سندھ میں کالعدم دیوبندی دہشت گرد تنظیم اہل سنت والجماعت کا ابھار – از محمد بن ابی بکر
posted by Muhammad Bin Abi Bakar | August 24, 2014 | In Featured, Original Articles, Urdu Articlesمحرم الحرام کے موقعہ پر سندھ میں انٹیلی جنس اداروں کو اطلاعات موصول ہوئی تھیں کہ لشکر جھنگوی سے تعلق رکھنے والے خود کش بمبار اندرون سندھ کئی ایک شہروں میں عاشور کے جلوسوں کو نشانہ بنانا چاہتے ہیں جس پر قانون نافذ کرنے والے اداروں نے دستیاب معلومات کی روشنی میں کاروائی شروع کی جس کے نتیجے میں سندھ کی سابق ریاست خیرپور سے چھے خود کش بمبار اور ٹھٹھہ سے ایک خودکش بمبار کو گرفتار کیا گیا اور گرفتار ہونے والے افراد سے پوچھ گچھ کے نتیجے میں یہ بات سامنے آئی کہ ان خودکش حملہ آوروں ،ان کو تربیت دینے والوں اور ان کے لیے ٹارگٹ سیٹ کرنے والوں کا تعلق دیوبندی مکتبہ فکر سے ہے اور یہ سب کالعدم تنظیم سپاہ صحابہ پاکستان جو اب اہل سنت والجماعت کے نام سے کام کررہی ہے سے وابستہ ہیں اور ان کا ان کا بنیادی ہدف صوفی اہل سنت ، اہل تشیع ، ہندؤ وغیرہ ہیں اور سب سے اہم بات یہ تھی ان 7 خود کش بمباروں میں سے 5 سندھی بولنے والے تھے جبکہ قبیلے کے لحاظ سے یہ بلوچ بھی تھے اور مقامی سندھی بھی تھے
اس سے پہلے چیف منسٹر قائم علی شاہ کی صاحبزادی نفیسہ شاہ کے جلسے پر جو جملہ ہواتھا اس کا ماسٹر مائنڈ بھی دیوبندی دھشت گرد جماعت اہل سنت والجماعت سے تھا اور حملہ آور بھی اسی تنظیم سے تعلق رکھنے والے تھے جس میں سندھی مقامی نوجوانوں کی بڑی تعداد بھی شامل تھی
سندھ کے شہروں اور گوٹھوں میں دیوبندی تنظیم اہل سنت والجماعت میں پہلے عمومی طور پر پنجابی ، یوپی ،سی پی ،راجھستان ،ہریانہ سے ہجرت کرکے آنے والے مہاجروں کی اولاد اور بعض بعد میں آکر بسنے والے پنجابی اور پشتون کی بڑی تعداد شامل ہوتی تھی جبکہ سندھی بولنے والوں کی بہت کم تعداد اس تنظیم میں شامل تھی لیکن یہ صورت حال بہت تیزی سے تبدیل ہورہی ہے
اندرون سندھ میں قیام پاکستان سے قبل ہی دارالعلوم دیوبند کا اثر موجود ہے اور اندرون سندھ میں ایک طرف تو عبید اللہ سندھی نے دیوبندی مکتبہ فکر کو پروان چڑھایا تو دوسری طرف جمعیت العلمائے ہند کا اثر ورسوخ یہاں پر تیزی سے بڑھا لیکن سیاست میں جمعیت العلمائے ہند کے دیوبندی مولویوں کا کردار اندرون سندھ زیادہ سے زیادہ ہندؤں کے خلاف فرقہ پرستانہ رہا جس کے پیچھے سندھ پر ہندؤ کاروباری اور ہندؤ بیاج خوروں اور انڈین سول سروس میں ہندؤں کا غلبہ ہونا تھا لیکن جعمیت العلعمائے ہند کے دیوبندی مولوی کبھی بھی سندھ کے اندر موجود صوفی صلح کل کلچر اور یہاں بسنے والے مختلف مسالک کے باہمی تفاعل سے جنم لینے والی عمومی اسرار پسند فضا کے خلاف سرگرم عمل نہیں ہوئے تھے اور نہ ہی تقسیم ہند سے قبل سندھ کی فضا میں کوئی شعیہ یا صوفی سنّی اسلام کے خلاف سندھ کے دیوبندی مدارس اور مساجد میں کوئی مہم چلتی نظر آتی ہے
ایک عمومی نکتہ نظر یہ پایا جاتا ہے کہ تقسیم ہند سے قبل سندھ ، سرائیکی اکثریت کے علاقوں میں صوفی ازم اور اہل تشیع کے خلاف کوئی اجتماعی تحریک وجود نہیں رکھتی تھی بس بہاول پور ریاست کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ وہاں نواب آف بہاول پور کی مرضی سے فرقہ وارانہ فضا اس لیے استوار ہوئی کہ نواب آف بہاول پور نے ریاست بہاول پور کے عدالتی نظام کو شرعی بنانے کے لیے دارالعلوم دیوبند سے مولویوں کو بلایا جن میں خلیل احمد انبٹھوی قابل زکر ہیں جس کے خلاف مولوی احمد رضہا خان بریلوی نے کفر کا فتوی دیا تھا اور خلیل احمد انبٹھوی مشاغل تصوف سمیت صوفی ثقافت کے بہت سے اجزاء کو بدعت اور غیر اسلامی گردانتے تھے
تقسیم کے بعد جب یو پی ، سی پی ، راجھستان ، ہریانہ سے مسلمانوں کی بڑی آبادی ہجرت کرکے سندھ ،سرائيکی ریجن میں آباد ہوئی تو ان میں سے اکثر یا تو بریلوی مسلک سے تعلق رکھتے تھے یا دیوبندی سنّی تھے اور بہت سے شیعہ مسلک سے تعلق رکھتے تھے تو پہلی مرتبہ ایک طرف تو دیوبندی – بریلوی تنازعے میں شدت پیدا ہوئی تو دوسری طرف شیعہ -دیوبندی تنازعہ بھی شدت سے ابھر کر سامنے آیا اور خیر پور میں تو 60ء کی دھائی میں عاشور کے جلوس پر وحشت ناک دھشت گرد حملہ کیا گیا تھا اور عاشور کے اس جلوس کے شرکاء سنّی اور شیعہ دونوں تھے
احمد علی جو کہ قائد اعظم یونیورسٹی سے انتھروپالوجی میں ڈاکٹریٹ کئے ہوئے کہتے ہیں کہ ہندوستان سے ہجرت کرکے آنے والے سنّی بریلوی اور اہل تشیع تو بہت آسانی کے ساتھ سندھی کلچر سے مانوس ہوگئے لیکن دیوبندی بوجہ اس کلچر میں جذب نہ ہوسکے بلکہ انھوں نے سندھ میں قائم پہلے سے دیوبندی مدارس اور مساجد کو بھی مشکل سے دوچار کیا اور یہاں کے سندھی دیوبندی مسلک کے ماننے والوں کی صلح کلیت اور مذھبی ہم آہنگی پر کاری ضرب لگائی
احمد علی کا کہنا ہے کہ کراچی میں ہجرت کرکے جو دیوبندی علماء یوپی سے آئے اور جن کا تعلق دارالعلوم دیوبند سے بہت گہرا تھا انھوں نے کراچی میں دارالعلوم کراچی کی جو بنیاد رکھی وہاں سے سندھی کلچر کی صلح کل اور مذھبی و نسلی ہم آہنگ فضا کے خلاف ایک ردعمل کا آظہار ہوا اور کراچی سے یہ دیوبندی علماء مسلم لیگ کی غیر جمہوری ، جاگيردارانہ اور قبضہ گیرانہ سیاست کے جواز کے لیے فرقہ واریت اور مذھبی منافرت پھیلانے والی تحریک کا ہر اول دستہ بن گئے ،اگرچہ سنّی بریلوی مولوی بھی اس حوالے سے کسی نہ کسی طرح مسلم لیگ کی کشتی میں سوار تھے
احمد علی اس حوالے سے دیوبندی مولوی شبیر احمد عثمانی ، مفتی محمد شفیع اور ظفر احمد انصاری سمیت کئی ایک دیوبندی مولویوں کا نام لیتے ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ مسلم لیگ کے قریب آجانے اور حکومت وقت کی مراعات سے لطف اندوز ہونے میں دیوبندی مہاجر مولویوں کا حصہ سنی بریلویوں سے کہیں زیادہ ہوگیا تھا اور مسلم لیگی مشاہیر اور وزراء اور جاگیردار اشراف سے کیک کا زیادہ حضہ دیوبندی مہاجر مولویوں کو جانے کے سبب ہی بریلوی مولوی حامد بدایونی اور ان کے دیگر ساتھکوں نے ملکر جمعیت العلمائے پاکستان کی بنیاد رکھی اور حامد بدایونی اس بات پر بھی سخت نالاں تھے کہ مسلم لیگ کی حکومت شبیر عثمانی کو مفتی اعظم پاکستان اور شیخ الاسلام کا لقب کیوں دے رہی ہے اور اس منصب پر تو ان کو ہونا جاہئیے تھا
اس زمانے کی اگر مہاجر دیوبندی پالٹیکس کو دیکھا جائے تو وہ مسلم لیگ کے جاگیرداروں سے ملکر چل رہی تھی ، پہلے یہ لیاقت علی خان کے ساتھ ہوئی اور پھر یہ گورنر جنرل غلام محمد کے ساتھ ہوئی اور دلچسپ بات یہ ہے دارالعلوم کراچی نے ہی ایوب خان کا ساتھ دیا اور پھر یہ دارالعلوم جنرل ضیاء الحق کا بھی حواری بن گیا
اس زمانے میں اندرون سندھ کے جو دیوبندی مدارس تھے وہاں پر قوم پرست سیاست غالب تھی اور یہی حال صوبہ خیبرپختون خوا کا بھی تھا اور وہاں پر بھی دیوبندی پختون علماء کانگریسی ،قوم پرستانہ اور سوشلسٹ پس منظر کے حامل تھے اور سب سے زیادہ دلچسپ بات یہ ہے کہ سندھی ،پشتون ،یہاں تک کہ سرائیکی خطے کے جو دیوبندی علماء تھے ان کی اکثریت تصوف اور اشغال تصوف سے جڑی ہوئی تھی اور وہ وہابیت کے سخت مخالف تھے
سوات سے تعلق رکھنے والے اور کراچی میں مقیم معروف ماہر تاریخ سوشلسٹ سرتاج علی اس حوالے سے بہت دلچسپ انکشافات کرتے ہیں
ان کے مطابق سوات سمیت پورے پشتون خوا میں پشتون آبادی کی اکثریت کے عقائد و نظریات کئی صدیوں سے وہی تھے جن کو صوفی سنّی اسلام سے تعبیر کیا جاتا ہے اور یہاں پر وہابیت کے بیج تو ہندوستان سے آئے تھے ،وہ کہتے ہیں کہ یہ شاہ اسماعیل دھلوی ،سید احمد آف رائے بریلی اور ان کے ساتھ آنے والے دلی ،یو پی ،سی پی اور بنگال سے آنے والے مجاہدین تھے جو اپنے ساتھ خیبر پختون خوا میں وہابی اور تصوف مخالف خیالات کے ساتھ وارد ہوئے تھے اور وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ مخصوص حالات جن میں خاص طور پر افغان وار اور پھر افغان وار کے بعد پاکستان سمیت اس خطے کے دیگر ملکوں کی پراکسیز اور سعودی عرب کی جانب سے مسلسل دیوبندی مدارس کی سرپرستی نے خیبرپختون خوا میں دیوبندی آبادی کے اندر شدت پسند شیعہ مخالف ، صوفی سنّی اسلام مخالف جذبات اور خیالات کو راسخ کیا
سندھ میں بتدریج مقامی سندھی اور بلوچ قبیلوں کے اندر ایک طرف تو سخت گیر دیوبندی اسلام کی ترویج شروع ہوئی اور یہ بات سخت گیر دیوبندیت تک آکر نہیں رکی بلکہ اس سے آگے بڑھ کر تکفیر اور دھشت گردی کے دیوبندی برانڈ تک بات چلی گئی
دی نیشن ڈیلی سے وآبستہ ایک معروف صحافی کا کہنا ہے کہ سندھ کے جنوبی اضلاع جن میں خیر پور ،لاڑکانہ ، دادو اور پھر بلوچستان کی سرحد پر واقع جیکب آباد ،کشمور اور وسطي سندھ ميں سکھر ،شہداد پور ،پنوں عاقل ،نواب شاہ ،ٹنڈو آدم ،حیدر آباد اور کراچی سب جگہ پر اہل سنت والجماعت تیزی سے پھیل رہی ہے اور اس تنظیم جہاں مہاجر ،پنجابی شامل ہیں وہیں پر اس ميں سندھی بھی بڑی تعداد میں شامل ہورہے ہیں
ان کا کہنا ہے کہ میر ہزار خان بجارانی ،جمن شاہ، آفتاب شعبان میرانی سمیت سندھ کے درجنوں سیاست دانوں اور وڈیروں پر اہل سنت والجماعت کے لوگوں نے حملے کئے اور حملے کرنے والوں میں زیادہ تر سندھی مقامی نوجوان ملوث تھے
سندھی مقامی قبیلے ہوں کہ سندھی بلوچ ہوں اب ان میں تیزی سے ایسے نوجوانوں کی تعداد میں اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے جن کا تعلق دیوبندی تنظیم اہل سنت والجماعت سے ہے اور وہ عسکریت پسندی ،دھشت گردی کی طرف مائل ہیں
معاملہ صرف سولنگی جیسے غریب سندھیوں اور کمدار سندھیوں کی اہل سنت والجماعت میں شمولیت تک محدود نہیں رہا بلکہ کیا میرانی ،کیا مری ،کیا رند ،کیا بجارانی سب قبیلوں میں ایسے نوجوان پائے جاتے ہیں جو دیوبندی مسلک کے سب سے زیادہ شدت پسند اور انتہا پسند حلقے کی ترجمان تنظیموں کے ساتھ وابستہ ہیں جن میں اہل سنت والجماعت سرفہرست ہے
سندھی اخبار کاوش کے ایک سئنیر صحافی جو مسلسل اہل سنت والجماعت دیوبندی تنظیم کی سرگرمیوں کی رپورٹنگ کررہے تھے دھمکیاں ملنے اور خطرات بڑھ جانے کی وجہ سے دبئی منتقل ہوگئے نے بتایا کہ
اندرون سندھ اب یہ تمیز کرنا مشکل ہوچلا ہے کہ اہل سنت والجماعت کہاں ختم ہوتی ہے اور جے یوآئی ایف کہاں شروع ہوتی ہے دونوں کے کارکن مکس اپ ہوگئے ہیں جب کبھی معاملہ شیعہ ،صوفی سنّی سے ہوتا ہے تو یہ یک دم اہل سنت والجماعت بن جاتے ہیں اور اس معاملے پر سابق سینٹر ڈاکٹر خالد سومرو اور اورنگ زیب فاروقی میں کوئی فرق نظر نہیں آتا
صوفی سنّی تنظیموں کی سیاست میں دلچسپی رکھنے والے کئی ایک سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ اگرچہ سندھ اور کراچی مں دعوت اسلامی ،سنّی تحریک دو موثر تنظیمیں ہیں لیکن ابھی تک صوفی سنّی مسلک کی جانب سے دیوبندی شدت پسند اور انتہا پسند سیاست کے خلاف موثر چیلنج سامنے نہیں آسکا ،جس کی ایک اہم وجہ ان تجزیہ نگاروں کے نزدیک اندرون سندھ اور کراچی کے اکثر صوفی سنّی مدارس کی کمزور مالی پوزیشن اور جدید ٹیکنالوجی سے ناآشنائی اور دوری بتائی جاتی ہے جبکہ میڈیا میں صوفی سنّی میڈیا آوٹ لیٹس نہ ہونے کے برابر ہیں
لیاری سے تعلق رکھنے والے کئی ایک پرانے بلوچ سیاسی کارکنوں اور صحافیوں نے بتایا کہ لیاری صوفی سنّی اسلام کی اکثریت کا علاقہ ہے اور یہاں پر صوفی کلچر سے بے تحاشہ محبت موجود ہے لیکن گذشتہ دس سالوں میں اس علاقے کے افراد دیوبندی انتہا پسند تنظیم کالعدم سپاہ صحابہ /اہل سنت والجماعت کے ہاتھوں یرغمال بنپتے جارہے ہیں اور یہاں پر شیعہ اور صوفی سنّی اسلام کے خلاف منافرت میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے اور بلوچ نوجوانوں کو دیوبندی انتہا پسند بنائے جانے کا سلسلہ جاری ہے
سندھ میں پاکستان پیپلزپارٹی کی حکومت ہے لیکن پاکستان پیپلزپارٹی سندھ میں تاحال اہل سنت والجماعت کے خلاف کوئی کاروائی کرنے پر تیار نظر نہیں آتی
ہم نے نفیسہ شاہ ،آفتاب شعبان میرانی ،میر ہزار خان بجارانی سمیت کئی ایک پی پی پی کے سرکردہ رہنماؤں سے اس معاملے پر بات کی اور قابل غور بات یہ ہے کہ یہ سب صوفی سنّی اسلام سے تعلق رکھتے ہیں اور یہ نجی محافل میں دیوبندی تکفیری دھشت گردوں کی جانب سے ان کو کبھی خط ،کبھی ایس ایم ایس اور کبھی فون کالز کے زریعے دھمکیاں دئے جانے کا زکر کرتے ہیں جبکہ ہمیں باوثوق زرایع سے معلوم ہوا کہ ان پر نوکریاں دینے کے لیے بھی دباؤ ڈالا گیا اور یہاں تک کہ پولیس کے محکمے میں دیوبندی دھشت گردوں نے اپنے لوگ بھرتی کرانے کی کوشش تک کی
لیکن یہ کھل کر اہل سنت والجماعت کے خلاف کوئی کاروائی کرنے ،اس پر پابندی لگانے اور اس کی قیادت کو گرفتار کرنے سے قاصر ہیں
پی پی پی کے آیک انتہائی بااثر اور آصف علی زرداری کے قریب سیاستدان نے انکشاف کیا کہ سابق ڈی آئی جی سندھ شاہد حیات کو ہٹائے جانے کی ایک وجہ یہ تھی کہ وہ دیوبندی تکفیری گروپوں کے بہت سے شدت پسند گروپوں کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کررہا تھا
خیر پور سندھ میں جب اہل سنت والجماعت کا نیٹ ورک براہ راست چیف منسٹر قائم علی شاہ کے لیے خطرہ بنا تو وہاں پر ڈی پی او تبدیل کرکے ایسا ڈی پی او لایا گیا جس نے آتے ہی بہت سے پولیس انکاؤنٹر لشکر جھنگوی کے خلاف کئے اور بہت سے دیوبندی شدت پسندوں کو جیل میں ڈالا لیکن پی پی پی سندھ کی حکومت سندھ میں موجود تکفیری خوارج کی پروپیگنڈا مشین اور نفرت انگیز تقریروں کے زریعے مذھبی منافرت پھیلانے والی تنظیم اہل سنت والجماعت کے نیٹ ورک پر پابندی لگانے اور اس کی جملہ قیادت کو گرفتار نہیں کررہی اور اس طرح سے مرض کی جڑ کو ختم کرنے کی بجائے علامتوں کو ختم کیا جارہا ہے
ہم نے جب اس حوالے سے اس متھ کے بارے میں چند سندھی دانشوروں سے بات کی کہ سندھ میں سندھی نیشنلزم کا سیکولر اور غیرفرقہ وارانہ امیج اور اس کی جڑیں اس قدر مضبوط ہیں کہ فرقہ وارانہ عناصر یہاں غلبہ نہیں پاسکتے تو چند ایک نے یہ کہا کہ سندھی قوم پرستانہ سیاست سندھ کی پی پی پی سمیت دیگر نام نہاد قومی پارلیمانی جماعتوں کی سیاست کی طرح کریمنلائزیشن کا شکار ہے اور یہ اندرون سندھ میں دیوبندی تکفیری دھشت گرد سیاست کو چیلنج کرنے اور اس کے ابھار کو روکنے میں ناکام رہی ہے اور اسی لیے یہ متھ ختم ہوتی جارہی ہے کہ سندھی نوجوانوں کے لیے فرقہ پرست دھشت گرد جماعتوں اور اس کے ردعمل میں اٹھنے والی شدت پسند مذھبی سیاست کے اندر کوئی دلچسپی نہیں ہے
http://www.saach.tv/2012/12/20/three-militants-arrested-in-khairpur/
http://www.satp.org/satporgtp/countries/pakistan/sindh/timeline/index.html