Don’t leave the masses in the PAT and PTI sit-ins alone: An open letter to PPP’s co-chairman Asif Ali Zardari
Author: Ammar Kazmi
One can disagree with PTI’s leader Imran Khan and PAT’s leader Dr Tahir Ul Qadri but their followers and supporters have demonstrated exemplary patience, calmness and commitment to change. All of those present in the Azadir and Inqilab rallies (sit-ins) in Islamabad are there for a change. Therefore, in my opinion, the PPP, one of Pakistan’s largest political parties, must not leave these people alone. Their demnds are just: they are seeking justice for the 14 innocent, unarmed PAT activists killed by Shahbaz Sharif government in Lahore. PTI activists have been demanding recounting in four seats where blatant rigging took place under the auspice of PMLN-influenced judiciary, bureaucracy and caretaker government. They have not received justice and the sit-in was their last resort. They have lost hope and trust in the system. And that’s why I want former president and PPP leader Asif Ali Zardari and his son Bilawal to stand with masses.
زرداری صاحب، اگر آپ نواز شریف کی آئی جے آئی ٹائپ حکومت کو بچانے کے لیے جاتی عمرہ جائیں گے، تو پی پی پی کے کارکن پارٹی کا جھنڈا لہراتے ہوۓ اسلام آباد دھرنوں میں شریک ہونگے – عمار کاظمی
ایک جیالا ہونے کے ناتے قیادت کی ناکام اور غلط پالیسیاں جن سے پیپلز پارٹی کی تباہی ہو رہی ہے ان پر تنقید ہمارا جمہوری حق ہے۔ یہی پیپلز پارٹی اور دوسری سیاسی جماعتوں کا فرق بھی ہے۔ ورنہ اگر سو فیصد ہاں میں ہاں ملانے والے اکٹھے ہو جائیں، شہیدوں کی قربانیوں اور جمہوریت دونوں ہی بے مقصد ہو کر رہ جائیں گی۔ آپ تیار رہیں۔ اگر یہ دھرنا ختم نہیں ہوتا تو ہم دھرنے میں ترنگا لے کر ضرور جائیں گے۔
میں اس سے قبل بھی اس بات کا اظہار کر چکا ہوں کہ مجھے طاہرالقادری یا عمران خان سے کچھ لینا دینا نہیں ہے۔ مگر یہ آئی جے آئی کی طرز کا مینڈیٹ اور ضیا کی طرز کا عوامی قتل عام کبھی برداشت نہیں ہو سکتا۔ یہی بھٹو، بے نظیر کی سوچ تھی۔ ہاں ہم اس سوچ کو بہت اچھی طرح جانتے ہیں۔ بھٹو، بے نظیر کی سوچ کو جاننے کے لیے ہمیں کسی کی ضررت نہیں۔ زرداری صاحب سے بھی یہی گزارش کی ہے کہ وہ عوامی جماعت کو عوامی ہی رہنے دیں
اگر پیپلز پارٹی کی حکومت کے خلاف اس سے آدھے لوگ بھی اسلام آباد میں اکٹھے ہو جاتے تو جمہوری حکومت کو اس سے بہت پہلے گھر بھیجا جا چکا ہوتا۔ اسٹیبلشمنٹ آج بھی نواز کے ساتھ کھڑی ہے۔ مگر لوگوں کو بتایا جاتا ہے کہ یہ اینٹی اسٹیبلشمنٹ جماعت ہے۔
Noor E Maryam’s status on facebook:
Mosques of Rawalpindi giving sermons.. ‘fighting against Govt is against Islam’
Religious extremist orgs holding pro-democracy rallies, slogans being chanted ‘shia kaafir’ and also sit-in by the civil society who were never present for Mama Qadeer march for missing persons or for the family of Zahid Baloch.
Enough and clear msg which side military establishment is now.
دوستوں کے ساتھ، مشوروں اور نیک تمناوں کا تہہ دل سے مشکور ہوں۔ بھٹو بے نظیر کو صرف ان کے نظریات زندہ رکھ کر زندہ رکھا جا سکتا ہے۔ حسینی بھاءی نے میری وال پر ایک بہت خوبصورت اور تاریخی تجزیہ پوسٹ کیا ہے۔ جو لوگ پیپلز پارٹی کی اصل اور تاریخی اساس سے ناواقف ہیں وہ یہ تحریر ضرور پڑھیں۔ ہمارا مقصد صرف طاہرالقادری اور عمران خان کے جاءز مطالبات کا ساتھ دینا نہیں ہے بلکہ ہمیں اس حریت کو بھی زندہ رکھنا ہے جو ہماری میراث ہے۔ یہ زبان جو صرف سچ کے حق اور نا انصافی کے خلاف بولنا جانتی ہے یہ ہمیں بھٹو اور اس کی بیٹی سے ہی ملی ہے۔ بھٹو بے نظیر نظریات مفاہمت پر مبنی ہو سکتے ہیں منافقت پر نہیں۔ اگر وہ اسی طرز کی منافقانہ اور مفاہمانہ سیاست کرتے تو آج دونوں باپ بیٹی زندہ ہوتے۔ ہو سکتا ہے کہ ہم ابتدا میں کم ہوں مگر درحقیقت پیپلز پارٹی کا ہر مخلص شخص موجودہ قیادت کے غیر معقول، غیر مقبول اور سرمایہ دارانہ طرز سیاست سے نالاں ہے۔ پیپلز پارٹی کا کوءی شخص اس کی گزشتہ انتخابات میں عبرتناک شکست پر پُسکون نہیں ہو سکتا۔ باقی یہ ریاست پچھلے تیس چالیس برس سے ایک طرز فکر کے شکنجے میں جکڑی ہوءی ہے۔ گزشتہ انتخابات میں گھروں میں دبکنے کے بعد پیپلز پارٹی کی موجودہ قیادت اور اسٹیبلشمنٹ کے دہشت گردوں سے غیر اعلانیہ معاہدے واضع طور پر محسوس کیے جا سکتے ہیں۔ ملک میں خود کش حملے تقریبا ختم ہو چکے ہیں اور آجکل کالعدم دہشت گرد تنظیمیں جمہوریت کے حق میں ریلیاں نکال رہی ہیں۔ اللہ اللہ۔ بھاڑے کی روشن خیالی آج تکفیریت کے تحفظ میں مشغول ہے۔ کل جنھیں حافظ سعید کے مظاہروں پر اعتراض ہوتا تھا کہ کالعدم تنظیموں کو مظاہروں کی اجازت نہیں ہونی چاہیے آج ان میں سے ایک کو بھی لشکر جھنگوی اور سپاہ صحابہ کے جمہوریت بچاو مظاہروں پر نہ کوءی اعتراض ہوا اور نا اسٹیبلشمنٹ کی پشت پناہی کا شبہ۔ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ یہاں اینٹی اسٹیبلشمنٹ یا فوج مخالف نظریات کو ایسے ہی استعمال کیا جا رہا ہے جیسے جماعت اسلامی کبھی اینٹی امریکہ سلوگن استعمال کرتی تھی مگر مرحوم قاضی صاحب کے بچے امریکہ میں تعلیم حاصل کرتے اور مذہبی جماعتیں امریکہ سے ڈالر وصول کرتی تھیں۔ وہ جھوٹے اینٹی امریکہ نعرے بلند کرتے تھے اور یہ جھوٹ پر مبنی اینٹی اسٹبلشمنٹ سیاست کے دعوے دار ہیں۔ درحقیقت آج پاکستان میں اینٹی اسٹیبلشمنٹ لیڈرشپ کہیں بھی نہیں ہے۔ دونوں بڑی جماعتیں اپنے طور پر ایک “Status quo” بناتی ہیں اور درپردہ سکیورٹ اسٹیبلشمنٹ بھی اسی کا حصہ محسوس ہوتی ہے۔ کوءی بھی اقتدار عوام کے حوالے کرنے کو تیار نظر نہیں آتا۔ کسی کو بھی حقیقی جمہوریت سوٹ نہیں کرتی۔ طاہرالقادری اور عمران خان جن کے اکثر مطالبات کو میں بلاشبہ جاءز مانتاسمجھتا ہوں وہ بھی “Status quo” کے خلاف جدوجہد میں فوج پر کسی قسم کا اعتراض اٹھاءے بغیر ہی لڑ رہی ہیں۔ جبکہ اس “Status quo” کو قاءم رکھنے اور اس کا سب سے بڑا حصہ وصولنے والی پاکستان کی سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ ہی ہے۔ ایسی کسی صورت میں حقیقی تبیلی کی اُمید بھی کیسے کی جا سکتی ہے کہ جہاں عوامی حقوق سلب کرنے کا سارا بوجھ صرف سیاستدانوں یا صرف فوج پر ڈال دیا جاءے؟ مگر ہمیں اس ریاست کو حقیقی آزادی اور فرقہ وایرت سے پاک بنیاد فراہم کرنی ہے جہاں کوءی بھی مذہب، مسلک اور فکر کی بنیاد پر اپنی اجارہ داری بنانے کی کوشش نہ کرے۔ ہمیں ایک ایسی ریاست کے لیے جدوجہد کرنی ہے جہاں دیوبند، وہابی، شیعہ بریلوی، ہندو، کرسچن، احمدی سب اپنی مرضی، منشا، مذہب، مسلک اور نظریے کے مطابق ایک آزاد زندگی بسر کر سکیں۔
عمار کاظمی