میں تلاش کریں تو آپ کو پتہ چلے گا کہ ایوب خان کے خلاف چلنے والی تحریک میں ایک رجحان کمبائینڈ اپوزیشن الائنس کا تها جس میں جماعت اسلامی ، جے یو آئی ، جے یو پی ، نظام اسلام پارٹی ، مسلم لیگ فاطمہ جناح گروپ ، عوامی لیگ شامل تهی اور یہ 56ء کے آئین کے مطابق ایوب خان سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کررہی تهی جبکہ دوسرا رجحان پی پی پی اور نیپ بهاشانی گروپ کا تها یہ دونوں جماعتیں انقلاب اور مکمل تبدیلی اور سٹریٹ پالیٹکس پر انحصار کررہی تهیں
ایوب خان نے ایک گول میز کانفرنس بلائی اور کمبائینڈ اپوزیشن نے ایوب خان سے مذاکرات پر آمادگی ظاہر کردی اور کمبائینڈ اپوزیشن کی شرط تهی کہ اگرتلہ سازش کیس ختم کرکے شیخ مجیب اور ان کے ساتهیوں کو رہا کیا جائے ، ایوب خان نے یہ شرط مان لی اور یوں مذاکرات شروع ہوگئے
کمبائینڈ اپوزیشن اندر سے اصلاحات کی بات کرتی رہی لیکن بهٹو ، مولانا بهاشانی نے احتجاج اور ایجی ٹیشن کا راستہ اختیار کیا اور دلچسپ بات یہ ہے کہ دونوں پر یہ الزام لگا کہ وہ تخریب کار اور شرپسندانہ اور غیر آئینی ، غیر قانونی سیاست کررہے ہیں
اب اگر آپ اس زمانے میں قائد عوام زوالفقار علی بهٹو کی کراچی نشتر پارک میں 1968ء کی تقریردیکهیں تو قائد عوام کہتے ہیں کہ یہ کیسا آئین ہے جس میں لوگوں کو روٹی ، کپڑا ، مکان ، روزگار اور رہائش کی ضمانت نہیں ہے اس آئین کے تحت وہ لوگ اسمبلیوں میں بیٹهے ہیں جن کو جیلوں میں بند ہونا چاہیئےاس ملک کی جیلیں غریبوں اور کمزروں سے کیوں بهری ہوئی ہیں جبکہ چور ، ڈاکو ، زخیرہ اندوز معززین بنے ہوئے ہیں جو آئین لوگوں کو پیٹ بهر کر کهانے ، تن کو ڈهانپنے کے لئے کپڑے ، رہنے کے لئے مکان اور کمائی کے لئے روزگار کی ضمانت نہ دے وہ کاغذ کی ردی کے سوا کچه بهی نہیں ہے
زوالفقار علی بهٹو کی ان جیسی تقریروں کو ظفر علی اجن نے “بهٹو کی آواز” کے عنوان سے جمع کیا اور اسے ایک زمانے میں فرخ سہیل گوئیندی نے شایع کیا تها اور میں نے اس زمانے کے امروز ، پاکستان ٹائمز ، نوائے وقت ، لیڈر اور ڈان میں پی پی پی پر شدید تنقید اسی حوالے سے پڑهی کہ زوالفقار علی بهٹو سٹیٹس کو برقرار رکهنے والی آئینی ، پارلیمانی ڈیموکریٹک اصطلاحوں کے ساته کی جانے والی سیاست کی مخالفت کررہے تهے اور وہ ان اصطلاحوں اور نعروں میں بات کررہے تهے جو عوام کے دل کی آواز تهے
آج طاہر القادری کی ساری تقریر پاپولسٹ ، غریب نواز اور پاکستانی سماج کے کمزور اور پسے یوئے طبقات کی ترجمانی پر مشتمل تهی اور یہ تقریر اشراف زادوں کی پارلیمنٹ اور وہاں لگے جمعہ بازار کا مدلل جواب تهی کس قدر حیرت کی بات ہے کہ زوالفقار علی بهٹو جب میدان عمل میں آئے تو پاکستان کی اربن کمپرڈور کلاس ان کو مداری ، مجمع باز ، بازیگر ، مسخرہ ، جوکر جیسے القاب سے نواز رہی تهی اور ان کو کوئی اہمیت دینے کو تیار نہ تهی لیکن ڈاکٹر طاہر القادری کو جہان اربن کمپراڈور کلاس کی اوپر والی پرتیں مداری ، مجمع باز مولوی قرار دے رہی ہیں تو اسی کلاس کی لوئر پرتیں اور بے روزگار نوجوانوں کی بہت بڑی تعداد ڈاکٹر طاہر القادری کی باتوں پر یقین کررہی ہیں اور طاہر القادری پاکستان کی پیٹی بورژوازی کی لوئر پرتوں ، لمپن پرولتاریہ کی دل کی آواز بن رہا ہے تو ساته ساته اس کی انقلابی لفاظی پاکستانی محنت کش طبقات اور کسان پرتوں کے ایک سیکشن کو بهی متاثر کررہی ہے
میں جب ڈاکٹر طاہر القادری کے سیاسی سٹائل کو پاکستان کی ماضی کی سیاست کے آئینے اور حال کی پاور پالیٹکس کے تناظر میں رکهکر جب دیکه رہا ہوں تو اس سے میری مراد یہ نہیں کہ میں کوئی یہ اعلان کرنے لگا ہوں کہ ڈاکٹر طاہر القادری کوئی عصر حاضر کا بهٹو ہے لیکن جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ بهٹو بننے کے لئے کنٹینر سے باہر آنا پڑتا ہے تو وہ لوگ یہ بات کہہ رہے ہیں جو لفاظی کی حد تک بهی اپنے مفادات کے کنٹینر سے باہر نہیں آتے جبکہ طاہر القادری تو شاہراہ دستور پر کهڑا یہ ساری باتیں کررہا ہے
آج پاکستان کی پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کی خاص بات یہ ہے کہ حکومتی اور اس کے اتحادی کیمپ سے جو تقاریر ہوئیں جن میب چوہدری نثار ، مولوی فضل الرحمان اور محمود اچکزئی کی تقاریر شامل ہیں ان میں یہ بات مشترک ہے کہ تینوں کے تینوں کا رویہ شاہراہ دستور پر جمع مظاہرین کے طبقاتی پس منظر کے غیر اشراف ہونے پر اسبات پر سیخ پا ہے یہ کون ہوتے ہیں اس ملک کی سیاست کا تعین کرنے والے چوہدری نثار ان کو دہشت گرد ، عسکری جماعت کے غنڈے کہتا ہے تو مولوی فضل الرحمان ان کو مردے کہتا ہے اور محمود اچکزئی کو پارلیمنٹ کے لان میں اپنی تمام تر غربت اور سادگی کے ساته ڈیرے لگانے والے مرد، عورتیں ، بچے خانہ بدوش لگتے ہیں اور وہ دهمکی دیتا ہے کہ اگر حکومت ان خانہ بدوشوں کو نہیں نکالے گی تو یہ خود نکالے گا یہ محمود اچکزئی جو بڑی باتیں بگهار رہا ہے اور اس کے پیٹ میں جمہوریت اور آئین کا طہت مروڑ اٹهتا ہے اپنے علاقے میں آزاد پهرنے والے کالعدم تنظیموں کا بال بهی بیکا نہیں کرپایا
کچه عرصہ پہلے جناح روڈ کوئٹہ پر واقع گورنمنٹ سائنس کالج کے هاسٹل پر ایک کالعدم تنظیم نے قبضہ کیا جو اب تک برقرار ہے ، جبکہ اسی بلوچستان میں اب تک ایک درجن زکری فرقے کے لوگ مارے جاچکے ، جبکہ کئی ایک خواتین پر سرعام کهلے چوک میں تیزاب پهینکا گیا اور کوئی کاروائی کالعدم ، فرقہ پرست تنظیموں کے خلاف نہیں ہوئی اس کا بهائی بلوچستان کا گورنر ہے اور مزید چهے افراد اس کے گهر کے بلوچستان حکومت میں شریک اقتدار ہیں اور اس کا اچکزئی قبیلے کے اکثر بااثر لوگ چمن سے لیکر افغان باڈر اور پهر ایران سرحد تک ہر قسم کی سمگلنگ میں ملوث ہیں یہ لاقانونیت ، جرم کاری اور تخریب کاری کے الزامات لگاتا ہے اور اسلام آباد کی شاہراہ پر احتجاج کرنے والوں کو دہشت گرد قرار دیتا ہے لیکن اپنے گریبان میں نہیں جهانکتا
روف کلاسرا نے دنیا نیوز پر ایک ٹاک شو میں یہ انکشاف کیا کہ ایک زمانہ تها جب اچکزئی کی تقریر سننے کے لئے پارلیمنٹ کی پریس گیلری کهچا کهچ بهری ہوتی اور پوری پارلیمنٹ خاموشی سے سنتی تهی لیکن اب اس کی تقریر شروع ہو تو پہلے سے بیٹهے لوگ بهی اٹه جاتے ہیں
پاکستان کے سماج میں موجود خوفناک طبقاتی تقسیم ، بے شرم قسم کی ناانصافی اور پورے نظام کا صرف اشراف کی خدمت پر مامور ہونا ایسی حقیقتیں ہیں جن سے انکار ممکن نہیں ہے اور اس کے زمہ دار حکمران طبقہ ہے جس کو بچانے کے جتن نظام کو چلتے رہنے کی اپیلیں کرکے اور کہیں کہیں ڈارانے دهمکانے کے زریوے کیے جارہے ہیں لیکن اس نظام کا آشراف پرست ہونا ایسی ٹهوس حقیقت بن چکا ہے جس سے انکار کرنا اور اس کو جهٹلانا ممکن نہیں رہا
ایسے میں جو لوگ اس نظام پر حملہ آور ڈاکٹر طاہر القادری اور عمران خان کو گالیاں دینے اور ان کو مداری ثابت کرنے میں لگے ہوئے ہیں وہ اصل میں عوام کی نظروں میں اس نظام کی حمایت کے مرتکب ہورہے ہیں اور دیکها جائے تو ان کی دستور پسندی اور آئین پرستی کے سارے نعرے سٹیٹس کو برقرار رکهنے کے سوا کچه بهی نہیں ہیں
Dr. Tahir-ul-Qadri Speech in Front of… by awaztoday-tv
Tahir-ul-Qadri – 21st August 2014 by awaztoday-tv
Tahri ul qadri speech inqlab march starting by awaztoday-tv
Tahir ul Qadri speech in PAT Inqilab March at… by awaztoday-tv