داعش کے حامی ملکوں کی اپنی بلا دوسروں کے سر ڈالنے کی کوشش – از عامر حسینی
اگر آپ کو گلف ریاستوں اور ترکی و اردن سے نکلنے والے اخبارات اور جرائد کو پڑهنے کا اتفاق آج کل ہو تو آپ کو پتہ چلے گا کہ ان اخبارات و جرائد میں اکثر عرب دنیا اور مشرق وسطی میں ہونے والے خون آشام واقعات پر آٹه آٹه آنسو بہائے جارہے ہوں گے ،کہیں عرب قوم کی بحالی کا نوحہ ہوگا تو کہیں امت مسلمہ کو چند جاهل ملاوں کے هاتهوں برباد ہوتے دیکهنے پر درد دل کا اظہار کیا جارہا ہوگا
آج کل وہ سب ممالک جنہوں نے شام ،لبنان ،عراق میں اپنی مرضی کی سیاسی تبدیلی لانے کے لئے امریکہ کے ساته ملکر رجیم تبدیلی کے خواب دیکهے تهے بهولے بادشاہ بنکر داعش سمیت سلفی وہابی تکفیری گروہوں کی پهیکائی ہوئی انارکی پر نوحہ کناں ہیں اور اپنے گهناونے کردار پر پردہ ڈالتے ہوئے سارے گناہ وہ عراق ،شام کی حکومتوں اور لبنان کی حزب اللہ کے زمے ڈالنے کی کوشش کرتے نظر آتے ہیں
سعودی عرب ،قطر ،اردن ،ترکی کا سرکاری میڈیا ہو یا نیم سرکاری درباری قلم کار وہ سب کے سب مڈل ایسٹ کا آشوب لکهتے ہوئے ڈنڈی مارنے سے بازنہیں آتے اور سچ نہیں بولتے کہ جسے وہ آج فتنہ کہتے ہیں اور جسے وہ عفریت کہتے ہیں اس کے خالق ہیں کون؟
العربیہ نیوز نیٹ ورک جوکہ سعودی عرب نے الجزیرہ کی قطری پراکسی وار کے جواب میں شروع کیا اور اب یہ سعودی عرب کی پراکسی وار کا سب سے بڑاصحافتی پروپیگنڈا سنٹر ہے آج کل بہت ہی دلچسپ آرٹیکل شایع کررہا ہے اس کے ایک کالم نگار خالد ہیں جنهوں نے “دمشق کے برے بانسری نواز” کے نام سے ایک کالم لکها اور اس کالم میں خالد نے عرب اوردمشق کی سرد جنگ کے دور کی تاریخ کی تعبیر اپنے انداز میں کرتے ہوئے خوب تدلیس ،جهوٹ اورفریب و مکاری سے کام لیا
خالد کو اچانک یاد آیا کہ دمشق تو تہذیب و ادب و فن کا گہواراتها اور یہاں سے علم ودانش وفن کی آوازیں ابهرتی تهیں لیکن غلط طور پر وہ یہ بتانا بهول گئے کہ دمشق اگر تہذیب و ادب کا گہوارہ تها تو وہ اس ملک کے روشن خیال ،ترقی پسند ،نوآبادیات مخالف عرب قوم پرست ،اشتراکی خیالات کے مالک دانشوروں ،شاعروں ،ادیبوں ،کہانی کاروں کی وجہ سے تها اور اس روشن خیالی و ٹہذیب وادب کی سب سے بڑی مخالفت سعودی عرب کے آل سعود رجیم اور اس کے لےپالک درباری لکهاریوں،صحافیوں اور مولویوں کی جانب سے کی جاتی رہی
خالد نے دمشق کا نام لیا تو نزار قبانی کا بهولے سے بهی نام نہ لیا اور اس ایک بهی ادیب یا دانشور کا نام لینے سے احتراز کیا جس نے پین عرب ازم اور لبرلازم ،روشن خیالی ،ترقی پسندی کے فروغ میں کارهائے نمایاں سرانجام دئے تهے کیونکہ اگر نزار قبانی جیسے لوگوں کا نام آیا تو پهر جسے خالد 50 ء اور 60ء کی دهائی میں ٹینکوں پر بیٹه کر برسراقتدار آنا کہتا ہے وہ مقدمہ سرے سے غلط ہوجائے گا اور یہ بهی پهر تاریخ کا سچ بتانا پڑے گا کہ عراق و مصر واردن و شام میں 50 ء کی دهائی میں بادشاہتوں کے تختے الٹ دینے والی فوجی بغاوتیں پاپولر بغاوتیں تهیں ،سامراج سے نفرت کا اظہار تهیں اور امریکی و برطانوی سامراج کی گود میں بیٹهے عرب بادشاہوں پر عرب عوام کا اظہار عدم اعتماد تهیں
اس زمانے میں نزار قبانی ،محمود درویش سمیت جتنے بهی ادیب ،دانشور سامنے آئے سب کے سب برطانوی و امریکی سامراجیت اور ان کے باج گزار حکمران خاندانوں سے بےزار تهے خالد نے رقہ ،موصل ،تکریت سمیت شام ،عراق میں جن بے قابو فاشسٹ اور دیشت گرد نقاب پہنے نوجوانوں کے گشت کا زکر کرتے ہوئے ساراالزام بشار الاسد ،نوری المالکی جیسوں پر ڈالنے کی کوشش کی ہے اور صاف صاف اپنے قلم کو سختی سے روکے رکها ہے کہ وہ گلف کی ریاستوں کی بادشاہتوں کا اس میں کردار کیا ہے اسے بیان کرے
شام میں اس وقت ترکی کی سرحد سے لیکر عراق کے باڈر تک جس آئی ایس ،جیش النصرہ وغیرہ کا قبضہ ہے اور جو آج سعودی عرب کی سرحد پر داعش دستک دے رہا ہے یہ وہ لوگ ہیں جن کے پالنہار سعودی عرب،ترکی ،قطر ،کویت ،اردن ،بحرین کی حکومتیں اور ان ممالک کی وهابی تکفیری مالدار پارٹیاں ہیں جنهوں نے ساری دنیا سے لوگ جہاد فی الشام والعراق کے نام پر دہشت گرد اکٹهے کئے
خالد اور العربیہ نیٹ ورک کے چیف ایڈیٹر راشد الرحمان قلم فروش ہیں اور آل سود کا حق نمک ادا کرتے ہوئے القائدہ و داعش کو کوسنے دیتے ہیں اور ابوبکر البغدادی کے ظہور کو ایک حادثاتی اور اچانک رونما ہونے والا وقعہ قرار دینے پر تلے ہیں
عرب اور ترکی کا سرکاری اور نیم سرکاری میڈیا نے موصل اور تکریت سے عراقی افواج کے دستبردار ہونے کو پہلے سنی قبائل کی کامیاب بغاوت اور سنی آبادی کے ظلم وستم کے خلاف اٹه کهڑے ہوجانے سے تعبیر کیا ،یہی العربیہ نیٹ ورک تها جس نے عراق کے صوبے الانبار کے سنی قبیلے کے چیف شیخ حاتم عباس سلیمان دیلیمی کا انٹرویو شایع کیا اور یہ دعوی کیا کہ عراق میں الانبار ،موصل ،تکریت و تلفر کی فتوحات میں اصل کردار سنی قبائلی عوام کا یے اور آئی ایس تو 5 سے 10 فیصد ہے جس کو بهگانا مشکل نہیں ہوگا
سعودی عرب ،قطر ،بحرین ،کویت اور ترکی کی حکومتیں وزرائے خارجہ مغربی دنیا کو یہ یقین دلانے کی کوشش کررہے تهے کہ عراق میں سنی اکثریتی علاقوں میں حالیہ ابهار فطری اور عوامی بنیاد رکهنے والا ہے بلکہ اسے “بہار عراق ” کہا گیا جیسے سلفی وهابی دہشت گردی کے شام میں ابهار کو “بہار شام” کا نام دیا گیا تها
العربیہ نیوز نیٹ ورک نے تو یہاں تک دعوی کردیا تها کہ آئی ایس اور ابوبکر البغدادی دراصل نوری المالکی کی تخلیق ہیں تاکہ امریکہ و یورپ کی آنکهوں میں دهول جهونک کر عراق میں اپنے سیاسی مخالفوں کو ختم کیا جاسکے اور عوامی سنی انقلابی مزاحمت کو شکست دی جاسکے
اس سارے پروپیگنڈے کو زیادہ وقت نہیں گزرا مشکل سے دو ہفتے ہوئے ہیں کہ اچانک آئی ایس دولت اسلامیہ ،ابوبکر البغدادی اور ان جیسے دیگر گروپوں کے خلاف العربیہ نیٹ ورک سمیت گلف ریاستوں کے سرکاری نیم سرکاری میڈیا گروپوں اور درباری قلم کاروں کا رویہ تبدیل ہوگیا ہے
پہلے عراق ،شام ،لبننان ،ایران میں سنی آبادی پر مظالم اور ان کی نسل کشی کے جهوٹے افسانے تراش کر ساری دنیا کے وهابی ،دیوبندی تکفیری عسکریت پسندوں کو عراق و شام جانے کی دعوت دی جارہی تهی مساجد و چوکوں ،چوراہوں پر شام و عراق میں جہاد پر جانے اور اس کے لئے فنڈ اکهٹا کرنے کی درخواستیں کی جارہی تهیں اور اب اچانک یہ ہوا ہے کہ سعودی عرب ،قطر ،بحرین ،کویت ،اردن اور ترکی کے سرکاری مفتی اور مولوی القائدہ و آئی ایس سمت کئی ایک گروپوں کو تکفیری ،جاہل ،دین سے نابلد اور فسادی تک قرار دے رہے ہیں اور خلیفہ ابوبکر البغدادی کی خلافت کی شدومد سے مخالفت کی جارہی ہے
راشد عبدالرحمان چیف ایڈیٹر العربیہ داعش کو فتنہ کبری قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اسامہ بن لادن مرا تو اب یہ البغدادی آگیا ہے القائدہ کے تن مردہ میں جان ڈالنے
کس قدر بدیانتی ہے کہ یہ چهپایا جارہا ہے کہ جس ابوبکر البغدادی کو سنی قبائلی انقلابی فورس نے بهاگنے پر مجبور کرڈالا تها اور جس کی آئی ایس آئی یعنی دولت السلامیہ عراق کی کمر ٹوٹ گئی تهی است دولت اسلامیہ العراق والشام اور پهر دولت اسلامیہ میں بدل جانے کا موقعہ کس نے فراہم کیا؟
خالد اور راشد کا حافظہ اگر سعودی ریالوں کی چهن چهن سے کہیں اور لگا ہوا ہے تو میں یاد کرادوں کہ امریکہ ،یورپ ،گلف ریاستوں اور ترکی نے ملکرجس بندر بن سلطان بن عبدالعزیز کو بشارالاسد کا تختہ مسلح عسکریت پسند فورس کے زریعے سے الٹنے کی مہم کا انچارج بنایا تها اس نے ابوبکرالبغدادی کو کہا کہ وہ اپنی دولت اسلامیہ عراق کو شام تک لیجائے اور اس کے لئے وسائل اسے فراہم کئے جائیں گے اور ترکی کی سرحد سے بهی طیب اردوگان نے دولت اسلامیہ کو شام میں داخل ہونے کا موقعہ فراہم کیا ،ترکی کا اخبار گڈمارننگ ترکی کا کالم نگار باربوس نے تازہ کالم میں طیب اردوگان کے کردار کو بہت وضاحت سے بیان کیا ہے
امریکہ ،یورپ،عرب اور ترکی نام نہاد ماڈریٹ اپوزیشن کو بشارالاسد کا تختہ الٹنے کے قابل بنانے والوں نے خود ہی تو یہ عفریت پیدا کئے جس کو آج وہ داعش کا فتنہ کہتے ہیں اور خالد جیسے نام نہاد دانشوروں کو لگتا ہے کہ عرب کے شہروں کی تہذیب ودانش کی تباہی 40ء ،50ء ،60ء کی دهائیوں میں پین عرب ازم کی تحریک زمہ دار ہے میں صدام حسین کی جانب سے عراق کی بائیں بازو کی قوم پرست تحریک کو ایک فرقہ پرستانہ تحریک بنانے اور اس کی انتہائی موقعہ پرستانہ کردار کی ہمیشہ مذمت کرتا رہا ہوں لیکن عراق کی تباہی میں صدام کو ہلہ شیری دینے میں خود سعودی عرب کا کردار بهی کسی سے پوشیدہ نہیں ہے
پورے مڈل ایسٹ ،مشرق بعید ،جنوبی ایشیا ،یہاں تک کہ خود امریکہ و یورپ کے اندر بهی فرقہ واریت اور شیعہ سنی کاجعلی تنازعہ پیدا کرنے میں سعودی عرب ،گلف ریاستوں ،ترکی کا بہت بڑا ہاته ہے اور ان کے سلفی وہابی دیوبندی نام نہاد جہاف کے بطن سے ہی یہ فتنہ تکفیر و داعش نکلا ہے
داعش یا آئی ایس موصل و تکریت پر قابض کیسے ہوئی یہ کہانی ایک ترکی اخبار کے نمائندے نے بے نقاب کردی ہے ،اردن کے دارالحکومت میں خود سعودی عرب نے یہ قبر اپنے لئے کهودی اور اب اس قبر کا گورکن مالکی و بشارالاسد کو قرار دیا جارہا ہے
عرب کی وهابی ریاستوں نے جو آگ ہمارے گهروں میں لگائی تهی اور کیسے جهنگوی و ملا عمر و حکیم اللہ و اورنگ زیب پیدا کئے تهے وہ داعش اب خود ان کے گهروں میں پیدا ہوچلے ہیں
ابتدائے عشق ہے روتاہے کیا
آگے آگے دیکهئے ہوتاہے کیا
http://urdu.alarabiya.net/ur/politics/2014/07/07/
hermes bag Click
[URL=http://www.farmaciacolella.eu/Public/common/359e7bc359ee470eb986ff14440945d4.asp]Kelly Bag Prices[/URL]
Good Hermes Birkin Replica http://ek-foto.dk/css/config/89e2c7d0fd8f43988e79292e64c27bec.asp