دیوبندی نواز لبرلز کی طاہر القادری کے خلاف مہم – از عامر حسینی
بہت سے نام نہاد جمہوریت پسند جو آج تک دیوبندی وهابی تکفیری دہشت گردوں کی بربریت پر لفظ دیوبندی تکفیری دہشت گرد آج تک استعمال کرنے سے سخت گبهراہٹ کا شکار رہے اور ان کی ٹانگیں کانپتی تهیں اور دل گهٹنے لگتا تها اور ان کا حال یہ تها کہ خود شیعہ یا بریلوی گهر سے تعلق تها اور اپنے ظاہر پر کمیونسٹ یا قوم ہرستی کا کستیوم چڑهائے بیٹهے تهے نجی مجلسوں میں دیوبندی تکفیری دہشت گردوں پر لعن طعن کرتے اور حالات کا رونا روتے لیکن اس کا اظہار برسرعام ان کے نزدیک بہت خطرناک تها
اور اپنی بزدلی کی انتہا پر پہنچ کر مجهے بهی بزدلی شعار کرنے اور کهل کر دہشت گردوں کے خلاف لکهنے سے رک جانے کا درس دیتے اور آج پنجاب پولیس کے بدترین کریک ڈاون کا شکار بریلوی عوام کی جانب سے ریاستی جبر کا مقابلہ کرنے پر بریلویوں کی امن پسندی پر جو طنز کے تیر ان کا نام لیکر برسا رہے ہیں صرف اس لئے ہے کہ ان کو پتہ ہے کہ بریلویوں میں کوئی ملک اسحاق ،کوئی لدهیانوی ،کوئی عصمت اللہ اور کوئی طالب نہیں ہے جس سے ان کو کوئی خطرہ ہو شیعہ نسل کشی جب عروج پر تهی اور بریلوی مزارات پر حملے ہورہے تهے تو یہ سیاسی غیرجانبداری کا ڈهونگ رچاکر اس پردے میں اپنی بزدلی کو چهپارہے تهے لیکن آج طاہر القادری اور اس کے سنی بریلوی کارکنوں کے خلاف جب ریاستی جبر عروج پر ہے اور اس کے کارکن اس ریاستی جبر کے خلاف ڈٹ گئے ہیں تو یہ ان پر دہشت گردی اور انتہا پسندی کا الزام ہی نہیں لگارہے ہیں بلکہ یہ بهی کہہ رہے ہیں کہ بریلوی دہشت گرد ہیں اور بہت آسانی سے ان کا نام لیتے ہوئے لفظ بریلوی بهی استعمال کررہے ہیں اور طاہر القادری کا نام بهی لے رہے ہیں
جبکہ ان جیسے کائروں کا حال یہ ہے کہ یہ کبهی دیوبندی تکفیری دہشت گردوں کا نام نہیں لیتے ان کو شبیر فوجی ،ڈاکٹر عثمان ،عصمت اللہ ،لدهیانوی ،خادم ڈهلوں ،اکرم لاہوری ،تنویر تنی اور ان جیسے سینکڑوں خون خوار درندوں کا نام لینے کی ہمت اور جرات نہیں ہوتی مگر آج نہتے پرامن اور پرعزم سنی بریلویوں پر ریاستی جبر کی مزمت کرنے کی بجائے یہ چند ڈنڈا برداروں کی مثال دیکر پورے مکتبہ فکر پر ہونے والے ظلم وستم کو گول کرکے نام لے لے کر مذمت کے تیر برسارہے ہیں
ان میں بہت سے نام نہاد جعلی لبرل ،فیک سول سوسائٹی والے بهی شامل ہوگئے ہیں جو اپنے آپ کو جیالے کہتے ہیں بهٹو خاندان سے عشق کا دعوی کرتے ہیں اور ان کا حال یہ ہے کہ وہ اپنی مصلحت پسند ،سمجهوتے باز ،باری پسند رہنماوں سے یہ پوچهنے کہ انہوں نے پنجاب سمیت پورے پاکستان میں نواز- شہباز راج کے مظالم اور ان کی عوام دشمنی کے خلاف احتجاجی تحریک منظم کرنے اور مہنگائی ،لوٹ مار کے خلاف ،پولیس گردی کے خلاف حقیقی اپوزیشن کا کردار ادا کرنے کے خود کو صاد اور صیاد دونوں کو خوش کرنے والے بیانات تک کیوں محدود کررکها ہے اور پنجاب کو غیر اعلانیہ طور پر دائیں بازو کے جغادریوں کے سپرد کیوں کیا؟
پی پی پی ،ایے این پی اور دیگر نام نہاد بائیں بازو کی جماعتوں کا حال یہ ہے کہ وہ جمہوریت اور سسٹم کو ڈی ریل نہ کرنے کے نام پر حکومت اور ریاست کا عوام پر ہر جبر برداشت کرنے کی تبلیغ میں مصروف ہیں اور عملی طور پر عوام کی مشکلات سے بہت دور الگ ہوکر بیٹهے ہیں اور بجلی کا سنگین بحران ہو ،گیس کی لوڈشیڈنگ ہو ،2 ہزار اوکاڑا کے مزارعین ہر مقدمہ ہو ،ملازمتوں سے نکالا جانا ہو ،بجلی ،گیس ،پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ ہو ان کی جانب سے پنجاب میں کوئی مزاحمت نہیں دکهائی گئی
جبکہ پی پی پی تو سنده میں دیوبندی تکفیری دہشت گرد تنظیم اہل سنت والجماعت اور اس کے لیڈر اورنگ زیب فاروقی کو لگام نہ دے سکی اور لشکر جهنگوی کی ایک دهمکی کے بعد بلاول پنجاب بهول گئے آنا اور ان کی پنجاب کی قیادت نے پنجاب حکومت کے دہشت گردوں سے رابطوں پر کوئی عوامی احتجاج اور تحریک لانچ نہیں کی مگر جب کم از کم شیعہ اور بریلویوں کی سنٹر رائٹ قیادت اس حوالے سے ہمت پکڑ کر شہباز و نواز راج کو چیلنج کرنے کے قابل ہوئی ہے تو یہ نام نہاد جیالے ان کو تنقید کے تیروں کی باڑ پر رکهے ہوئے ہیں اور اپنی بزدل قیادت کا گریبان پکڑنے کی بجائے مظلوموں ہرچڑه دوڑے ہیں
میں ان نام نہاد سیکولرز اور جعلی جمہوریت پسندوں کو کہتا ہوں کہ عوامی سیاست میں یہ خلا ان کی مصلحت پسند ،موقعہ پرست اور سمجهوتہ باز قیادت کی غیرسیقسی سوچ اپنانے اور نیم دروں ،نیم بروں کیفیت کی وجہ سے پیدا ہواہے تو اب اس کو بهگتیں بهی پنجاب میں پہلے ہی مسلم لیگ نواز سے جو سیاسی شئیر بچا تها اس کا بڑا حصہ عمران خان لیجاچکا ہے اور پی پی پی کی قیادت اپنے بنکروں سے نکلنا نہیں چاہتی اور اس کے چیلے مزاحمت کرنے والوں کے خلاف لٹه لیکر کهڑے ہوگئے ہیں