سعودی عرب عالم اسلام میں سب سے بڑا فرقہ پرست ملک ہے – انسٹی ٹیوٹ فار گلف افئیرز
آل علی احمد انسٹی ٹیوٹ فار گلف سٹیٹس کے نامور محقق اور دانشور ہیں ،انھوں نے حال ہی میں ایک اور سماجی سائنس دان کرسٹوفر ڈینیوب کے ساتھ ملکر عراق اور سعودیہ عرب کے درمیان ایک تحقیقی تقابلی مطالعہ کیا جس کا مقصد یہ جانچ کرنا تھا کہ ان دونوں میں سے کون سی ریاست اور اس کا ڈھانچہ فرقہ پرستانہ ہے
ہم نے ان دونوں محققین کی ریسرچ میں سعودی عرب کے ریاستی ڈھانچے،اس کی افسر شاہی، اہم سرکاری عہدوں اور ریاست کے مجموعی مذھبی رجحان کے بارے میں کئے گئے انکشافات کو شامل کیا ہے
آل علی احمد اور کرسٹوفر ڈینیوب کی تحقیق کے مطابق سعودی عرب مذھبی اعتبار سے سلفی وہابی ریاست ہے اور نسلی اعتبار سے نجد کے وہابیوں کے غلبے پر مشتمل ہے اور اس کی حکمران فیملی آل سعود نے زبردستی جزیرۃ العرب کی مذھبی وابستگیوں کو تبدیل کیا ہے اور وہابیت جزیرۃ العرب میں زبردستی نافذ کیا جانے والا مسلک ہے
آل علی احمد کی تحقیق کے مطابق سعودی عرب کا میڈیا ، تعلیم کا شعبہ اور نصابی کتب وہابی اسلام سے ہٹ کر کسی اور مسلک کے فہم اسلام کو مثبت انداز میں پیش نہیں کرتے اور صوفی اسلام سعودی عرب کے نزدیک سب سے بڑا دشمن ہے
ہمارے ہاں دیوبندی اور وہابی مسلک کے لوگوں کی جانب سے اکثر یہ اعتراض وارد کیا جاتا ہے کہ اگر برصغیر پاک و ہند میں سواد اعظم اہل سنت کا جو صوفی مسلک ہے وہ ٹھیک اور اسلامی مسلک ہوتا تو حجاز میں اس کا وجود ہونا چاہئیے تھا اور وہ اہل سنت بریلوی/صوفی سنّی اسلام کے پیروکاروں پر اعتراض وارد کرتے ہیں کہ وہ خانہ کعبہ اور مسجد نبوی میں آئمہ مساجد کے پیچھے نماز ادا نہیں کرتے اور اسے وہ فرقہ پرستی سے تعبیر کرتے ہیں
لیکن یہ حضرات یہ نہیں بتاتے کہ آل سعود اور محمد بن عبدالوہاب کے پیروکار نجدی وہابیوں نے جزیرۃ العرب پر حکومت کسی انتخاب اور جمہوری طریقے سے حاصل نہیں کی بلکہ انھوں نے یہ اقتدار 1925ء میں ابن سعود کی قیادت میں حجاز پر نجد سے لشکر کشی کرتے ہوئے برطانیہ ،فرانس اور جرمنی کی رضامندی سے قبضہ کرکے ،بڑے پیمانے پر حجازی مسلمانوں کا خون بہاکر ،عورتوں کی عصمت دری کرکے اور حجازیوں کے مال و منال کی لوٹ مارکرکے قائم کیا
آل علی احمد کے بقول جزیرۃ العرب کو ابن سعود نے 1932ء میں اپنے باپ کے نام پر سعودی عرب کا نام دیا اور یہ تاریخ کی ستم ظریفی ہے کہ جزیرۃ العرب جس میں مکّہ و مدینہ جیسے مقدس شہر بھی شامل ہیں اس کو نجد کے ایک ڈاکو ،لیٹرے اورانگریز سامراج کے ایجنٹ کے نام پر سعودی عرب کا نام دے دیا گیا
سعودی عرب کا 1932ء سے سرکاری مذھب وہابیت ہے جبکہ اس سے پہلے ایسا نہیں تھا -جب تک عثمانیہ سلطنت کا حصّہ جزیرۃ العرب رہا اس وقت تک یہاں پر مذھبی اور فقہی اعتبار سے سنّی حنبلی و شوافع اکثریت میں تھے جبکہ حنفی اور مالکی بھی موجود تھے لیکن اول الذکر دو فقہی مسالک کے مقابلے میں کم تھے اور عقائد کے لحاظ سے جزیرۃ العرب کے لوگ امام ابوالحسن اشعری کے مکتبہ فکر سنّی اشاعرہ سے تعلق رکھتے تھے جبکہ اس زمانے میں یہ نجد تھا جہاں پر بدوی عربوں میں محمد بن عبدالوہاب نجدی اور قبیلہ آل سعود ملکر تلوار و بندوق کے زور پر اپنے عقائد کو زبردستی نافذ کررہے تھے
عبدالعزیز بن سعود نے سعودی عرب کے پہلے بادشاہ کی حثیت سے کام شروع کیا تو اس نے سعودی عرب کے حجازیوں کی اکثریت جوکہ 80 فیصد کے قریب تھی پر سلفی وہابی نجدی مسلک زبردستی تھوپنا شروع کردیا
اس نے تعلیم ،ميڈیا اور مذھب کے اداروں کو سرکاری تحویل میں لیکر ان تینوں زرایع سے وہابیت کو مسلط کرنا شروع کردیا جبکہ غیر وہابی مسلمانوں پر ملازمتوں ، روزگار کے دروازے بند کردئے گئے اور یہ سلسلہ آج تک جاری و ساری ہے
علی آل احمد کے مطابق سعودیہ عرب کی جو وزراتی کونسل اور کابینہ ہے اس کے سب کے سب عہدے آل سعود کے پاس ہیں اور وہ سب کے سب وہابی ہیں
سربراہ ریاست ،وزیر اعظم،نائب وزیر اعظم،وزیر خارجہ،وزیر برائے سعودی نیشنل گارڑ،وزیر برائے دیہی امور،وزیر تیل ،وزیر ایجوکیشن ،وزیر برائے مذھبی امور، وزیر برائے انصاف ،وزیر داخلہ ،وزیر دفاع ،انٹیلی جنس چیف سب کے سب آل سعود سے تعلق رکھتے ہیں نسلی اعتبار سے نجدی اور مسلکی اعتبار سے وہابی ہیں
سعودی عرب کی بیوروکریسی بھی نسلی اور مذھبی اعتبار سے نجدی اور وہابی مسلک کے لوگوں کی اکثریت اور غلبے پر مشتمل ہے
ایک سعودی پروفیسر محمد بن سنتیان نے 2004ء میں سعودی اشراف کے نام سے ایک تحقیق کی جسے سنٹر فار عرب اسٹڈیز لبنان نے 2004ء میں شایع کیا
پروفیسر محمد کا کہنا ہے کہ سعودی بیوروکریسی نسلی اعتبار سے اور مسلکی اعتبار سے بھی انتہائی غیر متوازن اور غیرمنصفانہ ہے جس ميں قطعی غلبہ اور اکثریت نسلی اعتبار سے نجدیوں اور مذھبی اعتبار سے وہابیوں کی ہے
پروفیسر محمد کہتے ہیں کہ سنئیر افسران سعودی افسر شاہی میں 70 فیصد نجد سے تعلق رکھتے ہیں جبکہ حجازی 20 فیصد ،2 فی صد دیگر بدوی قبائل سے اور دیگر یعنی نجرانیوں وغیرہ میں سے 8 فیصد ہیں جبکہ یہ سب یعنی نجدی،حجازی ،بدوی قبائیلی اور دیگر سب کے سب وہابی ہیں اور ان میں کوئی صوفی سنّی مسلک سے تعلق نہیں رکھتا
سعودی افسران میں ایک بھی سنّی حنفی ،مالکی ،شافعی ،حنبلی افسر موجود نہیں ہیں
وزرات خارجہ ،وزرات دفاع ،وزرات داخلہ جن کے ماتحت انٹیلی جنس ایجنسیاں اور سیکورٹی فورسز ہیں میں بھی سب کے سب وہابی مسلک سے تعلق رکھنے والے اور زیادہ تر نجدی پس منظر رکھنے والے بھرتی کئے جاتے ہیں
سعودی عرب میں پرائمری سے لیکر ثانوی اور پھر ہائر ایجوکیشن تک وہابیت کے حق میں اور صوفی اسلام ودیگر مسالک کے خلاف نفرت انگیز نصاب پڑھایا جاتا ہے اور سعودی عرب کے باشندوں کی برین واشنگ کی جاتی ہے
سعودی عرب میں جو مذھبی تعلیم کے ادارے ہیں یا جامعات میں شعبہ اسلامیات اور اس کے شعبے ہیں وہاں پر بس وہابی نکتہ نظر سے ہی تعلیم کی سہولت موجود ہے اس سے ہٹکر کوئی اور تعلیم حاصل کرنا ممکن نہیں ہے
پروفیسر محمد کے مطابق سعودی عرب کے 13 صوبے ہیں اور 13 صوبوں کے کسی ایک بھی شہر میں سوآئے وہابی مسلک کی مساجد اور مدارس کے کسی اور مسلک کی مساجد اور تعلیمی ادارے موجود نہیں ہیں اور اگر خفیہ طور پر بنالیں تو پتہ چلنے پر سیکورٹی فورسز کریک ڈاؤن کردیتی ہیں
علی آل احمد کے مطابق سعودی عرب میں سپریم کورٹ 2008ء میں شاہ عبداللہ نے بنائی اور اس کے لیے ججز کا انتخاب سپریم جوڈیشل کونسل پر چھوڑا جوکہ ساری کی ساری وہابی مولویوں پر مشتمل تھی جس نے چیف جسٹس سمیت تمام ججز وہابی مولوی نامزد کئے اور ان کی منظوری شاہ عبداللہ نے دے ڈالی
گویا سعودی عرب کا نام نہاد اسلامی نظام عدالت بھی وہابی جج چلا رہے ہیں اور وہاں بھی اہل سنت کے لیے کوئی گنجائش نہیں ہے
سعودیہ عرب میں 13 صوبے ہیں اور ہر صوبے کا گورنر آل سعود نجدی سے ہے اور وہابی مسلک سے تعلق رکھتا ہے اور اسی طرح 13 صوبوں کے شہروں کے مئیر بھی وہابی مسلک ہیں
سعودیہ عرب کے نزدیک صوفی اسلام یا جسے ہم عرف عام میں سنّی بریلوی اسلام کہتے ہیں سوائے شرک ،بدعت ،ضلالت کے سوا کچھ بھی نہیں اور اسی وجہ سے اس پر مکمل پابندی عائد ہے
سعودی عرب صرف سعودی عرب میں ہی سنّی صوفی اسلام کے خلاف محاز نہیں بنائے ہوئے ہے بلکہ اس نے پوری مسلم دنیا میں وہابیت نواز اور تصوف مخالف فرقہ پرستانہ سرگرمیوں کی اعانت کرنے کی روش اپنائی ہوئی ہے
سعودی عرب کی وہابیت کے توسیع پسندانہ عزائم کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ 1932ء سے لیکر آج تک اس نے نہ صرف جزیرۃ العرب میں سنّی اکثریت کو اقلیت میں بدلتے ہوئے وہابی ازم کو اکثریت کا مذھب بنا ڈالا بلکہ یہ مڈل ایسٹ ،جنوبی ایشیا ،مشرق بعید ،افریقہ میں بھی وہابی ازم کی توسیع کرنے کی کوششیں جاری ہیں اور اس کے لیے اس نے نام نہاد جہادی فیکٹریوں کو پوری دنیا میں بنایا ہے
ایک اندازے کے مطابق سعودی عرب اپنی کمائی میں سے 25 سے 30 فیصد وہابی ازم اور وہابی عسکریت پسندی کے پھیلاؤ میں صرف کرتا ہے اور سعودی عرب کی جانب سے زبردستی وہابی ازم پھیلانے کا نتجہ فتنہ تکفیر و خارجیت کی صورت نکلا ہے اور سعودی وہابیت کا پاکستان ،ہندوستان اور بنگلہ دیش میں اتحادی دیوبندی مکتبہ فکر ہے جس کے بطن سے دھشت گرد تنظیمیں کھمبیوں کی طرح اگ رہی ہیں اور اس توسیع پسندانہ وہابی-دیوبندی ماڈل نے مذھبی ہم آہنگی ،معاشرے میں امن کو فتنہ،فساد دھشت گردی میں بدل دیا ہے اور پورا عالم اسلام وہابی-دیوبندی تکفیری خارجی دھشت گردی کا شکار ہے
وہابی ازم کی پاکستان میں یلغار اور پاکستان میں آل سعود کا دیوبندی ازم سے اتحاد کے سب سے بڑے متاثر اہل سنت بریلوی ہیں
پاکستان بننے سے پہلے اور پاکستان بننے کے بعد 70ء کی دھائی تک پنجاب ،جنوبی پنجاب ،بلوچستان ،خیبر پختون خوا میں ہزارہ ڈویژن ،اندرون سندھ اور کراچی میں ایک اندازے کے مطابق 85 فیصد سنّی بریلوی ،7 فیصد شیعہ ،6 فیصد دیوبندی اور دو فیصد دیوبندی تھے لیکن پنجاب پولیس ڈیپارٹمنٹ کے مطابق ان کے پاس اعداد و شمار کے مطابق جنوبی پنجاب کے 11 اضلاع میں دیوبندی 33 فیصد ،بریلوی 50 سے 52 فیصد ،10 فیصد شیعہ اور 6 سے 7 فیصد وہابی مسلک کے لوگ ہیں ،اس کا مطلب یہ ہوا کہ جنوبی پنجاب کے اضلاع میں 80ء کی دھائی سے لیکر ابتک دیوبندی مکتبہ فکر 27 فیصد بریلویوں کو دیوبندی بنادیا ہے اور پنجاب پولیس کے ڈیپارٹمنٹ کا کہنا ہے کہ دیوبندی پنجاب میں 33 فیصد ہیں مگر ان کے مدارس کل مدارس دینیہ کا 50 سے 60 فیصد ہیں مطلب اب بھی ان کے مدارس ان کی آبادی کے تناسب سے 17 فیصد زائد ہیں جبکہ بریلوی مدارس 25 سے 30 فیصد ہیں یعنی وہ اپنی آبادی کے تناسب سے نصف کم مدارس رکھتے ہیں
وکی لیکس کے مطابق جنوبی پنجاب میں سعودیہ عرب اور یو اے ای سے دیوبندی اور وہابی مدارس کے لیے ایک ارب ڈالر سالانہ امداد آتی ہے اور یہ شدت پسند زھن پیدا کرنے کے لیے استعمال کی جاتی ہے
سعودیہ عرب ، قطر ، کویت ،یو اے ای کے وہابی حکمران ،وہابی مالدار عرب شیوخ اور وہابی ملٹی نیشنل کمپنیاں برصغیر پاک و ہند میں عمومی طور پر اور پاکستان میں خصوصی طور پر صوفی اسلام کو اقلیت میں بدلنے کی کوشش کررہی ہیں اور یہ کام وہ پاکستان، ہندوستان، بنگلہ دیش میں دیوبندی مکتبہ فکر کے شدت پسندوں اور قدرے لو پروفائل میں اہلحدیث کے ساتھ ملکر کرہی ہیں
جبکہ سعودیہ عرب کی کوششوں سے جو سلفی دیوبندی وہابی نام نہاد جہادی پیدا ہوئے ہیں وہ صوفی اسلام کی ثقافتی علامتوں مزارات ،تبرکات اور آثار کو مٹارہے ہیں
مجموعی طور پر محمد بن عبدالوہاب کی آئیڈيالوجی کے زبردستی اور دولت کی لالچ دیکر نفاز کی کوششوں نے پورے عالم اسلام کو دھشت گردی ،بدامنی اور خون آشام تاریکی کا شکار کرڈالا ہے اور اسی لیے مسلمان ممالک فرقہ وارانہ بنیادوں اور نسلی امتیازات کی بنیاد پر ٹوٹنے کے خطرات سے دوچار ہیں
عراق کی صورت حال ہمارے سامنے ہے جو وہابی دیوبندی خارجی تنظیم داعش /دول اسلامیہ کے حملوں کی وجہ سے عراقی عوام کا مقتل بن گیا ہے اور یہ داعش بھی سعودی عرب کی پھیلائی ہوئی وہابی آئیڈیالوجی کا نتیجہ ہے
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک مرتبہ دعا فرمارہے تھے کہ
اللہ ہمارے شام میں برکت دے ،عراق پر برکت نازل کر ،یمن پر برکت نازل کر
اتنے میں ایک آدمی نے کہا
یارسول اللہ ! ہمارے نجد کے لیے بھی برکت کی دعا کریں
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کی طرف سے منہ پھیرا اور خاموشی اختیار کی لیکن وہ شخص گھوم کر پھر سامنے آیا اور اس نے پھ نجد کے لیے دعائے خير کا تقاضا کیا ،آپ خاموش رہے اور منہ دوسری طرف پھیرلیا اور جب وہ تیسری دفعہ اصرار کرنے لگا تو رسول کریم نے فرمایا
نجد فتنوں کی سرزمین ہے اور یہیں سے قرن الشیطان کا ظہور ہوگا
ایک اور مرتبہ جب رسول کریم صحابہ کرام کی مجلس میں خطاب فرمارہے تھے تو ایک شخص جو نجد سے تعلق رکھتا تھا اٹھا اور کہنے لگا
اعدل یا محمد
تو رسول کریم نے فرمایا
تیری ماں تجھے روئے ! اگر میں پیغمبر ہوکر عدل نہیں کرتا تو دنیا میں کون عدل کرے گا
یہ سنکر ہ بدبخت حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف پیٹھ کرکے چلا گیا ،صحابہ نے عرض کی یارسول حکم دیں اس کی گردن اڈا دی جائے
آپ نے صحابہ کو روکا اور کہا کہ عنقریب نجد سے اللہ کی سب شریر ترین مخلوق کا ظہور ہوگا جن کی عبادتوں کے آگے تمہیں اپنی عبادت حقیرلگے گی ،ان کے ماتھے پر محراب اور ٹخنوں پر گٹھے پڑے ہوں گے ،داڑھی خوب گھنی اور سر منڈاتے ہوں گے اور خوب قرآن پڑھیں گے اور مشرکین و کفار حاربین کے خلاف اترنے والی آیات مسلمانوں پر چسپاں کرکے ان کا خون مباخ ٹھہرادیں گے لیکن یہ دین سے ایسے نکل جائیں گے جیسے تیر کمان سے نکلتا ہے تو ان کو تم جہاں پاؤ وہیں قتل کردینا
مخبر صادق صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بات سچ ثابت ہوئی اور آج ہمیں القائدہ ،النصرہ ،داعش لشکر جھنگوی ،طالبان جیسےدرندوں سے واسطہ پڑ رہا ہے
Link to who-is-the-sectarian-Saudi-Arabia-or-Iraq
ان فلسطینی لوگوں کو چاہیے کے ایران سے دوستی کا ہاتھ ملالیں
پھر دیکھیں کیسے کوئی اسرائیل وغیرہ ہمّت بھی کرتا ہے آنکتھ بھی اٹھانے کی
.اس سے لبنانیوں کو بھی تقویت ملیگی اور عربی سیاست سے بھی چھٹکارا ملے گا
عرب ممالک تو پہلے ہی سودا کرچکے ہیں فلسطین کی قسمت کا
شروع میں بے انتہا برائیاں نکالی جائینگی – عربی ایجنٹ پارٹیاں ایک ہنگامہ مچا دینگی
جماعت اسلامی طرح طرح کے الزامات لگاےگی – مگر آخر میں سب منحوس جھوٹے ثابت ہونگے
.لشکر جھنگوی اور سپاہ صحابہ پاکستان میں شیعوں پر قاتلانہ حملے کریںگے – لیکن کچھ نہیں ان قاتلوں کو بھی قتل کیا جاسکتا ہے . انڈیا اور روس بھی ساتھ دیںگے اس نیک کام میں
تمام دنیا امن پسند اور اصلی مسلمانوں کو پسند کرتی ہے –
اس کا ثبوت یہ ہے کہ مغربی ممالک میں کام کرتے ہوے
مسلمانوں کو کوئی تانگ نہیں کرتا. سوا ےان کے جو دہشت گردوں کا ساتھ دینا چاہتے ہیں
. شروع میں انڈیا کی تمام دیوبند تنظیموں کو ختم کیا جاےگا
اور قاتلوں کا پاکستان میں بھی خاتمہ کیا جا سکیگا اور بعد میں انڈیا اور روس کی مدد سے ان منحوس
بکے ہوے اسلامی ممالک کی غلامی سے بچا جاسکتا ہے
ورنہ اس وقت تو یہ منحوس اپنی باد شاھیتوں کو بچانے کے لئے غریب مسلمانوں کا سودا کر چکے ہیں
جب آپ طاقت ور ہوں تو کوئی آپ پر حملہ نہیں کرتا. ایران کے ساتھ مل کر روس کے تاون کے ساتھ ایک پر امن ماحول بنایا جاسکتا ہے – طاقت ور ہی مزے میں رہتے ہیں
اور ان عربی ممالک کے کے پاس کچھ طاقت نہیں سواے پیسے کے
اور انکے اس پیسے کو آج کل امریکہ اور اسرائیل استعمال کر رہے ہیں
یا تو یہ بیچارے عربی بادشاہ مجبور ہیں یا بہت چالاک . دونوں صورتوں میں نقصان فلسطینیوں کا ہے
very good and thought provoking article
mr,sabir,
where muslim have been defeated is due to shia.in afghanistan shia community helped america to come.in iraq shia community helped to come.america always shows red eyes to iran but it will never fight with iran because actually they are same