جاوید ہاشمی کی بغاوت اور جمہوریت پسندی تاریخ کے آئینے میں – از عامر حسینی
جاوید ہاشمی نے پارلیمنٹ کے سامنے ، نیشنل پریس کلب میں اور ایک نجی ٹی وی چینل کے ٹاک شو میں ایک مرتبہ پھر سے اپنی جمہوریت پسند طبعیت اور اپنی آئین و پارلیمنٹ سے بالادستی کا خوب چرچا کیا ہے اور ایسے میں مجھے امید تھی کہ ان کی پریس کانفرنس کو کور کرنے والے صحافی اور ان سے ٹاک شو میں بات کرنے والے جاوید چودھری اتنے اپ ٹو ڈیٹ تو ہوں گے کہ وہ جاوید ہاشمی سے ان کے اپنے ماضی کے بارے میں سوالات ضرور کریں گے لیکن ایسا نہیں ہوسکا
میں جاوید ہاشمی کو اس وقت سے جانتا ہوں جب وہ ضلع کونسل کی سطح کی سیاست کررہے تھے اور یہ جنرل ضیاء الحق کا دور تھا اور وہ جنرل ضیاء اور ان کے دیگر فوجی رفقاء کی نظروں میں اس لیے فیورٹ نوجوان تھے کہ انھوں نے اسلامی جمعیت طلباء کے پلیٹ فارم سے زوالفقار علی بھٹو کے خلاف زبردست کردار ادا کیا تھا ، وہ گورنر ہاؤس پر دھاوا بولنے والے ہجوم کی قیادت کررہے تھے اور وہ اس دھاوے پر آج بھی فخر کرتے ہیں جبکہ وہ ایک قتل کے مقدمے میں بھی نامزد ہوئے لیکن کچھ نادیدہ ہاتھ ان کو اس مقدمے سے صاف بچا کر لے گئے
جنرل ضیاء الحق نے پنجاب کے اندر خاص طور پر اپنی طاقت کو بڑھانے کے لیے جہاں پر تاجروں ، دکانداروں اور پیٹی بورژوازی طبقے کی کئی ایک پرتوں کو سیاسی کردار دیا اور ایک پینیری اپنے حامیوں کی لگائی وہیں اس نے اینٹی بھٹو پیٹی بورژوازی کے دائیں بازو کی سیاست سے وابستہ خاص طور اسلامی جمعیت طلبہ سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں پر بھی ہاتھ رکھا اور اس کام میں سابق ڈی جی آئی ایس آئی اور بعد میں پنجاب کے گورنر جنرل غلام جیلانی نے بہت اہم کردار ادا کیا اور یہ جنرل غلام جیلانی تھے جنھوں نے ایک طرف تو نواز شریف کو دریافت کیا تو دوسری طرف ملتان ضلع سے انھوں نے قریشی اور گیلانی خاندان کی سیاست کو بیلنس کرنے کے لیے ایک طرف تو مشرقی پنجاب سے ہجرت کرکے آنے والی بعض برادریوں کے سرکدرہ افراد کو اپنے کیمپ میں اہم مقام دیا جن میں سعید قریشی ، بابو نفیس انصاری ، شیخ رشید ، حاجی بوٹا وغیرہ اہم تھے تو دوسری طرف جاوید ہاشمی پر دست شفقت رکھا
میرے ایک دوست سید مصدق مہدی جعفری ہیں جو جاوید ہاشمی کے حلقے میں ایک چک کے نمبردار بھی ہیں اور سابق بینکر بھی اور ایف سی کالج سے پڑھے ہوئے ہیں جو جاوید ہاشمی کو زمانہ طالب علمی سے جانتے ہیں اور انھوں نے پہلی مرتبہ جاوید ہاشمی کو ضیاء کی مجلس شوری کا رکن بنوانے کے لیے اہم کردار بھی ادا کیا تھا اور لطف کی بات یہ ہے کہ آج کل وہ بھی پاکستان تحریک انصاف میں ہیں اور کچھ ہفتوں پہلے بنی گالہ میں جب عمران خان کے ساتھ ان کی جاوید ہاشمی سے ملاقات ہوئی تو انھوں نے جاوید ہاشمی سے کہا کہ
کیا آپ ان کو جانتے ہیں تو جواب میں جاوید ہاشمی نے کہا کہ کیوں نہیں آپ نے تو مجھے قومی اسمبلی کا پہلا الیکشن جتوانے میں مدد کی تھی
سید مصدق مہدی جعفری کا کہنا یہ ہے کہ جن دنوں جاوید ہاشمی نے ضیاء کے غیر جماعتی انتخابات میں جہانیاں سے قومی اسمبلی کا الیکشن لڑا تو انتخابی مہم کے دوران وہ ان کے ساتھ ہوتے تھے اور اکثر گھر میں یہ اٹھ کر اندر جاتے ، فون اٹینڈ کرکے آتے تو دعوی کرتے کہ جنرل غلام جیلانی کا فون تھا اور کہتے غلام جیلانی نے انتظامیہ کو حکم دیا ہے کہ جاوید ہاشمی کو کسی صورت ہارنے نہ دیا جائے
جاوید ہاشمی جنرل ضیآء کے گڈ بوائے تھے اور وہ اس قدر لاڈلے تھے غلام جیلانی کے کہ جیلانی نے ان کو ان کے علاقے کی تھانہ کیچری اور ریونیو کا کنٹرول دیا ہوا تھا اور اس بات کا گلہ وہاں قریشی خاندان کو ہمیشہ رہا
میری یاداشت میں اس زمانے میں جاوید ہاشمی کا کوئی ایک بیان یا اقدام ایسا نہیں ہے جس کی بنیاد پر میں یہ کہہ سکوں کہ جاوید ہاشمی جنرل ضیاء کی ڈرٹی پالیٹکس اور خوفناک جمہوریت مخالف سیاسی ڈسکورس کی مخالفت کرتے پائے گئے ہوں اور جب ضیاءالحق ایک طیارے کے حادثے میں ہلاک ہوگئے تو اس کے بعد بھی وہ جمہوری کیمپ کی بجائے جنرل ضیاء کی باقیات اور ملٹری -عدالتی -سول اسٹبلشمنٹ کے اتحاد کےسیاسی چہرے اسلامی جمہوری اتحاد میں آئی ایس آئی کے سب سے زیادہ چہیتے نواز کیمپ کے جانباز سپاہی بنے رہے
قومی اسمبلی میں حزب اختلاف کے گروپ کی تشکیل میں جاوید ہاشمی اصل میں ضیاء الحق کے مخبر کا رول ادا کررہے تھے اور وہ نواز شریف مخالف لابی کے ضیاءالحقی ساتھیوں پر نظر رکھنے کے مشن پر مامور تھے اور انھوں نے خود اپنی کتاب :ہاں میں باغی ہوں ” میں نواز شریف کے ساتھ اپنی نیاز مندی کا زکر اس زمانے سے کیا ہے اور وہ 85ء میں نواز شریف کو ایک بابصیرت سیاست دان ثابت کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے تھے
جاوید ہاشمی نے یونس حبیب سے چار کروڑ روپے لیے اور وہ ان لوگوں میں شامل ہیں جنھوں نے بے نظیر بھٹو کا راستہ روکنے کے لیے ملٹری اسٹبلشمنٹ اور اسحاق اینڈ کمپنی کے منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچایا اور اپنے اس عمل پر انھوں نے کبھی کوئی معافی نہیں مانگی بلکہ یہ فسانہ گڑھا کہ یونس حبیب کے ساتھ وہ کاروبار کررہے تھے جس کا منافع چار کروڑ روپے ان کو ملا تھا اور آج تک ایسے کسی کاروبار کا وہ ثبوت نہیں دے سکے
جہانیاں میں مخدوم رشید کی درگاہ پر ان کا قبضہ صرف نواز شریف کی عنائت سے ہوا تھا اور اس سے ملحقہ زرعی زمین بھی اوقاف کی تھی جس کو انھوں نے قبضے میں لے رکھا تھا جب وہ نواز شریف سے الگ ہوئے تو یہ اوقاف کو بھی یاد آگیا کہ وہ ناجائز طور پر اس زمین پر قابض ہیں
جاوید ہاشمی ریڈ زون میں عمران خان اور طاہر القادری کے داخلے اور ان کے لوگوں کے پی ٹی وی اور دیگر اداروں میں گھس جانے پر کافی مذمتی بیانات دے رہے ہیں اور عمران خان کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ وہ ملک کو مارشل لاء کی طرف دھکیل رہے ہیں
میں جب تاریخ کے جھرکوں میں جھانکتا ہوں تو مجھے یار آتا ہے کہ جن کرداروں نے بھٹو کے خلاف فوجی مارشل لاء کے لیے سازگار حالات پیدا کئے تھے ان میں ایک کردار جاوید ہاشمی کا بھی تھا اور اس کردار پر وہ آج تک نادم نہیں ہیں جبکہ جس قدر پاکستان کی قومی یک جہتی ، اس کی قومی سیاسی شیرازہ بندی کو نقصان جنرل ضیاءالحق نے پہنچایا اتنا شاید کسی اور مارشل لاء نے نہیں پہنچایا تھا
یہ جاوید ہاشمی اس وقت بھی نواز شریف کا بازو بنے رہے تھے جب نواز شریف کے لوگوں نے سپریم کورٹ کی عمارت پر حملہ کیا تھا اور جب نواز شریف چودھویں ترمیم لایا اور پندرھویں ترمیم کے زریعے امیر المومنین بننے جارہا تھا تو بھی جاوید ہاشمی کے لب نہیں کھلے تھے
انیس سو اٹھاسی سے لیکر 1999ء تک نواز شریف نے جس طرح سے ججز ، سیاست دانوں ، صحافیوں ، سول افسران کی بولیاں لگائیں تھیں اور ان سب کو اپنے مخالفین کے خلاف استعمال کیا اور جس طرح سے انتخابات کو مینج کرکے پنجاب میں اپنا اقتدار باقی رکھا اس سارے عمل پر جاوید ہاشمی نے کبھی بھی زبان اس دور میں کھولی نہ اس دور میں کھولی اور کبھی بھی اپنی جمہوریت دشمنی اور آمریت پسندی کے سیاہ اور کالے دور پر معافی نہیں مانگی اور نہ ہی کبھی اظہار ندامت کیا
اکتوبر 1999ء کو جب فوج نے نواز شریف کا تختہ الٹا تو وہ نواز شریف کے حامی کے طور پر اس سارے قبضے کے خلاف ہوئے اور یہی وجہ ہے جب نواز شریف واپس آئے اور پنجاب میں حکومت بنی تو وہ نواز شریف سے صلہ مانگتے تھے
مجھے ایک اعلی پولیس آفیسر نے بتایا کہ جب جاوید ہاشمی کو برین ہیمرج ہوا اور ان کو ہیلی کاپٹر سے ملتان سے لاہور لایا گیا تو ہیلی پیڈ پر ان کی ڈیوٹی تھی اور انھوں نے دیکھا کہ جاوید ہاشمی کے سٹریچر کو چیف منسٹر شہباز شریف نے اٹھایا اور ان کو وہیل چئیر پر بھی خود ہی بھٹایا اور اسے گھسیٹ کر کمرے تک چود چیف منسٹر شہباز شریف لیکر گئے اور نواز شریف بیرونی دورہ مختصر کرکے سیدھے لاہور ہسپتال پہنچے اور سب سے قابل ڈاکٹر کو ان کے علاج و معالجے کے لیے بنائی جانے والی ٹیم کا لیڈر بنایا اور نواز شریف دو گھنٹے وہاں موجود رہے اور بہت زیادہ پریشانی کا اظہار کرتے رہے
اور سب سے بڑا انکشاف اس پولیس افسر نے مجھ پر یہ کیا کہ جب جاوید ہاشمی اور چوہدری نثار کے اختلافات ہوئے تو کلثوم نواز نے جاوید ہاشمی کا ساتھ دیا اور جاوید ہاشمی کی خاطر کلثوم نواز نے اپنے تعلقات چوہدری نثار کی فیملی سے ختم کرڈالے اور آج تک وہ چوہردی نثار سے بات تک نہیں کرتیں اور یہ کلثوم نواز تھیں جو جاوید ہاشمی کو منانےگئیں تھیں اور اس پولیس افسر کا کہنا تھا کہ کلثوم نواز نے جاوید ہاشمی کے پیر نہیں پکڑے باقی سب کچھ کیا ان کم منانے کے لیے
میں نے جب ان سے پوچھا کہ جاوید ہاشمی کا مسلم لیگ نواز کو چھوڑنے کا فیصلہ کیا نواز شریف کے ون مین شو کی وجہ سے تھا تو وہ پولیس افسر بے اختیار ہنس پڑے کہنے لگے کہ
شریف برادران نے کبھی بھی اجتماعی ڈیموکریسی کے اصولوں پر پارٹی چلائی نہیں تھی اور ان کے اس رول سے جاوید ہاشمی کو کبھی کوئی شکائت نہ ہوئی ،بلکہ ان کی شکائت کا سبب یہ بنا کہ چوہدری نثار قائد حزب اختلاف بنائے گئے اور پنجاب میں شہباز شریف نے ان کو وہ کچھ نہ دیا جس کی وہ توقع کررہے تھے تو شکایات زاتی تھیں جمہوری اصول وغیرہ وہاں کہیں نہیں تھے
جاوید ہاشمی پاکستان تحریک انصاف میں ایک تو شاہ محمود قریشی کے بڑھتے ہوئے اثر سے پریشان تھے تو دوسری طرف جہانگیر ترین کے غلبے سے پریشان تھے اور ان کو پی ٹی آئی میں اپنی صدارت اب محض نمائشی سی لگنے لگی تھی اور وہ دوسری طرف اس شاہانہ پن سے بھی محروم ہوگئے تھے جو نواز لیگ میں ان کے پاس ہوا کرتا تھا
پھر جاوید ہاشمی کے پیچھے ان کے جانشینوں میں ایک میمونہ ہاشمی تھیں جن کی سیاست خاص طور پر جاوید ہاشمی کے پی ٹی آئی میں جانے سے ایک طرح سے ختم ہوگئی اور وہ سیاست سے بالکل آؤٹ ہیں اور جاوید ہاشمی کے پیچھے بس اندھیرا ہی نظر آتا ہے
جنرل ضیاء الحق کی نرسری میں پرورش پانے والے اور ایک زمانے میں ضیاءالحق کی باقیات پر مشتمل عسکری ،عدالتی و صحافتی اسٹبلشمنٹ کی بیساکھیوں کے زریعے پاکستانی سیاست کے چمکتے ستارے بننے والے سیاست دانوں کا یہ المیہ ہے کہ ان کی جمہوریت پسندی اصل میں بہت ہی کھوکھلی اور آخری تجزئے میں اشراف کی بالادستی اور جمہور کی آزادی میں روڑے اٹکانے والی ہی رہتی ہے
جاوید ہاشمی اگر پاکستان کے سیاسی ، عدالتی ، سول و ملٹری نوکر شاہی کے ںظام کی بوسیدگی کے واقعتا قائل ہوتے اور اس نظام کو اصلاح پسندی کے ہی معنی میں سہی بدلنے کے قائل ہوتے تو وہ اس ںظام کے خلاف پورا سچ بولنے کو ترجیح دیتے اور اپنے سیاہ کارناموں پر توبہ کرتے اور ندامت کا اظہار کرتے ہوئے قوم سے معافی مانگتے لیکن وہ کفارہ ادا کئے بغیر باغی بننے چل نکلے اور آج بھی ان کی بغاوت نظام اور شخصیتوں کی آمریت کے خلاف ہونے کی بجائے زاتی خواہشات کے پورا نہ ہونے سے جنم لینے والے غصے کی عکاس زیادہ ہے اور اس بغاوت کا فائدہ انجمن نواز شریف بچاؤ تحریک کے لوگوں کو ہوا ہے
MULTAN: Javed Hashmi, the Paistan Tehreek-i-Insaf President, on Friday extended his support to Jamaatud Dawa chief Hafiz Saeed on whom the US recently placed $10 millionbounty for his alleged role in the 2008 Mumbai attacks.
Calling him a preacher of peace in the world, Hashmi said, that if something should happen to Hafiz Saeed, then the entire nation will be responsible.
He was addressing a public demonstration organised by the Difa-e-Pakistan Council in Ghanta Ghar Square in Multan on Friday. The gathering was also addressed by leaders of Jamaat-e-Islami, Lawyers community, Jamat-e-ahl-e-hadees, Ahle-SunnatWal-Jamaat, Jamiat ulema-e-Pakistan, and members of the Pakistan Muslim League-Nawaz.
Leading the ceremony, Hashmi said that he had spent his entire life with Prof Hafiz Saeed and Hafiz Abdur Rehman Makki at university as both were union leaders. They were one of the most pious students in the university, he vouched.
He further said that the services of the ‘most wanted’ men were for the welfare of the country and can never be forgotten. He said that a social worker can never be a terrorist but all those declaring him terrorist are the real threat to the peace of the world.
“I salute the workers of Jamaatud Dawa and their unity, their passion to fight for the honour of their leader who deserves respect and honour by all the Muslims of the world.”
The PTI president revealed that name of Difa-e-Pakistan council had been suggested by Hashmi and Prof. Hafiz Saeed had honoured me by declaring this as the final name of the council.
Hashmi added that in his experience, he found Prof Hafiz Saeed and Hafiz Abdur Rehman Makki always loyal, and dedicated to Islam, Muslim Ummah and Pakistan.
He concluded that every citizen of Pakistan will fight for Prof Hafiz Saeed and will become a Hafiz saeed if something happened to the JuD chief.
Hashmi further added that he had resigned from the parliament only because it had become the slaves of US, which like India, worked against the interests and people of Pakistan.
The participants in the gathering raised slogans against Obama, Hilary Clinton and United States and vowed their complete support to Hafiz Saeed and Jamaatud Dawa.
عامر حسینی کی وال پر اس مضمون کا لنک جب پوسٹ کیا گیا تو ایک صاحب ہمایوں کاسی صاحب نے اس پر یہ تنقید کی
Muhammad Hamayoun Kasi Aamir Hussaini sb Hashmi sb ki saakh or mazboot hue hey na ke kharab hue hey. Agar unbiased socha jaey tau aik bojot bari saazish ko peechey dhakailney par majboor kar dia hey is aadmi ne. Main maanta hun ke zia daur main ye student life main hashmi sb koi khaas paarsa nahin rahey hongey par yr jo inhon ne kaarnama kia hey puraney saarey gunah muaf ho gaey. Kamal kia is shakhs ne pichley 20 saalon main. Jab koi nawaz ke sath nahin tha or nawaz khud bhaag gaya tha is ne jailain kaati or party ko qaim rakha phir jab nawaz ka daur aya or nawaz taqat main aaney laga tau is shakhs ne iqtadar ko laath maari or yahi ab is ne PTI main kia. Mujhey ehsas hey ke aap logon ke umeedon par paani phair dia is aadmi ne tau aap ki thori bohot narazgi tau banti hey. Ab agar yahi shakhs khamosh rahta or merey aziz hum watnon ka elaan ho jata tau aap log aaram se beth jaatey. Allah allah khair sallah ya shayad bhangrey dalna shuru kar detey ke naam nihad jamhooriat ka khoon hogaya chalain holi manatey hain. Ye jamhooriat premature hey or bohot khamian hain is main mahar phir bhe booton walon se laakh behtar hey. Magar aapko kia or apko kia qadar jo auraten or mard vote ke din subha se shaam thak shadid garmi main apni raey ke izhar ke liey kharey rahey apko unki raey ka ehtaram kahan aap tau cricketer or madari mullah se socialist inqalab ki umeed lagaey betey hain or inko Lenin or Mao samajh rahey hain. Main khud socialism ka hami hun or is nizam se shadid ikhthalaf hey jo is waqt hey par uska tareeqa asal socialist tehreek hey na ke madarion se umeed lag
جس کا جواب عامر حسینی نے یوں دیا
Muhammad Hamayoun Kasi یہ جو کی پیڈ پر انگیاں چلاتے وقت کسی کے بارے میں زبردستی کوئی باتثھنسنے کا رویہ ہوتا ہے نا آپ کا یہ کمنٹس اس کی بہترین مثال ہے اور اس بات کی عکاسی بھی کرتا ہے کہ آپ نے موجودہ سارے بحران پر نہ تو میری تحریریں ملاحظہ کی ہیں اور نہ ہی اس پورے سیاسی بحران پر آپ نے میری رائے کو دیکھا ہے چونکہ آپ کو اپنے مطلب نگالنے کی جلدی تھی تو آپ نے وہ مطلب نگال ڈالا ، میں نواز شریف کو اینٹی اسٹبلشمنٹ اور جمہوریت کا چمپئن نہیں سمجھتا ، وہ جب سے اقتدار میں آیا اس نے پارلیمنٹ کو بے مقتدر کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی ، دوسرا اس نے اس اقتدار کے زریعے سے کرونی کیپٹلزم کو مضبوط سے مضبوط کرنے کا وتیرہ اختیار کیا ، تیسرا اس نے اپنے سے اختلاف کرنے والوں کو بند گلی میں دیکھلنے کا پورا پورا اہتمام کیا اور تیسرا یہ کہ اس نے اور اس کے بھائی نے اپنے مخالفوں کی لاشیں تک گرانے سے گریز نہیں کیا اور اس کی شخصی آمریت اور انانیت پسندی کی کسی بھی قیمت پر حمائت نہیں کی جاسکتی ، اس نے ان تین دنوں میں جس قدر شیلنگ ، سٹیل ربڑ کوٹڈ گولیاں اور ڈنڈے عوام پر برسائے اور تین لوگوں کی جان لی اور ہزار سے زائد کو زحمی کیا اس کی کسی بھی طرح سے حمائت نہیں کی جاسکتی اور پھر اس نے یہ سازش کی کہ کئی ایک جگہ سے پولیس کو جان بوچھ کر ہٹايا ،مقصد یہ تھا کہ اچتجاج کرنے والوں پر فوج فائر کھول دے 245 آرٹیکل کے تحت فوج کے حوالے اسلام آباد کرنے کا مقصد بھی یہی تھا اور اس نے فوج سے ایک جو سرد جنگ کھیلی اس سرد جنگ کے پیذجے پارلیمانی جمہوریت اور عوامی طرز حکومت کو مضبوط کرنا نہیں تھا بلکہ یہ تو اپنی زات کی خاطر جنگ لڑی جارہی تھی ، نواز شریف تو اتنا گٹھیا آدمی ہے کہ اس نے اپنے اقتدار کو بچانے کے لیے دیوبندی تکفیری دھشت گردوں تک کی مدد حاصل کی اور اس نے جس طرح سے صحافیوں ، وکیلوں ، ججز کو پیسے بانٹے وہ بھی سب آب کوئی راز نہیں رہا ،ہم نے کبھی ملٹری اسٹبلشمنٹ ، عدالٹی اسٹبلشمنٹ اور سول نوکر شاہی کے تلوے نہیں چاٹے
نہ کل نہ آج ، جاوید ہاشمی نے تو ملٹری جنتا کے اقتدار اور پھر نواز شریف کے ملٹری جنتا کے ساتھ ملکر بھوپور اقتدار کے سارے مزے لوٹے وہ آج مین سٹریم پالٹیکس میں ہی جرنیل شاہی کے تلوے چاٹنے کی وجہ سے اور ہماری کسی سے کوئی امید نہ کل قآئم تھی نہ آج ہے ، نواز شریف اگر اینٹی اسٹبلشمنٹ ہوتا تو تین مرتبہ راحیل شریف سے نہ ملتا اور اس کو سہولت کار یا ثالث نہ بناتا۔ میں نے قادری یا عمران خان کو کبھی سوشلسٹ نہیں کہا لیکن چمہوریت زادوں پر میری یہ تنقید اب بھی موجود ہے کہ جب وہ سسٹم کو ڈی ریل نہ کرنے کی باتیں کرتے ہیں تو اصل میں وج اس اشراف زادی جمہوریت کے اس کلچر کو باقی رکھنے کی بات کرتے ہیں جو صرف اشراف کو ڈیلیور کررہی ہے ، سوشل ڈیمکریسی کا نیو لبرل ماہرکیٹ ماڈل سے نگاح کل بھی غلط تھا اور آج بھی غلط ہے اور ریاست کی طاقت اور اس کے جابر میشنری اداروں سے عوام کو کرش کرنے کی اپیل جو بھی کرے وہ سب کچھ ہوسکتا ہے مگر نہ تو ڈیموکریٹ ہوسکتا ہے نہ ہی انسانی حقوق کا علمبردار اور مارکسسٹ ہونا تو بہت دور کی بات ہے ، جتنے نام نہاد جمہوریت بچاؤ تحریک کے مامے چاچے ہیں وہ سب کے سب اس ںظام کے بینفیشریز ہیں اور اسی لیے اس کو بچانے کے لیے سرگرداں ہیں ،اور یہ وہ ہیں جو کارپوریٹ سرمایہ کی سول پرتوں کی بربریت ،ظلم اور لوٹ مار کو ملٹری کارپوریٹ سرمایہ کی لوٹ مار سے کمتر بلکہ اس کو لوٹ مار کہتے ہی نہیں ہیں کیونکہ وہاں سے ان کو زبردست فوائد مل رہے ہیں ،یہ جو اشراف زادوں نے اشڑاف زادی جمہوریت کے تحفظ کا شور مچا رکھا ہے اس کی اوقات سب کو معلوم ہے ، اس کا تماشہ سب دیکھ رہے ہیں ، اور یہ پول بھی سب کو معلوم ہے کہ کیسے سول اور ملٹری کارپوریٹ سرمایہ کے علمبرداروں نے بلوچستان ، سندھ ، خیبر پختون خوا گلگت بلتسان ميں آئل ، گیس ، کوئلہ ، اور دیگر معدنیات سے مستفید ہونے ميں ایک دوسرے سے معانقہ کیا ہوا ہے اور اگر ملٹری ،رینجرز ، ایف سی نہ ہو تو نہ ہی ملٹی نیشنل اور نہ ہی مقامی سرمایہ دار کمپنیاں اسقدر بڑے پیمانے پر وسائل کی بندر بانٹ کرسکیں وہآن یہ جو جمہوریت پسندی اور آمریت پسندی کی تقسیم ہے کہاں چلی جاتی ہے اور اس پر اچگوئی بھی خاموش اور مالک بھی چپ ، نہ ایاز لطیف پلیجو بولے نہ اسفند یار ولی کی آواز نکلے ، یہ جو جمہوریت بچاؤ ،جمہوریت بچاؤ کے نعرے ہیں نا سوائے نواز شریف بچاؤ اور اپنے اپنے سٹیک بچآؤ کے سوا کچھ بھی نہیں ہیں ، ہم تو اس سارے نظام کو ننگا کرتے ہیں اور اس ںظام کے اندر عام آدمی کی جو گت بنتی ہے اس پر سراپا احتجاج بھی ہیں اور اس کی قلعی بھی کھولتے ہیں ، ہم جمہوریت کے نام پر کبھی نواز شریف کے دستر خوان سے لقمے نہیں اٹھاتے اور کبھی عدلیہ بچاؤ تحریک کے نام پر سپریم کورٹ بار کی صدارت کا پرکشش عہدہ نہیں لینے بھاگ جاتے ، ہم یہ بھی نہیں کرتے کہ بلوچستان میں فوج کو ولن اور وزیرستان میں ھیرو بنا ڈالیں ، اور یہ بھی نہیں کرتے کہ جمہوریت کے نام پر ملک اسحاق ، محمد احمد لدھیانوی اور اورنگ زیب سے ہاتھ ملالیں ، اندھے ہم نہيں بلکہ یہ نام نہاد سرخے ، نام نہاد سول سوسائٹی کے علمبردار ، این جی اوز کے دلال ، سامراج کی ایجنٹی پر نازاں اور مارکسی فلسفے کی الٹیاں کرکے نواز شریف کے چرنوں مين بیٹھنے والے ، اپنے باپ عبداصمد خان اچکزئی کے خون کی قیمت نواز شریف سے آٹھ عہدے لیکر اور پھر اس آئین اور اس فیڈریشن کے تحفظ کی قسمیں کھانے والے ہیں جس کو وہ کبھی انگریز کی سازش اور کبھ؛ی پنجابیوں کی سازش کہا کرتے تھے
After for years calling everything a conspiracy of ISI, now this chutia blog has taken a U turn and has started to support Imran Khan ( once they alleged that he was ISI construct and a fascist). Now suddenly, these chutias have started to call him a democrat and all other as “talibani military” establishment.
Kuch to sharam karo kanjaro
begharait kutto
During PPP, LUBP used to call every critic as an ISI agent. It was said that ISI was conspiring against PPP and indulging in Shiites massacre everywhere. Now suddenly PML N has become the main culprit and ISI has become a supporter of Shiites. wah je wah
Now according to LUBP , PPP has also become anti Shiite. Besharamo ab PPP per bhee ilzam lagate ho
Chutio, itni himmat ttu tum logon mein hai nayee ke apne naam se kuch likh sakho aur bakwas woh karte ho.
Abbas Taj
Aik dum beghairat ho tum
Just see your own previous articles and go to hell
– See more at: https://lubp.net/archives/322067/comment-page-1#comment-1730088
Aamir Hussaini
میں نے اپنے آرٹیکل میں زرا زیادہ معروضی انداز اپنایا اور بہت سی باتیں جاوید ہاشمی کے بارے میں نہیں لکھیں اور اس لیے کہ مقصد اس کی زات بارے باتیں کرنا نہیں تھا لیکن یہ سچ ہے کہ ضیاء الحق سے لیکر جنرل جیلانی اور وہاں سے نواز شریف تک جاوید ہاشمی نے بہت سے زاتی فائدے اٹھائے ، جامعہ زکریا کا سینڈیکیٹ کا ممبر اپنی بیٹی میمونہ ہاشمی کو بنایا جس نے میمونہ پوسٹ گریجویٹ کالج بناکر اس سنیڈیکٹ کا ممبر ہونے کے ناتے بہت سے فوائد اٹھاۓ جس میں کالج کا الحاق اور یگر چیزیں شامل ہیں ،
جاوید ہاشمی جب وزیر صحت تھے تو ملتان کے صحافیوں کو موصوف ویاگرا کی گولیاں بھی بانٹتے رہے اور بتاؤں کہ یہی جاوید ہاشمی بہت فخر سے جنرل غلام جیلانی سے اپنی نیاز مندی پر فخر کرتے تھے اور یہ بھی سن لیں کہ راشد قریشی نے ان کو دی جانے والی ان رقموں کی رسید بھی میڈیا کو دکھائیں تھیں جو بطور اسلامی جمعیت طلباء کے ناظم کے طور پر ان کو دی جاتی رہیں تھیں ، اور یہ بھی سن لو کہ چوہدری ظہور اللہی نے جن طلباء سیاسی لیڈروں کو اپنی جیب خاص سے وظیفہ دینے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا تھا ان میں جاوید ہاشمی بھی تھے ،پی پی پی کے کارکنوں پر جہانیاں میں انھوں نے زمین تنگ کررکھی تھی رانا مسرت پردرجن بھر سے زیادہ مقدمے بنائے گئے جب یہ بے نظیر بھٹو کے خلاف بکواس کرنے سے باز نہ آیا تو پی پی پی کے کارکنوں نے اس کا نام “جاپانی کھسری “رکھ ڈالا اور ہر جلسے میں اس کو چیلنچ کیا جاتا کہ آکر وہ جنرل جیلانی کی گود سے باہر آکر سیاسی طریقے سے مقابلہ کرسکتا ہے تو کرے لیکن اس میں اتنی ہمت کہاں تھی کہ یہ ایسا کرتا