فلسطین کے انقلابیو! کہاں ہو تم – از عامر حسینی
ہندوستان میں جب اندراگاندهی نے ایمرجینسی نافذ کی اور کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا نے اس ایمرجنسی کی حمائت کرڈالی تو کیفی اعظمی سخت بیمار تهے اور بستر مرگ پر تهے ،انهیں جب اس اقدام کا پتہ چلا تو بہت رنجیدہ ہوئے اور انہوں نے ایک نظم لکهی جس کے کچه مصرعے یوں تهے -لاو تو کہیں سے بیلچہ – اور کهود زمین کو – میں دیکهوں تو سہی – میں کہاں دفن ہوں مجهے یہ واقعہ اس لئے یاد آیا کہ آج اسرائیل میں نیتن یاہو کی صہیونی ہوائی فورس کے طیارے غزہ کی پٹی پر بارود برسارہے ہیں اور فلسطینی نہتے عوام کا قتل عام اور نسل کشی کررہے ہیں لیکن اس صیہونی بربریت کو بیان کرنے اور فلسطینیوں کا مقدمہ لڑنے کے لئے کہیں سے کوئی قابل وکیل نظر نہیں آرہا
نام نہاد لبرلز اور امریکی سامراج کی گود میں بیٹه کر دور طفولیت دانش کو طے کرنے والے صہیونی اور Zionist attack کو دہشت گردوں کے خلاف کاروائی قرار دے رہے ہیں اور اس طرح سے نیتن یاہو کی صیہونی حکومت کے وزیر اطلاعات کی سرکاری بیان بازی کو second کررہے ہیں تو مجهے کیفی کی نظم یاد آتی ہے میں نے دیکها کہ مسلم آبادی کے اندر اب ایسے دانشور بہت کم رہ گئے ہیں جو فلسطین کی آزادی اور فلسطینیوں کے مصائب کا تجزیہ سامراجی فریم ورک یا تہذیبوں کے تصادم کے مفروضے سے باہر آکر قومی آزادی کی سیکولر انقلابی بنیادوں پر کرنے کی چاہت رکهتے ہوں
ابهی کچه دن گزرے جب میں نے اپنے بہت سے دوستوں کو فلسطین کے ایشو پر القائدہ ،داعش ،طالبان ،لشکر جهنگوی کے narrative کو اپناتے دیکها اور ان میں سے اکثر ایسے تهے جو فلسطین کے مسئلے پر اس کی تاریخی جڑوں سے زرا واقف نہ تهے ایسے میں میں نے سوچا کہ کسے آواز دی جائے ،کس کو پکارا جائے کہ تهوڑا سا کیتهارسس ہو اور اسی بہانے کم از کم دوبارہ سے انقلابی روح کے ساته فلسطین کے ایشو اور زرا بڑے تناظر میں عربوں کی نجات کے ایشو کو زیر بحث لایا جاسکے
مجهے بے اختیار پاپولر لبریشن فرنٹ برائے فلسطین کی یاد آئی اور اسی واسطے سے جارج حباش اور پهر لیلی خالد کی یاد آئی
میں نے اپنے کتب خانے کے فلسطین سیکشن پر نظر دوڑائی تو وہاں مجهے ایڈورڈ سعید ،اقبال احمد ،نوم چومسکی ،یاسر عرفات ،جارج حباش اور دیگر کئی ایک مصنفین کی فلسطین کے مختلف پہلووں کواجاگر کرتی تحریریں نظر آئیں لیکن میری نظر لیلی خالد کی سوانح عمری ” My People, My Life” پر جم گئیں
مجهے یاد آیا کہ کیسے فلسطین کی آزادی کے جن علم برداروں کا تذکرہ یونیورسٹی کیمپسز ،چوکوں اور چوراہوں ،اسٹڈی سرکلز میں ہوا کرتا تها تو ان میں یاسر عرفات ،جارج حباش کے بعد سب سے زیادہ تذکرہ لیلی خالد کا ہوتا تها جوکہ دیومالائی کردار کی حثیت اختیار کرگئیں تهیں میں نے اس کتاب پر پڑی ہوئی گرد جهاڑی اور لیلی خالد کی آپ بیتی کو پڑهنا شروع کردیا ،یہ 98 صفحات کی کتاب ہے اور لیلی خالد نے انتہائی سادگی کے ساته اپنا اور اپنے لوگوں کا مقدمہ پیش کیا ہے میں اس کتاب کے پہلے باب staircase کے پہلے حصے کو ییان درج کررہا ہوں
میرا تعلق حیفہ شہر سے ہے لیکن مجهے زاتی طور پر اپنی جنم بهومی کے بارے میں بہت کم یاد ہے ،مجهے بس وہ علاقہ یاد ہے جہاں میں کهیلا کرتی تهی اور مجهے بس اپنے گهر کی سڑهیاں یاد ہیں میں چار سال کی تهی جب مجهے میرے گهر والے حیفہ سے لیکر لبنان آگئے تهے اور پهر کئی سالوں تک میں نے حیفہ نہیں دیکها ،21 سال کے بعد جب میں نے کامریڈ سلیم عیساوی کے ساته بوئنگ طیارہ سامراجیوں کا اغواء کیا تو کو پائلٹ نے طیارے کو فلسطین کی فضا سے گزارتے ہوئے حیفہ سے گزارا اور میں نے طیارے سے ہی حیفہ کو دیکها
حیفہ کے بارے میں میرا جو علم ہے وہ میرے والدین ،میرے دوستوں اور کتابوں سے مجه تک پہنچا تها لیکن اب جب میں نے خود حیفہ کو دیکه لیا تو میں نے حیفہ کی خود ایک تصویر بنائی جس پر مجهے بے انتہا خوشی تهی حیفہ کو سمندر چهوتا ہے ،پہاڑ اس سے گلے ملتے ہیں اور کهلے میدان اس کو دوعت دیتے ہیں ،حیفہ کی فضا بہت خواشگوار اور شفاف ہے میں حیفہ کی شہری ہوں لیکن مجهے حیفہ کی دهوپ سینکنےاوراس کی کهلی صاف شفاف ہوا میں سانس لینے کا کوئی اختیار نہیں ہے اور نہ ہی میں اپنے لوگوں کے ساته رہ سکتی ہوں
یورپ سے آئے صیہونی (Zionist)اور ان کے پیروکار اسلحے کے زور پر یہاں رہ رہے ہیں اور انہوں نے ہمیں اپنی سرزمین سے بے دخل کردیا ہے ،جہاں ہمیں رہنا چاہئیے تها وہاں وہ رہ رہے ہیں اور ہم ہیں کہ جلاوطن ،دربدر کی ٹهوکریں کهاتے پهرتے ہیں وہ میرے ملک میں رہتے ہیں کیونکہ وہ صیہونی ہیں اور ان کے پاس جابرانہ طاقت ہے اور ہمارے لوگ اور میں بے دخل ہوں کیونکہ ہم فلسطینی عرب ہیں اور ہمارے پاس طاقت اور اختیار نہیں ہےلیکن ہم تو اپنے وطن کے صحراوں کی سرایوں کے فارغ التحصیل ہیں جلد طاقت حاصل کریں گے اور اپنے فلسطین کو پالیں گے اور اسے عرب ، یہودیوں اور آزادی کے عاشقوں کے لئے جنت میں بدل دیں گے
نوٹ : لیلی خالد کا ازاد فلسطین تو عرب ، یہودیوں اور آزادی پسندوں کی جنت ہونا تها لیکن نام نہاد جہادی وهابی تکفیری خارجی اور نام نہاد اسلام پسند اسے کیا بنارہے ہیں اور ان کا تصور حکومت تو لا عربیہ ولا شرقیہ والا فلسطینیہ پر مبنی ہے
میں حیفہ سے پیار کرتی ہوں جیسے حیفہ سے میرے گهروالے اور باقی فلسطینی پیار کرتے ہیں ،حیفہ میرا عشق ہے اور یہ اس بچی کے خوابوں کا نگر ہے جس کو چار سال کی عمر میں اسے چهوڑنا پڑا تها
میں جیسے جیسے بڑی ہوتی گئی اور میں نے اپنے بارے میں پڑهنا اور سوچنا شروع کیا تو مجهے پتہ چلا کہ میری جڑیں تاریخ میں پیوست ہیں اورمیرے کوگوں کی جدوجہد کی ایک تاریخ ہے ،میری قوم اگر دوسری اقوام سے برتر نہیں تو کسی سے کم تر بهی نہیں ہے اس شعور سے بهی بڑهکر یہ شعور میرے اندر آیا کہ میرا طبقہ یعنی محنت کش ،بےروزگار ،مہاجر اور جبروستم کا شکار مظلوم ہرجگہ انسانیت کو توهمات اور پسماندگی کی زنجیروں سے آزاد کراسکتے ہیں
اس نئے شعور نے مجهے وہ سب بهول جانے پر مجبور کردیا جو مجهے نوآبادیاتی اسکول سسٹم میں ازبر کرایا گیا تها کہ میری اور میرے لوگوں کی کوئی تاریخ نہیں ہے ،فلسطینی نام کے کوئی لوگ نہیں ہوتے اور عرب نام کی کوئی قوم نہیں ہےاپنی شناخت اور دریافت کے سفر میں میں نے اپنی تاریخ کے بہت سے لیجنڈ هیروز کو دریافت کیا اور عرب ازم کے بہت سے سنهرے ادوار کو جانا اور یہ ادراک کرلیا کہ کس طرح نوآبادیاتی نظام کے حامی مورخوں نے ہماری شناخت کو چهپایا اور ہماری کامیابیوں اور حاصلات کو کمتر کرکے دکهانے کی کوشش کی اور ہمیں تاریخ کے حاشئے پر پهینک دیا
نوٹ :کیا آپ کو نہیں لگتا کہ لیلی خالد صرف فلسطینیوں کا مقدمہ ہی بیان نہیں کررہی بلکہ وہ تو کرد ،بلوچ ،سندهی ،پشتون ، سرائیکی ،گلگتی بلتی ،کشمیری ،چیچن سب کا مقدمہ شناخت و تاریخ بیان کررہی ہے ،زرا پاکستانی ریاست اور حکمرانوں کا رویہ بلوچ ،سرائیکی ،سندهی ،پشتون اور یہاں تک کہ خود پنجابیوں کی قومیت اور شناخت کے حوالے سے ملاحظہ کیجئے اور بلوچوں ، سرائیکیوں کی ڈیموگرافی کی تبدیلی کے خطرے بارے سوچئے
میں جان گئی تهی کہ مجهے تاریخ کے اس خاص دور میں ایک کردار ادا کرنا ہے ،میں نے جان لیا تها کہ میرا تاریخی کردار ایک جنگجو کا ہے اور جابرو مجبور ،استحصال کرنے والے اور استحصال زدون کے درمیان اس لڑائی میں میں نےخود اپنی نجات اور اپنے لوگوں کی نجات کے لئے انقلابی بن جانے کا فیصلہ کیا میں 1930ء کے انقلابی عزالدین قسام سے بہت متاثر تهی ،وہ وہ فکسطینی انقلابی تها جس نے مزاحمت کی روح بیدار کی اور جس نےعرب دنیا میں مزدور اور کسان انقلابی تحریک کو منظم کیا وہ کئی سالوں سے زیرزمین خود اور اپنے فلسطینی لوگوں کو منظم کررہا تها
جب 1935 ء میں اس نے فلسطینی عوام سے مسلسل دغا ہوتے دیکها تو اس نے مسلح جدوجہد شروع کردی جس کا مقصد دشمنوں کے خلاف عوام کی آزادی کی جنگ لڑنا تها اور یہ دشمن برطانوی سامراج ،صہیونی اور عربوں کی پسماندگی تهے
نوٹ :کم از کم 1935ء میں عزالدین کو فلسطین اور عربوں کے دشمن کی خبر تهی کہ سامراجیت ،صہیونیت اور عربوں کی پسماندگی ،آج نام نہاد جہادی تکفیری سامراجیت اور صہیونیت اور عربوں کی پسماندگی جیسے دشمنوں کے وجود سے ہی انکاری ہیں اور وہ ہر یہودی ،ہر نصرانی ، بلکہ ہر شیعہ و صوفی سنی کو دشمن اور رجعت پسندی و پسماندگی کو اپنا زیور خیال کرتے ہیں جبکہ نام نہاد نیولبرلز اور ترقی پسندوں کا بهی یہی حال ہے وہ سرمایہ دارنہ سامراجیت اور صہیونیت کے وجود سے انکاری ہیں بلکہ پسماندگی ان کے ہاں سرمایہ دارانہ سامراجیت اور صہیونیت کے خلاف جنگ کرنے کا نام ہوگئی ہے اور ترقی پسندی امریکی سرامیہ دارانہ سامراجیت کے آگے سجدہ ریز ہونے کا نام ہے
یہ آج کے لبرلز عرب قوم کے اندر وہابی تکفیری دہشت گردی کے جراثیم چهوڑنے والے امریکی سی آئی اے اور ایم ائی 6 کے تعاون سے ترکی و سعودی عرب قطر و کویت کے شام میں گهناونے کردار اور پوری مسلم دنیا میں شیعہ و صوفی سنی مسلمانوں ،کرسچن ،یہودی پر حملوں اور ایک اقلیتی نکتہ نظر کو نافذ کرنے والی لہروں کے پیچهے سامراجی کردار کو پوشیدہ اور چهپائے رکهتے ہیں
عزالدین نے جو مسلح جدوجہد شروع کی اس مین انقلابی مزدور ،کسان ،طالب علماور دوسرے ترقی پسند گروپ شامل تهے ،یہ بغاوت مظلوموں کی برطانوی سامراج ،صہیونیوں اور عرب رجعت پرستی کے خلاف بغاوت تهی جسے برطانوی سامراج ،یوروپی صہیونیوں اور عرب رجعت پرستوں نے دبادیا فلسطین تو 1936ء سے 1939ء کے درمیان ہی صہیونیوں کے قبضے میں چلاگیا تها نہ کہ یہ قبضہ 1946ء سے 1948ء کے درمیان ہوا جیسے درباری مورخ لکهتے ہیں
فلسطینی عرب کسانوں نے 1936ء میں ایک بغاوت کی جس نے اپریل سے اکتوبر تک پورے فلسطین کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تها-اس بغاوت کا مقصد فلسطینی شناخت کی ایک جمہوری قومی ریاست کی تشکیل کے زریعے سے ممکن بنانا ،برطانوی سامراج کو نکالنا اور یوروپ سے صہیونیوں کی فکسطین مین آباد کاری کو روکنا تها فلسطین میں انقلابی تحریک اور بغاوت کے یوں پهوٹ پڑنے کو دیکه کر برطانوی سامراج نے اپنی چال بازیوں کا بازار گرم کردیا اور 1937 ء میں فکسطین کی تقسیم کا منصوبہ پیش کیا جسے دفاع فلسطین پارٹی جوکہ اردن کے برٹش نواز بادشاہ کا ایک سیاسی فرنٹ تها نے یہ تجویز منظور کرلی
اس پر انقلابی تحریک میں اور شدت آئی
مگر ایک طرف توغدار فلسطینی قیادت اور دوسری طرف برطانوی سامراج کے پٹهو عرب حکمران جن میں ابن سعود آف سعودیہ عرب سرفہرست تها کی وجہ سے اس تحریک کو بربریت کے ساته کچل دیا گیا
عرب حکومتوں کے ٹرسٹیوں ،ثالثوں اور برٹش سامراج و صیہونی فوجی اتحاد نے عزالدین قسام کو شهید کردیا اور ان کی شهادت کے بعد ان کے سیاسی انقلاب کو دفن کردیا گیا اور ان کی یاد بهی ذهنوں سے محو کرنے کی کوشش کی گئی
پهر کافی عرصے کے بعد پاپولر لبریشن فرنٹ فار فلسطین نے وہیں سے کام شروع کیا جہاں سے قسام نے اسے چهوڑا تها اور میری نسل اس کام کو یعنی فلسطین کی مکمل آزادی کے کام کو پایہ تکمیل تک پہنچانا چاہتی ہے
فلسطین کے مجاهدین آزادی فلسطین کو عرب یہودیوں ،عیسائیوں اور مسلمانوں کا مشترکہ آزاد وطن بنانا چاہتے تهے اور ان کے پیش نظر کوئی فلسطین کو کسی عالمی وهابی دولت اسلامیہ کا حصہ بنانا نہیں تها اور نہ ہی وہ فلسطین کو مقامی رجعت پسند سامراج نواز پسماندہ ریاست بنانے کا خواب دیکهتے تهے وہ فلسطین کی قومی آزادی کی تحریک کو دنیا بهر کی قومی آزادی کی انقلابی تحریکوں اور عالمی محنت کش تحریکوں سے جوڑکر دیکهتے تهے ،وہ یہ نہیں کرتے تهے کہ صہیونیوں کی قتل و غارت گری پر تو آسمان سر پر اٹهالیں لیکن عراق ، شام ،پاکستان ،صومالیہ ،لیبیا ،الجزائر میں معصوم شہریوں کے گلے کاٹنے والوں اور ان کی مذهبی فسطائیت پر چپ کا روزہ رکه لیں
سچی بات یہ ہے کہ کل میں نے جب اس مضمون کا پہلا حصہ لکها تو مجهے یہ اندازہ ہرگز نہیں تها کہ امتداد زمانہ کے ساته پاکستان کے اندر ایسے بدمعاش اور اسقدر ظالم فطرت اور قساوت قلب کا شکار لوگ بهی پیدا ہوگئے ہوں گے جو فلسطین کے شہر غزہ پر اسرائیلی بمباری میں مرنے والوں کے لیے دکهی اور ان کے لواحقین کے لئے تعزیت کا سامان کرنے اور اس بربریت پر صہیونیوں کی مذمت کرنے کی بجائے مارے جانے اور پیچهے درد و الم کی تصویر بن جانے والوں کو ہی مجرم بناکر پیش کردیں گے میں کچھ دوستوں کی جانب سے نیو لبرلز پر فلسطین کے سوال پر ہونے والی تنقید کو کسی حد تک مبالغہ خیال کررہا تها لیکن ایک دوست نے جب میرے باکس میں ایک صاحب کی یہ تحریر بهیجی
میرے اس ریمارکس پر کہ فلسطینیوں میں ہائی برتھ ریٹ اس لئے ہے،کہ انہوں کچھ بچے ‘شہید’ کرانے ہوتے ہیں۔ اس پر کچھ احباب کی دل آزاری ہوئی ۔ حالانکہ میری بات بڑی ریشنل اور سائنٹیفک پس منظر رکھتی ہے۔ ‘شہادت ہے مطلوب و مقصود مومن’۔۔۔جب کوئی قوم اور گروہ اسے اپنا ماٹو بنا لے،اور اس نے نسل در نسل لڑنا ہو، تو پھر اسے جنگجو نسل تیارکرنی ہوتی ہے۔ جس کے لئے اضافی بچے پیدا کرنے ہوتے ہیں۔ جب شہید کی ایک ماں یہ کہتے ہوئے دکھائی جاتی ہے، کہ ‘میرا ایک اور بیٹا ہوتا میں اسے بھی شہید کروا دیتی’
مجھے جنگ، تصادموں، لڑائیوں جھگڑوں سے نفرت ہے۔ میں امن پسند pacifist آدمی ہوں، مجھے خون بہانے سے نفرت ہے، خواہ وہ کسی کا بھی ہو اور کسی بھی ‘نیک مقصد’ کے لئے ہو۔ جن کا نظریہ حیات تشدد پسندی ہوتا ہے۔ جنگوں سے مسئلے حل کرنا ہوتا ہے۔ ان کو آگ اور خون سے کھیلنا ہوتا ہے۔ حماس ایک متشدد اور انہتا پسند تنظیم ہے۔ (ہمارے طالبان کی طرح)۔ جنگ ان کا ایمان ہے۔ جنگ ان کا کاروبار ہے۔ جنگ سے سیاسی، مالی فوائد ہوتے ہیں۔ ہمدردیاں ملتی ہیں، سیاسی قوت میں اضافہ ہوتاہے، دنیا بھر سے کروڑوں ڈالروں کے چندے ملتے ہیں،مثلا یواےای نے ڈھائی کروڑ ڈالر دینے کو کہہ دیا ہے،اب نہ صرف دیگر عرب ملکوں سے بلکہ یوروپ اور امریکہ سے بھی کروڑوں ڈالر آئیں گے۔
بڑی بڑی اہم شخصیات فلسطین حماس کے قائدین کو ملنے آئیں گی۔۔۔مذاکرات اور جنگ بندی کرانے کے لئے۔۔۔ حماس قیادت کی شان میں اضافہ ہوگا، عوام کی ہمدردیاں اور سیاسی حمائت ملے گی۔۔۔۔ دیکھا جنگ کے فائدے۔۔۔اور جنگ آگ اور خون کا کھیل کھیلے بغیر تو نہیں ہوسکتی۔۔۔اس کے لئے معصوم سویلین جن میں عورتیں اور بچے جنگ کا ایندھن بنانا پڑتے ہیں۔۔۔ کیا 65 سال کے خون ریز تجربات سے فلسطینیوں کو پتا نہیں چلا۔۔۔کہ اسرائیل کو انگلی دینے کی قیمت کیا ہوتی ہے۔ کیا ان کو طاقت کے توازن کا اب تک پتا نہیں چلا۔۔ کہ اسرائیل پر راکٹ پھینکنے، کسی کو اغواہ کرنے، یا کوئی دہشت گردی کی واردات کرنے سے بنیادی مسئلہ کا حل نہیں ہونا۔ ہاں چار دن کا خونی تماشہ ہو جائے گا۔
چند مہینوں بعد وہی episode دوبارہ دہرا دیا جائے گا۔۔ ‘اسرئیل کی بربریت، وحشیانہ بمباری۔۔مذمت۔۔۔ہاو ہو۔۔۔نتیجہ زیرہ۔۔۔ جنگ کو جب way of life بنا لیا جائے، جنگ کا کلچر پروموٹ کیا جائے، جنگ اور نفرت ہی نصابی کتابوں اور میڈیا میں اپنے لوگوں کو دی جائے، سوسائٹی اور ریاست کو کنٹرول کرنے والوں کا جنگ میں مفادات پیوست ہوجائیں۔۔۔ تو ایک بے سود بے نتیجہ خون ریزی کا تماشا چلتا ہے۔ مسلمانوں کے پاس جذبات کے الاو کے سوا کچھ نہیں۔ اسرائیل ایک ناقابل تبدیل حقیقت ہے۔ مٹانا تو بڑی دور کی بات اسے چھو بھی نہیں سکتے۔
خواہ سارے دنیا کے مسلمان اکٹھے ہوجائیں۔ فلسطین کو بڑی معقول ریاست 1948 میں عالمی طاقتوں کی طرف سے مل رہی تھی۔۔جسے یہ اب مانگتے ہیں۔۔۔انہوں نے اس وقت اسے لینے سے انکار کردیا۔۔اور تمام عرب دنیا نے مل کر اسرئیل کو مٹانے چل نکلے۔۔۔یہ چار بار اکٹھے ہو کر اسرائیل کو مٹانے نکلے ہیں۔ہر بار خود ہی مٹ کر لوٹے۔۔۔اب تو ماشااللہ ساری عرب دنیا خود کو مٹانے نکل چکی ہے۔ فلسطین سیاسی لحاظ سے خود تقسیم ہوچکا ہے۔ آدھا انتہا پسند حماس کے پاس ہے، آدھا اعتدال پسند پی ایل او کے پاس۔۔۔ اگر زندگی عزیز ہے، امن عزیز ہے،
اور بچوں کی اچھی زندگیاں عزیز ہیں، تو فلسطینوں کو تشدد عسکریت پسندی کی راہ چھوڑ کر اسرائیل کو تسلیم کرکے اچھے ہمسائیوں کی طرح رہنا شروع کریں۔ فلسطینوں کو اسلامی جہادی نعروں کو چھوڑنا پڑے گا۔ ورنہ لگے رہیں، تشدد سے تشدد ہی ملے گا۔ ورنہ شاباش جاو اسرائیل کو صفحہ ہستی سے مٹا دو۔تو سچی بات ہے مجهے پہلی دفعہ لبرل فاشسٹ جیسی اصطلاح کے مصداق لوگوں کی پاکستان میں موجودگی پر یقین آگیا جو اس سے پہلے کبهی نہیں آیا تها اور ایک دوست کی یہ بات مجهے ہضم نہیں ہوتی تهی کہ پاکسان کے لبرل جو خود کو بایاں بازو کہتے نہیں تهکتے وہ مغرب کے far right سے خیالات مستعار لیتے ہیں کا بهی یقین ہوگیا اور میرا دانشور دوست ایک دوست
پوسٹ ماڈرن ازم کے تناظر میں آج کے لبرلز پر جو تنقید کرتا ہے اس کی سمجه بهی مجهے یہ تحریر پڑه کر آئی
میں نے سوچا تها کہ ان جیسے صاحبان کو زرا شرم دلائی جائے گی تو شاید یہ شرم کهاتے ہوئے شرمندہ ہوکر اپنے خیالات سے رجوع کرلیں گے لیکن جسے بهاڑ کی کمائی کهانے کی عادت پڑگئی ہو اس سے بهڑوا پن کبهی جاتا نہیں ہے ،یہ لبرل فاشسٹ Zoins اور Western neocons کے بهڑوے ہیں اور فلسطینیوں اور عربوں نیز مسلم کمیونٹی کے بارے میں فلسطینو فوبیا،عرب فوبیا اور اسلامو فوبیا سے جڑے خیالات اور Zoinist lobby کے بنائے ہوئے کلیشوں کی جگالی کرتے ہیں اور اس بنیاد پر خود کو جدید ،ماڈرن ،ترقی پسند ،روشن خیال اور سائنسی منطق پر عمل پیرا بتلاتے ہیں
اور دنیا بهر میں امریکی سامراجیت ،سرمایہ داری کے عالمی سامراجی ننگے پن،جارحیت اور تشدد کے ان داتا ،گاڈ فادرز کا دفاع اپنا عقیدہ خیال کرتے ہیں اور ستم ظریفی یہ ہے کہ ان لبرل فسطائی بهڑوں کے دوسری طرف جو تکفیری ،خارجی وہابی دیوبندی مذهبی رجعت پسند سعودی نواز بهڑوں کا کیمپ ہے وہ ان لبرل فسطائی بهاڑ کی کمائی کهانے والوں کے جملوں کو اچک لیتا ہے اور پهر حقیقی انقلابیوں پر پروپیگنڈے کے گولے بارود برسانے لگتا ہے ،یہ لبرل بهڑوے تو اپنی کمین گاہوں میں مزے سے رہتے ہیں اور ناکردہ گناہوں کی سزا ان کو ملتی ہے جو جعلی ،فیک لبرلز ،جعلی بائیں بازو اور وهابی دیوبندی تکفیری مذهبی فسطائی بهڑووں کی تکفیری بهاڑ پر کمائی کرنے والوں کو بے نقاب کرتے ہیں
میں بهاڑ اور بهڑوے جیسے الفاظ استعمال کرنے پر شرمندہ ہوں کیونکہ یہ میرا مزاج نہیں ہے لیکن وہ غالب نے جو درد دل کے سوا ہونے پر تلخ نوائی کا زکر کیا تها اور احباب سے گزارش کی تهی کہ اس پر ان کو معاف رکها جائے آج کچه ایسا ہی درد دل میں سوا ہوتا ہے کہتا ہے کہ 1948ء میں ان کو ریاست مل رہی تهی نہیں لی تشدد کے راستے پر چل نکلے فلسطینی ،آج بهیک مانگتے پهرتے ہیں نہیں مل رہی ،بهگتیں ،پاگل ہیں ،فلسطینی مائیں بچے پیدا ہی مروانے اور پهر ان بچوں کی لاشوں پر سیاست کرنے کے لئے کرتی ہیں
جب اس کو کہا گیا کہ یہ تو Zoinist propaganda ہے تو پهر میں بهی پاگل اور جنونی ٹهہرا دیا گیالیکن میں یہ بہت ضروری خیال کرتا ہوں کہ ایسے لوگ جو فلسطین اور فلسطینیوں کی غلامی اور مہاجرت کا زمہ دار خود فلسطینی عربوں کو قرار دیتے ہیں ان کو جواب خود کسی فلسطینی کی زبانی ہی دلوانا چاہئیے اور اسی لئے کل میں نے لیلی خالد کی کتاب My People Shall Live”کے پہلے باب staircase کا ایک حصہ ترجمہ کیا تها ،اب پهر اسی Staircase سے بتانا چاہتا ہوں کہ وہاں 1948ء کو کیا ہوا تها ،لیلی خالد نے یہ قصہ بہت وضاحت سے لکها ہے ،Pappe Iyan نے The cleansing 1948 میں آرکائیوز اور ڈی کلاسیفائیڈ دستاویزات کی مدد سے ثابت کیا ہے کہ کیسے فلسطینیوں کی بےدخلی کا اور ان کی نسلی صفائی کا منصوبہ برطانوی سامراج اور Zoinist militias بناچکے تهے
” میں نے 1936 ء کے انقلاب سے پیدا ہونے والے بهونچال کے بارے میں کتابوں میں پڑها لیکین اپنے لوگوں کی تاریخ کو میں خود 1948ء میں ہوئے اپنے تلخ تجربات سے بهی جانتی ہوں،میں نے اپنی چوتهی سالگرہ کے کچه روز بعد 13 اپریل 1948ء کو حیفہ چهوڑا ،میری جس دن سالگرہ تهی وہ نہیں منائی گئی تهی کیونکہ وہ 9 اپریل 1948ء کا وہ دن تها جو فلسطین کی تاریخ کا سب سے سیاہ اور ماتم والا دن تها
اب میں 29 سال کی ہوں اور9 اپریل 1948ء سے لیکر اب تک میں نے کوئی سالگرہ نہیں منائی اور اس وقت نہیں مناوگی جب تک میں حیفہ لوٹ نہ جاوں ،میں نے حیفہ اپنی مرضی سے نہیں چهوڑا تها ،یہ وطن سے چلے جانے کا فیصلہ میرے خاندان نے نہیں کیا تها بلکہ انہوں نے کیا تها جن کو ظالم اور شکاری کہنا غلط نہیں ہوگا
میرے خاندان کے پڑوس میں بسنے والے جیوش سے بہت اچهے دلی تعلقات تهے ہم Stanton Street میں رہا کرتے تهے جوکہ جیوش کوارٹر Hadar fastionable 5th avenue Haifaسے یادہ دور نہیں تها میں جیوش بچوں سے واقف تهین،تمارا میرے بہترین دوستوں میں سے ایک تهی جوکہ جیوش تهی اور مجهے یہ بهی معلوم نہ تها کہ ہم میں کوئی فرق تها ،میں عرب یا جیوش ہونےکے بارے میں conscious نہیں تهی
تمارا کے ساته میرے تعلقات میں تبدیلی کا فیصلہ کن موڑ اس وقت آیا جب 29 نومبر 1947 ء کو یو این نے فلسطین کو میرے اور تمارا کے لوگوں کے درمیان تقسیم کرنے کا اعلان کیا تمارا کے لوگوں کو میری زمین فلسطین کا 56 فیصدی دینے کا اعلان کردیا گیا تها جبکہ جیوش تو ارض فلسطین کا 8 فیصد پر دعوےدار تهے
مجه سے اس تقسیم کو قبول کرنے اور تمارا کو مبارکباد دینے کی امید کی گئی ،مجه سے اپنی انسانیت کی نفی کی توقع کی گئی اور صہیونی دعووں کے اخلاقی جواز کو مان لینے کی خواہش کی گئی اور مجهے اپنے ہی گهر میں بے گهر ہونے ،اپنی زمین پر پناہگزین بن جانے کے status کو مان لینے کو کہا گیا علمی صہیونیت ،امریکی سامراجیت اور ان کے اتحادیوں نے مجهے ایک فلسطینی عرب ہونے کے ناطے ایک جلاوطن کی زندگی گزارنے کی سزا دی گئی
اس سب کے باوجود وہ ہم سے توقع کرتے تهے کہ ہم ان کے اس اعلان کا احترام کریں اور اس کو مان لیں ،کیونکہ اگر ہم اسے مان لیں گے تو صہیونیت کے ارض فلطین پر دعوے جائز ہوجائیں گے اور وہ علاقائی توسیع پسندی اور Alihyah Migrants کی آمد کا سلسله بهی روک دیا جائے گا (جاری ہے )
Comments
Tags: Gaza & Palestine, Hamas, Jews & Israel & Israelis, Religious extremism & fundamentalism & radicalism, Terrorism
Latest Comments
The brave newscaster showing reality of America… by ExpressTribune