General Kayani, the Deobandi sabotages his own institution to facilitate fellow Deobandi Taliban – by Laleen Ahmad
General Athar Abbas’ interview with the BBC about the Waziristan operation which was supposed to have taken place in October 2010, but was never executed has a lot of explosive material. The operation was never lauchned because of just one man, but a very, very important man: the Army Chief General Kayani. (Here is the interview: http://www.bbc.co.uk/urdu/multimedia/2014/06/140630_ather_abbas_army_nj.shtml). Since the Pakistani media is pro-Deobandi and the Nawaz government is an ally of the Deobandi terrorist outfits like Sipa-e-Sahaba Pakistan/Ahle Sunnat Wal Jamat, it is clear that no voices will be raised or action taken against the General. But one thing is clear: General Kayani comes out as a man who sabotaged his own institution to help the Taliban to become more lethal than before.
According to General Abbas, the corps commanders decided to launch the said operation in a meeting, but it was General Kayani who “backtracked” even after having agreed to order the launching of the operation. Had the operation been carried out as planned, it would have destroyed the Taliban network in North Waziristan and would have undermined the Taliban elsewhere because, in Abbas’ words, “The military on the ground was unanimous that extremists of all hues were holed up in the region, and without an operation in the area peace could not be restored in the country.”
What was the result of General Kayani’s decision? “The country, its people, the government and the armed forces had to pay a heavy price for Gen Kayani’s hesitance,” said Abbas.
General Kayani’s refusal to take action against the Taliban allowed them to regroup and strengthen themselves, which resulted in the killing of not only innocent Pakistani civilians, but also hundreds of Pakistani soldiers.
General Kayani’s sabotage of his own institution to facilitate the Deobandi terrorists only shows how deeply the Deobandi ideology has penetrated in even the Pakistan Army as an institution. General Kayani betrayed his own institution. On his hands is the blood of thousands of innocent Pakistanis. He should be tried for high treason. But this will not happen. As long as the Nawaz government is there, the Deobandi ideology will continue to wreak havoc in Pakistan.
Immediately after becoming the Army chief, General Kayani visited Saudi Arabia where he met King Abdullah. It is not possible to know what transpired between the two of them. But Abbas’ revelation amply shows where General Kayani’s loyalties lied.
Hello, yeah this article is actually fastidious and I have learned lot of things from it about blogging. thanks.
Where in the interview does General Athar identifies any sectarian influence?
سابق آرمی چیف پر تنقید… نجم سیٹھی
اس میں کوئی شک نہیں کہ جنرل عباس سچ بول رہے ہیں۔ ان کے اس بیان کو دو مزید حقائق سہارا دیتے ہیں۔ پہلا، مارچ 2011ء میں شمالی وزیرستان میں تعینات فوج کی ساتویں ڈویژن کے کمانڈر میجر جنرل غیور محمود نے کچھ مخصوص میڈیا نمائندگان کو بتایا ….’’امریکی ڈرون حملوں میں ہلاک ہونے والوں کے بارے میں بہت زیادہ دروغ گوئی سے کام لیا جاتا ہے کہ وہ عام شہری تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ ان میں مارے جانے والے زیادہ تر سخت جان جنگجو اور انتہا پسند ہی ہوتے ہیں‘‘۔ میجر صاحب کا یہ بیان عوامی سطح پر پھیلائے جانے والے اُس تاثر کی نفی کرتا تھا کہ ڈرون حملے دہشت گردی کی اصل وجہ ہیں کیونکہ ان میں عام شہریوں کی ہلاکتیں ہوتی ہیں۔ اس پر بالغ نظر تجزیہ کاروں نے کہا کہ میجر جنرل غیور محمود کا بیان اتفاقی نہیں بلکہ بہت سوچ سمجھ کر دیا گیا ہے اور اس کا مقصد امریکیوں سے تعاون کرتے ہوئے شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن کے لئے راہ ہموار کرنا ہے تاہم اس کے بعد پس ِ منظر پر دھند سی چھا گئی اور غیورصاحب کہیں ’’لاپتہ‘‘ ہوگئے۔ اس سے ظاہر ہوتا تھا کہ کیا گیا فیصلہ آخری لمحے تبدیل ہوگیا ۔ دوسرا بیان واشنگٹن سے آیا جہاں امریکی افواج کے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف ایڈمرل مائیک مولن ، جو کیانی صاحب کی دوستی کے دعویدار بھی تھے، نے اس بات کی تصدیق کی کہ شمالی وزیرستان میں آپریشن ہونے جارہا ہے تاہم ایسا کچھ نہ ہوا۔ اس کے بعد اپنی ریٹائرمنٹ کے موقع پر مسٹر مولن نے بہت تلخ باتیں کیں اور جنرل کیانی پر الزام لگایا کہ اُنہوں نے اُن کے ’’اعتماد‘‘ کو ٹھیس پہنچائی اور آپریشن کرنے کا وعدہ کرکے اس پر قائم نہ رہے۔ جنرل اطہر عباس کا بیان دراصل جنرل کیانی کی ’’ٹھوس حکمت ِ عملی‘‘ پر ایک چارج شیٹ ہے۔ آج تین سال بعد دہشت گرد عوام اور سیکورٹی اداروں کو بہت سا جانی نقصان بھی پہنچا چکے ہیں اور اُنہوں نے اپنے قدم بھی مضبوط کر لئے ہیں۔ اس طرح ریاست کو اُس حکمت ِ عملی یا اس کو جو بھی نام دیا جائے، کی بھاری قیمت چکانا پڑی ۔ صورت حال کی اس سے زیادہ وضاحت کوئی جملہ نہیں کرسکتا… ’’جس معاملے پر جنرل کیانی چھ سال تک تذبذب کا شکار رہے، اس پر جنرل راحیل شریف نے چھ ماہ میں ہی فیصلہ کرلیا۔ قوت ِ فیصلہ کا ثبوت یہ ہے کہ آپ اہم اور غیر اہم معاملات میں امتیاز کرنے کے قابل ہوں‘‘۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس وقت جبکہ فوجی آپریشن کیا جا رہا تھا، جنرل اطہر عباس نے بی بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے یہ انکشاف کرنے کی ضرورت کیوں محسوس کی؟ان کا کہنا ہے کہ انٹرویو میں یہ سوال پوچھا گیا تھا اور اُنہوں نے سچ بولنے میں کوئی قباحت محسوس نہ کی۔
ایسا لگتا ہے کہ 2011ء میں جنرل غیور کی طرح جنرل عباس کو بھی ’’اوپر‘‘ سے سبز جھنڈی دکھائی گئی ہے۔ جنرل راحیل شریف بہت حد تک جنرل کیانی کے قائم کردہ نظام کو ہی چلارہے ہیں۔ بہت سے کور کمانڈر اور خفیہ اداروں کے افسران بھی وہی ہیں جو کیانی صاحب کے دور میں تھے۔ اس لئے شاید ضروری ہوگیا تھاکہ سابق ٹاپ کمان کی کمزوری کو آشکار کرتے ہوئے ان تمام افسران کے درمیان اتفاق پیدا کیا جائے کیونکہ موجودہ مشن میں مکمل یکسوئی درکار ہے۔ اس سے عالمی برادری کو بھی یہ پیغام دینا مقصود ہوسکتا ہے کہ اب فوج دہرا کھیل نہیں کھیل رہی۔ یہ پیغام دنیا کو بھیجنے کے لئے بی بی سی سے بہتر کون سا ذریعہ ہوسکتا ہے!
http://beta.jang.com.pk/NewsDetail.aspx?ID=215014