طالبان کے حامی حامد میر کی طاہر القادری کو تکفیری دیوبندی طالبان سے ملانے کی بھونڈی کوشش
جب سے ڈاکٹر طاہر القادری نے شیعہ سنی اتحاد کی قیادت کرتے ہوے وہابی دیوبندی حمایت یافتہ نواز شریف کی حکومت کی سیاسی مخالفت شروع کی ہے نواز شریف کے ٹکڑوں پر پلنے والے نام نہاد لبرل صحافی اور تکفیری دونوں طاہر القادری پر ذاتی اور مسلکی نوعیت کے حملے کر رہے ہیں
نسیم زہرہ کے بعد حامد میر بھی طاہر القادری کو طالبان سے ملانے یا تکفیری دیوبند طالبان سے بھی بڑا خطرہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جبکہ یہی لوگ تکفیری دیوبندی طالبان کے بارے میں بات کرتے ہوے نہایت محتاط رویہ اور الفاظ استعمال کرتے ہیں
حامد میر جن کے طالبان اور لال مسجد کے دہشت گردوں سے تعلقات کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں ان کا طاہر القادری کو اور ان کے حامی افراد کو صرف بریلوی ہونے کی وجہ سے طالبان سے ملانا یقینی طور پر مسلکی بغض کا نتیجہ ہے
پاکستان کے لبرل اور نواز یافتہ صحافیوں کا ہمیشہ سے یہ وطیرہ رہا ہے کہ وہ نواز شریف کی مخالفت کرنے والے افراد کو کبھی ملک دشمن اور کبھی اسلام دشمن قرار دیتے ہیں جب کہ نواز شریف کے دیوبندی تکفیری تنظیموں سے تعلقات کے خلاف ایک لفظ کہنے کو بھی شرک اور گناہ عظیم سمجھتے ہوے خاموشی اختیار کرتے ہیں
طالبان اور طاہر القادری میں ایک واضع فرق ہے، طالبان جو بولتے ہیں اس پر قائم رہتے ہیں جبکہ طاہر القادری صاحب کی ایک زبان نہیں، وہ اپنے بیان اور فتوے حسب ضرورت بدلتے رہتے ہیں اور کہی ہوئی بات سے باآسانی مکر جاتے ہیں۔
The fight against the Taliban is not just a military struggle. It is also an ideological struggle between moderate and Takfiri Islam. The army can use its tanks and guns but for all-out victory, for success on the ideological front, for Pakistan to return to its moorings, there has to be a meeting of minds between the army and moderate Islam. And if there is such an understanding, conscious or otherwise, Pakistan will never go the way of Iraq or Syria. No Salafi brand of fitna (discord) can arise on its soil.
Ayaz Amir