کوئی میرے دل دا حال نہ جانے او ربا – از عامر حسینی

PTH2

اس مرتبہ لاہور گیا تو جون کا آخری ہفتہ تها اور بہت سے لوگوں سے ملاقات کی اور دو مرتبہ پاک ٹی ہاوس بهی گیا اور ایک دن اور پوری رات میں نے لارنس باغ میں گذاری نہ تو پاک ٹی ہاوس وہ تها اور نہ ہی لارنس باغ وہ جانے کیوں مال روڈ ،نیلا گنبد ،ریگل چوک ،انار کلی ،میرا گورنمنٹ کالج لاہور ،اس کا اقبال ہاسٹل اور شاہی محلے میں اقبال حسین پینٹر کا کوٹها جو آج کوکوڈین بن چکا ہے سب میرے لئے اجنبی بن گئے تهے ،سب انجان انجان سے لگے

یہاں تک کہ میں بهی اتنا غائب دماغ ہوا کہ راستے جو بہت جانے پہچانے تهے میرے قدم ان تک رسائی کے قابل نہ رہے اور کسی سے راستہ پوچهنے کا مجه میں حوصلہ نہ تها گورنمنٹ کالج لاہور میں اپنے کلاس روم میں گیا اور سامنے دیو آنند اور فیض کی تختیاں لگی دیکه رہا تها لیکن وہاں کهڑے لڑکے اور لڑکیاں جو باتیں کررہے تهے اس سے یقینی بات ہے نہ دیوآنند کی آتما خوش ہورہی ہوگی اور نہ ہی فیض احمد فیض کی روح گورنمنٹ کالج میں داخل ہوا تو ایک کمرے کے اوپر ایک اجنبی نام کی تختی لگی دیکهی لیکن وہ نہ جانے کیسے غائب ہوگئی اور مجهے تختی پر انیس ناگی لخها نظر آنے لگا اور ایسے لگا کہ وہ چپکے سے کمرے سے نکلے ہیں اور مجهے پیچهے سے آواز دیتے ہیں کہ کہاں بهاگے جاتے ہو زرا ادهر آو تم سے کچه بات کرنی ہے

سچ سچ بتاو کس کے مجبور کرنے پر فلسفے اور انگلش لینگویج کا بوجه اپنے کندهے پر اٹهائے پهرتے ہو چهوڑو اور یہاں ادب میں داخلہ لے لو فرانسیسی ادب پڑهو،اگر ادب سے شیفتگی نہیں تو یہ حسن عسکری کو کیوں ازبر کررکها ہے اور کیوں اردو ،انگریزی ادب عالیہ سے بے پناه لطف اٹهاتے ہو کمال تهے انیس ناگی بهی ایک ریٹائرڈ ڈی ایم جی آفیسر جس سے کبهی کالونیل ماسٹر کی نقل کی جهلک دیکهنے کو نہیں ملی اور مجهے سابق انڈین سول سروس اور حال کی پاکستان سول سروس سے نفرت گهٹی میں ملی تهی کبهی ان سے بےزار نہیں ہوا ،کامیو کے شہرہ آفاق ناولوں کا انهوں نے طبع زاد ترجمہ براہ راست فرانسیسی سے کیا اور میں نے پهر ان ناولوں کو انگریزی میں نہیں پڑها جیسے خلش ہمدانی نے آنرے ڈی بالزاک کے پیرے گوریو کا ترجمہ بڈها گوریو کے نام سے کیا تو حسن عسکری پڑه کر پهڑک گئے تهے اس کمرے کے پاس کهڑے کهڑے یہ سب خیالات بجلی کی طرح میرے زهن میں سرایت کرگئے اور زرا سا قدم آگے بڑهایا تو کیا دیکهتا ہوں کہ گلابی رنگ کے لان کی قمیص اور سفید رنگ کی شلوار اور سرخ رنگ کے ڈوپٹے میں ملبوس هاتهوں میں کچه کتابیں اور ایک بیگ اٹهائے آنکهوں پر سن گلاسز لگائے شہربانو چلی آتی دکهائی دی

ارے حسین !تم کہاں سے آدهمکے ؟ ارے کییں انیس ناگی سر کا کہا مان تو نہیں لیا ،دیکهو اگر تم نے فلسفہ چهوڑا تو میں اپنی تعلیم کا بس یہیں end کردوں گی ،تمہارے کہنے پر یہ نگوڑے مارکس کے فلسفہ بےگانگی پر تهیسس لکهنے کا فیصلہ کیا اور سب کے طعنے بهی سہے کہ ایک جونئر کو کیا پتہ کس پر تهیسس لکهنا ہے جو ابهی بی اے کے پہلے سال میں ہے اور ایک ایم اے کی طالبہ کو بتارہا ہے کہ کس پر تهیسس لکهے

شہربانو کا چہرہ دهوپ اور غصے کی تمازت سے مزید سرخ ہورہا تها ،میں نے دونون هاته اپنے کانوں سے لگائے اور مسکین سی صورت بناکر اچها بابا اب قسم کهاتا ہوں کی ناگی صاحب کے دفتر کے سامنے سے نہیں گزروں گا شہربانو کهلکهلا کر ہنس پڑی اور میں ابهی کچه اور کہنا چاہتا تها کہ میرے کانوں میں آواز پڑی لگتا ہے کهسکا ہوا ہے میں حال میں واپس آیا تو شہر بانو غائب ہوگئی تهی ،انیس ناگی کی جگہ اور نام لکها میرا منه چڑا رہا تها اور پاس سے لڑکے لڑکیاں عجیب نظروں سے مجهے گهورتے گزررہے تهے

میں وہاں سے آگے بڑها اور شعبہ فلسفہ میں مرزا اطهر بیگ کی تختی لگی دیکهی تو بے اختیار قدم وہاں اٹه گئے اور مرزا صاحب سے بہت عرصے بعد ملاقات ہوئی تو پہلے وہ مجهے پہچان نہ سکے کیوں کہ اب میں بہت ہی دبلا پتلا سنگل پسلی نہیں رہا تها سر اور شیو میں سفید بال آچکے تهے اور پیٹ بهی تهوڑا سا نکل گیا تها اور اب مونچهیں بهی غائب تهیں لیکن تهوڑی دیر بعد وہ پہچان گئے اور بہت محبت سے ملے

کہنے لگے تم کہاں غائب ہوگئے تهے ،ایک ایک کرکے سب سے کہیں نہ کہیں ملاقات ہوتی اور تم اور وہ شعبی ایسے غائب ہوئے کہ گدهے کے سر سے سینگ ایک تو پڑهائی سے لیکر سیاست اور وہاں سے ادبی سوسائٹی اور پهر تم دونوںکی شرارتیں کہ کسی کو تمہیں بهولنے نہیں دیتی تهیں اور تم تهے کہ پلٹ کر نام نہیں لیا کانوویکشن تک سے غائب رہے اور ایڈمن نے بتایا کہ ڈگری بهی چپکے سے لیکر سٹک لئے تهے اور پهر کہیں نہ ملے اور وہ شهر بانو تو ایسی دل برداشتہ ہوئی کہ جرمنی چلی گئی اور میں پچهلے سال جرمنی گیا تو وہاں مسلم فلسفہ پر اس کی کافی شہرت سنی اور امام علی پر ایک لیکچر کے دوران اس نے تمہرا نام لیتے ہوئے تمہیں حسین مرحوم کہا تو میں اسے سچ سمجها اور یہاں بیت سے لوگوں کو تمہارے مبینہ آنجهانی اور سورگ باشی ہونے کا زکر کیا تو بہت سے لوگ کہنے لگے اب پتہ نہیں ایک سرخے ملحد کی مغفرت کی دعا بهی کی جائے کہ نہیں اور عارف زیدی نے کہا کہ یار کچه بهی ہو تها تو عاشق اہل بیت اطہار چلو ہاته اٹهاکر دعا کرتے ہیں

میں نے دیکها کہ مرزا صاحب بار بار مجهے ایسے دیکهتے تهے جیسے ابهی تک ان کو میرے زنده ہونے کا یقین نہ ہورہا ہو میں پاک ٹی ہاوس میں چند نوجوانوں کے ساته بیٹها تها تو ان میں سے ایک نوجوان جس کا باپ میرا دوست ہے اور مسلم لیگ نواز کا اہم رہنما ہے اور ایک اہم وزرات میں مشیر لگا ہوا ہے اس کا بیٹا بتارہا تها کہ وہ مذهب پر یقیین کهو بیٹها ہے اور اس یقین کے گم کرنے کا راستہ اس نے پنجاب یونیورسٹی میں اپنی کلاس فیلو کے ساته یک طرفہ عشق کے راستے سے دریافت کیا ،وہ بہت باغیانہ لب و لہجے میں بات کررہا تها اور وہاں پر بیٹهے سارے لڑکے اچانک مجه سے پوچهنے لگے کہ کامریڈ!کیا آپ بهی کالج یا یونیورسٹی میں اس تجربے سے گزرے تهے ؟

میں نے ان کو بتایا کہ مجهے جس شہرزاد کی تلاش تهی وہ مجهے نہ تو لاہور میں تعلیم کے دنوں میں ملی اور نہ ہی کراچی کے زمانے میں اور پهر جب ماسکو گیا تو وہاں مجهے شهر زاد سے زیادہ شهر بانو کی تلاش رہی لیکن یہان تو کروپسکایا نایاب ہوگئیں تهیں اور نتاشا بهی نہیں ملتی تهی شہر بانو کیا ملتی سو واپس آگیا اور جب عمر کی چار دهائیاں گزر گئیں تو ایک ملی ہے مگر اب تک یہ نہیں پتہ کہ وہ شهر بانو ہے کیا شهرزاد اس پر وہ سارے نوجوان مجهے ایسے دیکهنے لگے جیسے ان کو میری دماغی حالت پر شک ہو

ویسے ایک بار شعبی جسے ٹبی گلیوں کا جنون تها اور وہاں وہ ایسے جاتاجیسے فرض کی ادائیگی کررہا ہو اور مجهےوہاں گهسیٹ کر لے جاتا وہاں ایک نادیہ تهی جو پنجاب یونیورسٹی میں پڑه رہی تهی اور اس سے میں خوب باتیں کرتا وہ کہا کرتی کہ مرد جاتی گده جاتی کی refined شکل ہے اور اس کے گده پنے سے بچ نکلنا بہت مشکل ہے اور وہ کہتی تهی کہا اس نے دیکها ہے کہ مولوی ،جج ،وکیل ،ڈاکٹر ،استاد ،سیاست دان ،سماجی ورکر زیادہ بڑے گده ہوتے ہیں جن کی انسانی کهال بہت دهوکے باز ہوتی ہے ان کے سوانگ حقیقت سے قریب ترہوتے ہیں

نادیہ کی باتوں سے میں اس قدر ڈرا کہ میں نے اپنےفطری جزبوں کا گلہ گهونٹ ڈالا ،یہاں تک کہ کسی لڑکی سے ہنس کر بات کرنے سے بهی گهبرانے لگا کہ مبادا وہ کہیں مجهے بهی گده خیال نہ کرلے نادیہ نے مجهے کہا تها کہ صحافی سے بڑا دلال کوئی نہیں ہوتا ،یہ سماج واد کا چولا پہن کر عورت کو یوں بیچتا ہے کہ آزادی نسواں کا ایوارڈ بهی اس کو ملتا ہے اس وقت مجهے معلوم نہیں تها کہ میں حادثاتی طور پر خود صحافی بن جاوں گا اور پہلی بیٹ بهی کرائم کی ملے گی اور اور اس دوران پولیس والوں ،مخبر اور صحافی کی تثلیث پر مبنی دلال پنے کااپنی آنکهوں سے مشاہدہ کروں گا

ویسے جب پولٹیکل بیٹ ملی تو دلالی کے اس سے بهی زیادہ لطیف طریقے دیکهنے کو ملے اور ہاں یہ این جی او سیکٹر تو سب پر ہی بازی لے گیا اور لیفٹ یعنی سرخوں کے ہاں بهی میں نے سے انقلابی لفاظی سے بهری تقریریں کرنے والے دلال دیکهے ایک صاحب جو آج موقعہ پرستی کی سب سے بڑی علامت بن گئے ہیں جن کو کبهی میں نے اپنا بهگوان رکها تها وہ کہنے لگے کہ وہ جلاوطن تهے اور ان کی شادی ہوئی شب زفاف سے پہلے وہ اپنے کامریڈ دوستوں کے ساته بیٹه کر شراب پی رہے تهے کہ اتنےمیں ایک کامریڈ کو جوش آگیا جو آج کل ایک اردواخبار میں کالم لکهتے ہیں اور اکثر ٹی وی چینل پر بائیں بازو کے قائد کے طور پر بلائے جاتے ہیں اور وہ کہنے لگے کامریڈ اپنی ساتهی کو ہم سے بهی شئیر کرو بس اس کے بعد جو ہوا آپ سمجه دار ہیں

یہی کامریڈ جو ایک اور گده جاتی کے کامریڈ کاستیوم میں ملبوس کو بے نقاب کررہے تهے کی ای میلز اور فون کالزریکارڈڈ مجهے ایک فیمل کامریڈ نے سنائیں جو اس قائد انقلاب کو کہہ رہی تهیں کہ اسے اپنی این جی اوز میں نوکری دے دیں بس اس کے بدلے میں میرے سابقہ بهگوان نے اپنی سفلیت کی تسکین کو پورا کرنے کی خواہش ظاہر کرڈالی اور مجهے پتہ چلا کہ میرا لینن تو گده جاتی سے نکلاخیر میں نہ جانے کہاں آنکلا قصہ یہ تها میں جب یہ سب کچه لکه رہا تها تو مجهےایک ہندی گانا یاد آگیا کہ میں کروں تو سلا کریکٹر ڈهیلا ہے ،شیلا ہو یا منی کیا پڑتا ہے

یہ گانا حقیقت کے بہت قریب ہے یہاں بهلا کسی کو کیا پڑی کہ وہ افلاطونی عشق کی تلاش کرے اور استعاروں ،ترکیبوں کا سہارا لے اور ہر ایک گده کی جون میں بدلتا دیر نہیں لگاتا ہے مجهے وہ ایبسرڈ ڈرامے اور فکشن بہت یاد آتا ہے جس میں ایک آفت ایک شہر کو جکڑ لیتی ہے اور ہر ایک انسان جانور کی جون میں بدلتا جاتا ہے اور ایک آدمی جوکہ هیرو ہے بہت کوشش کرتا ہے اپنے آپ کو جانور میں تبدیل ہونے سے روکنے کی لیکن آخر کار وہ بهی ہمت هار دیتا ہے اور خود بهی جانور کی جون میں بدل جاتا ہے

میں لاہور کے اجنبی ہوجانے اور غیر غیر سے لگنے والے گلی کوچوں اور راستوں پر چلتا ہوا تهکن سے چور ہوگیا تها یہ تهکن جب یہ راستے اور عمارتیں مجه سے مغائرت نہیں برتی تهیں کبهی طاری نہیں ہوئی تهی میں چلتے چلتے نہ جانے کب لارنس گارڈن کے گیٹ پر پہنچ چکا تها جون کا آخری هفتہ تها اور اچانک سے گهنگهور بادل اٹهے ،تیز ہوائیں چلنے لگیں اور اور پهر تیز بارش ہونے لگی میں سب فراموش کرکے بارش میں بهیگتا ہوابدها کہ اس درخت تک پہنچ گیا جو برازیل کے جنگلات سے اکهاڑ کر اس کے اپنوں سے جدا کرکے یہاں لگادیا گیا ہے اور 87 ء میں جب میں نے پہلی مرتبہ اسے دیکها تها تو بهی نہ جانے مجهے کیوں لگا تها کہ یہ آج تک برازیل کے اس جنگل کونہیں بهولا تها جہاں سے اسے اٹها کریہاں اجنبی پودوں اور درختوں میں کهڑا کردیا گیا تها

لیکن یہاں تو بہت سارے مہاجر درخت اور پودے تهے یہان تک کہ گهاس تک مہاجر تهی یہ سب بهی تو کسی کے ایڈونچر اور جنون کا شکار ہوئے تهے بالکل ایسے ہی جیسے امریکہ ،سعودی عرب اور پاکستان کے اتحاد ثلاثہ سے پیدا ہونے والے مذهبی فاشسٹوں اور ان کے سابق آقاوں کی لڑائی میں تین لاکه بچوں کو مہاجر کمیپوںمیں آنا پڑا ہے اور بائیس ہزار شیعہ اپنی جانوں سے ہاته دهو بیٹهے ہیں اور ستم ظریفی یہ پاکستان میں دیوبندی وہابی فسطائیوں کی مذهبی فسطائیت سے بچنے کے لئے احمدی ،کرسچن اور شیعہ سری لنکا سیاسی پناہ لینے پہنچے تو ان کو دہشت گرد کہہ کر سری لنکا حکومت نے قید کرڈالا ہے

میں غریب الوطنی اور پردیس میں جان بچاکر آنے والوں کی حالت زار بدها کے اس مہاجر درخت کے سامنے بیان کررہا تها اس لئے کہ یہ کم از کم مجه ہر رافضی ہونے یا فرقہ پرست ہونے کا الزام تو عائد نہیں کرے گا علی ارقم ایک میرا دوست ہے وہ لارنس باغ میں مجهے بہت یاد آیا کیونکہ اس کا خیال یہ ہے کہ جس کے ساته حسینی یا نیشا پوری لگا ہے تو وہ پشتون کو دیوبندی کہہ کر پاکستانی آرمی کے هاتهوں مروانے کے درپے ہیں یہ کیا المیہ ہے کہ ہم مظلوموں کی تقسیم بهی کرچکے ہیں جیسے تکفیریوں نے کفر اور ایمان کی پراڈکٹ اپنے نام پیٹنٹ کرالی ہیں

میں اپنی شہر بانو کی تلاش میں نکلا تها اور لاہور بهی اس کی یاد کی خوشبو سے دل ودماغ معطر کرنا چاہتا تها اور وہ جو اب تک بس ایک خیال اور تمثیل ہے اور لطافت سے ،عالم مثال سے ٹهوس مادی وجود میں نہیں بدلی اور ابهی تک ایسے ہی ایک قصے کا ایک کردار ہے جیسے الف لیلہ کی کردار شہرزاد اور حسن کوزہ گر اب تو ایک مشکل اور ہے لاہور کے جن گلیوں اور کوچوں عمارتوں اور باغات میں اس کا نشان ملنا تها وہ اجنبی ہوچلے ہیں اور شہر بانو کا نشان اس لئے بهی مشکل ہوتا جارہا ہے کہ گدهوں کی اکثریت ہوتی جاتی ہے اور یزید وشمر کے چیکوں کی کثرت ہے ایسے میں شهر بانو کہیں کیسے خیمہ زن ہو اور کوئی حسین نیزوں،تیروں سے بچے گا تو اپنی شهر بانو کا نشان پائے گا

میں نے یہ سب سوچا اور لارنس سے واپس پلٹ آیا اور بس میں بیٹها اور واپس اپنے مدینے میں لوٹ آیا جہان اپنے وقت کے ہر زین العابدین کو بس اتنی آزادی ملتی ہے کہ وہ دعاوں میں اپنی معروضات پیش کرے اور سجدوں میں اشک بہاکر زبیح ہونے کا قصہ یاد کرتا رہے اور ساری داستان غم صحیفہ سجادیہ میں رقم کردے اور جب اسے دوسروں تک پہنچانے کا وقت قریب آئے تو زهر کا پیالہ پینا پڑے اور کہانی پهر سے باقر و زید شروع کریں ایک سولی ہر چڑهے اور دوسرا شهید راہ وفا ہو

Comments

comments

Latest Comments
  1. Abdullah Ali
    -