A brief history of PPP: mauj mela, madari, maqtal – by Hasan Mujtaba

Related articles:

Zulfiqar Ali Bhutto slaps General Zia and Ziaists from his grave – Hasan Nisar

What is the difference between ZAB, Benazir Bhutto and other politicians? – by Munno Bhai

Why Zulfiqar Ali Bhutto loved us – by Ali Sher Mussali

“Real workers of PPP can never support Zardari.” Really? – by Khalid Wasti

PPP is losing popularity: Myths of the Electronic Media – by Imran Kureshi

’موج میلہ، مداری اور مقتل‘

حسن مجتیٰ
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، نیویارک

آج بھی پاکستان پیپلزپارٹی ایک روایتی پارٹی نہیں ایک تاریخ بلکہ پارٹی سے زیادہ ایک فرقہ ہے

اگر کوئي مجھ سے پوچھے کہ چار حرفی محبت کی طرح اس تین حرفی لفظ پی پی پی کا کیا مطلب ہے تو میں کہوں گا ’موج میلہ، مداری ، اور مقتل‘۔ پارٹیوں کی محافظ پارٹیوں کی مقبولیت ہوتی ہے لیکن یہ کیسی پارٹی ہے کہ اس کی عوام میں مقبولیت ہی اس پارٹی کے لیڈروں کے قتل کا سبب بنی۔

یہ پارٹی پاکستان کی سیاہ بخت راتوں میں آخری ٹینگو گیت ہے۔

لیکن پاکستان میں آج بھی پاکستان پیپلزپارٹی ایک روایتی پارٹی نہیں ایک تاریخ بلکہ پارٹی سے زیادہ ایک فرقہ ہے۔ یہ کیسی پارٹی ہے کہ جو اقتدار میں رہتے ہوئے بھی اپنے جوہر میں اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہوتی ہے بلکہ اسٹیبلشمنٹ ایک سانپ کی طرح اسکے آستینوں میں گھر کیے بیٹھی ہوتی ہے۔ موت اور سرکاری جاسوس اسکے ساتھ سایوں کیطرح لگے رہتے ہیں۔ پھر بھی یہ وفاداری اور غیر وفاداریوں اور بشرطیکہ انتخابات ملک میں شفاف ہوں تو ووٹ جیتنے کی مشین بنی ہوتی ہے۔

جب لاہور میں انیس سو سڑسٹھ کو ڈاکٹر مبشر حسن کے گھر اس وقت کے فوجی ڈکٹیٹر جنرل محمد ایوب خان کی حکومت سے مستعفی ہونے والے نوجوان وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے ساتھیوں کیساتھ ملکر پارٹی کی بنیاد رکھی تھی۔ اسوقت نہ انکے میزبان ڈاکٹر مبشر حسن نے سوچا ہوگا اور نہ ہی اسکے بانی نے کہ آنیوالے دنوں، سالوں عشروں میں یہ پارٹی کتنے طوفانوں سے گزر کر تخت تختے یا صلیبوں کا سفر بنے گی، کتنا پانی خون کیساتھ ملکر کر راوی کے پل کے نیچے بہہ جائے گا۔

پی پی پی ایک ایسی پارٹی ہے کہ اس کی عوام میں مقبولیت ہی اس کے لیڈروں کے قتل کا سبب بنی

پارٹی بننے والے دن کے فوٹو گراف میں ڈاکٹر مبشر حسن کے گھر ذوالفقار علی بھٹو کیساتھ جے اے رحیم، معراج محمد خان رش کی وجہ سے بھٹو کی گود میں بیٹھے ہوئے ہیں جبکہ بابائے سوشلزم شیخ رشید،عبدالحفیظ پیرزادہ، میاں محمود علی قصوری، ممتاز علی بھٹو، غلام مصطفی کھر، میر علی احمد تالپور اور خورشید حسن میر سمیت کئي لوگ موجود تھے۔ کٹر سوشلسٹ خیالات کے مالک سابق سفارتکار جے اے رحیم نے اس پارٹی کے بنیادی دستاویز لکھی تھی جو کہ بعد میں خود اپنے ہی ساتھی اور چیئرمین کے عتاب کا اپنے بیٹوں سیمت شکار بنے۔

ڈاکٹر مبشر حسن کے گھر کے ڈرائنگ روم میں بننے والی یہ پارٹی آنیوالے دنوں میں پاکستان کے میدانوں، چوکوں چوراہوں، شہروں ، بازاروں ، گاؤں اور گھرو‍ں اور پھانسی گھاٹوں پر چھا جائے گي کس نے سوچا تھا۔ کس نے سوچا تھا کہ ڈاکٹر مبشر کے گھر بننے والی پارٹی کی وراثت اسکے بانی کی بیٹی کے کیساتھ جہیز اور پھر اسکے تابوت اور وصیت کی صورت بھٹو کے داماد آصف زرادی کو ملے گی جسکی حکومت کیخلاف بھٹو مخالف ایوب خانی بیوروکریٹ روئیداد خان کی معیت میں خودڈاکٹر مبشر حسن ہوں گے۔

فلیٹز ہوٹل یا شنگریلہ کافی ہاؤس لاہور کی شاموں اور راتوں میں شہر اور ملک بھر کے دانشوروں، طالب علم رہنمائوں، صحافیوں، اور بائيں بازو کے سیاسی کارکنوں کی بھٹو کیساتھ ہونیوالی نشستوں کے نتیجے میں جب انکی پارٹی ڈاکٹرمبشر حسن کے ڈرائننگ روم سے نکلی تو ملک بھر میں اسکی شکل بلکل فیض کی نظم ’انتساب‘ جیسی تھی:

کلرکوں کی فسردہ سی جانوں کے نام

کرم خوردہ دلوں اور زمانوں کے نام

تانگے والوں کے نام ریل بانوں کے نام

کارخانوں کے بھولے جیالوں کے نام

اس ملک کو اتنی جمہوریت یا عوامی بلادستی نصیب نہیں ہوسکی جتنا اس پارٹی کی قیادت اور کارکنوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا ہے

جب بھٹو نے پارٹی بنائي تو ایوب خانی آمریت کے آخری لیکن جارحانہ ریاستی تشدد اور اسکے خلاف ابھرتے عوامی غصے و احتجاج کے دن تھے۔ چاندی ہوتے بالوں والے بھٹو نے بھی پاکستان میں کاکسس بازار سے لیکر لنڈی کوتل اور لیاری سے لالہ موسی تک لوگوں کو اپنا گرویدہ بنانا شروع کیا۔ اس سے پہلے مزدوروں اور کسانوں کے ایسے پر ہجوم در ہجوم مولانا بھاشانی کھینچا کرتے تھے۔ ایسا نہیں ہوا تھا کہ حالی موالی، مزدور کسان ، طالب علم ، تانگے والے اور ٹھیلے والے کسی سیاستدان کے ارگرد عاشقوں کی طرح جمع ہوں جس طرح وہ بھٹو کے گرد جمع ہوئے۔

’لوگوں نے مجھے میری ٹوٹی پھوٹی اردو کے باوجود ووٹ دیے کیونکہ وہ خود ٹوٹے پھوٹے تھے۔ اگر اردو اور جوش خطابت کی بنیاد پر لوگ ووٹ دیتے تو پھر مجھے نہیں عطاءاللہ شاہ بخاری کو ووٹ دیتے‘ بھٹو نے ضیا ءالحق کی کال کوٹھری سے لکھا۔

اس کثیر الطبقاتی پارٹی کی اہم بات یہ ہے کہ اس میں بھٹو کی پھانسی پر مٹھائی بانٹنے والے بھی شامل ہیں اور بھٹو کی پھانسی پر کوڑے کھانے اور خود کو جلانے والے بھی۔ ایسے میں یہ کہنا مشکل ہے کہ پارٹی نے اسٹبلشمینٹ کے ساتھ سمجھوتہ کرلیا ہے یا اسٹبلشمینٹ نے پارٹی کیساتھ۔ اس ملک کو اتنی جمہوریت یا عوامی بلادستی نصیب نہیں ہوسکی جتنا اس پارٹی کی قیادت اور کارکنوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا ہے۔

مٹی کی محبت میں ہم آشفتہ سروں نے

وہ قرض اتارے ہیں جو واجب بھی نہیں تھے

Comments

comments

Latest Comments
  1. Abdul Nishapuri
    -
  2. Junaid Qaiser
    -