ظالم مظلوم، حاکم محکوم، شیعہ نسل کشی: سوشلسٹوں کا کیمپ – از عامر حسینی
شیعہ نسل کشی پر جب ہم یہ کہتے ہیں کہ اس بارے میں جہاں لبرل ،سیکولر اور سوشلسٹوں کا ڈسکورس گول مول،مبہم اور مشتبہ ہے تو ہماری اس تنقید کو اکثر یہ لبرل،سیکولر ،سوشلسٹ فرقہ وارانہ تنقید کہہ کر رد کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ان کی جانب سے یہ بھی اعتراض ہم پر وارد کیا جاتا ہے کہ ہم اپنی تحریروں میں علویت-معاویائی ،حسینیت-یزیدیت،حسین-یزید ،زینب –یزید جیسے اینالاگ کیوں استعمال کرتے ہیں ؟اور یہ کہتے ہیں کہ یہ استعارے فرقہ وارانہ اور مذھبی ہیں اور ایک سیکولر کو ،ایک لبرل کو اور ایک سوشلسٹ کو ایسے استعاروں کا استعمال نہیں کرنا چاہئیے کیونکہ ان کے خیال میں یہ سیکولرازم کی روح کے خلاف ہے
سوشلسٹ تاریخ کو ہمیشہ طبقاتی کش مکش کی تاریخ ،ظالم و مظلوم کی ترکیب ،حاکم و محکوم کی ترکیب کے ساتھ دیکھتے ہیں اور وہ مذھبی رنگ ڈھنگ کے ساتھ ابھرنے والی تحریکوں مذھبی تناظر کی بجائے طبقاتی تناظر اور ظلم و جبر اور اس کے خلاف ابھرنے والے رد عمل کی طبقاتی بنیاد کو تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں
وہ کسی بھی لڑائی یا تنازعے ،یا جنگ کو ایک خالص سماجی مظہر کے دور پر دیکھتے ہوئے یہ دیکھتے ہیں کہ بطور ایک سماجی مادی مظہر کے وہ تنازعہ کب منصہ شہود پر جنم پذیر ہوا اور اس کے پيچھے کون سے گروہ ،طبقات اور ٹھوس مادی واقعات کارفرما تھے اور وہ تنازعہ ،تصادم کس کس مرحلے سے گزرتا ہوا یہاں تک پہنچا ہے ،میں جو کچھ کہہ رہا ہوں مارکس و اینگلس کی اشتراکی منشور ،جرمن آئیڈیالوجی،تھیسس آن فیوروباخ ،گوتھا پروگرام پر تنقید ،لینن کی سامراجیت سرمایہ داری کا بلند ترین مرحلہ وغیرہ وغیرہ پڑھ رکھے ہیں وہ ان باتوں کا سراغ لگا سکتے ہیں لیکن یہ بات اور ہے کہ ان باتوں کے جب عملی اطلاق کی بات آتی ہے تو وہ اس سارے انقلابی نظريے اور مزاحمتی فکر کا اطلاق تاریخ کے بعض خاص سماجی مظاہر پر کرنے سے شرمانے لگتے ہیں اور اور عصر حاض میں بھی بعض کانفلکٹ ،بعض لڑائیوں اور بعض گروہوں کے درمیان رشتہ کا تعین کرنے کے لیے اس علم کو ایک طرف رکھ دیتے ہیں کیونکہ ان کو بعض گروہوں کو ان کا نام اور شناخت کے ساتھ ظالم ،جابر ،حاکم کہنا پسند نہیں آتا تو بعض گروہوں کی مذھبی ،نسلی شناخت ان کو ایک آنکھ نہیں بھاتی ہے اور وہ ان کے ساتھ بالترتیت ظالم ،مظلوم یا جابر و مجبور کے سابقے یا لاحقے لگانے سے بھاگتے ہيں
شیعہ نسل کشی اور شیعہ کے قاتلان بارے بحث اور اس مظہر کا اشتراکی بنیادوں کے ساتھ جائزہ لینے کا عمل کچھ ایسی ہی پیچیدگی کا شکار ہے
اس طرح کی صورت حال کا مجھے آج کل کا سامنا اس لیے بھی کرنا پڑرہا ہے کہ میں نے حال ہی میں جب فرزانہ بلوچ کی پاکستانی ریاست کے جبر اور ظلم کے خلاف کئے جانے والے پیدل مارچ اور اسلام آباد پریس کلب کے دروازے اس پر بند کئے جانے اور اس کے پریس کلب کی دیوار کے سائے میں بیٹھ کر جرات مندی اور بہادری کو بی بی زینب کی دربار دمشق میں جرات مندی اور بہادری سے تشبیہ دی اور اس کے خطاب کو دمشق میں زینب کے یزید کے دربار میں دئے گئے جرات مندانہ خطبے سے تشبیہ دی تو بائيں بازو کے ایک سرکل نے اور اشتراکی حلقوں میں سے بعض کی جانب سے یہ کہا گیا کہ یہ جو زینب-یزید کی ترکیب ہے یہ ایک فرقہ وارانہ یا ایک مذھبی ترکیب ہے اسے استعمال میں لانے کا مطلب سیکولر میدان سے نکلنا ہے اور یہ بنیادی طور پر سوشلسٹ فکر کے خلاف ہے اور مجھے کہا گیا کہ میں بنیادی طور پر ایک فرقہ پرست شخص ہوں اور اپنے سوشلسٹ موقف سے ہٹ چکا ہوں
حالانکہ ایسا کچھ بھی نہیں تھا اور میرے خیال میں جو سوشلسٹ حسین-یزید،زینب-یزید جیسی تراکیب کے استعمال پر معترض ہیں وہ خود بنیادی طور پر ایک طرف تو شیعہ نسل کشی کے بارے میں سیکولرازم کی آڑ لیکر اس موضوع پر گول مول ڈس کورس کا شکار ہورہے ہیں اور وہ بنیادی طور پر ظلم اور جبر کے خلاف جو اشتراکی ڈسکورس ہے اس کی مبادیات سے انحراف کے مرتکب ہورہے ہیں اور سیکولر ازم کی آڑ میں وہ خود جانے انجانے میں فرقہ پرستی کے کیمپ میں داخل ہورہے ہیں اور اس طرح سے وہ خود سامراج کی جانب خود کو جھکاتے ہیں
اشتراکی ہمیشہ مظلوم اور ظالم ،مجبور اور جابر میں سے مظلوم اور مجبوروں کے ساتھ نسل،مذھب ،قوم ،اتھنیسٹی کے امتیاز کے بغیر کھڑے ہوتے ہیں ،یہ اصول ہے جس کی بنیاد پر اشتراکی شیعہ کے ساتھ کھڑے ہوجاتے ہیں جبکہ وہ شیعہ موحد ہوتے ہیں اور اشتراکی ملحد اور وہ بلوچوں کے ساتھ کھڑے ہوجاتے ہیں جبکہ ان میں سے اکثر قوم پرست ہوتے ہیں یا موحد ہوتے ہیں جبکہ اشتراکی نہ تو قوم پرست ہوتے ہیں اور نہ ہی موحد اور اسی طرح سے وہ شیعہ کے قاتلوں اور نسل کشی کا شکار شیعہ کے درمیان شیعہ کو چنتے ہیں اور یہ اسی طرح ہے جیسے وہ نسل کشی کرنے والی پاکستانی ریاست اور اس کے حکمران طبقات اور نسل کشی،قومی ظلم و جبر کا شکار بلوچ میں سے بلوچ کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں
اسی طرح سے جب یزید-زینب یا يزید-حسین جیسی تراکیب کوئی سوشلسٹ استعمال کرتا ہے تو اس میں زینب یا حسین کی طرف داری کرنے اور یزید کی مذمت کا سبب زینب یا حسین کس ساتھ اشتراک مذھب نہیں ہوتا بلکہ زینب اور حسین کی طرف داری کا مطلب ان کی مظلومیت ،مجبوری و بے کسی کی طرف داری اور ان کی ظلم و جبر کے خلاف مزاحمت کی حمائت اور یزید کی مذمت کا مطلب اس کی بے رحم ،ظالمانہ ،جابرانہ حکومت کی مذمت ہوتا ہے جو اس نے ایک نہتی ،غیر مسلح عورت سے روا رکھی اور جس نے پغمبر رسول کے خاندان کو بھی نہیں بخشا
جب کوئی اشتراکی یزید-زینب یا حسین-یزید جیسی ترکیب کے استعمال اور اس ترکیب میں اپنی حمائت کو حسین و زینب کی طرف رکھنے پر اعتراض کرتا ہے اوراسے رد کرتا ہے تو وہ اصل میں سپاہ صحابہ پاکستان /اہل سنت والجماعت لشکر جھنگوی وغیرہ کی جانب سے ایسی اصطلاحوں کو فرقہ وارانہ اصطلاح قرار دینے کے حق میں دئے گئے دلائل کی طرف داری کا مرتکب ہوتا ہے جو اس اصطلاح کو ظلم و جبر کے خلاف احتجاج و مزاحمت کی علامت کی بجائے مذھبی اصطلاح کہتے ہیں بلکہ اس کو ایک فرقہ وارانہ اصطلاح کہتے ہیں
اشتراکیوں ،لبرلز میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں ہے جو یزید-حسین لڑائی کو اقتدار کی لڑائی کے طور پر لیتے ہیں اور اسے ظالم-مظلوم ،چابر-مجبور کی مساوات کے طور پر نہیں لیتے اور اس طرح سے وہ شیعہ نسل کشیپر ایک غلط پوزیشن اور موقف کے حامل ہوجاتے ہیں اور وہ غلط پوزیشن یہ ہے کہ شعیہ نسل کشی اصل میں سعودی عرب-ایران پاور اور غلبے کا تصادم ہے اور جس میں پاور کے لیے شیعہ اور سنّی مارے جارہے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان سمیت ہر ملک میں شیعہ کو ایک نسل سمجھ کر ان کو مارا جارہا ہے اور یہ بہت واضح طور پر ایک نسل کشی ہے اور شیعہ نسل کشی کے حوالے سے فرقہ پرستانہ اپروچ اختیار کرنا اور یزید-حسین یا یزید-زینب جیسی تراکیب سے گریز کرنا اصل میں سپاہ صحابہ پاکستان،اہل سنت والجماعت،لشکر جھنگوی وغیرہ کی اس اپروچ کی حمائت کرنا ہے جس کی رو سے کربلاء کی لڑائی ایک ظالم فوج کی مظلوم گروہ کے خلاف جارحیت کی بجائے اقتدار اور پاور کی لڑائی تھی اور یہ کہ خوفناک زبح کردئے جانے کا واقعہ مظلوم حسین اور اس کے ساتھیوں کے خلاف ننگی جارحیت نہیں تھی یزید کی افواج کی بلکہ دو شہزادوں کی لڑائی تھی اصل میں سامراج،سپاہ صحابہ پاکستان،اہل سنت والجماعت،لشکر،طالبان،سعودی وغیرہ کی شعیہ نسل کشی ،بریلویوں پر حملوں کی جو مہم ہے اس کی حمائت کرنا ہے اور یہی تو آج اکثر لیفٹ کے لوگ کررہے ہیں اور یہ حمائت وہ سیکولز ازم کے پردے میں دے رہے ہیں اور یہ ویسی ہی حمایت ہے جیسی حمایت لبرلز سیکولر ازم کی آڑ میں شیعہ نسل کشی ہونے کے مظہر کو تسلیم نہ کرکے دیتے ہیں اور اس کی ایران-سعودیہ-پاور سٹرگل اور پاور کانفلکٹ کی روشنی میں تشریح کرتے ہیں اور سیکولر ازم کو چھوئی موئی کا پودا بنائے ہوئے ہیں
میں واضح کردینا چاہتا ہوں کہ میں جب یزید-حسین ،زینب-یزید جیسی تراکیب استعمال کرتا ہوں تو وہ مذھبی معنوں یا فرقہ وارانہ معنوں میں نہیں بلکہ ظالم-مظلوم کی ترکیب کے طور پر استعمال کرتا ہوں اور ظاہر ہے اس ترکیب میں ہم تو مظلوم کے کیمپ میں ہوتے ہیں
یہاں ایک اور بات بھی مدنظر رہنی چاہئیے کہ جب ہم شیعہ نسل کشی کے مرتکبین کی شناخت کرتے ہیں اور ان کو جہاں تکفیری لکھتے ہیں اور خارجی کہتے ہیں اور ان کو ان دو اضافتوں کے ساتھ ہم تکفیری-دیوبندی یا تکفیری سلفی قرار دیتے ہیں تو یہ ان لوگوں کی غلطی اور بلکہ فاش غلطی کو بتانے کے لیے ہوتا ہے جو ایک طرف تو غلط طور پر دائیں بازو کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں یا اہل مذھب کی اصطلاح استعمال میں لاتے ہیں یا سامراج کی طرح سنّی شدت پسند یا سنّی عسکریت پسند یا سنّی مجاہدین کا لفظ استعمال میں لاتے ہیں
کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ شیعہ نسل کشی ہو،بریلویوں ،احمدیوں،ہندؤں ،عیسائیوں کا قتل ہو یا ان پر حملے ہوں نہ تو سارا دایاں بازو ایسا کررہا ہے نہ ہی سنّی اس میں ملوث ہیں اور نہ ہی شیعہ اس کا حصّہ ہیں اور نہ ہی اعتدال پسند دیوبندی اور وہابی اس کا حصّہ ہیں تو جب ہم ان کی شناخت کو دائیں بازو،مذھب پسند،اسلام پسند یا سنّی شدت پسند یا سنّی عسکریت پسند کہتے ہیں تو ہم خود اصل میں مظلوموں ،مجبوروں اور ان مظلوموں و مجبوروں کے بہت سے حامیوں کو بھی ظالموں اور جابروں کے کمیپ میں شامل کردیتے ہیں اور اصل میں ایک غلط قسم کے اور مسخ شدہ سیکولرازم کے پرچارک ہوجاتے ہیں اور ہم نسل کشی اور مذھبی جبر و ظلم کے خلاف ایک وسیع اتفاق اور وسیع محاز قائم کرنے میں بھی کامیاب نہیں ہوتے
مسلمان جوکہ سنّی ہوں یا شیعہ ہوں وہ مسلمانوں کو کافر قرار دینے اور ان کی نسل کشی کرنے جیسے اقدام کرنے والے لوگوں کو دیوبندی تکفیری یا سلفی تکفیری کہتے ہیں اور یہ ان کے ہاں ایک مذھبی اصطلاح ہے جس کے معانی اور مفہوم کا ایک سیاق اور سباق اپنی جگہ موجود ہے اور یہ اصل میں فتنہ ،فساد ،انارکی ،خون ریزی ،انفرادی دھشت گردی ،تنگ نظر فرقہ پرستی کی مذمت کے لیے استعمال ہونے والی اصطلاح ہے اور مذھبی طبقوں میں جس پر تکفیری اور خارجی ہونے کا لیبل لگے تو وہ مذھب کے نام پر اہل مذھب کی اکثریت کا اعتماد کبھی بھی نہیں جیت سکتا تو تکفیریوں کو اسی لیبل اور اسی عنوان سے خود کو پکارے جانے کی بہت تکلیف ہوتی ہے اور دیوبندی و سلفی مکاتب ہائے فکرکے تکفیری خود کو اپنے اپنے مکاتب ہائے فکر میں پناہ لئے رکھنے اور ان ہر دو کے نوجوان ،کم عمر بچوں کو خام مواد اور پیدل سپاہیوں کی طرح بھرتی کرتے چلے جانے کے لیے اپنی شناخت بارے اہل مذھب کی جنتا کو گمراہ کئے رکھنا اور اشتباہ کے پردے ڈالے چلے جانا بہت ضروری ہوتا ہے،آج پاکستان،افغانستان ،بنگلہ دیش اور ہندوستان میں دیوبندی نوجوانوں کی بہت بڑی تعداد کا تکفیری دھشت گردوں میں بدل جانے اور اس جنگ کا پیدل سپاہی بنکر چلتے پھرتے بم بن جانے میں ان کی شناخت کا ابہام بھی ہے جو باقاعدہ ایک ڈسکورس کی شکل میں موجود ہے اور اس ڈسکورس کی تشکیل میں جہاں دیوبندی تکفیری کلنگ مشین ،سلفی تکفیری ،سعودی کا بہت بڑا ہاتھ ہے وہیں اس میں بہت سے لبرل،سیکولر اور اشتراکی شامل ہیں جو دائیں بازو ،اسلام پسند،ریڈیکل اسلام،سنّی شدت پسند جیسی اصطلاحوں کو استعمال کرتے ہیں اور اس عمل کو پاور سٹرگل کی تھیوری کے دلداہ ہیں
پاکستان میں شاید سوشلسٹوں کے اندر انقلابی سوشلسٹ نامی تنظیم ایک ایسی تنطیم ہے جس کے کامریڈ ساتھی شیعہ نسل کشی بارے شکوک و شبہات کا شکار نہیں ہیں جیسے وہ بلوچ نسل کشی بارے بہت واضح موقف کے حامل ہیں اور وہ سپاہ صحابہ پاکستان/اہل سنت والجماعت ،لشکرز ،سعودی اور سامراجیوں کی جانب بھی کسی مصلحت یا موقعہ پرستی کا شکار نظر نہیں آتے اور سیکولر ازم کی آڑ لیکر شیعہ نسل کشی بارے بات کرتے ہوئےگول مول ڈسکورس بھی اختیار نہیں کرتے انقلابی سوشلسٹ کے نظریہ ساز کامریڈ ڈاکٹر ریاض احمد اس حوالے سے ببانگ دھل انہوں نے جو لکھا میں اسے من و عن یہاں درج کررہا ہوں
It important for socialists to understand that between oppressor and oppressed socialists choose oppressed without condition of race ,religion,nation,ethnicity. Therefore between killers of Shia and genocide of shia socialists side with shia unconditionally even though socialists are atheists and shia theists۔
The use of analogies like Zainab –Yazeed or Hussain –Yazeed is not about religion of Zainab but it is about merciless rule of Yazeed that did not spare Prophet Family or unarmed woman like Zainab and hence those argue against use of Yazeed-Zainab analogy are once that are accepting the argument of SSP/Lashkars etc that such analogies are about religion and not suppression in the name of religion.
By declaring that Yazeed-Hussain conflict is conflict of power many on the left today take a false position that killings of Shia is a sectarian conflict as if both Shia and Sunnis are being killed because Iran and Saudi Arab are fighting their power struggle every where through such means. Taking a sectarian approach to Shia genocide and avoiding use of Hussain-Yazeed both imply that we accept SSP/Lashkars etc argument that terrible slaughter of Karbala was mere a conflict and not a battle of oppresser against the armed oppressed and by agreeing with such analogies we side with the imperialist and SSP/Saudi genocide against Shia and this is what most of left is doing as it avoid discussing Shia-genocide under the cover of appearing secular