تقی عثمانی کا سفید جھوٹ -شیعہ اور تحریف قران
ابھی حال ہی میں میرے ایک پاکستانی دوست نے مجھے ایک وڈیو ارسال کی جو دیوبندی مکتبہ فکر کے مفتی اعظم اور جنرل ضیاءالحق کی آمریت کے دنوں میں پاکستان کی وفاقی شرعی عدالت کے قاضی دارالعلوم کراچی کے روح رواں مفتی تقی عثمانی کی لاہور میں جماعت اسلامی کے بینر تلے منعقد ہونے والی ایک کانفرنس میں تقریر پر مشتمل ہے اور کانفرنس کا عنوان تھا “اتحاد امت اور عالم اسلام”
مفتی تقی عثمانی نے اپنی تقریر کے دوران جب یہ کہا کہ شیعہ سے ان کا اختلاف فروعی نہیں ہے بلکہ اصولی ہے تو اس کا صاف صاف مطلب یہ تھا کہ ان کے نزدیک اگر اتحاد امت کی بات ہوگی تو اس میں اہل تشیع شامل نہیں ہوں گے اور اب مجھے یہ بھی علم نہیں ہے کہ ان کی نظر میں اہل سنت صوفی مسلک سے ان کا اختلاف فروعی ہے کہ اصولی اور کیا مفتی تقی عثمانی کا وہابیہ سلفیہ سے اختلاف فروعی ہے کہ اصولی؟کیونکہ کے ان کے اکابرین کی اکثریت اہل سنت جن کو پاک و ہند میں سنّی بریلوی کہا جاتا تھا سے اپنے اختلاف کو فروعی بتلایا کرتے تھے اور محمد بن عبدالوہاب نجدی کے پیروکاروں کو خارجی کہا کرتے تھے اور خارج عن اہل السنّہ خیال کرتے تھے مگر جب ان کے پاکستان میں چلے آنے والے شیخ الاسلام مفتی شبیر احمد عثمانی کی وہابی شیوخ اور عبدالعزیز بن سعود سے ملاقات ہوئی تو عثمانی محمد بن عبدالوہاب نجدی اور ان کے پیروکاروں کو پکا اور سچا موحد خیال کرنے لگے اور بعدازاں تمام کے تمام دیوبندی مذھبی پیشواء وہابیہ کو وہابیہ خبیثہ اور وہابیہ خوارج لکھنے سے باز آگئے
مفتی تقی عثمانی نے لاہور میں اتحاد امت کے نعرے کو رد کیا اور اس کی بجائے نفاق امت کے نعرے کو اختیار کیا اور انہوں نے اثنا عشری جعفری امامیہ شیعہ کے عقائد کے بارے میں اس قدر جھوٹ بولا کہ ان کی ساری علمیت اور ان کے مسند افتاء پر فائز ہونے کا بھرم جاتا رہا
انھوں نے کہا کہ
شیعہ چونکہ تحریف قران کے قائل ہیں اور وہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کی الوھیت کا عقیدہ رکھتے ہیں اس لیے وہ اسلام سے خارج ہیں اور ان کے ساتھ اسی بنیاد پر ہمارا اختلاف اصولی بن جاتا ہے فروعی نہیں رہتا
مجھے یقین ہے کہ جب وہ لفظ شیعہ بول رہے تھے تو اس سے ان کی مراد وہ شیعہ تھے جو بارہ آئمہ کی ولائت و امامت کے قائل ہیں اور عرف عام میں ان کو شیعہ امامیہ کہا جاتا ہے یا پھر ان کو 12 آئمہ کی نسبت اثناء عشری کہہ دیا جاتا ہے یا امام جعفر کی فقہ کے پیرو ہونے کے سبب ان کو جعفریہ بھی کہہ دیا جاتا ہے
تقی عثمانی یقینی طور پر ان کتابوں سے بھی بے خبر نہیں ہوں گے جو قدیم علمائے تاریخ نے فرق اسلامی کے بارے میں تحریر کی ہیں جیسے عبدالکریم شہرستانی کی کتاب “الملل و النحل”ہے اور ان تمام کتب میں یہ بات صراحت سے لکھی ہوئی ہے کہ بلاد الاسلامیہ میں ایک فرقہ نصیریہ تھا جس کا عقیدہ یہ تھا کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم خدا تھے اور اس فرقے کے علاوہ کسی اور مسلک یا فرقے کے بارے میں مسلم تاریخ کو مدون کرنے والوں نے کبھی یہ نہیں لکھا کہ وہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کی الوھیت کا قائل تھا اور اثنا عشری مذھب کے بارے میں کسی مستند تاریخ میں عقیدہ الوھیت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کی نسبت مذھب امامیہ کی طرف نہیں کی گئی
میں یہ بھی جانتا ہوں کہ یہ ہونہیں سکتا کہ تقی عثمانی اس بات سے بے خبر رہے ہوں گے کہ اہل تشیع کے علمائے اصول کے ہاں عقیدہ توحید میں تنزیہہ کی کیا اہمیت ہے
میں اہل سنت کے اشاعرہ مسلک سے تعلق رکھنے والا ایک عرب مسلم ہوں اور فقہ شافعی کا پیروکار ہوں اور جامعہ الازھر کے شیخ الاسلام مفتی اعظم سمیت بہت سے عرب علمائے اسلام شوافع،مالکی،حنبلاء و حنفی سے واقف ہوں جنھوں نے کبھی مذھب امامیہ پر یہ الزام عائد نہیں کیا کہ مذھب امامیہ حضرت علی کے خدا ہونے کے قائل ہیں
کیونکہ یہ سب علماء بہت اچھی طرح سے واقف ہیں کہ عقیدہ توحید کے حوالے سے امامیہ جو اقوال اور ارشادات حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کی جانب منسوب کرتے ہیں اور جس طرح سے اپنے اصول توحید کو بیان کرتے ہیں اس کے بعد تجسیم و تشبیہ کا ہلکا سا شائبہ بھی مذھب امامیہ کے عقیدہ توحید میں آنا ناممکن ہے اور اگر شیخ صدوق کی الاعتقاد،شیخ مظفر کی الامامیہ،شیخ محمد حسین کی “اصل و اصول شیعہ”کا مطالعہ کیا جائے تو بات بہت واضح ہوجاتی ہے لیکن جب مقصد جھوٹ بولنا ہو اور لوگوں میں فتنہ پھیلانا ہو تو پھر حقیقت ایسے ہی مسخ کی جاتی ہے جسے تقی عثمانی نے کی
نہج البلاغہ میں اولین خطبہ توحید کے بیان پر مشتمل ہے اور اس کو پڑھنے کے بعد کوئی آدمی کیسے حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کی الوھیت کا قائل ہوسکتا ہے
کائن لاعن حدث،موجودلاعن عدم مع کل شیء لابمزایلۃ الخ
مفتی تقی عثمانی نے مذھب امامیہ پر یہ بہتان لگایا کہ وہ قران میں تحریف کے قائل ہیں اور یہ بات اتنی پراعتمادی کے ساتھ کی جیسے یہ امر اس قدر واضح اور روشن ہے کہ کسی کو اس سے اختلاف کرتے بنے گی ہی نہیں
مجھے نہ جانے کیوں لگتا ہے کہ تقی عثمانی سمیت بہت سے فرقہ پرست تنگ نظر تکفیری مولوی حقیقت میں یہ خیال کرتے ہیں کہ وہ اپنی عربی دانی کے بل بوتے پر اور بے تکان کتابوں کے حوالے دیکر یا کتابوں کی عبارتوں کو ان کے سیاق و سباق سے ہٹاکر بیان کرتے ہوئے اپنے معتقدین کو جو چاہیں گے کسی بھی مسلک یا شخص کے بارے میں بتادیں گے اور وہ اس کو مان جائیں گے
ایسا پاکستان کے اندر زیادہ تر اس لیے ہورہا ہے کہ اکثر عوام عربی تو دور کی بات ہے اپنی زبان اردو بھی ٹھیک سے پڑھ نہیں پاتے اور پھر دیوبندی مکتبہ فکر میں شیعت کے بارے میں اسقدر نفرت پھیلادی گئی ہے کہ اس کا عام آدمی کبھی شیعہ کتب اور شیعہ علماء سے پوچھنے کی کوشش ہی نہیں کرتا کہ ان کا کیا عقیدہ ہے جیسا کہ ہماری عرب دنیا میں وہابی اکثر وبیشتر شیعہ مذھب کے بارے میں جھوٹا اور مسخ شدہ پروپیگنڈا کرتے رہتے ہیں اور وہابی سلفی نوجوان اکثر کتب ہائے شیعہ و علمائے شیعہ سے واقف ہی نہیں ہوتے
میں نے جب اہل تشیع کے علمائے اصول و فقہا کی کتب کی تلاش شروع کی اور ان کے قران کریم کے بارے میں اعتقاد کی تلاش شروع کی تو میرے سامنے کوئی ایک شیعہ عالم ایسا نہیں تھا جس نے قران جیس کی اس وقت 114 سورتیں ہیں اور جو آج ہمارے سامنے موجود ہے اس کی ایک آیت کے بارے میں بلکہ اس کے ایک لفظ کے بارے میں یہ کہا ہو کہ وہ قران نہیں ہے یا اس کے بارے میں یہ کہا ہو کہ اس میں کسی ایک لفظ یا حرف کی کمی ہوگئی ہو
علمآئے اہل تشیع نے قران کے غیر محرف ہونے اور اس کے اپنے نزول سے لیکر ابد تک تحریف سے پاک ہونے اور اس میں کسی جانب سے کسی باطل کے داخل نہ ہونے پر بالاتفاق اجماع قطعی ہونے کا زکر کیا ہے اور اس اجماع کے خلاف اگر کوئی جاتا ہے تو اس کے جانے کی کوئی اہمیت نہیں ہے
میں اس سے پہلے کہ ان علماء اور ان کے اقوال باحوالہ کتب درج کروں جنھوں نے قران کے غیر محرف ہونے کی بات درج کی اور قران کی موجودہ صورت پر ایمان کا اظہار کیا یہ بتانا ضروری خیال کرتا ہوں کہ
اگر آپ اہل سنت کی صحاح ستۃ اور اہل تشیع کی کتب ہائے حدیث اور بہت سی ديکر اخباری کتابوں کا مطالعہ کریں گے تو آپ کو بہت سی ایسی حدیثیں مل جائیں گی جن کو پڑھنے سے قران میں کمی یا زیادتی کا شآئبہ پیدا ہوسکتا ہے اور شیعہ اور اہل سنت میں ایسے تنگ نظر لوگوں کی موجودگی ہر زمانے ميں رہی ہے جو ایک دوسرے پر یہ الزام انھی جیسی روایات کے تناظر میں لگاتے رہے کہ وہ تحریف قران کے قائل ہیں
لیکن جید علمائے اہل سنت اور اہل تشیع نے کبھی بھی ان الزامات کو سنجیدگی سے نہیں لیا
کیونکہ دونوں اطراف کے علماء کا یہ متفقہ عقیدہ ہے کہ جب ایسی احادیث سامنے آئیں جو معارض قران ہوں یا اجماع امت کے منافی ہوں تو ان کو رد کردیا جائے گا اور اسی طرح اگر کوئی روایت سنت معروف کے خلاف ہو تو اسے بھی رد کردیا جائے گا اور اگر تضاد تاویل سے رفع ہوسکتا ہو تو تاویل ایسے کی جائے گی جس سے روایت موافق کتاب و سنت ہوجائے
امام علی رضا سے عیون الاخبار جلد دوم ص 20 پر شیخ صدوق نے یہ حدیث درج کی کہ جو حدیث متعارض قران ہو اسے رد کرو اور جو موافق ہو اسے قبول کرلو
امام جعفر صادق کے واسطے سے حضرت علی سے شیخ صدوق نے امالی کے ص 368 پر حدیث درج کی حق بہت واضح ہے جو قران کے مطابق ہو اسے لو اور جو اس کے خلاف ہو اسے رد کردو
تحفۃ العقول کے ص 343 پر علامہ بحرینی نے امام تقی کا قول درج کیا ہے کہ جب بھی تمہارے سامنے کوئی شئے بطور حقیقت پیش کی جائے اسے قران کے سامنے پیش کرو اگر مافق ہو تو قبول کرو ورنہ اسے رد کردو
شیخ الانصاری نے الرسائل میں ص446 پر امام جعفر صادق کا قول درج کیا کہ جب دو متضاد حدیثیں تم تک آئیں تو ان کو قران کے سامنے پیش کردو جو موافق ہو قبول کرلو جو نہ ہو اس کو رد کردو
شیعہ کے ہاں حدیث ثقلین تواتر کا درجہ رکھتی ہے اور اس حدیث میں اللہ کے رسول نے کتاب اللہ اور عترت رسول کے ساتھ تاقیامت وابستہ رہنے اور حوض کوثر پر آپ کو ملنے کی نصحیت کی اور اس حدیث کی بنیاد پر شیعہ کہتے ہیں کہ ان کے مسلک کی بنیاد اور جڑ ہی کتاب اللہ اور اہل بیت اطہار سے مکمل وابستگی ہے اور اس لیے وہ سب سے زیادہ قریب ہدائت ہونے کے دعوے دار ہیں اور اپنے آپ کو اسلام کے سب سے صافی سرچشموں سے فیض یاب ہونے کا دعوی کرتے ہیں لیکن اگر وہ قران ہی میں تحریف کے قائل ہوجائیں تو پھر اخذ بالکتاب و بالعترۃ کا دعوی بے معنی ہوجائے گا اور ہدائت یافتہ ہونے کا خیال بھی بے معنی ہوجائے گا
قران پاک کے بارے میں اہل تشیع کے علماء اور رہنماء اگر تحریف کے قائل ہوتے اور موجودہ قران کے بارے میں کسی شک و شبہ کے شکار ہوتے تو اہل تشیع کے علماء اور رہبروں کے ہاں فضائل تلاوت قران ،سورہ اور آیات کا زکر کثرت سے نہ ملتا اور ان کو فرض و نوافل عبادات کے اندر پڑھنے کی ترغیب نہ دلائی جاتی
علمائے اہل تشیع نے ایسی کتب لکھی جس میں آئمہ اہل بیت سے ایسی روایات کا کثرت سے زکر کیا جس میں عبادات کے اندر سورت اور آیات کی تلاوت کی ترغیب ہے اور اس پر ثواب کا وعدہ زکر کیا گیا ہے
اس طرح کی روایات ہمیں اصول کافی،امالی شیخ صدوق،ثواب العمل ،جواہر الکلام ،الاعتقاد وغیرہ میں بہت کثرت سے سے آئی ہیں
شیخ یعقوب الکلینی کی مرتب کردہ کتاب الکافی کی دوسری جلد ص448 اور امالی شیخ صدوق کے ص59-60پر امام باقر کی بہت مشہور حدیث ہے کہ
جو قران کریم کی روز 10 آیات تلاوت کرے گا تو وہ غافلوں میں لکھا نہیں جائے گا
جو 50 آیات تلاوت کرے گا ذاکرین میں اس کا شمار ہوگا
جو 100 آیات تلاوت کرے گا شاکرین میں شمار ہوگا
جو 200آیات تلاوت کرے گا وہ خاشعین میں ہوگا
جو 300 آیات تلاوت کرے گا وہ کامیاب لوگوں میں شمار ہوگا
جو 500 آیات تلاوت کرے گا وہ مجتھدین میں شامل ہوگا
جو 1000 آیات تلاوت کرے گا بہت زیادہ اجر پانے والوں میں ہوگا
امام جعفر صادق سے روایت ہے جو آدمی وتر میں معوزتین اور سورہ اخلاص کی تلاوت کرے گا تو اس سے کہا جائے گا کہ اے اللہ کے بندے تمہارے وتر اللہ نے قبول کرلئے
یہ امالی ص60 اور ثواب العمل کے ص157 پر موجود ہے
ثواب العمل کی ص 146 پر امام جعفر کی روائت ہے کہ
قران کی تلاوت تم پر فرض ہے کیونکہ جنت میں درجات کا تعین تلاوت آیات کی تعداد کے مطابق ہوگا اور قیامت کے روز قاری قران کی تلاوت کے مطابق اجر دیا جائے گا
امام جعفر صادق کہتے ہیں کہ
ہمارے شیعہ پر فرض ہے کہ شب جمعہ وہ سورہ جمعہ کو پڑھے
اور امام باقر نے فرمایا
جو مکّہ میں دو جمعہ کے دوران قران مکمل کرے تو اس کو دونوں جمعوں تک مشغول عبادت سمجھا جائے گا
آپ اگر معروف شیعہ کتاب جواہر الکلام کی جلد 9 کے ص 400 سے 419 تک پڑھیں تو اس میں آپ کو فرض نمازوں میں جن سورتوں یا آیات کا پڑھنا مستحب ہے کا بیان ہے اور اسی طرح سے اکر آپ شیخ صدوق کی ثواب العمل کے ص 130 سے 158 تک یعنی 28 صفحات اور الاعتقاد کا ص 93 پر نمازوں میں قران کی آیات کی تلاوت کے حوالے سے درجنوں روایات درج کی ہیں
نہج البلاغہ کے اندر درجنوں خطبات ایسے ہیں جس میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے قران کریم کی فضیلت،اس کا کسی شک وشبہ سے بالاتر ہونا،اس میں کسی باطل کے درآنے کا احتمال نہ ہونا اور اس کے محفوظ و مامون ہونے کا زکر کیا اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے اپنے مخالفوں اور دشمنوں سے مباحثے کے دوران قران کی آیات سے استدلال کیا اس حوالے سے نہج البلاغہ کا خطبہ 158،176،133،198،183،1،18کو ملاحظہ کرنا چاہئیے اور اس حوالے سے امالی میں شیخ صدوق ،تفسیر قمی میں علی بن ابراھیم قمی ،قتال نیشاپوری نے شیعہ مجتھدین اور آئمہ اہل بیت نے مباحثوں کو قران کی آیات کے حوالے دیئے جانے کا زکر کیا ہے
یہ داخلی شہادتیں ہیں شیعہ کی کتب سے جو انھوں نے قران پاک کی فضیلت اور اس کے ناقابل تحریف ہونے کے بارے میں ہمیں ملتی ہیں اور یہ اتنی واضح ہیں کہ ان کے بعد یہ کہنا کہ شیعہ تحریف قران کے قائل ہیں ایک سنگین جرم اور بدیانتی کے زمرے میں آتا ہے اور جو شخص ایسا کہتا ہے وہ تو کسی عام سے معاملے میں بھی گواہی دینے کے قابل نہیں رہتا اور پایہ ثقاہت سے گرجاتا ہے اور کاذب ثابت ہوتا ہے اور اب تقی عثمانی کو یہ بتانے کی ہرگز ضرورت نہیں ہے کہ جو مہتم بالکذب ہو تو اس کی تو کوئی روائت بھی قابل قبول نہیں ہوتی اور اس کا کذب ثابت ہوجائے تو پھر اس کا کوئی اعتبار نہیں کرتا
قران پاک کے بارے میں شیعہ علماء کی رائے
شیخ صدوق نے الاعتقاد کے ص92-93اور تفسیر صافی کے ص13 پر ان کے حوالے سے درج کیا گیا کہ انھوں نے کہا کہ قران کے بارےمیں ہمارا عقیدہ ہے یہ اللہ کا کلام ہے ،یہ وحی ہے ۔۔۔۔۔۔اور اس میں باطل اوپر ،نیچے،دائیں بائیں کسی سمت سے داخل نہیں ہوسکتا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔قران جس کی 114 سورتیں کسی بھی قسم کی تحریف ،اضافے یا کمی سے پاک ہے
(شیخ صدوق کی وفات 381ھ میں ہوئی)
محمد بن نعمان بغدادی متوفی 413ھ کا قول ہے کہ
قران کے الفاظ،سورتوں اور آیات میں کوئی تحریف نہیں ہوئی
بحوالہ تفسیر الرحمان ص 17،مراۃ العقول ص171جلد1
سید مرتضی علی بن الحسین موسوی متوفی 436ھ کہتے ہیں
آج جو قران موجود ہے یہ وہی ہے جو جناب رسالت مآب کے دور میں تھا
بحوالہ تفسیر مجمع البیان ص15،تفسیر الصافی ص34
شیخ محمد بن حسن ابوجعفر طوسی شیخ الطآئفہ متوفی کا قول التبیان فی تفسیر القران ص3 جلد 1،البیان فی تفسیر القران جلد1ص3،تفسیر الرحمان ص17تفسیر الصافی ص36پر قران کے ناقابل تحریف ہونے اور محفوظ ہونے پر شیعہ امامیہ کے اجماع کا پر مبنی موجود ہے
فضل بن حسن المعروف شیخ طبرسی متوفی 548ھ کا کہنا ہے کہ تحریف قران کے بارے میں جو بھی قول ہو غلط ہے اور شیعہ کا عقیدہ اس کے خلاف ہے
علامہ ابن آشوب نے مناقب آل علی ابن طالب کی جلد 1ص187پر قران پاک کے تحریف سے پاک ہونے کا زکر کیا ہے
سید الرضی نے حقائق التاویل ص102پر قران کے ناقابل تحریف ہونے کا عقیدہ بیان کیا اور اسے اصول دین سے قرار دیا
علامّہ ابن المطاہر الحلّی متوفی 726ھ نے اپنی کتاب وسائل ص121 پر قران کے ناقابل تحریف ہونے کا زکر کیا ہے
شیخ فتح اللہ کاشانی متوفی 688ھ نے منھاج الصادقین میں قران میں کسی اضافے اور کمی کو مسترد کیا اور قران کے ناقابل تحریف ہونے کو اصول دین سے قرار دیا
محمد بن حسن بہاءالدین عاملی متوفی 1031ھ نے علی الرحمان ص26،قاضی نوراللہ شوستری مصائب النوائب ص105 مقدمہ تفسیر حقانی ص23جلد 1،صدر الدین ملّا صدر الدین شیرازی متوفی تفسیر آیت الکرسی ص332 ،علامہ محسن فیض کاشانی متوفی 1091ھ تفسیر الصافی جلد 1 ص23،ملّا باقر مجلسیمتوفی 1111ھ مراۃ العقول جلد3ص31،بحارالانوار جلد89ص75،جلد 9 ص 113،محمد الحسن بن الحرالعاملی متوفی 1104ھ افصول المھمہ فی تالیف الامہ ص166،ابن ابی حمید احصائی المجلّہ ص302،علامّہ عبداللہ بشرینی خراسانی شرح وافیہ ص52،شیخ ابو جعفر موسوی البیان فی تفسیر القران جلد 1ص3،ملّا صادق امولی تفسیر حقانی جلد 1ص63،شیخ ابراھیم کلباسی اصبہانی اشارات الاصول ،ابوالقاسم القمی ،شیخ جعفر الغطاء ،محمد رضا مظفر ،صادق تہرانی ،عبدالحس شرف الدین العاملی اجوبۃ المسائل ص28-37،عبد الحس طیب کلم الطیب ص 291-295،جواد مغنیہ،علمہ طباطبائی،شریف حسین بن علی علوی ،سید ابو القاسم خوئی ،علامہ علی حیدری،ناصر مکارم شیرازی،محمد سعید الحکیم،آیت اللہ سیستانی العقیدہ ص 454،مجتھد فی المذھب علامّہ گلاب علی نقوی ،مفتی جعفر حسین بانی تحریک نفاذ فقہ جعفریہ سب کے سب قران کے ناقابل تحریف ہونے اور اس کے محفوظ و مامون ہونے کی صراحت کھلے عام بیان کیا ہے اور اس کے بعد کسی قسم کے شک کی گنجائش نہیں رہتی کہ شیعہ اثناء عشریہ کا قران کے بارے میں وہی عقیدہ ہے جو اہل سنت کا ہے
آخر میں ایک بات یہ کہ اکثر و بیشتر اہل تشیع کے اجماع اور بھاری اکثریت کی اس قدر تصریحات کو ںظر انداز کرکے شیخ نور طبرسی کی انفرادی تحقیق کو پیش کردیا جاتا ہے جس کی شیعہ کے اجماع کے آگے اور آئمہ اہل بیت کے واضح ارشادات کے سامنے کوئی حثیت نہیں رہتی
تقی عثمانی سمیت وہ دیوبندی و سلفی تکفیری جو شیعہ کے قران کے بارے میں عقیدے کے حوالے سے جو شر پھیلاتے ہیں ان کا مقصد فساد فی الارض کے سوا کچھ بھی نہیں ہے
Comments
Latest Comments
بھائی ان سب باتوں کی وجہ سے کوئی کسی کو مارتا ہے. انہیں تو سوپاری ملتی ھے ریال یا ڈالروں میں سعودیہ سے. اب یہ وجہ تھوڑی نہ بتائی جاسکتی ھے پاکستان میں شیعوں کو مارنے کی.
ناموس صحابہ تو جعلی بہانہ ہے … جیسے کہ ہاتھی کے دکھانے والے دانت ہیں
کھانے والے دانت تو آجکل سعودیہ کے ڈیڑھ بلین ڈالر کھانے میں مصروف ہیں …
اور
لشکر جھنگوی تو پنجاب حکومت کا کلنگ اسکواڈ ہے. صحابہ کے نام پہ قتل غارت کی جا رہی ھے. اصل مقصد سعودی ریال اور امریکہ کا مفاد ھیں.
طالبان کا انقلاب نہ آ جائے اس لیے شیعوں کو مار مار کے عوام کو ٹھنڈہ کیا گیا ھے.
صحابہ کے نام کے جعلی بہانے سے شیعہ ڈاکٹروں اور اسکالروں کو مارا جا رہا ھے. کیوں. …. اس لیے کہ وہابی ریاست کی بنیاد رکھی جائے. بات اصل میں یہ شعر بھی واضح کرتا ھے :
اپنے چراغ کو سورج کہلانے کے لیے
شہر کا ہر دیہ بجھانا پڑا مجھے
اس لیے سرے چراغ بخیے جارہے ہیں. مگر کیا اس طرح کا مذہب چل بھی سکے گا بھائی
باقی تبصرہ تو بعد میں لیکن یہ پروگرام جماعت اسلامی کی چھتری تلے نہیں بلکہ اہل تشیع کی ایک جماعت نے منعقد کیا تھا،
دوسرا یہ لاہور میں نہیں ہوا تھا بلکہ اسلام اباد میں منعقد ہوا تھا،،،
اگر موصوف اتنا تحقیق نہیں کرسکتا ہےتو مزید باتوں پر کیا یقین کیا جاسکتا ہے۔۔
صرف یہ کہنے سے کہ تقی عثمانی جھوٹ بول رہا ہے اور فلاں مولوی یوں کہہ رہا ہے مسئلہ کا حل نہیں ہیں امامیہ فرقہ شعہ کی کتب اس بات کی گواہ ہیں کہ شیعہ تحریف قرآن کا قائل ہے ،یہ صحابہ کی اکثریت کا مرتد مانتا ہے ، اور خلفائ راشدین کو غلط مانتا ہے پھر اس کے بعد اس کے سنی سے اختلاف اصولی سے آپ کو کیوں تکلیف ہو رہی ہے کیوں سنی کو بے وقوف بنا رہے ہو جناب