کہ وطن بدر ہوں ہم تم– دیں گلی گلی صدائیں
میں نہ توحماس کا حامی ہوں اور نہ کسی اور فلسطینی تنظیم کا.مگر کچھ عرصے سے میں یہ دیکھ رہا ہوں کچھ مصنفین غزہ کی صورتحال کا ذمہ دار اسرائیل کے ساتھ ساتھ حماس کو بھی قرار دے رہے ہیں اور وہ یہ کہہ رہے ہیں حماس کے ہوتے ھوۓ غزہ میں امن قائم نہیں ہوسکتا.ایسے میں میرا فرض بنتا ہے کہ کچھ تاریخی حقائق قارئین کے سامنے لاؤں تاکہ پتا چل سکے کہ اس خطہ میں امن نہ ہونے کی اصل وجہ کیا ہے؟
حماس کا قیام انیس سو ستاسی میں عمل میں آیا تھا.اس لئے میں تاریخی حقائق کی روشنی میں ان واقعات کا ذکر کروں گا جو حماس کے قیام سے قبل پیش آئے تھے۔
دیریا سین کا قتل عام
اپریل 1948ء صیہونیوں کے 132 دہشت گردوں نے اسرائیل کے آنے والے وزیر اعظم یانزک شمیر کی قیادت میں دیریا سین نامی عربوں کے گاؤں پر حملہ کیا اور رات کو سوتے ہوئے 200سےزائد عرب عورتوں، بچوں، بوڑھوں اور جوانوں کو قتل کر دیا۔آرنلڈ تائن بی اپنی کتاب
“A Study of History”
میں لکھتا ہے کہ “وہ مظالم کسی طرح بھی ان مظالم سے کم نہ تھے جو نازیوں نے خود یہودیوں پر کیے تھے۔ دیریا سین میں 9 اپریل 1948ء کے قتل عام کا خاص طور پر اس نے ذکر کیا ہے، جس میں عرب عورتوں، بچوں اور مردوں کو بے دریغ موت کے گھاٹ اتارا گیا۔عرب عورتوں اور لڑکیوں کا برہنہ جلوس نکالا گیا اور یہودی موٹروں پر لاؤ ڈ اسپیکر لگا کر جگہ جگہ یہ اعلان کرتے پھر رہے تھے کہ:”ہم نے دیریا سین کی عرب آبادی کے ساتھ یہ اور یہ کیا ہے، اگر تم نہیں چاہتے کہ تمہارے ساتھ بھی یہی کچھ ہو تو یہاں سے نکل جاؤ“۔
کیا غزہ کی صورتحال کا ذمہ دار حماس کو قرار دینے والے یہ بتا سکتے ہیں کہ دیریا سین میں کون سی حماس تھی جس کی وجہہ سے دو سو سے زائد عرب آبادی قتل ہوئی؟
یوم نکبہ
پندرہ مئی 1948 کے دن فلسطینیوں کی تاریخ میں یوم نکبہ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ نکبہ یعنی ’’تباہی اور بد ترین بربادی.اس دن صیہونیوں نے پورے فلسطین میں ایک کہرام بپا کر دیا اور فلسطینیوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹنا شروع کیا ، صیہونیوں کی ایک تنظیم جس کا نام ہگانہ ہے کا ذکر اس حوالے سے کافی اہم ہے کہ جس کے دہشتگردوں نے ہزاروں نہتے اور معصوم فلسطینیوں کو صرف اور صرف ایک ہی روز میں بد ترین مظالم کا نشانہ بنا کر شہید کر دیا۔
پندرہ مئی 1948 کے دن فلسطینیوں کی تاریخ میں یوم نکبہ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ نکبہ یعنی ’’تباہی اور بد ترین بربادی.اس دن صیہونیوں نے پورے فلسطین میں ایک کہرام بپا کر دیا اور فلسطینیوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹنا شروع کیا ، صیہونیوں کی ایک تنظیم جس کا نام ہگانہ ہے کا ذکر اس حوالے سے کافی اہم ہے کہ جس کے دہشتگردوں نے ہزاروں نہتے اور معصوم فلسطینیوں کو صرف اور صرف ایک ہی روز میں بد ترین مظالم کا نشانہ بنا کر شہید کر دیا۔
ہگانہ کے دہشت گردوں نے مظلوم فلسطینیوں کو نہ صرف مہلک ہتھیاروں ، خنجروں اور تلواروں سے قتل کیا بلکہ اس دہشت گرد صیہونی تنظیم نے فوجیوں کے ساتھ مل کر فلسطین کے علاقوں میں پانی کی سپلائی لائنوں میں زہریلے مواد تک ملا دیے تا کہ زہریلا پانی پی کر فلسطینی اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھیں، اور اس کام میں ہگانہ تنظیم کے دہشتگردوں کے ساتھ ساتھ اسرائیلی صیہونی فوج کے اعلیٰ عہدیدار بھی ملوث رہے۔یوم نکبہ کے روز جہاں مختلف نوعیت کے مظالم کا ارتکاب کیا گیا وہاں کئی ایک ایسے واقعات بھی سامنے آئے کہ صیہونیوں نے فلسطینیوں کو ان کے گھر خالی کرنے کا حکم دیا اور گھر چھوڑ کر جانے کا کہا تو فلسطینیوں نے اپنے گھر کو چھوڑنے سے انکار کر دیا جس کے بعد صیہونی دہشت گردوں نے گھر کے بڑوں کو گھر سے نکال کر بچوں کو گھروں میں بند کر دیا اور پھر پورے گھروں کو یا تو مسمار کر دیا یا پھر زہریلے آتش گیر مادے کے ذریعے نذر آتش کر دیا گیا، اور اس طرح کے واقعات میں درجنوں نہیں سیکڑوں معصوم کم سن اور شیر خوار بچے اس دن صیہونی درندگی کانشانہ بنے۔ ایک ہی روزمیں صیہونیوں نے فلسطینیوں پر ایسے مظالم کا سلسلہ شروع کیا جس کا انجام ہزاروں فلسطینیوں کی موت کے ساتھ ہوا اور نتیجے میں سات لاکھ سے زائد فلسطینیوں کو صرف ایک ہی دن میں فلسطین سے ہجرت کرنے پر مجبور کر دیا گیا اور اس طرح یہ لاکھوں فلسطینی بے کسی اور بے بسی کے عالم میں اپنے ہی وطن سے تارکین وطن ہونے کے بعد فلسطین کے پڑوسی ممالک شام، مصر ، لبنان اور اردن کی طرف رخ کر گئے۔
کیا غزہ کی صورتحال کا ذمہ دار حماس کو قرار دینے والے یہ بتا سکتے ہیں کہ یوم نکبہ کے دن کون سی حماس تھی جس کی وجہہ سے لاکھوں فلسطینیوں کو وطن چھوڑنا پڑا؟
انیس سو اڑتالیس میں فلسطینیوں کی ایک بہت بڑی تعداد کو اپنے گھر بار چھوڑ کر پناہ کی تلاش میں ہمسایہ عرب ملکوں کا رخ کرنا پڑا تھا
خان یونس کا قتل عام
خان یونس غزہ کی پٹی میں واقع ہے.تین نومبر1956 کو اسرائیلی افواج نے یہاں داخل ہوکر دو سو پچہتر فلسطینیوں کا قتل عام کیا تھا۔
کیا غزہ کی صورتحال کا ذمہ دار حماس کو قرار دینے والے یہ بتا سکتے ہیں کہ خان یونس میں کونسی حماس تھی جس کی وجہہ سےیہاں کا امن برباد ہوا اور سیکڑوں فلسطینیوں کا قتل عام ہوا۔
قصرقاسم کا قتل عام
قصر قاسم ویسٹ بینک اور اسرائیل کے درمیان ایک گاؤں ہے.اس گاؤں میں29 اکتوبر 1956 کو یہاں اسرائیلی افواج نے گھس کر سیکڑوں بچوں، بوڑھوں اور عورتوں کا قتل عام کیا تھا۔
کیا غزہ کی صورتحال کا ذمہ دار حماس کو قرار دینے والے یہ بتا سکتے ہیں کہ قصر قسم میں کون سی حماس تھی جس کی وجہہ سے سیکڑوں فلسطینی مارے گئے؟
رفاہ قتل عام
رفاہ غزہ کی پٹی میں واقع ہے.12 نومبر، 1956 کو اسرائیلی افواج نے یہاں گھس کر ایک سو گیارہ فلسطینیوں کا قتل عام کیا تھا۔
قبیا کا قتل عام
اکتوبر 1953 میں ایریل شیرون کی قیادت میں اسرائیلی فوجیوں نے مغربی کنارے میں قبیا کے گاؤں پر حملہ کیا جس میں کم از کم انتہر فلسطینی عرب دیہاتی قتل ھوۓ.ان میں سے دو تہائی خواتین اور بچےشامل تھے.چالیس پانچ مکانوں، ایک سکول، اور ایک مسجد تباہ کر دیا گیا.پینتالیس مکانوں،ایک سکول، اورایک مسجد تباہ کر دیا گیا۔
میں نے ان چند واقعات کا ذکر کیا ہے جو حماس کے قیام سے قبل پیش آئے تھے. حماس کے ہونے یا نہ ہونے سے امن کا کوئی تعلق نہیں ہیں.حماس جب نہیں بنی تھے اس وقت بھی یہ صیہونی فلسطینیوں کا قتل عام کرتے تھے اوراگر حماس نہ ہو تو بھی صیہونی فلسطینیوں کا قتل عام نہیں چھوڑیں گے اور کسی نا کسی بہانےسےفلسطینی مارتے رہیں گے۔کیونکہ انکے نزدیک یہ سرزمین بشمول یروشلم ان کی قدیم سرزمین ہیں جس پر صرف ان کا حق ہے اور ان کے مذہب میں ان کو یہ سرزمین دینے کا وعدہ کیا گیا ہے.اگر حماس کا بہانہ ختم بھی ہوجائے جب بھی یہ اپنے مذہب کی پیشنگوئی پوری کرنے کے لئے فلسطینیوں کا قتل عام کرتے رہیں گے اور فلسطینیوں کو یہاں سے بیدخل کرتے رہیں گے۔
اصل میں مذہبی انتہا پسندی کسی بھی شکل میں ہو نقصان دہ ہوتی ہے.مذہبی انتہا پسندی ایک افیم کی مانند ہے.جس کو پی کر انسان کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ختم ہوجاتی ہے.جیسے اسلام میں خودکش حملہ حرام ہے اور مگر انتہا پسند طالبان کے نزدیک خودکش حملہ عین اسلامی ہے.یہی صورت حال یہودیوں کے ساتھ ہے.وہ کتنے بھی ترقی یافتہ پڑھے لکھے اور سلجھے ہوئے کیوں نا بن جائیں مگر جب وہ مذہبی انتہا پسندی کی افیم پی لیں تو وہ یروشلم اور فلسطین کی پوری زمین کو اپنا حق سمجھ کرانسانیت چھوڑ کر معصوم بچوں اورعورتوں کا قتل عام کرنے لگ جاتے ہیں اور مذہبی انتہا پسندی کی افیم پی کر اعلیٰ تعلیم یافتہ یہودی صیہونی بن کر معصوم انسانوں کا خون پینے لگ جاتے ہیں۔
فلسطینیوں کی قتل کی ذمہ دار اور اس خطے میں امن نہ ہونے کی وجہہ حماس نہیں ہے بلکہ مذہبی انتہا پسندی کی افیم پی ہوئی صیہونی ذہنیت ہے.یہ انتہا پسندانہ سوچ ہر جگہ نقصان دہ ہے. یہ افیم اگر کسی مسلمان کو پلا دی جائے تو وہ طالبان بن کر معصوم انسانوں کو بم دھماکوں میں اڑانا شروع کردیتا ہے اور اگر کسی ہندو کو پلا دی جائے تو وہ گجرات میں بیگناہ مسلمانوں کا قتل عام کرنے لگ جاتا ہے۔
جس طرح فلسطینیوں کا قتل عام ہورہا ہے اور ان کو ان کا وطن چھوڑنے پر مجبور کیا جارہا ہے اس سے مجھے فیض احمد فیض کی ایک نظم یاد آرہی ہے جو قارئین کی پیش خدمت ہے۔
میرے دل میرے مسافر
ہوا پھر سے حکم صادر
کہ وطن بدر ہوں ہم تم
دیں گلی گلی صدائیں
کریں رخ نگر نگر کا
کہ سراغ کوئی پائیں
کہ سیّارِ نامہ بر کا
ہر اک اجنبی سے پوچھیں
جو پتہ تھا اپنے گھر کا
سرِ کوئےِ نا شنایا
ہمیں دن سے رات کرنا
کبھی اِس سے بات کرنا
کبھی اُس سے بات کرنا
تمہیں کیا کہوں کہ کیا ہے
شبِ غم بری بلا ہے
ہمیں یہ بھی تھا غنیمت
جو کوئی شمار ہوتا
ہمیں کیا برا تھا مرنا
اگر ایک بار ہوتا
Comments
Latest Comments
آپ کی یہ بات درست ہے کہ صہیونیت فلسطینیوں کی منظم نسل کشی کی مرتکب یوتی رہی ہے اور اسرائیل ایک عرصے سے غزہ کی پٹی سے مصر اور اسرائیل تک کهودی گئی سرنگوں کے جال کو ختم کرنے کا منصوبہ بنائے بیٹها تها اور وہ یہ سمجهتا تها کہ اس کا جو محاصرہ غزہ کی پٹی کا ہے وہ غیر موثر ہوتا جارہا تها لیکن ہمیں یہ بات بهی مدنظر رکهنی چاہئیے کہ اگر فلسطینی لڑکے کہ شہادت ہر حماس اندها دهند اقدام نہ کرتی اور اس معالے ہر وہ کولیشن حکومت سے مشورہ کرتی اور عوام رابطہ مہم کے زریعے غزہ کے لوگوں کی رائے طلب کرتی تو مزاحمت کا بہترین راستہ نکلتا اب صورت حال یہ تهی کہ حماس کی فوجی اور سیاسی قیادت یا تو باہر ہے یا پهر وہ گہرے بنکروں میں بیٹهی ہے اور اسرائیلی جارحیت کانشانہبے گناہ اور معصوم بچے ،خواتین اور عام نوجوان بن رہے ہیں جبکہ حماس کے راکٹ ایک بهی اسرائیلی فوجی تنصیب کو نشانہ نہیں بناپائے اور جبکہ سول آبادی پر یہ راکٹ برسائے جارہے ہیں اس سے کوئی حل نہیں نکلے گا
اگر تو حماس نے راکٹ بازی اس لئے شروع کی تهی کہ اسرائیل سے جنگ ہوگی تو طرفین کو مذاکرات کی میز پر عالمی برادری لے آئے گی اور غزہ کا محاصرہ ختم یوجائے گا تو یہ مقصد تو حل ہوتا نظر نہیں آرہا کیونکہ صاف پتہ لگ گیا ہے کہ سعودیہ عرب ،مصر اور متحدہ عرب امارات نے اسرائیل کو یقین دلایا کہ حماس کا خاتمہ کرنے میں وہ کوئی روکاوٹ نہیں ڈالیں گے بلکہ بعد میں انفراسٹرکچر کی تعمیر میں مدد دیں گے اور السیسی نے تمام خفیہ اور اعلانیہ کهلے سرحد کراسنگ کے پوائنٹ بهی بند کردئے اور خالد مشعل نے بی بی سی کے پروگرام ہارڈ ٹاک میں جنگ بندی کے لئے اسرائیل اور مصر کے محاصرے کو فوری طور پر ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے لیکنسوال یہ پیدا ہوتا ہے کی اپنے اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے حماس کے لیڈر کے پاس حکمت عملی کیا ہے ،جبکہ ابهی تک تو خود حزب اللہ نے بهی خاموشی اختیار کررکهی یے اور ادهر اسرائیل سے جنگ بندی کی اپیل کرنے والے ممالک مغربیہ بهی محاصرہ اٹهائے جانے کے بارے میں چپ ہیں جبکہ وہ یہ بهی کہتے ہیں کہ راکٹ برسیں گے تو اسرائیل دفاع کا حق بهی رکهتا ہے اور اس ساری صورت حال کے سب سے زیادہ متاثر فلسطینی شہری اور ان کے گهر والے ہیں
پیارے دوست حماس فلسطین کی آزادی کے مقدمے کو ایک مذهبی ایشو میں بدل چکی جیسے صہیونیوں نے اسے مذهبی کروسیڈ بناکر پیش کیا اور حماس فلسطین کو ایک وهابی سخت گیر مذهبی ریاست میں بدلنا چاہتی ہے اور اس کے ابتدائی آثار غزہ میں نظر آتے ہیں جہاں عورتوں کی آزادی پر قدغنیں اور ان کی نقل و حرکت کو محدود کردیا گیا یے تو میں کہتا ہوں کہ حماس فلسطینی ایشو کو سلجهانے کی بجائے الجهانے کا سبب بنی ہے