تکفیریوں کا مفتی اعظم
ہم جب شام میں شامی حکومت کے خلاف اٹھنے والی نام نہاد جہادی مسلح جدوجہد کا جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں ایک تو اس تحریک کی نظریاتی بنیاد سلفی تکفیری آئیڈیالوجی پر کھڑی نظر آتی ہے اور دوسرا اس کے تاریخی ڈانڈے افغانستان میں سی ائی اے-سعودی عرب اور آئی ایس آئی کی مدد سے ہونے والے نام نہاد جہاد افغانستان سے مل جاتے ہیں اور اسی راستے سے شام کے اندر سلفی تکفیری وہابی دھشت گردوں کے رشتے ناطے دیوبندی مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے دھشت گرد ٹولے سے بھی ملتے ہیں اور اس طرح سے یہ ایک بڑا مربوط کلنگ بنتا ہےجس کے رشتے ناطے عراق میں ہونے والی دھشت گردی سے بھی جاکر مل جاتے ہیں اور ان سب کے پیچھے وہی ائیڈیالوجی کام کررہی ہے جس کا بانی محمد بن عبدالوہاب نجدی تھا جس نے آل سعود کے ساتھ ملکر پورے عالم اسلام کے خلاف اعلان جنگ کیا تھا
غور کرنے کی بات یہ ہے کہ افغانستان،پاکستان،عراق،یمن،صومالیہ،الجزائر ،لیبیا،مصر جہاں جہاں یہ نام نہاد جہادی پروجیکٹ شروع ہوا وہاں وہاں مسلم دنیا کے اندر اس مسلح نام نہاد جہاد اور قتال کا مقصد شیعہ کا تعاقب ،ان کا خاتمہ سرفہرست ایجنڈے میں تھا لیکن اس کے ساتھ ساتھ بہت خاموشی سے صوفی سنیوں کو بھی یا تو زبردستی یا لالچ دیکر تبدیلی مذھب و مسلک کے عمل سے گزارا گیا یا ان کو ختم کردیا گیا اور سلفی وہابیت جس میں تکفیر غالب تھی کو سنّی ازم کے مترادف قرار دے دیا گیا اور پاکستان،افغانستان،بنگلہ دیش میں یہ کام زیادہ تر دیوبندی مکتبہ فکر کے تکبفیری جہادیوں نے سنبھالا
پاکستان کی یہ خوش قسمتی ہے کہ یہاں دیوبندی مکتبہ فکر کے مقابلے میں سنّی بریلوی مکتبہ فکر معتدبہ مدارس،خانقاہوں اور درگاہوں کے ایک منظم سلسلے کے ساتھ موجود تھا جس نے یہاں سنّیت کے نام سے یک طرفہ ٹریفک چلنے سے روکی اور اب یہ روکنے کا عمل یہاں اور ترقی پر ہے
ابو باصر جیسے تکفیری سلفی جہادیوں کی داستان صہیب انجرائنی نے جیسے بیان کی اس سے بہت سی کڑیاں عالمی سلفی تکفیری جہاد کی کھلنے میں مدد ملتی ہے
جب سے شام کا بحران شروع ہوا ہے تب سے ابو بصیر الطرطوسی تکفیریوں کے مفتی کا کردار ادا کررہا ہے اور وہ بہت سے فتوے جاری کرچکا ہے جو شام میں تکفیری سلفی-دیوبندی نام نہاد جہاد کی صورت گری کا کام کررہا ہے،شام میں جس وقت مظاہرے شروع ہوئے تو اس میں ایسے لوگ بھی شامل تھے جو اس کے فتوؤں کی پیروی کررہے تھے اگرچہ اس کا نام اس سے پہلے اس طرح سننے میں نہیں آیا تھا
ایک تکفیری سلفی عسکریت پسند زریعے نے لبنانی اخبار کو بتایا کہ سلفی عسکریت پسند اشرفی قیادت اس کے فتوؤں کی پیروی کرتے ہوئے اپنے لائحہ عمل کو تیار کرتی رہی ہے
یہ طرطوسی کی بايو گرافی ہے جس کا شمار شام کے ان سلفی لڑاکوں میں ہوتا ہے جو سب سے پہلے سی آئی اے-آئی ایس آئی-سعودی جہادی پروجیکٹ کا حصّہ بنے تھے
شام میں سیاسی جدوجہد سے لیکر دھشت گردی کے فیز تک بہت سی شخصیات نمایاں ہوئیں اور چلی گئیں لیکن الطرطوسی ان تمام مرحلوں میں موجود رہااگرچہ اس کا نام میڈیا میں شامی بحران کے حوالے سے اکثر سننے کو نہیں ملا لیکن اس کے مذھبی فتوے وہاں مضبوطی کے ساتھ موجود رہے اور یہاں تک کہ اسے ہتھیار اٹھانے والے سلفی-دیوبندی تکفیریوں کا مفتی کہا جانے لگا
اس کا اصل نام عبدالمومن مصطفی حلیمہ ہے،وہ 3 اکتوبر 1959ء کو شام کے ساحلی شہر طرطوس میں پیدا ہوا اور اس کا تعلق ایک سلفی وہابی خاندان سے تھا اور اس کے ایک دوست کا کہنا ہے کہ وہ اپنے سلفی نظریاتی پس منظر پر فخر کرتا ہے جو اسے بچپن سے ہی ورثے میں ملے،اس نے ایک فلسطینی خاتون سے شادی کی جس سے اس کے چار بچے ہیں
ابو بصیر اخوان المسلمون کی شام میں مزاحمتی تحریک کا بھی حصّہ رہا جو 1980ء کے عشرے میں اپنے عروج پر پہنچ گئی تھی اور 17 سال کی عمر میں وہ 1976ء میں دیواروں پر انتہا پسند نعرے لکھنے کی پاداش میں جیل بھی کاٹ چکا تھا اور یہ وہ زمانہ تھا جب وہ چند نامور سلفی عسکریت پسندوں کے رابطے میں آیا جن میں ایک معروف سلفی عسکریت پسند عدنان عاقلہ بھی تھا
1980ء میں وہ ان عسکریت پسندوں میں شامل تھا تھا جو شام سے بھاگ کر اردن چلے گئے تھے ،اردن ان دنوں وہی کردار ادا کررہا تھا جو آج شامی بحران میں ترکی ادا کررہا ہے
اردن میں ابو بصیر کا قیام عارضی اور تھوڑا رہا ،وہآن سے وہ عراق گیا اور وہاں سے پاکستان اور آخرکار 1981ء میں وہ افغانستان پہنچ گیا اور اسے افغانستان میں پہلا عرب جہادی بھی کہا جاتا ہے اور وہ پشاور میں عبداللہ عزّام سے ملا اور افغانستان میں اس کے جہادی دوروں میں سے ایک دورے میں اس کا ہمراہی بن گیا
وہ شیخ جمیل الرحمان افغانی سے ملا جوکہ سی آئی اے-سعودی-آئی ایس آئی کے مشترکہ جہادی پروجیکٹ کے تحت کام کرنے والے اہم عسکریت پسند لیڈروں میں سے ایک تھا ،ابو بصیر نے افغانستان میں اپنے گزارے ہوئے وقت بارے ایک کتاب تحریر کی جس میں اس نے بتایا کہ اس نے جمیل الرحمان کے گھر اس کے ساتھ قیام کیا اور پانچ ماہ تک اس کے گروپ میں کام کیا اور اس نے ان محازوں میں لڑائی میں شرکت کی جو جمیل کے تحت آتے تھے
پھر 1980ء کے وسط میں وہ واپس اردن لوٹ آیا اور زرقا قصبہ جو کہ مصعب زرقاوی کے پڑوس میں واقع علاقے المعصوم میں رہنے لگا اس نے اپنی ایک کتاب میں لکھا کہ کیسے مصعب زرقاوی اس کے گھر سے کچھ میٹر کے فاصلے پر رہتا تھا اور جب مصعب سلفی انتہا پسند نظریات کی طرف مائل ہوا تو اس کی ابو باصر سے کئی ملاقاتیں ہوئیں اور اس نے ابوباصر کی کئی کتابوں سے مطالعہ کے بعد مختلف ایشوز پر اپنی رائے قائم کی
اس نے اس دوران بہت سی کتابیں شایع کیں لیکن جب اس کے سلفی انتہا پسند نظریات پھیلنا شروع ہوگئے تو اردن کی خفیہ ایجنسیوں نے اس کو کہا کہ وہ کوئی بھی کتاب لکھنے سے پہلے ان کو وہ مواد دکھائے لیکن اس نے ان ہدایات کو پس پشت ڈالتے ہوئے اصول ہائے تکفیر لکھی جس کے نتیجے میں اسے ملک بدر ہونا پڑا
اردن سے ملک بدر ہوکر اس نےیمن کو رہائش کے لیے چنا اورتین سال تک رہا اور اس کے بعد گرفتار ہوگیا اور یمن سے بھی نکال دیا گیا جہاں سے وہ ملائیشیا چلا گیا اور کئی ماہ اس نے غیر قانونی طور پر وہاں قیام کیا اور پھر وہاں سے تھائی لینڈ اور وہاں سے برطانیہ پہنچ گیا
اس کے خیال میں برطانیہ کافروں کا وہ ملک ہے جہاں اس نے بقول اس کے اپنے نظریات کی تبلیغ کی آزادی کا لطف اٹھایا جسے وہ اسلام کی تبلیغ کی آزادی کہتا ہے جو اس کو مسلم ممالک میں نہیں ملی تھی جن کے حکمران اس کی نظر میں کافر تھے اور اپریل 2012ء میں اس نے شام کی لڑائی میں شمولیت اختیار کرلی
ابوبصیر نے شام کے بحران کا انتظار نہیں کیا اور اس نے اپنی سلفی انتہا پسند آئیڈیالوجی کی روشنی میں اسلامی تصور جہاد کی تشریح کرنے اور اس حوالے سے فتوے جاری کرنے کا سلسلہ جاری رکھا اور الجزائر سے صومالیہ تک جتنی بھی سلفی دھشت گرد تنظیمیں تھیں اس کی کتابوں اور فتوؤں سے روشنی اور رہنمائی لے رہی تھیں اور یہاں تک کہ ایک فتوے میں اس نے طالبان کی تحریک کو جہاد قرار دیتے ہوئے اس کی تائيد کی
جس وقت شام کے اندر بحران شروع ہوا تو ابوبصیر کے فتوے تیار تھے اور وہ اس حوالے سے سلفی –دیوبندی تکفیری انتہا پسندوں کے لائحہ عمل کی بنیاد بنے اس نے اپنے فتوؤں کی بڑے پیمانے پر تشہیر کے لیے کئی پلیٹ فارم کو استعمال کیا اور اس حوالے سے پہلا پلیٹ فارم اس کی ویب سائٹ تھی جو اس نے برطانیہ میں اپنے قیام کے دوران بنالی تھیں پھر اس نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ فیس بک پر شامی حکومت کے خلاف اسلامی حزب اختلاف نامی آفیشل پیج بنایا اور اس کا آغاز 20مارچ 2012ء کو کیا اور اس نے ایک کلوز گروپ بھی بنایا جس میں شام میں مظاہروں کو منظم کرنے والے لوگ شامل تھے
ابوبصیر ان لوگوں میں سے ایک تھا جنہوں نے واضح طور پر شامی بحران میں ایک فرقہ وارانہ ڈسکورس اپنایا اور اس نے قرامطہ کا لقب شامی حکومت کو دیا اور کہا کہ قرامطہ کی حکومت کا خاتمہ کیا جائے
اس کا کہنا تھا کہ شام میں جہاد کا مطلب تین رجیم کو گرانا ہے ایک قرامطی شامی حکومت،دوسرا رافضی ایرانی حکومت اور تیسیری رافضی تنظیم حزب اللہ اور ابوبصیر 2003ء سے حزب اللہ پر تنقید کررہا تھا اور اس نے اس حوالے سے بہت سے فتوے بھی جاری کئے
اس نے شامیوں کو شامی حکومت کو محصولات ادا کرنے اور اسکولوں ،کالجوں اور جامعات میں جانے سے رک جانے کا فتوی دیا تاوقتیکہ شامی حکومت کا دھڑن تختہ نہ ہوجائے
بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ یہ ابو بصیر تھا جس نے مرکزی کوآرڈینشن کمیٹی اور مقامی آرگنائزنگ کونسلوں کا خیال پیش کیا جن کے زریعے شامی حکومت کو گرانے کی لڑائی کو منظم کیا جائے ،اس نے شہروں اور دیہاتوں میں لوکل کمیٹیوں کو بنانے کی تجویز دی تاکہ کوئی ایک فرد یا ایک سیاسی جماعت فیصلوں پر حاوی نہ ہوسکے اور وہ ایک انقلابی ملٹری فورس قائم کرنے کا حامی تھا اور اس کا کہنا تھا کہ وہ گاندھی کے پرامن انقلاب ہندوستان کی طرح کا انقلاب شام میں چاہتے ہیں لیکن خدا ایسا ہونے سے انکار کرتا ہے بلکہ وہ جہاد برائے انقلاب کو پسند کرتا ہے اور اس نے یہاں تک کہ غیرملکی فوجی مداخلت کو بھی ایک بہتر آئیڈیا قرار دیتے ہوئے اس کی حمائت کی
جب سے شامی بحران ابھرا اس وقت سے ابو بصیر دو طرح کی سرگرمیوں میں مصروف تھا ،ایک وہ مذھبی فتوے دے رہاتھا اور دوسری طرف وہ شام میں سلفی جہاد کے حامیوں سے روابط کررہا تھا اور زیادہ تر ایسے حمائتی کوئتی سلفی تھے تاکہ شام میں لڑائی کو شروع کرنے کے لیے مواد اور اخلاقی حمائت حاصل کی جائے،لبنانی اخبار الاخبار لکھتا ہے کہ ابو باصر نے سلفی دھشت گردوں کی مالی ،اخلاقی امداد کے حصول میں مرکزی کردار ادا کیا
اپریل 2012ء میں اس نے یہ فیصلہ کرلیا کہ یہ موقعہ ہے کہ شامی حکومت کے خلاف قتال کرنے کا اعلان کردیا جائے تو وہ ترکی گیا جہاں اس نے سلفی تصور جہاد کی حمائت کرنے والے دوستوں سے ملاقات کی پھر اس نے سرحد عبور کی اور شام میں عدلیب میں فجرالاسلام نامی تنظیم کی بنیاد رکھی اور شامی حکومت اور اس کے اتحادیوں کے خلاف جنگ کرنے کی تبلیغ شروع کردی اور اس کا دائرہ اثر الیپو تک پھیل گیا اور اس نے حمص میں الحق بریگیڈ تشکیل دی اور ان دو گروپوں نے احرارالشام سے الحاق کرلیا جو کہ ابوباصر کے فتوؤں سے متاثر ہوکر تشکیل پایا تھا اور اس دن سے لیکر آج تک وہ اس تحریک کا گاڈ فادر ہے اور اسے اسلامک فرنٹ پر بھی غیرمعمولی اثر رسوخ حاصل ہے
Comments
Latest Comments
شیخ جمیل الرحمان نے الدعوہ والرشاد کے نام سے افغانستان میں تنظیم قائم کی تهی اس تنظیم کے بطن سے لشکر طیبہ اور جماعت دعوہ نے جنم لیا اور یہ ابو بصیر الطرطوسی وہ شخص ہے جو سعودی عرب اور طالبان کے درمیان ایک رابطے کا کام دے رہا ہے اور اسی کے زریعے طالبان شام میں داخل ہورہے ہیں ،پاکستانی میڈیا اس طرح کی خبروں کو نشر نہیں کرتا جبکہ ابوبصیر کی اس پروفائل نے بہت سی چیصیں سمجهنے کا موقعہ فراہم کیا ہے
جب سے تصور انسان وجود میں آیا اس کے ساتھ ہی ایک منفی یا مزاحمتی کردار بھی وجود میں آگیا ،، تخلیق آدم کے ساٹھ شیطان کا رصور اور اس کا مکالمہ ،، وجود آدم کے بعد قابیل کی شکل میں یہی کردار چلتے چلتے ابوجہل اور یزید بن معاویہ کی صورت اختیار کرگیا ۔۔ جنگ نہروان میں تو یہ ’’ اللہ کی قربت کا بھی زیادہ حقدار ھونے کا دعویٰ کر بیٹھا ۔۔۔
یہ ساری تاریخ اپنی تفصیلات کے ساتھ اس وقت نوع انسانی کے ہر طبقہ فکر کے سامنے ہے ۔۔۔ شام کیطرح بہت سے دیگر ممالک میں یہ گروہ شیطان صرف پچھلے تیس سالوں میں ایک کروڑ بارہ لاکھ مسلمانوں کو باہمی تنازعات اور مناقشات کی صورت میں قتل کرا چکا ہے ۔۔۔
یہ گروہ صرف شیعہ یا سنی کا ہی دشمن نہیں بلکہ دنیا کے ہر پرامن اور صاحب شعور فرد اور گروہ کا ازلی دشمن ہے ۔۔۔ اور اس وقت اس گروہ کی قیادت ’’ ٓٓل سعود ‘‘ کر رہے ہیں ۔۔ یہ گروہ سعودی قیادت میں دیگر عرب ممالک سمیت صرف یورپ کے اندر 1980 کے بعد سے اب تک 200 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کر چکے ہیں ۔۔
ایک طرف تو 10 ارب ڈالر کے بجٹ پر پلنے والا انکا خصوصی میڈیا مسلسل یہ پروپیگنڈہ کر رھا ہے کہ یورپ میں اسلام پھیل رھا ہے اور دوسری طرٖ یہ خود دنیا بھر میں مسلمانوں کو قتل کر رہے ہیں اور اسلام کے پر امن امیج کے دامن کو تار تار کر کے رکھ چھوڑا ہے ۔
مگر جیسا کہ تاریخ ہے کہ ہر فرعون کے لیے موسی اور ہر یزید کے لیے حسین ھوتا ہے ایسے ہی ان کے سوال کا وقت آن پہنچا ہے ۔۔۔ مظریاتی محاذ پر یہ گذشتہ پانچ سالوں سے مسلسل پسپا ھو رہے ہیں البتہ اغیار اور دولت کے سہارے ان کی اچھل کود ابھی جاری ہے ۔۔۔ مگر کب تک بکرے کی ماں خیر مناے گی ،،،، ؟