دین ملا فی سبیل اللہ فساد: چند ایران نواز پاکستانی شیعوں کی ایل یو بی پی پر تنقید – عامر حسینی

90911psp

پاکستان میں شیعہ کمیونٹی کے دائیں بازو کے مولویوں کے تین بڑے گروپ ہیں جن کو ہم ایران میں اسلامی انقلاب کے قائد حوزہ علمیہ قم کے سید روح اللہ خمینی اور ان کے دیگر حامیوں پر مشتمل مذهبی پیشوائیت کے بطن سے جنم لینے والے نظریہ ولایت فقیہ کے حامیوں کے گروپ کہہ سکتے ہیں اور یہ پاکستان کے اندر بهی ولایت فقیہ کے ایرانی نظریہ کو روشنی میں اسلامی انقلاب لانے کے داعی ہیں ،ان میں سے ایک گروپ کی سربراہی اس وقت علامہ جواد نقوی کررہے ہیں جبکہ دوسرے گروپ کی قیادت ایم ڈبلیو ایم کے علامہ راجہ ناصر عباس جعفری کے پاس ہے اور تیسرے گروپ کی قیادت علامہ ساجد علی نقوی کے پاس ہے

پاکستان میں شیعی اسلامی سیاسی انقلاب لانے کی ان کوششوں کا آغاز سنہ اسی کے عشرے میں اس وقت ہوا تها جب جنرل ضیاءالحق نے پاکستان کے اندر جمہوریت اور جمہوری طاقتوں کو شکست دینے کے لیے مذهبی فرقہ پرست شرعی قوانین نافذ کئے- اپنے دیوبندی نظریات کی وجہ سے جنرل ضیاء نے نے سعودی عرب اور ایران کے درمیان جاری پراکسی وار میں سعودی کیمپ جوائن کرنے کا فیصلہ کرلیا اور اس کے اس فیصلے کے خلاف شیعہ کمیونٹی کے دائیں بازو کے ایک اس حصے نے جو ایران کے اندر انقلاب کے خمینی شیعی ماڈل سے متاثر ہوچکنے کے بعد پاکستان میں زمینی حقائق کے برعکس اس ماڈل کا نفاز کرنا چاہتا تها ایرانی کیمپ جوائن کرلیا
پاک و ہند کی شیعہ کمیونٹی کے لیےیہ فیصلے انتہائی تباہ کن اور ایک طرح سے پاکستان ، سعودی عرب و دیگر گلف ریاستوں کی جانب سے پاکستان کو اپنی سٹریٹیجک پالیسیوں کے لیے میدان جنگ بنانے کے فیصلے کو موثر ثابت کرنے کے مترادف تھے

پاکستان جس میں ٦٠ فی صد اہل سنت بریلوی ،٢٥ فی صد دیوبندی ، ٥ فیصد اہل حدیث اور ١٥ فی صد شیعہ ہیں (یہ اعداد و شمار ریجنل پولیس افیسرز کے پاس موجود سینسز کی بنیاد پر بیان کررہا ہوں) وہاں پر ایران میں انقلاب کی متنازعہ شکل کے ایک ماڈل کو بنیاد بناتے ہوئے شیعی سیاسی انقلاب اور اور اس پر سیاسی پارٹی بنانا خطرناک مثالیت پسندی اور خواب پرستی کی ایک انوکهی مثال تهی اور آج بهی اس فلسفے کے تحت پاکستان کے اندر سیاسی جدوجہد کرنے والے ایک طرح سے یوٹوپیا کا شکار ہیں

ویسے بهی میرے اپنے خیال کے مطابق سیاست میں فرقہ کی بنیاد پر سیاست نے مڈل ایسٹ ، افریقہ اور جنوبی ایشیا میں امن اور سیاسی استحکام کی منزل کو بہت دور کردیا ہے

بہرحال پاکستان میں ایران کے آیت اللہ سید روح اللہ خمینی کے نظریہ ولایت فقیہ جوکہ ایران کے آئین کا بنیادی جزو بهی ہے کی بنیاد پر سیاسی عمارت کهڑے کرنے والے ان تین مذکورہ بالا پاکستانی گروپوں کے اپنے اپنے خیال کے مطابق سید جواد نقوی یا سید ساجد علی نقوی یا راجہ ناصر عباس پاکستان میں امام منتظر قائم آل محمد مهدی علیہ السلام کے نائب ایرانی ولی فقیہ کے نائب ہیں ویسے تو سید حامد علی موسوی کا گروپ بهی سید حامد موسوی کو نائب امام پاکستان کے اندر خیال کرتا ہے

علمائے اہل تشیع میں نوآبادیاتی نظام سے قبل اور نوآبادیاتی دور و بعد از نوآبادیاتی دور میں غیبت امام زمان کے بعد سے یہ تصور رہا کہ امام زمانہ غیوبت میں بهی ملت اہل تشیع کی رہنمائی فرماتے ہیں اور ان کے معاملات فقہی و شرعی میں ان کی طرف سے یہ فریضہ علمائے شیعہ کے پاس ہے لیکن یہ کوئی کسی کو باقاعدہ نیابت امام سونپے جانے والی بات نہیں تهی جو بهی مجتهد فی المذهب کی شرط پر پورا اترے وہ نیابت امام کا اہل ہے لیکن اس سے مراد اس مجتهد کا سیاسی انقلاب برپا کرنا نہیں تها بلکہ علمائے اہل تشیع کی اکثریت نے ظہور امام غائب تک اپنے آپ کو سیاسی معاملات مین رہنمائی و مشاورت تک وہ بهی اگر کوئی چاہے تو محدود کرلیا تها

لیکن سید روح اللہ خمینی سمیت کئی ایک علمائے ایران نے ولائت فقیہ کے نام سے ایک نیا تصور نیابت امام پیدا کیا اور اگر بغور دیکها جائے تو اپنے مواد اور هئیت کے اعتبار سے سارے کے سارے دلائل وہ تهے جو ہم اسی زمانے میں عراق کے علامہ باقرالصدر، مصر میں تشدد پرست تحریک کے قائد سید قطب اور پاکستان میں جماعت اسلامی کے سید مودودی کے ہاں پاتے ہیں

آیت الله خمینی کا نظریہ ولایت فقیہ ایک طرح سے امام زمانہ کے کلی سیاسی اختیارات کی منتقلی نیابت کے نام پر کسی ایک شیعہ عالم کو کرنے کا نام ہے اور بعض مخالفین ولایت فقیہ کے ہاں یہ اپنے جوہر کے اعتبار سے صفت معصومیت کو اہلیت حکمرانی و ولایت روحانی و سیاسی کی شرط قرار دینے سے انحراف کا نام بهی ٹهہر جاتی ہے

خیر مجهے ان مباحث کا یہاں تذکرہ اس لیے تفصیل سے مقصود نہیں ہے کہ میں اس بحث میں پڑنا نہیں چاہتا کہ ولایت فقیہ کی جو تشریح خمینی صاحب اور ان کے رفقاء کرتے ہیں وہ ٹهیک ہے یا وہ ٹهیک ہے جو ان کے مخالفین کرتے ہیں یا پهر شیعیت کی وہ تعبیر درست ہے جس کا زکر ہمیں ڈاکٹر علی شریعتی کے ہاں ملتا ہے

میں تو صرف یہ بتانا چاہتا ہوں کہ کس طرح پاکستانی شیعہ کمیونٹی کے لوگوں کو پاکستان کے زمینی حقائق کے برعکس ان ایرانی شیعی انقلاب سے مستعار لئے گئے تصورات کے تحت پاکستان کے سیاسی نظام کو بدل ڈالنے کے فریب کن نعروں کے تحت گمراہ کرنے کی کوشش ہوئی اور اس تکفیری دیوبندی و سلفی فریق کو بالواسطہ طاقتور کیا گیا جو یہ دعوے کرتا ہے کہ پاکستان کو ایک شیعہ ریاست بنانے کی کوشش کی جارہی ہے اور وہ اپنے دعوے کے ثبوت میں انهی تنظیموں کے نام اور ان کے جلسوں میں ایرانی علما کی تصویریں پیش کرتا ہے

ایران میں جب سے خمینی انقلاب آیا اس وقت سے ایران کی جانب سے اتحاد بین المسلمین کے نام سے ایک مہم بهی جاری و ساری ہے اور اس تصور کے تحت پاکستان سے جماعت اسلامی ، جمعیت العلمائے اسلام کے س اور ف دونوں دهڑے ، مصر سے اخوان المسلمون اور اس اخوان کی جملہ دیگر عرب اور افریقی شاخیں ، حماس کی سیاسی لیڈر شپ ، افغانستان سے گلبدین حکمت یار ، صبغت اللہ مجددی ، مرحوم برهان الدین ربانی سمیت کئی ایک مسسلم دائیں بازو کے رجعت پرست بلائے جاتے رہے ہیں اور یہ سلسلہ آج تک جاری و ساری ہے

یہ تیسری دنیا کے مسلم ملکوں کی دائیں بازو کی وہ رجعت پرست سیاسی قیادتیں ہیں جن کا سرد جنگ کے دوران قبلہ امریکہ اور افغانستان میں سی آئی اے فنڈڈ جہاد کو سپورٹ کرنا رہا اور یہ سیکولر ڈیموکریسی اور سوشلسٹ اکنامک ماڈل کی سخت مخالف ہیں – خود ایران افغانستان کے اندر سی آئی فنڈڈ جہاد کرنے والوں کے ساتھ وابستہ رہا

اور آج بهی یہ سب کی سب دائیں بازو کی اسلام پسند جماعتیں عورتوں ، آزادی رائے ، اقلیتیوں کے حقوق کے حوالے سے رجعت پرستانہ خیالات کی مالک ہیں اگرچہ شیعہ طبقے اور ایران کے اندر خواتین کو سعودی عرب اور طالبان سے بہت زیادہ آزادی حاصل ہے

ولایت فقیہ کے ایرانی نظریہ کا پاکستان میں ایران نواز پاکستانی شیعوں پر کچھ ایسا اثر ہوا ہے کہ وہ ایرانی آیت الله اور ولی فقیہ کو امام معصوم کے درجے پر بٹھا دیتے ہیں جن پر تنقید نہیں ہو سکتی اور اگر کوئی تنقید کرے تو اس پر تکفیری الزامات کی بوچھاڑ کر دی جاتی ہے

احیاء اسلام کے نام سے ایک بلاگ ایک ایران نواز پاکستانی شیعہ گروپ کی طرف سے چلایا جارہا ہے اور مجهے ایسے شواہد ملے ہیں کہ یہ شاید پاکستانی شیعہ مولوی جواد نقوی کے حامیوں کا بلاگ ہے http://theislamicawakening.wordpress.com/2014/07/29/exposing-lubp


اسیطرح کے  لوگ مسلم یونٹی اور پولیٹیکل شیعہ پاکستان کے نام سے بھی ایران نواز پاکستانی شیعوں کے گروپ چلا رہے ہیں

بلاگر نے اپنے اس بلاگ میں تعمیر پاکستان نام کی ایک ویب سائٹ ایل یو بی پی کے بارے میں جو باتیں لکهی ہیں اس کا جواب تو خود اس سائٹ کے لوگ ہی دیں گے لیکن اس بلاگر نے میرا نام زکر کرکے نیچے مجهے قادیانی لابی کا بندہ کہنے کی کوشش کی ہے

سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ اس ایران نواز پاکستانی شیعہ بلاگر نے کہا کہ پاکستان کا آئین احمدی کمیونٹی کو غیر مسلم اقلیت قرار دیتا ہے اس لیے وہ احمدیوں کو غیر مسلم قرار دیتے ہیں تو کل کو پاکستان کی اسمبلی نے شیعہ کو کافر قرار دے ڈالا تو کیا ہوگا کیا وہ اس کو بهی تسلیم کرلیں گے ؟ ملائشیا میں شیعہ اسلام پر پابندی عاید ہے تو کیا وہ بھی ان کے نزدیک حلال ہے؟

میرے پاس اہلسنت بریلوی ، آہل حدیث ، دیوبندی ہر چهوٹے بڑے مولوی کا فتوی موجود ہے جس میں شیعہ اثناء عشری فرقے کو خارج از اسلام کہا گیا ہے اور اسی موضوع پر متحدہ مجلس عمل کے اتحادی حامد رضا کے والد اور ان کے استاد مولوی احمد رضا خان بریلوی کے تفصیلی فتوے موجود ہیں

جہاں تکر علمی تحقیق کی بات ہے تو وہ یہ ہے کہ مسلمانوں کے سنی اور شیعہ فرقوں کے نزدیک ختم نبوت واقعی اسلامی عقائد کا بنیادی رکن ہے اور جو بهی اس کا انکار کرتا ہے وہ اسلام کے انتہائی بنیادی عقیدے سے انکاری ہوتا ہے یہ ایسے ہی انکار ہے جیسے اگر کوئی اثنا عشر آئمہ میں سے کسی ایک امام کا انکار کرے وہ اثنا عشری نہیں رہے گا – احمدی حضرات اس تعبیر سے اتفاق نہیں کرتے – لیکن ریاست کو کسی کےمذھبی عقیدے سے کوئی سروکار نہیں یونا چاہئیے اور اس سے اسلام یا کسی اور مذهب کو کوئی خطرہ لاحق نہیں ہوسکتا اگر انگریز دو سال مسلم ورلڈ میں نوآبادیاتی نظام کی طاقت کی چهاوں میں عیسائی مشنریز کے زریعے اسلام کو اقلیت میں نہیں بدل سکا اور اگر پاکستانی شہریوں کی اکثریت دوسری ترمیم 73ء کے آئین میں انے سے پہلے اگر احمدی نہیں ہوئی تو بعد میں ہونے کا بهی کوئی امکان نہیں تها

ایل یو بی پی کے خلاف اپنی تحریر میں ایران نواز پاکستانی شیعہ بلاگر نے یہ بات بهی چهپالی اور اشارہ تک نہ کیا کہ 18 ویں ترمیم میں امتناع قادیانیت ایکٹ کے تحت ایسی قانون سازی کی گئی ہے جو خود اسلام کے قدامت پرست تصور کے تحت مذهبی آزادی کے تصور کے خلاف ہے

میں نے شیعہ کمیونٹی کے اہل عقل و دانش کو یہ بات سمجهانے کی کوشش کی تهی کہ وہ شیعی دائیں بازو کی ملائیت کی جانب سے رجعت پرستانہ کهیل کا حصہ مت بنیں یہ کهیل دراصل بلواسطہ طور پر ایرانی رجعت پرست مذهبی پیشوائیت اور ایرانی متنازعہ شیعی انقلاب کی روشنی میں بننے والی رجعت پرستانہ نیشنل و خارجہ پالیسیوں سے ابهرنے والی اس جیو پالٹیکس کے میدان میں کهیلا جارہا ہے جس کے مخالف فریق سعودی عرب ، قطر ،کویت ، گلف ریاستیں ہیں اور یہ دونوں فریق عالمی طاقتوں کی بچهائی شطرنج کے مہرے ہیں ،یہ تو بشپ ، نائٹس بهی نہیں ہیں فقط پیادے اور بس پیادے

میں اپنے دوست حیدر جاوید سید کی رائے سے متفق ہوں کہ نظام خمس نے شیعہ علما کو مظبوط کیا اور نظام تقلید نے شیعہ کی فکری آزادی اور حریت کو جکڑ دیا اسی وجہ سے روایتی طور پر اعتدال پسند شیعہ بھی دائیں بازو کی تنگ نظری کا شکار ہو گئے – ولایت فقیہ کا نظریہ ائمہ اہلبیت کی تعلیمات کو نہیں بلکہ شیعہ مولوی کے اقتدار کو ثابت اور مستحکم کرنے کے لیے تخلیق کیا گیا

معروف ادیب ، دانشور انتظار حسین نے بلواسطہ طور پر ایک مرتبہ پاکستانی شیعی ثقافتی کلچر میں میں ایران کے انقلاب کے بعد درآنے والی تبدیلیوں کے بارے میں اشارہ کرتے ہوئے کہا تها کہ مرثیہ کی جو طرح میر انیس و دبیر نے ڈالی وہ علم کلام و مناظرہ سے مغلوب نہیں تهی جبکہ آج کا مرثیہ کلامی اور مناظرہ بازی کے اثر سے مغلوب ہوچکا ہے اور انہوں نے مجالس عزا کے فرقہ وارانہ ہوجانے اور ان کے مشترکہ ثقافتی ورثہ اور فنکشن ہونے کے زوال کی جانب اشارہ کیا تها

میں جب ایرانی انقلاب کے پاکستان و ہندوستان کے کلچر اور تہذیب پر ہونے والے اثرات کا جائزہ لیتا ہوں تو اس کا اثر مثبت سے زیادہ منفی نظر آتا ہے ،پاکستانی معاشرے میں شیعہ مڈل کلاس جوکہ اپنے پروگریسو اور ترقی پسند ماڈریٹ موقف اور اظہار کے طور پر پہچانی جاتی تهی اس کے اندر بہت تیزی سے دائیں سمت جهک جانے کا رجحان جنم لیا ہے اور اس کی ایک وجہ ایرانی انقلاب نواز شیعہ دائیں بازو کے گروپ ہیں تو دوسری وجہ خود سیکولر لبرل سیاسی جماعتوں کا شیعہ نسل کشی کے مرتکبین کے خلاف گول مول مبہم ڈسکورس یا مجرمانہ خاموشی ہے

یہ جو تکفیری ڈسکورس سے متاثر ہوجانے اور دائیں سمت جهک جانے کا رجحان ہے اسی کے بطن سے ایرانی نیشنل و فارن پالیسی ڈسکورس کی پیروی کے رجحان بهی ابهرے ہیں

یہ میرے خیالات ہیں ان سے اختلاف کا حق دائیں بازو کے شیعہ بنیاد پرست جماعتوں کو اور ان کے بلاگرز کو پورا پورا حاصل ہے لیکن ان کو یہ بهی سوچنا چاہئیے کہ دلیل کا جواب دلیل ہے، گالی اور تکفیر نہیں، تو بهائی جب آپ اختلاف کرنے کا شائستہ طریقہ چهوڑ کر سازشی تهیوریز کا سہارا لیتے ہو کہ کسی کو قادیانی یا کسی کو اسرائیلی ایجنٹ کہتے ہو تو اس کو کتنی تکلیف ہوتی ہوگی

بات صاف اور سیدهی ہے کہ ایران اور ایران پرست پاکستآنی شیعہ کے موقف سے اتفاق نہ کرنا اور اس سے اختلاف کرنے کا مطلب امریکی، اسرائیلی یا قادیانی کیمپ میں ہونا نہیں ہے

Comments

comments

Latest Comments
  1. Sarah Khan
    -
    • syed kumail abbas
      -
  2. Jauhar Syed
    -
  3. Khalid Jahan
    -
  4. Ghulam Panjtan Kazmi
    -
  5. Naerm Nawaz
    -
  6. syed kumail abbas
    -
  7. syed kumail abbas
    -
  8. syed kumail abbas
    -
  9. syed kumail abbas
    -
  10. syed kumail abbas
    -
WordPress › Error

There has been a critical error on this website.

Learn more about troubleshooting WordPress.