American diplomacy of contempt – by Shiraz Paracha
The mastermind as well as the motive behind the WikiLeaks release of US diplomats’ official correspondence with Washington is not known yet. However, the material released so far shows that George W. Bush was not the only mediocre with inferiority complexes. The whole State Department and policy makers in the United States have IQ problems.
Electronic letters and emails of U.S diplomats are symbols of bad taste and indicate that writers were carried away by prejudices and even anger.
Diplomats are supposed to be objective and measured in their assessments and analysis. But U.S ambassadors have been writing low quality sloppy assessments of very crucial and sensitive international issues and situations.
Such information is supposed to be evaluated and written by serious and responsible professionals; however, U.S embassies emails confirm recklessness and irresponsible behaviour at the very heart of the U.S foreign policy. There is a pattern of ridicule of other cultures and an arrogance that exposes shallow U.S pride.
A much serious issue, however, is that information gathering processes are not very sophisticated and developed at the U.S State Department. A large volume of the so-called classified information is not well sourced and well evaluated. Most of the material is based on hearsay, rumours and careless personal opinions of the officials.
It is obvious that the depth required for dealing with delicacies and sophistications of diplomacy is lacking among the vast majority of the senior U.S foreign policy officials.
Another important point is that U.S ambassadors have been acting as spies. Spooks do use diplomatic cover but ambassadorial level positions are different. Ambassadors have access to places and information which spy agents do not have.
Ambassadors are symbols of trust between two nations. They cultivate friendship and goodwill on the behalf of their states. Some U.S ambassadors, however, have not been meeting the minimum standards of decent and professional behaviour.
Anne Patterson, a former U.S ambassador to Pakistan, for example, was involved in the wheeling and dealings of the Pakistani politics. She was engaged in activities that were beyond her scope and job as a neutral envoy.
And in the opinion of the U.S Ambassador to Afghanistan, President Hamid Karzai is a weak person with personality disorders. Let us not that forget the U.S had imposed Mr. Karzai on Afghanistan after the removal of the Taliban.
The U.S diplomats see the Russian government as a mafia. The current Russian leadership is the most popular among the Russian public and the United Russia Party is in power since 2000 as the Russian voters have shown full confidence in the Party and its leadership but U.S diplomats see them as corrupt criminals. One can only feel pity for the low calibre of U.S diplomats. The U.S Ambassador to Kazakhstan is said to have communicated derogatory remarks about politicians of the host country and the same was done to people and leaders in other countries.
It is worrying to realize that the United States foreign policy and key strategic decisions are based on such childish assumption and analysis. It should not be surprising why the U.S is hated around the world. The United States uses military means to maintain control because of the inefficiency of its diplomatic corps and insensitivities of its political leadership.
Diplomacy means cultivating friendships and the truth is that United States has failed the test because the U.S believes in master-salve type of international relationships, while friendship is earned by treating others with equality and respect, not contempt.
Shiraz Paracha is a journalist and analyst. His email address is: [email protected]
Low IQ and a belief in master-salve type of international relationships are two key traits of the US foreign policy and diplomats (with only very few exceptions).
Low IQ is their national trait whereas the feature of contempt they have inherited from their ancestors in Britain.
Come on guys! Dont act like those who are practicing America bashing all the time repeatedly “Nihar Munh and Sone Se Pehle”.
If Americans diplomats have some IQ problem, what about your highness COAS, DGISI and the whole lot of political leadership doing in their meetings with them trying to to let them listen their “Amokhta and Dukhraas”, In the whole saga, only AAZ emerged as a straight forward persons, others all have masked intentions, “khalwaton mey kuch, Jalwaton mey kuch”.
Share
منزل کہاں ہے تیری؟…سویرے سویرے…نذیر ناجی
ابھی صرف سفیروں کے خطوط کے کچھ نمونے سامنے آئے ہیں اور ہاہاکار مچ گئی۔ جیسے زبردست راز کھل گئے ہوں۔ انٹرنیشنل اسٹیبلشمنٹ میں سفارتخانوں کا درجہ سب سے نیچے ہوتا ہے۔ وہ میزبان ملک کے اس ڈیسک کے ماتحت ہوتے ہیں‘ جو سفیرکی تقرری والے ملک کے امور دیکھتا ہے۔ عموماً ایسا ڈیسک دو تین یا چار ملکوں کو ڈیل کرتا ہے۔ اس کے اوپر ایک سب ریجنل ڈیسک ہوتا ہے اور پھر ریجنل ڈیسک۔ جیسے جنوبی ایشیا‘ مشرقی ایشیا‘ پیسفک ریجن وغیرہ۔ پھر براعظم آتے ہیں۔ اس کے بعد نائب وزیرخارجہ اور وزیرخارجہ۔ امریکہ میں سیکرٹری آف سٹیٹ کے بھی کئی درجات ہیں۔ ہمارے سامنے صرف سفیروں کی رپورٹیں ہیں اور شوریوں مچایا جا رہا ہے جیسے پتہ نہیں کہاں کہاں کے راز ہمارے سامنے آ گئے ہوں؟ یہ سطح حقیقی رازوں کے قریب نہیں پھٹک سکتی۔ اصل راز تین چار بالائی سطحوں تک آ کے رک جاتے ہیں۔ اس کے بعد صرف احکامات چلتے ہیں۔ سفیر کو ان احکامات کے اندر سے اپنی حکومت کے مقاصد ڈھونڈ کر کام کرنا ہوتا ہے۔ چند ایک سفیر جو انتہائی اہم ممالک میں متعین ہوتے ہیں‘ عموماً انہیں کیڈر میں سے نہیں لیا جاتا۔ وہ اعلیٰ سیاسی قیادت کے قابل اعتماد ساتھی اور اکثر اوقات لیڈرشپ کے اندر سے ہوتے ہیں۔ صرف ایسے سفیروں کو اعلیٰ سطح کی پالیسی سازی کے عمل تک رسائی ملتی ہے۔ ان کی پہچان کرنے کے لئے دیکھنا ہوتا ہے کہ سفارتی فرائض سے پہلے وہ کیا تھے اور واپس جا کر انہیں کیا حیثیت ملی؟ امریکہ اور بھارت میں پاکستان کے کئی سفیر جانے سے پہلے بھی وزارتوں پر فائز تھے اور واپس آنے کے بعد بھی وزارتوں میں رہے اور ایک تو وزیراعظم بھی بنے۔اسی طرح پاکستان میں کام کرنے والے بھارتی سفیر آنے سے پہلے اور جانے کے بعد سیاسی قیادت کا حصہ تھے۔ جیسے نٹورسنگھ یا دوسرے۔ حالانکہ نٹورسنگھ کیڈر میں سے آئے تھے۔
امریکی ترجیحات میں پاکستان کو ہمیشہ بھارت کے حوالے سے دیکھا گیا۔ جب انگریز کے لئے دوسری جنگ عظیم کے بعد بھارت پر نوآبادیاتی قبضہ برقرار رکھنا مشکل ہو گیا اور امریکہ کی قیادت میں ابھرتے ہوئے نئے عالمی بلاک نے یہ اندازہ کرلیا کہ اگر پورے برصغیر کو چھوڑا‘ تو یہ خطہ پورے کا پورا کمیونزم کی لپیٹ میں آ سکتا ہے۔ سوویت یونین‘ وسطی ایشیا کے ساتھ مشرقی یورپ تک پھیل گیا تھا۔ چینی انقلاب کامیابی کی آخری منزلوں تک پہنچ چکا تھا۔ شرق اوسط میں ہلچل برپا تھی اور سلطنت عثمانیہ کے خاتمے کے بعد وہاں انگریز کے قدم نہیں جمے تھے۔ ان حالات میں اگر ہندوستان بھی کمیونزم کی گود میں جا گرتا‘ تو یورپ اور امریکہ کی برتری اتنی آسانی سے قائم نہ ہو سکتی‘ جیسے کہ ہوئی۔ پاکستان کا قیام مغربی بلاک کے لئے نعمت غیرمترقبہ ثابت ہوا۔ آزادی کے فوراً ہی بعد پاکستان میں فوجی مفادات کھڑے کئے جانے لگے۔ ابتدا میں پاکستان دولت مشترکہ کی تنظیم کے حصے کے طور پر مغرب کے رابطوں میں تھا اور دولت مشترکہ کی گرفت کمزور ہونے لگی‘ تو امریکہ کے ساتھ براہ راست فوجی رابطے شروع ہو گئے اور 1954ء میں فوجی معاہدوں کے ذریعے ہم امریکہ کے اتحادی بن گئے۔ برصغیر میں برطانوی راج ختم ہونے کے بعد مغربی طاقتوں کو اس خطے میں پاؤں رکھنے کی جگہ نہیں مل رہی تھی۔ لیکن پاکستان کے ساتھ فوجی معاہدہ ہوتے ہی یہ ضرورت پوری ہو گئی۔ پاکستان میں اپنی فوجی موجودگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے امریکہ نے طاقت کے تین بڑے اور ابھرتے ہوئے مراکز کے خلاف ریشہ دوانیوں کا مرکز قائم کر لیا۔ اسی سرزمین سے سوویت یونین کے خلاف جاسوسی کی ضروریات پوری کی گئیں۔ یہیں سے عوامی جمہوریہ چین کی جاسوسی ہوئی اور اسی ملک میں فوجی طاقت کھڑی کر کے بھارت کو دباؤ میں رکھنے کا مقصد پورا کیا گیا۔
امریکی اگر چاہتے تو پاکستان کو ترقی اور خوشحالی کے راستے پر گامزن کر سکتے تھے۔ یہاں وسیع قدرتی وسائل‘ سازگار موسمی حالات اور بہترین افرادی قوت موجود تھی۔ ایوب خان کے زمانے میں پاکستان نے تھوڑے سے امریکی وسائل اور ابتدائی ٹیکنالوجی کی مدد سے تیز رفتار ترقی کا راستہ پکڑ لیا۔ امریکی پالیسی ساز خوفزدہ ہو گئے کہ اگر پاکستان اسی راستے پر گامزن رہا‘ تو یہ خوشحالی کی کسی منزل پر پہنچ کر ہمیں آنکھیں دکھا سکتا ہے۔ اس خدشے کے پیش نظر ہمیں سیاسی بحرانوں کے بھنور میں دھکیل دیا گیا۔ 1964ء کے انتخابات میں ایوب خان کی حکومت کو غیرمستحکم کر کے رکھ دیا گیا اور ترقیاتی عمل معطل ہونے لگا۔ 1965ء کی جنگ پاکستان کی طرف سے چھیڑی گئی اور اس کے ذریعے مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا راستہ ہموار ہوا۔ اس وقت تک جنوبی کوریا ترقی کے اس درجے پر بھی نہیں پہنچا تھا‘ جس پر ہم پہنچ چکے تھے۔ آج اگر جائزہ لے کر دیکھا جائے تو صاف ظاہر ہو جاتا ہے کہ جنوبی کوریا ‘ پاکستانی ماڈل اپنا کر موجودہ منزل تک کیوں پہنچا اور پاکستان پیچھے کیوں چلا گیا؟ دونوں ملکوں میں فرق یہ تھا کہ ایک پر امریکہ کی اپنی افواج قابض تھیں جبکہ دوسرے میں ایسی کوئی سہولت میسر نہیں تھی۔
پاکستان کے لئے مستقبل کی جو پالیسی تشکیل دی گئی‘ اس کے ذریعے سٹریٹجک مقاصد حاصل کرنا تھے اور ساتھ ہی یہ خیال بھی رکھنا تھا کہ اگر یہ اپنے پیروں پر کھڑا ہو گیا‘ تو ہمارے ہاتھ سے نکل سکتا ہے۔ اس کا اندازہ ایوب خان کے طورواطوار سے ہو چکا تھا۔ وہ قومی خودمختاری کی طرف پیشقدمی کرتے ہوئے نظر آئے اور چین کے ساتھ ان کے بڑھتے ہوئے تعلقات میں اس کی جھلک دیکھنے میں آ گئی تھی۔ اب واضح ہو جاتا ہے کہ 1971ء کی جنگ میں امریکہ نے باقی ماندہ پاکستان کی توڑپھوڑ کرنے سے اندراگاندھی کا ہاتھ روک لیا تھا اور سوویت یونین کو انتباہ کر دیا گیا تھا کہ اگر بھارت کو نہ روکا گیا‘ تو امریکہ خاموش نہیں رہے گا۔ پاکستان میں معاشی ترقی اور خوشحالی کے امکانات دیکھتے ہوئے یہ طے کر لیا گیا کہ اسے کبھی بھی اتنا مستحکم اور اقتصادی اعتبار سے مضبوط نہیں ہونے دیا جائے گا کہ یہ امریکہ کو آنکھیں دکھانے کے قابل ہو سکے۔ آج ہم جس حالت کو پہنچے ہوئے ہیں‘ اس کی واحد وجہ یہی امریکی پالیسی ہے۔
ابھی تک چین‘ روس اور بھارت کے لئے ایک غیرمستحکم پاکستان کی ضرورت برقرارہے۔ روس کا دوبارہ عالمی طاقت بننے کا خواب ابھی باقی ہے۔ چین ہمسری کی طرف کافی آگے بڑھ چکا ہے اور بھارت سٹریٹجک پارٹنرشپ کے باوجود قابل اعتبار نہیں۔ اسے زیراثر رکھنے کے لئے مزید کافی عرصے تک پاکستان کی ضرورت رہے گی۔ اس پس منظر کو دیکھ کر کہا جا سکتا ہے کہ ایک غیرمستحکم پاکستان مزید بڑے عرصے تک امریکہ کو مطلوب رہے گا۔ ظاہر ہے سفیروں کو ان باتوں کا علم نہیں ہوتا۔ وہ صرف وزارت خارجہ کی طرف سے دی گئی راہنمائی میں کام کرتے ہیں۔ یہ پالیسیاں کیوں اور کیسے بنائی گئیں؟ انہیں اس سے سروکار نہیں ہوتا۔یہ صرف پیادے ہوتے ہیں۔ پاکستان کی سیاسی قیادت اب یقین کی حد تک امریکی سرپرستی کی محتاج ہو چکی ہے۔ آگے بھی دوردور تک کسی ایوب خان اور کسی بھٹو کے آنے کا امکان نہیں۔ فوجی قیادتیں مہم جوئی کی طرف چل نکلتی ہیں۔ سب نے یہی کیا۔ پاکستان نے ایٹم بم بنا کر کئی بار امریکی خواہشات کو بری طرح ٹھکرایا ہے۔ اب ہمارے ملک کی ترقی اور خوشحالی امریکیوں کے لئے ایک ڈراؤنا خواب ہے۔ ایک ایٹمی ملک کا جو کہ واضح مقصد اور ٹارگٹ کی طرف بڑھنا چاہتا ہے‘ اس کی اقتصادی ترقی امریکہ اور بھارت دونوں کو منظور نہیں۔ امریکی پالیسیوں کا مقصد اس وقت تک ہمیں بحرانی حالت میں رکھنا ہے‘ جب تک ہماری ایٹمی صلاحیتوں کا فیصلہ نہیں ہو جاتا۔ وکی لیکس کے ذریعے ہمیں آنے والے دور کی ایک جھلک دکھائی گئی ہے اور ایک ایسے مرحلے تک پہنچانے کی کوشش کی جائے گی‘ جہاں جا کر ہم یہ سوچنے پر مجبور ہو جائیں گے کہ پاکستان کو بچانا ضروری ہے یا ایٹمی اثاثوں کو؟
http://search.jang.com.pk/details.asp?nid=489124