مائنس وَن’جنگ کے اِتحادیوں میں پھوٹ – از امام بخش

geo_entertainment

ایڈیٹر نوٹ

ادارہ تعمیر پاکستان یہاں اس بات کی وضاحت کرنا چاہتا ہے کہ ہم جنگ اور جیو کی جانب سے اسٹیبلشمنٹ اور تکفیری دیوبندی نواز پالیسیز کی شدید مذمت اور مخالفت کرتے ہیں مگر ہم آزادی اظہار پر کوئی قدغن برداشت کرنے کو تیار نہیں ہیں اور جیو اور جنگ کی اظہار آزادی کے حق پر پورا یقین رکھتے ہیں –

 

ہیئت مقتدرہ، حکومت، سیاسی جماعتوں اور میڈیا کی کئی رُخی جنگ کے دوران وطنِ عزیز کے دانشوروں، صحافیوں، سیاست دانوں، عسکری تجزیہ نگاروں اور حکومتی نورتنوں نےآئین وقانون اور اخلاقیات کے’اصولوں’ کو مدِنظر رکھتے ہوئے اِس کھٹ پٹ کے سب پہلوؤں کو خُوب کھنگالنے کا بیڑا اُٹھا رکھا ہے۔ اِ ن پہلوؤں کو اُجاگر کرنے والے نابغے واضح طور پرمختلف گروپوں میں بٹے ہوئے ہیں۔

ایک طرف اکثریتی گروپ مِلٹری اسٹیبلشمنٹ کی طرفداری کررہا ہے،دوسری طرف صِرف مضبوط مفاداتی ڈور سے بندھا مختصر سا گروپ وفاقی حکومت کاساتھ دے رہا ہے۔ اور تیسری طرف ایک چھنالی قسم کے میڈیا ہاؤس کے کارندے ‘بے وفا صنم نُونی’ کے دامن کوپکڑے مُرغِ بسمل کی مانندتڑپ رہے ہیں۔

اگر کسی کی یادداشت نہیں کھوئی تو اُسے اچھی طرح یاد ہوگا کہ کچھ عرصہ قبل پورے پانچ سال تک یہ سب جنگ جُو ایک ہی مشترکہ منڈلی کے حصّہ رہے ہیں۔ اِس بھان متی کے کُنبے میں ہیئت مقتدرہ، میڈیا، ن لیگ، عدلیہ اور تحریک انصاف سمیت دائیں بازو کی سوچ کی حامل مجموعی طور پرساری سیاسی پارٹیاں شامل رہی ہیں۔ گوئبلز کو شرما دینے والے سابق چیف جسٹس اِفتخار محمد چوہدری کی ریٹائرمنٹ کے بعد عدلیہ تو خامو ش ہے مگر ماضی کے باقی سب حلیف اورحال کے حریف اپنےجس نقطہ ہائےنظر پرآج تقسیم ہیں۔

ماضی میں اِن سب کا اندازِفکرسوفیصد ایک تھا۔ اَب اِنھوں نےاپنے ماضی کے مخصوص نقطہ ہائےنظر کو چھوٹے چھوٹے حصّوں میں بانٹ لیا ہے، اور سب اپنے حصّے کوحق سچ اور دوسرے کے حصّے کو بالکل باطل ثابت کرنے کے لیے سرتوڑ کوشش کررہے ہیں۔ مگر حیرانی یہ ہے کہ ‘غیرجانبدارنابغے’ ایک پہلو کو بالکل دانستہ طور پر پوشیدہ رکھ رہے ہیں اور عوام کویہ قطعاً نہیں بتا رہے کہ اِس اتحاد کا ماضی کامتفقہ نقطہ ہائےنظر جس اصول کے مطابق ایک ‘مائنس وَن’ نامی فارمولے کے تحت سوفیصد ایک’کرپٹ’ آصف علی زرداری کے خلاف تھا، وہ اپنے ماضی کے ‘اصولی’ چلن کو پسِ پشت ڈال کر تقسیم کیسے ہوگیا؟ عام پاکستانی حیران ہے کہ ایک ہی راگ مالا کے چیلے آج کیونکر اپنی اپنی ڈفلی اور اپنے اپنے راگ الاپ رہے ہیں، یہ کل جُھوٹے تھے یا آج جُھوٹے ہیں؟

حالیہ جنگ کا بگل تو سابق چیف آف آرمی سٹاف جنرل (ر)پرویز مشرف کےخلاف آئین شِکنی پر سنگین غداری کے مقدمے کی سماعت شروع ہونے پر بجا مگر تیز ی تب آئی جب جیو ٹی وی کے صحافی حامد میر پر قاتلانہ حملہ ہوا تو جیو نے خوامخواہ دولتیاں جھاڑنے کی فطرتِ ثانیہ میں مبتلا گدھےکی طرح آؤ دیکھا نہ تاؤ کہ بجلی کی سی تیزی سے آئی ایس آئی کے چیف پر دولتی دے ماری۔

اِس جنگ کے حوالے سے سب سے پہلے ہم یہ جائزہ لیتے ہیں کہ عالی مرتبت آئی ایس آئی چیف عہدے کے لحاظ سے مملکتِ خداد میں کتنے بڑے آدمی ہیں، جسے جیو ٹی وی نے عادت سے مجبور ہوکر گھما کر دولتی جمادی ۔ سیدھے سادھے طریقے سے سمجھانے میں دو چیزوں کا موازنہ ہمیشہ آسان عمل رہا ہے۔ اِس لیے ہم بھی موازنے کے طور پر صدرِپاکستان کی مثال لےلیتے ہیں۔ افواجِ پاکستان کےسپریم کمانڈر صدرِِ مملکت کی مثال ہم اِس لیے لے رہے ہیں کیونکہ پچھلے دورِ حکومت میں پانچ سال کے دوران منتخب صدر کے ساتھ الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا نے وہ گدھاپن کیاہے کہ جس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی۔

اگر آپ آرمی چیف اور آئی ایس آئی چیف کے عہدوں سے صدرِ پاکستان کے منصب کی طرف زینہ بہ زینہ اُوپر جائیں تو درمیان میں کم از کم چھ سات زینے(آئی ایس آئی چیف، چیف آف آرمی سٹاف، جوائنٹ چیفس آف آرمی سٹاف، ڈیفنس سیکریٹری، وزیرِ دفاع، سپیکر قومی اسمبلی، چیئرمین سینٹ، وزیرِاعظم اور صدرِ پاکستان) پڑتے ہیں۔ حکومتی عہدوں میں اِتنا فرق زمین اورآسمان کا فرق سمجھاجاتا ہے۔ ماضی کے تناظر میں دیکھا جائے تو جیو اور نُونی نامی اصطبلوں پر بندھے خُوگروں کاکچھ زیادہ قصورتو نہیں بنتا کہ بجلی کی سی تیزی والی اِنتہائی چاک وچوبند اور حسین و جمیل دولتیوں کے بے دردی سے پیچ وخم نکال دیئے جائیں۔

نیش زنی کی فطرت میں مبتلا آئین و قانون کی من چاہی تعبیروتشریح کرنے والے دانش کے پہاڑوں سےیہ سوال ضرور پوچھنا چاہیئے کہ آپ کے’اصول’ کے عین مطابق آصف علی زرداری 1987ء سے لے کر 2008ء تک تو عام سے ‘بلڈی سویلین’ تھے، تو اُن پر ہرطرح کے بہتان بالکلجائز’ تھے مگر جب وہ وطن عزیز کے آئین کے عین مطابق ‘پارساؤں’ کے سپریم کمانڈر بن گئے، تو پھر بھی وہ جھوٹی بہتان بازی کا ہدف ٹھہرے؟

یہ بات سمجھ سے بالکل باہر ہے، کیونکہ اُسی آئین کے مطابق پاک افواج کے سپریم کمانڈر کے ادنٰی سے ماتحت یعنی آئی ایس آئی چیف کے عہددار پر فقط آٹھ گھنٹے کی تنقید نے وطنِ عزیز کی چُولیں تک ہلا دی ہیں، تو پھر اُس کے سپریم کمانڈر کو ججوں کے ساتھ ثابت شدہ مِلی بھگت سے جھوٹے کیسز کے ذریعے غیرملکی عدالتوں کے سامنے پھینکنے کی کامل کوشش، دفاعی اِداروں نے اپنی ناکامی پر پردہ ڈالنے کے لیےعدالتوں اور اپنے جموروں کے ذریعے بھرپور غداری کامقدمہ چلانا اور بے بنیاد پروپگنڈا چہ معنی۔۔۔۔؟

راقم کو پورا ادراک ہے کہ ہر وقت نفرت اور تعصب کی آگ میں بھڑکنے اور آئین کو ردّی سمجھنے والوں کو یہ بات سمجھانا ممکن نہیں ہے۔ پھر بھی عرض ہے کہ تقاضائے آئین و دستور کے برعکس اپنی ذاتی ترجیحات تراشنے سے ملک میں تناؤ، تصادم اور بداعتمادی کی دیواریں اونچی اور نفرتوں کی لکیریں گہری ہو جاتی ہیں۔جس کے نتائج ہم بارہا بھگت چکے اور بھگت رہے ہیں۔ افترا باندھنے والوں کو یہ بھی معلوم ہونا چاہیئے کہ تنقیددلوں میں گھر کر جانے والی موثر دلیل مانگتی ہے، دلیل سے عاری تنقید بغض اور نفرت کے ملغوبے میں ڈھل کر تبرّٰی بن جاتی ہے۔ اور اِس نفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں کہ تبرّے باز کی عزت دار معاشرے میں کیا عزّت ہوتی ہے۔

پچھلی جمہوری حکومت کے دوران جمہوریت دشمن قوتوں نے جمہوریت کو زک پہنچانے کے لیے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں اُٹھا رکھا۔ قدم قدم پر رکاوٹیں کھڑی کی گئیں۔ آئے روز نام نہاد آزاد میڈیا کے علمبردار حکومت کے خاتمے کی تاریخیں دیتے تھے اور ایک عظیم صادق و امین شخص یعنی آزاد عدلیہ کے سربراہ افتخار چوہدری اپنے اتحادیوں کے ساتھ ملی بھگت سے سکینڈل گھڑکر حکومتی ارکارن کی عزت کا جنازہ بڑی دھوم سے نکالتے تھے۔ یہ آصف علی زرداری کا حوصلہ تھا کہ کسی بھی بے ہودگی پر اُف تک نہ کی۔ ہر وار صبروتحمل اور تدبّر سے سہا۔ جمہوریت پر ڈھال بن کر کھڑے رہے۔ آخر کار تھک ہار کر ہیئت مقتدرہ اور اِس کے ‘سپاہیوں’ نے اپنے راستے میں سنگ گراں بننے والے آصف علی زرداری کو ہٹانے کے لیے ‘مائنس وَن’ فامولے کے تحت اتحاد بنا کر اپنی صفوں کو نئی ترتیب دی۔

مائنس وَن معرکے کے اِتحادیوں کی مشترکہ مثالی حملوں میں جعلی میموگیٹ کی ننگی سازش،کیری لوگربل کے سلسلے میں سول حکومت سے کھلی بدمعاشی، آئی ایس آئی کو وزارتِ داخلہ کے ماتحت کرنے کی کاوش کےخلاف سخت مزاحمت، منتخب وزیراعظم کی غیرقانونی برطرفی، ایفی ڈرین کے شوشے میں پارلیمنٹ میں اکثریتی پارٹی کےنامزد وزیرِاعظم کےخلاف عدالتی وقت کے بعد (شام کےوقت) وارنٹ ناقابل ضمانت جاری کروانا، پھر دوسرے دن یعنی رائےشماری کی صبح قومی اسمبلی کے سامنے نامزد وزیرِاعظم کی گرفتاری کے لیے باوردی سپاہی کھڑے کرنا،

منتخب صدر پر استعفے کا مسلسل دباؤ ڈالنا،صحافیوں کے ذریعے میڈیا میں من پسند پروپگنڈے کی بھرمار، راتوں کے اندھیروں میں چھپ چھپ کرجی ایچ کیو میں سازشی سیاستدانوں سے میل ملاقاتیں، بھاڑے کے ٹٹو صحافیوں کے ذریعے خبریں اور تجزئیوں کا فیڈ کیا جانا، دفاعی،خارجہ اورخزانہ کی وزارتوں پرکُلی قبضہ اوربالآخر تاریخی دھاندلی کےذریعے نُونی حکومت مسلط کرنے کی واضح تاریخ بہت کچھ سمجھنے کے لیے کافی ہے۔

آج کل ہمارے کُند ذہن میں یہ بات کوشش کے باوجود نہیں آرہی کہ جنرل (ر) پرویز مشرف اپنی صدارت کے آخری دنوں میں اِتنے کمزور کیسے ہوگئے تھے کہ صحافی اور وکیل ان کے خلاف شجاعت وبہادری کی عظیم داستانیں رقم فرمارہے تھے، جو اَب صدارتی عہدے کے بغیر بھی پرویز مشرف کے سلسلے میں بھیگی بلی بنے ہوئے ہیں؟ اُس وقت بھاڑے کے ٹٹو عوام کو یہ بتانا کیونکر بھول گئے کہ فوج میں بے چینی ہے اور جوانوں کا مورال ڈاؤن ہو رہا ہے؟ کیا اُس وقت کے’چیف’ کا اپنے سابقہ چیف کے بارے میں صحافیوں اور وکلاء کو واضح گرین سگنل تھا؟ اگر ہم اُس وقت اور وقتِ موجود کا تقابلی جائزہ لیں تو حقیقت واضح ہوجاتی ہے،

کیونکہ اب آئی ایس آئی چیف کے بارے میں صِرف آٹھ گھنٹے کی لائیو کوریج پر ‘اصل حکمرانوں’ کی میڈیا ہاؤسز کو شٹ اپ کال پر بڑے بڑے جری و جَیَّد صحافی بہرے پتھر بن گئے ہیں، اُن کے شرربار قلم اور دراز زبانیں ناکارہ ہوگئیں ہیں اور آئی ایس آئی کے ‘کارناموں’ کے ساتھ ساتھ پرویز مشرف کو بھی اپنی یادداشت سے محو کر بیٹھے ہیں۔ اگر اُن کو یاد دلایا جائے تو وہ ہونک ہو کر اِدھر اُدھر تکنے لگتے ہیں کہ جیسے اُن کی حیران نظروں میں سوال ہو، کون پرویزمشرف؟ دوسری طرف پولیس اور سول ججوں کی درگت بنانے کے شوقین وکلاء نے پرویزمشرف کی وطن واپسی پر پہلی عدالتی پیشی کے موقع پر اپنی سابقہ عادت کے عین مطابق خوب گلے پھاڑپھاڑ کر نعرے بازی کی اور مزید بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے پرویز مشرف کی طرف ایک عددجُوتا بھی اُچھال دیا۔

اگلی پیشی پر’چِٹ کپڑیوں’ نے وکلاء کو کمانڈو سٹائل میں ایسی ماہرانہ ککیں گھما گھما کر رسید کیں کہ صف شِکن وکلاء راولپنڈی کچہری سے باہر دورتک سڑکوں پر لہولہان ہوکر فریادوں اور معافیوں کے ساتھ ‘لیٹنیاں’ لیتے پائے گئے۔ آزاد عدلیہ کی بحالی کی تحریک کےسپہ سالار یعنی ‘چیف کے جانثار بے شمار’ وکلاء کی فتنہ انگیزی کا یہ تھا انجام۔ اُس کے بعد پرویز مشرف عدالت آئیں یا جائیں، وکلاء ان کے سائے سے بھی بدکتے ہیں، مگر انگلیوں پر گِنے جانے والے پرویزمشرف کے حواری خوب نعرہ زن ہوکر اُن کی ریکارڈ توڑ مقبولیت کے جھنڈے گاڑ رہے ہوتے ہیں۔

(جاری ہے)

Source

http://thespokesman.pk/index.php/history/item/7654-1

Comments

comments

Latest Comments