مذھبی فاشزم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کیا جنرل ضیاء ہی مجرم ہے؟ از قلم -محمد بن ابی بکر

نوٹ:ہمارے ہاں اب یہ روائت بہت جمتی جارہی ہے کہ پاکستان میں پھیلتی اور بڑھتی مذھبی فاشزم کے سوال کو زیر بحث لاتے ہوئے اس کا سارا ملبہ کسی ایک فرد کے زاتی کندھوں پر ڈال دیا جاتا ہے اور یہ کوشش خاص طور پر ایسے قلم کار کرتے ہیں جن کا مقصد اپنے تجزئے میں پاکستان کی ملٹری اسٹبلشمنٹ کی ادارہ جاتی بددیانتیوں،طبقاتی فائدوں اور کینہ پروری کو چھپانا ہوتا ہے اور یہی کام ایک دوسرا طبقہ سیاسی یا عدالتی اسٹبلشمنٹ کا حمائت میں کرتا ہے اور اس طرح سے مذھبی فاشزم کی جو ادارہ جاتی بنیادیں ہوا کرتی ہیں ان کو گول مول اور ابہام پرست ڈسکورس کے تحت دفن کردیا جاتا ہے

ہمارے ہآں نجم سیٹھی ،شیری رحمان،اعجاز حیدر ،رضا رومی ،علی دایان حسن جیسی 70ء اور 80 ء کی دھآئی سے آنے والی لبرل تجزیہ نگاروں کی نسل نے جو گول مول ڈسکورس بنایا تھا اب وہ نئی نسل میں منتقل ہورہا ہے اور اسی گول مول تجزیہ نگاری کی نئی نمآئندگی نجم سیٹھی کے بیٹھے علی سیٹھی کررہے ہیں جنھوں نے نیویارک ثائمز ميں بلاسفیمی لاز کے حوالے سے جو آرٹیکل لکھا وہ بہت سے فکری مغالطوں پر مشتمل ہے اور میں نے جب اس آرٹیکل کو پڑھا تو مجھے لگا کہ مجھے تعمیر پاکستان ویب سائٹ کے اردو سیکشن کے قاری کے لیے اس پر تفصیلی بات کرنی چاہئیے تو میں نے صرف بات کو صحافتی تجزیہ نگاری میں گول مول ڈسکورس کو پروان چڑھانے والوں تک محدود نہیں رکھا اور نہ ہی اپنی بات کو نجم سیٹھی سے علی سیٹھی تک کے مشتبہ جرنلزم تک محدود رکھا ہے بلکہ اس کا دائرہ میں نے پاکستان کی مذھبی سیاسی جماعتوں کے کردار تک بڑھایا ہے

نئی نسل جو ضیاء الحق کے مارشل لاء کے بعد جوان ہوئی ہے اسے فوج کے 5 جولائی 1977ء کو اقتدار میں آنے کے بعد پاکستان کی ریاست کی ڈیپ سٹیٹ بنانے کی پالیسی میں جہادی پراکسی خاص طور پر جہاد کشمیر اور جہاد افغانستان کے شامل ہونے اور پاکستان کے اندر بحانلی جمہوریت کی تحریک کو کچلنے کے لیے کشمیر اور افغانستان کی پراکسی کے اہم کرداروں کو استعمال کرنے اور ان کی سیاسی شراکت داری کو بڑھانے کے پروسس سے ناواقف ہے اور اس پروسس میں کیسے دیوبندی-وہابی مکتبہ فکر سے دیوبندی-وہابی سیاسی فاشسٹ اور دیوبندی-وہابی عسکری فاشسٹ ایمپائر کا جنم ہوا اس بارے میں بھی نوجوان نسل کو معلومات کم ہیں اور دیوبندی  اور وہابی مکاتب فکر کے اندر عسکری اور سیاسی فاشزم کے ایک معیار اور قدر کے طور پر تشکیل پانے اور مستحکم ہونے میں فوج ،انٹیلی جنس اداروں اور فوج کے زیر سایہ 80ء کی دھائی سے سامنے ابھر کر آنے والی سیاسی اشرافیہ کا کس قدر کردار ہے اس حوالے سے بھی گول مول ڈسکورس رکھنے والے پردہ پوشی سے کام لیتے ہیں کیونکہ کسی کو ملٹری اسٹبلشمنٹ کی ناراضگی کا خوف لاحق ہوتا ہے تو کوئی نواز شریف ایںڈ کمپنی کی مراعات اور کرم نوازی سے محروم نہیں ہونا چاہتا اور کوئی یہ خیال کرتا ہے کہ اگر ملٹری و نازو کے لے پالکوں کے تلوے چاٹ لیے تو دیوبندی-وہابی فاشزم کے عذاب سے بچ جائے گا حالانکہ مذھبی فاشسٹوں کے تلوے چانٹنے والوں کو رضا رومی کے حشر سے سبق سیکھنا جاہئیے

ملٹری اسٹبلشمنٹ 80ء کی دھائی میں مغرب اور سعودیہ عرب کی مدد سے جس مذھبی فاشزم کو پاکستان کے اندر پروان چڑھارہے تھے اس فاشزم کو آگے لیجانے میں خود سنّی بریلوی اور شیعہ کی مذھبی قیادت بھی چند معمولی رشتوں کے ساتھ شامل ہوگئی اور آج وہ اس حوالے سے اپنی قوم کی تباہی کا سارا ملبہ یا تو اکیلے ضیاء الحق پر ڈالتی ہے یا میاں محمد نواز شریف پر جبکہ اس کے پیچھے ملٹری اسٹبلشمنٹ اور خفیہ ایجنیسیاں ان کو نظر نہیں آتیں بلکہ وہ ان کے بطور ایک ٹول کے آج بھی استعمال ہونے کے لیے بے قرار نظر آتے ہیں اور ان کی روش دیکھ کر میر کا یہ شعر یاد آتا ہے

میر بھی کیا سادہ ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب

اسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں

پاکستانی نژاد بہت سے روشن خیال ایسے ہیں جو پاکستان کے اندر مذھبی فاشزم اور اس کے ساتھ آنے والی قباحتوں اور وحشتوں کے تناظر کا تجزیہ کرتے ہوئے اسے کسی فرد واحد کے زاتی رجحانات اور زاتی حثیت میں اٹھائے گئے اقدام قرار دیتے ہیں اور اس حوالے سے مبہم اشاروں اور گول مول اصطلاحوں کا بہت استعمال کرتے ہیں
ابھی حال ہی میں نجم سیٹھی کے بیٹے علی سیٹھی نے امریکی اخبار نیویارک ٹائمز میں ایک آرٹیکل پاکستان میں توھین مذھب کے قوانین کے تحت لوگوں پر مقدمات کی شرح بڑھنے اور مختلف مذھبی گروہوں کے اس کے نشانہ بن جانے کے بارے میں لکھا تو انھوں نے اس حوالے سے جو تجزیہ کیا وہ بہت ناقص ،فکری مغالطوں اور گمراہ کن اصطلاحوں پر مبنی ہے
علی سیٹھی بلاسفیمی قوانین کے حوالے سے سارا الزام جنرل ضیاءالحق کے سر ڈالتے ہیں اور ایسے ظاہر کرتے ہیں کہ جیسے جنرل ضیاء نے یہ فیصلہ اپنی زاتی حثیت میں کیا تھا
جبکہ حقیقت یہ ہے کہ 5 جولائی 1977ء کو جب جنرل ضیاءالحق نے اقتدار پر قبضہ کیا تو یہ قبضہ جنرل ضیاء نے فوج کے سربراہ کے طور پر کیا تھا اور فوج بطور ادارہ اس فیصلے کے پیچھے کھڑی تھی
جنرل ضیاء الحق نے اس کے بعد 1988ء تک طیارے کریش میں ہلاک ہوجانے تک جو بھی اقدامات کئے وہ فوج کے خیالات اور افکار کی عکاسی کرتے تھے
اسی لیے جنرل ضیاء الحق کی جانب سے پاکستان کے آئین کی مزید دیوبندی-وہابی ریڈیکل آئیڈیالوجی کی طرف جھکاؤ کرنے کا سلسلہ شروع کیا جسے ہم جدید ٹرمنالوجی میں پاکستانی آئین کو مذھبی فاشزم سے ہم آہنگ کرنا کہہ سکتے ہیں تو اس کے پیچھے ان کو پاکستان آرمی کی قیادت کی پوری حمائت حاصل تھی اور میں تو یہ بھی کہتا ہوں کہ اس وقت پنجاب ،سندھ ،خیبرپختون خوا سے جو حلقے جنرل ضیاء الحق کی حمائت کررہے تھے وہ بھی جنرل ضیاء الحق کی جانب سے مذھبی فاشزم کا ایسا ماڈل نافذ کرنے کی کوشش میں بالواسطہ شریک تھے جس کے لیے جنرل ضیاء الحق کو سب سے زیادہ ںظریاتی اور فکری مواد اور ںظریہ ساز دیوبندی اور وہابی مکتبہ فکر سے میسر آئے اگرچہ حدود آرڑیننس کے نفاز میں اس وقت کے دیوبندی ،وہابی لوگوں کے ساتھ جماعت اسلامی ،سنّی بریلوی کے ضیاء الحق کے حامی مولوی اور یہاں تک کہ ایم آر ڈی میں شامل مولوی بھی اس کے حامی تھے
ریکارڈ درست ہونا چاہئیے کہ حدود آرڈیننس میں توھین مذھب ،اینٹی قادیانی ایکٹ میں ترامیم ،قانون شہادت مین تبدیلی ،قانون حد زنا وغیرہ کو سنّی،بریلوی،شیعہ ،دیوبندی ،جماعت اسلامی سب کی مذھبی پیشوائیت نے حمائت دی تھی اور آج بھی یہ پیشوائیت ان قوانین کے نفس مضمون سے اختلاف نہیں کرتی
اور یہ مشترکہ حمائت ویسی ہی تھی جیسے 1974ء میں امتناع قادیانیت ایکٹ کو منظور کرتے وقت دیکھنے کو ملی تھی اس لیے یہ کہنا کہ جنرل ضیاء الحق کے اقدامات سے سنّی سخت گیریت کو فائدہ ہوا جبکہ میرا خیال یہ ہے کہ فوجی اسٹبلشمنٹ کی اس پالیسی سے شیعہ ،سنّی بریلوی،دیوبندی ،وہابی کی مذھبی پیشیوائیت کو زیادہ ترقی کرنے اور گروم کرنے کا موقعہ ملا جبکہ مجموعی طور پر اگر دیکھا جائے تو فوجی اسٹبلشمنٹ کی جانب سے پاکستانی آئین کے اندر مذھبی فاشسٹ عناصر کو اور زیادہ کرنے کی پالیسی اور پاکستان کی 1947ء کے بعد سے ریاست کو گہرا کرنے اور اس کو سیکورٹی سٹیٹ بنانے کی پالیسی میں جہادی پراکسی کو ڈالنے اور پنجاب و سندھ میں خاص طور پر بحالی جمہوریت کی تحریک کو کچلنے کے لیے فرقہ وارانہ تشدد کو پروان چڑھانے کی پالیسی نے دیوبندی اور وہابی مکاتب فکر کو زیادہ فائدہ پہنچایا
کیونکہ ایک طرف سعودیہ عرب تو دوسری طرف مغربی بلاک اور تیسیری طرف فوج کی اپنی مقامی ضرورتیں ایسی تھیں کہ جس نے دیوبندی-وہابی آئیڈیالوجی کے ساتھ خود کو بہت زیادہ ہم آہنگ پایا
دیوبندی-وہابی مذھبی فاشسٹ ایمپائر کی عسکری اور سیاسی دونوں جہتوں کی تعمیر پہلے فوج،آئی ایس آئی ،سعودی عرب ،امریکہ و مغربی ممالک نے ملکر کی اور آہستہ آہستہ ہم نے یہ دیکھا کہ ملٹری اسٹبلشمنٹ نے دیوبندی-وہابی عسکریہ اور سیاسی قوتوں کو گود لے لیا اور جب امریکہ و مغرب نے ،چین ،روس ،بھارت سمیت عالمی برادری نے ان سے تعلق توڑنے پر ملٹری اسٹبلشمنٹ کو مجبور کیا تو بھی یہ تعلق ختم کرنے سے انکار کیا گیا
ملٹری اسٹبلشمنٹ کی توجہ اور پشت پناہی سے نہ صرف وہابی اور دیوبندی فاشسسٹ سیاسی پاور کی تعمیر ہوئی بلکہ ہم نے مسلم لیگیوں کے اندر بھی دیوبندی-وہابی فاشزم کو تیزی سے سرایت کرتے دیکھا اور میرے خیال میں نائن الیون کے بعد تو دیوبندی-وہابی فاشسسٹ عناصر پاور پالیٹکس میں اہم ہونے کی وجہ سے یہاں تک ہوا کہ پی پی پی جیسی سیکولر جماعتوں کے اندر بھی شامل ہوئے
میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان کی ملٹری ،سول نوکر شاہی اور پاکستان کی سیاسی اشرافیہ کا دیوبندی-وہابی مذھبی فاشسٹ عسکری وسیاسی چہروں کے ساتھ اتحاد سٹریٹجک بنیادوں پر استوار ہے اور اس کی جڑیں بہت گہری ہیں اور اس اتحاد میں بہت سے بریلوی اور شیعہ بھی شامل ہیں جو پاکستان میں اپنی کمیونٹی کے حاشیے پر دھکیلے جانے پر بہت شور مچاتے ہیں اور وہ بھی صرف ضیاء الحق اور ضیاءالحقی باقیات کا شور شرابا کرتے ہیں اور یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ پاکستان میں سیکولر جمہوری ترقی پسندانہ ماڈل کی راہ میں سب سے بڑی روکاوٹ ملٹری اسٹبلشمنٹ ہے جو اس روکاوٹ کو برقرار رکھنے کے لیے سب سے زیادہ انحصار وہابی-دیوبندی فاشزم پر کرتی ہے جس کے عسکری اور سیاسی ونگ جب چاہتے ہیں پاکستان کی اکثریت کو اپنا یرغمال بنالیتے ہں لیکن کیا ٹریجڈی نہيں کہ شیعہ اور بریلویوں میں ایسے کرداروں کی کمی نہیں ہے جو ملٹری اسٹبلشمنٹ اور بارودیوں کو الگ الگ کرکے دیکھنے کی غلطی کا ارتکاب کرتی ہے اور وہ سارے اچھے جہادی دیوبندی فاشسٹوں کو فوج کی ٹوکری میں پڑے دیکھنے کے باوجود اپنے انڈے بھی اسی ٹوکری میں ڈال دیتے ہیں
جس طرح بہت سے مذھبی فاشسٹوں نے اپنے چہرے پر جمہوریت اور سویلین بالادستی کا نقاب چڑھا رکھا ہے اور ماضی کے بہت سے امیر المومنین آج سرخیل اینٹی اسٹبلشمنٹ بنے بیٹھے ہیں اور بہت سی دیوبندی-وہابی تںطیموں نے خود کو سول سوسائٹی کا درجہ دے رکھا ہے اسی طرح سے ملٹری اسٹبلشمنٹ کی جانب سے خود کو دھشت گردی کا سب سے بڑی مخالف اور انتہا پسندی کے خلاف مزاحمت کرنے والا واحد منظم ادارہ ظاہر کیا جارہا ہے اور ہمارے بہت سے لوگ اس فریب کا شکار ہیں
اس فریب میں ان کو مبتلا کرنے میں نجم سیٹھی،علی سیٹھی،شیری رحمان ،اعجاز حیدر ،رضا رومی سمیت بہت سے جعلی لبرل اور فیک روشن خیال دانشوروں اور صحافی تجزیہ نگاروں کا بہت ہاتھ ہے
جس طرح بہت سے تجزیہ نگار مسٹر نواز شریف اینڈ کمپنی کو ملٹری اسٹبلشمنٹ بالادستی کا سب سے بڑا مخالف اور جمہوریت کا سورما ثابت کرنے پر تلے ہیں ویسے ہی بہت سے تجزیہ نگار ملٹری اسٹبلشمنٹ کو پاکستان کی امن پسند،اعتدال پسند عوام کا نجات دھندہ بناکر دکھانے کی کوشش کررہے ہیں اور پاکستان کی اسٹبلشمنٹ کے دو دھڑوں کی پاور پر لڑائی کو آزادی و غلامی کی لڑائی بناکر دکھانے کی کوشش ہورہی ہے جس سے اس ملک میں مذھبی فاشزم کے خلاف جنگ نہيں جیتی جاسکتی
ہمیں یہ بھی یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ پاکستان میں مذھبی سنٹر رائٹ بریلوی اور سنٹر رائٹ شیعہ مذھبی سیاسی قیادت نے پاکستان بننے کے بعد سے لیکر اب تک فوجی اسٹبلشمنٹ کے ساتھ سٹریٹجک پارٹنرشپ کی اگرچہ اس کے اندر دیوبندی-وہابی مذھبی سنٹر رآئٹ کو پاور کوریڈور میں زیادا توجہ ملنے پر اعتراض اور شکایت رہی لیکن یہ شکائت اور اعتراض آگے بڑھکر کبھی بھی بغاوت میں نہیں بدلا جبکہ شیعہ سنٹر رآئٹ اور بریلوی سنٹر رائٹ کا پنجاب میں نواز شریف سے دور ہونا اور سندھ میں پی پی پی اور ایم کیو ایم سے دوری اور خیبرپختون خوا میں اے این پی سے دوری اور جوڈیشری کی اسٹبلشمنٹ سے ناراضگی کے اسباب حقیقی ہیں لیکن اس سے ہٹ کر انھوں نے جو ملٹری کی ٹوکری میں اپنے انڈے ڈالے ہیں اور ساتھ ہی ان کی قربتیں جماعت اسلامی ،تحریک انصاف سے نظر آتی ہیں تو یہ تو آسمان سے گرکر کجھور میں اٹکنے کے مترادف ہے اور فوج سے ان کی سٹریٹجک پارٹنر شپ بہت سے شکوک پیدا کررہی ہے
جبکہ یہ بات بھی حقیقت ہے کہ پاکستان کی پنجابی اکثریت کی حامل جو عسکری ،سیاسی اور معاشی سامراجیت ہے اس کی جانب سے محکوم نسلی،لسانی قومیتی گروہوں کو کچلنے اور ان پر جو زبردست جبر کیا جارہا ہے جس میں پاکستانی ریاست فضائیہ تک کا استعمال کررہی ہے کی پاکستان کی شیعہ اور بریلوی برادریوں کی نمائندہ مذھبی سیاسی جماعتوں (جیسے ایم ڈبلیو ایم،تحریک جعفریہ،سنّی اتحاد کونسل،پاکستان سنّی تحریک ،جماعت اہل سنت ،اے ٹی آئی جن کی بنیاد زیادہ تر پنجابی اور اردو بولنے والے حلقوں میں ہے)کی جانب سے حمائت بھی وہی غلطی ہے جو بنگالیوں کے خلاف فوج کشی کرتے وقت فوج کا ساتھ دیکر دوھرائی گئی تھی یا ایم آر ڈی کی تحریک کو کچلنے کے سندھ پر فوج کشی کی حمائت کے وقت دوھرائی گئی تھی
ایرانی انقلاب کی قیادت اور آج اس کی باقیات بھی پاکستان میں جماعت اسلامی ،جے یوآئی س و ف وغیرہ کو جس طرح سے اپنا سرکاری مہمان بناتی رہی اور پاکستان میں اپنے زیر اثر شیعہ تںظیموں کو دیوبندی-وہابی فاشسٹوں سے موقعہ پرستانہ اتحاد اور اشتراک بنانے کی حکمت عملی پر عمل پیرا رہی ہے جس سے بار بار پاکستان میں مذھبی فاشزم کو تقویت ملی اور ہر مرتبہ مذھبی فاشزم جس کی سب سے طاقتور ایجنسی دیوبندیت اور وہابیت کے اندر ہے کو نئی زندگی ملتی رہی ہے

Comments

comments

Latest Comments
  1. khawaja amir
    -
  2. Abu Bakaer
    -
  3. Abu Bakaer
    -
  4. khawaja Amir
    -
  5. Sabir Hameed
    -