پاکستان میں سلفی تکفیری دھشت گردی کے دو بڑے دلال ہیں، نواز حکومت اور دیوبندی نیٹ ورک

Eik-houn-Muslim

بحرین کے بادشاہ اور وزیر خارجہ 40 سال بعد پاکستان کے سرکاری دورے پر تشریف لائے اور اس دوران پاکستانی حکومت اور اس کی تمام سول و فوجی قیادت نے ان کا بھرپور استقبال کیا

بحرین کے بادشاہ اور وزیر خارجہ کا پاکستان میں دورہ ایک ایسے موقعہ پر ہوا جب پاکستان کی پارلمینٹ ،میڈیا اور گلی کوچوں میں سعودی عرب کی جانب سے ڈیڑھ ارب ڈالر کے تحفے پر بحث و مباحثے کا بازار گرم ہے ،سعودی عرب اور پاکستان کے تعلقات کی نوعیت پر قیاس آرائیاں عروج پر ہیں اور خود بحرین کے اندر بادشاہت کے خلاف زبردست تحریک چل رہی ہے جس کے بارے میں بحرین،سعودیہ عرب اور محتدہ عرب امارات کا خیال یہ ہے کہ اس تحریک کے پیچھے ایران کا ہاتھ ہے جو بحرین کی اکثریتی شیعہ آبادی کو بحرین کے سلفی وہابی بادشاہی خاندان کے خلاف اکسا رہا ہے

بحرین ،سعودی عرب سمیت گلف ریاستوں کا خیال یہ ہے کہ عرب دنیا میں بالعموم اور سعودی عرب،اردن،بحرین،کویت میں جو عرب بہار کے نام سے تحریک سامنے آئی ہے اس کے پیچھے ایران ،حزب اللہ،اخوان المسلمون کا ہاتھ ہے اور عرب ریاستوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ بحرین،سعودیہ عرب وغیرہ میں جو جمہوریت کے نفاز اور بادشاہت کے خاتمے کی تحریک چل رہی ہے اس کے پیچھے شیعہ توسیع پسندانہ عزائم پوشیدہ ہیں اور یہ بحرین میں شیعی حکومت قائم کرنے کے بعد سعودیہ عرب کی آئل بیلٹ میں شیعی اکثریت کے صوبے کو بحرین کے ساتھ ملانے کا منصوبہ ہے اور آل سعود کے اقتدار کے خاتمے کی سازش ہے

گلف ریاستیں اس لیے ایک طرف تو شام میں بشارالاسد کی حکومت کا خاتمہ چاہتی ہیں تو دوسری طرف وہ لبنان میں حزب اللہ  سے نجات چاہتی ہیں ،تیسرا وہ بحرین میں حزب اختلاف کی تحریک کو مکمل طور پر کچلنے کا پروگرام بنائے ہوئے ہیں

سعودیہ عرب کے اتحادی اردن،متحدہ عرب امارات اور بحرین میں اخوان المسلمون بہت مضبوط اپوزیشن ہے اور یہ شیعی،سیکولر حزب اختلاف کی جماعتوں کی جانب سے ان ملکوں میں بادشاہتوں کے خاتمے اور جمہوری ریاست کے قیام کی حامی ہے اور ان ملکوں میں اخوان المسلمون کو مصر میں اخوان کے انتخاب جیت لینے سے مزید تقویت ملی تھی اور مصری معزول صدر ڈاکٹر مرسی نے اقتدار میں آنے کے بعد ایک تو عرب ملکوں میں اخوان اور دیگر جماعتوں کی جمہوری جدوجہد کے خلاف کام کرنے کی سعودی خواہش کو رد کردیا تھا تو دوسری طرف شام کے معاملے میں بھی اخوان نے حزب اللہ کے ساتھ اور ایران کے ساتھ تصادم میں آنے سے گریز کیا تھا اور مرسی کے دورہ ایران ،روس کے بعد تو اخوان کےسعودیہ عرب سے تعلقات میں بہت زیادہ گراوٹ آگئی تھی

ہم کہہ سکتے ہیں کہ اخوان المسلمون جس میں وہابی مسلک کے ساتھ ساتھ سنّی صوفی مسلک کے لوگ بھی کثیر تعداد میں شریک ہیں اخوان المسلمون نے سعودیہ عرب کی جانب سے پیش کئے جانے والے شیعی توسیع پسندانہ مفروضے اور اور مڈل ایسٹ کے معاملات کو شیعہ-سنّی تضاد کے آئینے میں دیکھنے سے انکار کردیا تھا یہی وجہ ہے کہ اخوان المسلمون کو مصر میں اپنی حکومت سے ہاتھ دھونا پڑے اور سعودیہ عرب مصر میں فوجی آمریت کا سب سے بڑا علمبردار بن گیا

 قطر و عمان کو چھوڑ کر باقی سب ریاستوں نے اخوان المسلمون کو دھشت گرد جماعت قرار دے دیا ہے اور وہ قطر پر زور دے رہا ہے کہ وہ اخوان کے سب سے بڑے حامی اور سلفی عالم ڈاکٹر یوسف قرضاوی کو قطر سے نکال دیں قطر نے ایسا ہیں کیا تو قطر سے یو اے ای ،سعودیہ عرب اور بحرین نے اپنے سفیر واپس بلالیے ہیں

قطر اور ترکی جوکہ شام میں بشارالاسد کی حکومت کا خاتمہ چاہتے ہیں لیکن یہ دونوں ملک جہاں اخوان کے معاملے پر سعودیہ عرب سے اختلاف کررہے ہیں وہیں یہ شام میں سعودیہ حمائت یافتہ سلفی تکفیری گروہوں سے اور القائدہ سے جڑے گروپوں سے الگ ہوکر اسلامک فرنٹ کے نام سے لڑ رہے ہیں اور ان دونوں ملکوں کے ایران سے تحارتی و اقتصادی تعلقات بھی قائم ہیں – سعودیہ عرب اور اس کے اتحادی عرب ملکوں کے امریکہ ،برطانیہ سمیت کئی یورپی ملکوں کے ساتھ شام،ایران ،اخوان کے معاملے میں اختلاف موجود ہے

امریکہ اور مغربی ملک شام میں آزاد شامی فوج کی حمائت کررہے تھے جن کو سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں کی جانب سے بھیجے جانے والے سلفی تکفیری عسکریت پسندوں نے خاصا کمزور کرڈالا ہے اور یہ معاملہ امریکہ اور سعودیہ عرب کے درمیان خاصی سرد جںگ کا سبب بن گیا ہے

دوسرا سعودی عرب کی خواہش تھی کہ ایران کے خلاف یو این سے پابندیاں لگائی جاتیں،امریکی اور یورپی ایران کے خلاف اقتصادی پابندیاں کم نہ کرتے اور جی پلس فائیو مذاکرات نہ کئے جاتے لیکن یہ سب ہوا اور اس تناظر میں سعودیہ عرب نے اپنے اتحادیوں کے ساتھ ملکر شام،ایران کے حوالے سے نئی پالیسی تشکیل دی ہے

شام ،ایران پر سعودی عرب کی قومی پالیسی کے خالق اور اس پر عمل درآمد کرنے کے زمہ دار سعودی نیشنل گارڑ کے سربراہ شہزادہ مہتب بن عبدالعزيز ہیں اور اس پالیسی کے اب تک جو خدوخال سامنے آسکے ہیں وہ یہ ہیں کہ سعودی عرب بحرین کے اندر فسادات سے نمٹنے والی پولیس اور انٹیلی جنس سروس کو جدید اور سریع الحرکت بنانے اور اس کے پھیلاؤ میں بحرین کا ساتھ دینے کا فیصلہ کرچکا ہے ،پاکستانی ریٹائرڈ پولیس،فوجی ،رینجرز اہلکار اس میں پہلے سے بھرتی ہورہے ہيں جبکہ نیوی،فضائیہ کے سابق اہلکاروں سے بھی درخواستیں وصول کی جارہیں ہيں ،عام پولیس یا انٹیلی جنس ملازم جو بھرتی ہوتا ہے اسے پاکستانی ایک لاکھ چالیس ہزار سے دو لاکھ روپے ماہانہ تنخواہ دی جاتی ہے جبکہ خود سعودیہ عرب اپنی فوج،انٹیلی جنس اور مذھبی پولیس کی تعداد اور صلاحیت میں اضافے کے خواہآں ہیں اور اس کے لیے بھی پاکستان اور اردن سے درخواست کی گئی ہے

پاکستانی وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف جب یہ کہتے ہیں کہ پاکستانی فوج یا اس کی کوئی خفیہ ایجنسی کے اہلکار سعودی عرب یا بحرین کے داحلی مسائل کے حل کے لیے نہیں بھیجے جارہے تو یہ ایک طرح کہنا کچھ اور کرنا کچھ والی پرانی حاکموں کی پالیسی  ہے لیکن بحرین کی حکومت پرائیوٹ اداروں اور بحریہ فائونڈیشن،فوجی فاؤنڈیشن اور ایکس ملٹری مین سروسز سوسائٹی کے زڑیعے سے اپنی پولیس،نیم فوجی دستوں اور خفیہ پولیس میں بھرتی کے لیے لوگ ضرورہآئر کررہی ہیں

یہ بھی خیال کیا جارہا ہے کہ پاکستان سے بہت سے عسکریت پسند بھی سعودی عرب کی مجوزہ سریع الحرکت باغی فوج کا حصّہ بننے جارہے ہیں جو سعودیہ عرب شام کے اندر لڑآئی کا توازن اپنے حق میں بدلنے کے لیے تیار کرنا چاہ رہا ہے سعودیہ عرب،بحرین اس حوالے سے پاکستان سے انسٹرکٹرز ،ہتھیار لینے میں دلچسپی لے رہے ہیں جبکہ سعودی عرب اور بحرین پاکستان کی فوج اور اس کی خفیہ ایجنسیوں کے کاؤنٹر انسرجنسی مہارت اور تجربے سے بھی فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں جیسا کہ غیر تصدیق شدہ خبریں آئی تھیں کہ سری لنکا نے تامل باغیوں سے جافنا خالی کرانے کے لیے پاکستان کی فوج کی کاؤنٹر انسرجنسی پالیسی سے استفادہ کیا تھا

یہ وہ سارے حالات ہیں جن کے تناظر میں پاکستان کا کردار مڈل ایسٹ کے معاملے میں بہت اہم ہوگیا ہے

،سرتاج عزیز نے اراکین پارلیمیٹ کو بند کمرے میں جو بریفنگ دی اس کے حوالے سے ایک انتہائی اہم سیاست دان کا کہنا یہ تھا کہ مشیر وزیر خارجہ سرتاج عزیز نے یہ تسلیم کیا کہ پاکستان کے دفتر خارجہ ،دفاعی وزرات اور وزیر ا‏عظم کا سب سے بڑا امتحان مڈل ایسٹ کے حوالے سے سعودیہ عرب اور ایران سے تعلقات میں توازن رکھنا ہے اور شام ،مصر،لبنان ،بحرین ،سعودیہ عرب ،ایران کے داخلی معاملات پر غیر جانب داری کی روائت کو ٹوٹنے سے بچانا ہے لیکن زمین پر اس وقت جو واقعات رونما ہورہے ہیں اس سے ان وضاحتوں اور صفائیوں سے شکوک کے بادل چھٹ نہیں پارہے ان شکوک کے جواز خود حکومت نے فراہم کئے ہیں،حکومت کہتی ہے کہ سعودی عرب نے ڈیڑھ ارب ڈالر تحفے کے طور پر دئے تہلے تو نام ہی نہیں بتارہی تھی اور سعودی عرب کی جانب سے پولٹری پر سات سال کے بعد پابندی ہٹانے کے بارے میں بھی ٹھوس جواب موجود نہیں ہے

سرتاج عزیر ،اسحاق ڈار،ترجمان وزرات خارجہ اور زیر دفاع کہتے ہیں سعودیہ عرب کو جو اسلحہ فراہم کیا جارہا ہے اس حوالے سے یہ شرط رکھی جائے گی گہ وہ شام میں استعمال نہ ہوسکے ،جب اسلحہ چلا جآئے گا تو پاکستان کے لیے یہ ممکن نہیں ہوگا کہ وہ اس کے شام،لبنان میں استعمال کو روک سکے یا اس کو سعودی عرب کے مشرقی صوبے میں شیعہ اکثریت یا بحرین کی عوام کے خلاف استعمال ہونے سے روک سکے

سعودیہ عرب سے سیکورٹی معاہدات کی کوئی تفصیل موجود نہیں ہے اور ادھر ایران-پاک گیس پائپ لائن پروجیکٹ کھٹائی میں پڑا ہوا ہے اور پاکستانی –ایرانی باڈر پر تناؤ میں اضافہ ہورہا ہے اور واقعی ایسا لگ رہا ہے کا موجودہ حکومت مڈل ایسٹ کے حوالے سے اپنی غیرجانبدار پوزیشن کو برقرار رکھنے میں کمزور نظر آتی ہے

خود پاکستان کے اندر موجودہ حکومت کی اشیر باد سے  دیوبندی مکتبہ فکر  کا غالب رجحان جو مڈل ایسٹ کے تنازعے کے جلو میں ابھرنے والی شیعہ،بریلوی مخالف  جو شیعہ کو سنی کی بقا کے لیے خطرہ ہونے کا پروپیگنڈا جاری رکھے ہوئے ہے

a4

دیوبندی تکفیری چاہتے ہیں سنّیوں پر ایران،عراق،لبنان کے حزب اللہ کے کنٹرول ایریا ،شام میں بشارالاسد کے کنٹرول والے علاقے میں ظلم کی خوفناک داستانیں بیان کی جائیں اور پاکستان کے سنّی نوجوانوں کو شیعہ کے خلاف کھڑا کردیا جائے اور موجودہ حکومت کو سعودیہ عرب کے حق میں فیصلے کے لیے فضا سازگار بناکر دے دی جائے

دیوبندی دھشت گرد جماعت اہل سنت والجماعت اس منصوبے پر عمل کررہی ہے وہ دیوبندی نوجوانوں کو پاکستان کے اندر شیعہ کے اثر ورسوخ اور دھشت گردی کی جھوٹی داستانیں سنارہی ہے تو دوسری طرف وہ مڈل ایسٹ میں شیعہ اکثریت کے ملکوں اور علاقوں میں سنّیوں پر ظلم کے جھوٹے قصّے سنارہی ہے اس طرح کی پروپیگنڈا مہم اہل سنت والجماعت کھلے عام چلارہی ہے اور اس کے نتیجے میں پاکستان سے جانے والے بہت سے دھشت گردوں کی عراق ،شام میں ہلاکت کی خبریں آرہی ہیں کل عراق میں مارے جانے والے دیوبندی دھشت گردوں کی لاشیں پاکستان آئی ہیں

مرکزی ناظم اعلی جماعت اہل سنت سید ریاض حسین شاہ نے راقم کو بتایا کہ ان کے پاس مصدقہ اطلاعات ہیں کہ ان کے مدارس کو بم سے اڑانے کی سازش ہورہی ہے اور اس کا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ دیوبندی دھشت گرد تکفیری خارجی بنیادوں پر مسلح جدوجہد کے خلاف اتفاق اور اجماع کو سبوتاژ کرنے کے لیے اہل سنت بریلوی کے خلاف دھشت گردی کی بڑی کاروآئی کریں تاکہ ان کو دیوبندی تکفیری دھشت گردوں کے خلاف بولنے سے روکا جاسکے

Comments

comments