سعودی عرب عالمی دہشت گردی کا سر چشمہ ہے – برطانوی اخبار ٹیلیگراف کی رپورٹ
خصوصی ترجمہ از تعمیر پاکستان – مڈل ایسٹ میں شام کے ایشو پر مغربی حکومتوں کی جانب سے اگرچہ سرکاری طور پر کسی بدلے ہوئے ڈسکورس کا اعلان نہیں کیا گیا ہے اور ابھی تک اقوام متحدہ ،برطانیہ اور امریکہ شام کے صدر بشارالاسد کو ہٹاکر شامی باغیوں کی حکومت قائم کرنے کے موقف پر ہی ڈٹے ہوئے ہیں لیکن مغربی دارالحکومتوں میں اندرون خانہ ایسی کچھڑی ضرور پک رہی ہے جس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ مغربی لیڈرز شام کے ایشو پر اپنے ڈسکورس میں تبدیلی لانے کی کوشش کررہے ہیں
مغربی حکومتوں کی جانب سے جب شام کے اندر بشارالاسد کو ہٹانے کے لیے بغاوت شروع ہوئی تو یہ کہا گیا تھا کہ یہ بغاوت چند ہفتوں میں بشارالاسد کا تختہ الٹ دے گی
دوسرا کلیشے امریکہ،برطانیہ اور دیگر یوروپی قیادت کی جانب سے یہ تھا کہ شام میں بغاوت قومی آزادی کی جمہوری تحریک ہے
یہ دونوں دعوے وقت کے ساتھ غلط ثابت ہوئے اور ایک طرف تو شام میں بشار الاسد کی اقتدار پر گرفت مزید مضبوط ہوگئی دوسری طرف شام میں بغاوت تیزی سے عالمی تکفیری وہابیت کے کنٹرول میں جاتی نظر آرہی ہے اور یہ سلفی وہابی دھشت گرد باغی فوج کے اندر سیکولر،جمہوری یا اعتدال پسند اسلام پسندوں کے خلاف بھي ہتھیار اٹھا چکے ہیں
برطانیہ کے معروف سنٹر رائٹ روزنامہ ٹیلی گراف میں پیٹر ابرون نے اپنے تازہ آرٹیکل میں انہی حقیقتوں کے حوالے سے بات کی ہے
پیٹر ابرون کا کہنا یہ ہے کہ
گورے تین سالوں میں جب سے شام کے بحران بارے اپنے علم کو بہتر بنانے کی کوشش کررہا ہوں تو میں اکثر( برطانوی مفادات اور سیکورٹی کے حوالے سے کام کرنے والی خفیہ ایجنسی)ایم آئی سکس کے افسر الاسیر کروک سے بات کرتا آرہا ہوں
مسٹر کروک جنھوں نے10 سال قبل ایم آئی سکس سے فراغت لی اور اپنا ایک تھنک ٹینک کانفلکٹ فورم کے نام سے بنایا جس کا کام ان تنظیموں اور حکومتوں سے رابطے رکھنا ہے جن سے برطانیہ کے سرکاری تعلقات نہ ہوں
کروک کی میری نظر میں عزت اور ثقاہت میں ان کی جانب سے ہمیشہ سچ بولنے کی وجہ سے اضافہ ہوا ہے
جب امریکہ اور برطانیہ کی حکومتیں شام میں بغاوت کے شروع ہونے پر یہ کہہ رہی تھیں کہ اسد حکومت چند ہفتوں میں گرجائے گی تو یہ کروک تھے جنھوں نے اسے ایک خوش فہمی قرار دیا تھا
جب مغربی حکومتیں شامی بغاوت کو قومی آزادی کی جمہوری تحریک قرار دے رہے تھے تو کروک نے وقت کا انتظار کرنے کا کہا تھا
یہ کروک تھے جنھوں نے سعودی فنڈ سے مدد پانے والے ایک ایسے باغی گروپ کے شام میں لڑنے کی نشاندھی کی تھی جو پورے مڈل ایسٹ میں وہابی تکفیری خیالات پر مبنی خلافت قائم کرنے کی جدوجہد کررہا تھا
کانفلکٹ فورم نے بیروت میں ایک سمینار میں آنے کی دعوت دی جس کو میں نے بصد شوق قبول کرلیا اور بیروت میں ساحل سمندر پر بنے ایک ہوٹل میں ایک ہفتہ گزارا
چار سال پہلے جب بیروت آیا تھا تو یہ خوشحالی اور ترقی کے سف پر گامزن تھا لیکن اب اس کی حالت ابتر تھی ،دس لاکھ شامی مہاجر یہاں تھے اور تریپولی سمیت بہت سے علاقوں میں سلفی دھشت گرد دندنارہے تھے
اس سمینار کے اندر شام کے حوالے سے بالخصوص اور عالمی حالات پر بالعموم جو نکتہ نظر نظر آیا وہ برطانوی میڈیا میں پیش کئے جانے والے نکتہ نظر سے زرا مختلف تھا
اس سمینار میں صدر پوٹن کے مشیر،بہت سے ایرانی سفارت کار،حماس،اسلامی جہاد اور حزب اللہ کے نمائندے موجود تھے اور ان تینوں تنظیموں کو مغرب اور امریکہ دھشت گرد قرار دیتے ہیں
ٹیلی گراف کے قارئین میں کچھ اس کو “بدمعاشوں ” کے اجتماع کے طور پر دیکھ سکتے ہیں
سیمنار کے شرکاء کا اس بات پر اتفاق تھا کہ بشار الاسد شام میں جاری جنگ جیت چکے ہیں تاہم اس جنگ کے باقاعدہ اختمام ہونے میں وقت لگے گا
شمال میں باغی ایک دوسرے سے لڑرہے ہیں جبکہ مغرب میں قالامون پر قبضے کی لڑائی ہورہی ہے اور یہ علاقہ لبنان اور باغیوں کے علاقے کے درمیان تمام تر سپلائی کا مرکز ہے اور سیمنار میں یہ کہا جارہا تھا کہ اسد کی افواج جلد اس پر قبضہ کرلیں گی
اس سیمنار کے اندر دوسرا اہم پیغام یہ دیا گیا کہ مڈل ایسٹ کے استحکام کو سب سے زیادہ خطرہ سعودیہ عرب سے ہے جوکہ برطانیہ کا سب سے قریب ترین اتحادی ہیں اور حال ہی میں پرنس چارلس نے سعودیہ عرب کا دورہ بھی کیا اس کے باوجود کہ سعودیہ عرب علمی دھشت گردی کا سب سے بڑا امداد دینے والا ملک ہے اور تمام خفیہ ایجنسیاں اس امر سے واقف ہیں
سیمنار کے کئی شرکاء نے پاکستان نے سویت یونین کے خلاف جنگ میں جو کردار ادا کیا تھا( اور سی آئی اے کی خواہشت پر جس طرح سے دھشت گردوں گروپوں کو اسلحہ اور پیسے فراہم کئے اور پھر وہ گروپ پاکستان واپس پلٹ آئے)سے سعودیہ عرب کے کردار کو تشبیہ دی
سعودیہ عرب دھشت گرد گروپوں کو شام،عراق،یمن،لبنان میں جنگ کے لیے پیسے اور اسلحہ جو بانٹ رہا ہے اس سے خود سعودیہ عرب کے لیے خطرات پیدا ہورہے ہیں
سعودیہ عرب ایسے دھشت گرد گروپوں میں اسلحہ اور پیسے بانٹ رہا ہے جو وہابی تکفیری فکر کے حامل ہیں جس کا مقصد پورے مڈل ایسٹ میں تکفیری خیالات پر مبنی خلافت کا قیام اور دوسرے مسلمانوں کو کافر قرار دیکر مارنا ہے
تکفیری کسی بھی سیکولر سٹیٹ یا سیکولر اقتدار کو جائز خیال نہیں کرتے اور ان کو ہٹاکر نام نہاد اسلامی ریاست قائم کرنے کی کوشش کررہے ہیں
برطانیہ بھی تکفیری وہابی خطرے سے دوچار ہے کہ جہاں اس کو یہ خطرہ لاحق ہے کہ شام جاکر لڑنے والے برطانوی تکفیری باشندے واپس برطانیہ آکر تکفیری ریاست کے قیام کے لیے جنگ شروع کرسکتے ہیں
ابھی تک اس خطرے کے حوالے سے برطانیہ اور امریکی حکومتوں نے اس کی شدت اور اس کے نتائج کا اعتراف نہیں کیا ہے اور وہ ابھی تک حزب اللہ جیسی جماعتوں سے بات کرنے پر تیار نہیں ہے جبکہ اس سمینار میں افریقہ ،اقوام متحدہ اور یورپی ملکوں کے سئنیر نمائندے موجود تھے جو سیمنار کے مقررین کی باتوں پر توجہ دے رہے تھے
اگرچہ مغرب اور امریکہ میں سرکاری سطح پر راستہ بدلنے کا کوئی اشارہ نہیں دیا جارہا لیکن قرائن بتاتے ہیں کہ مغربی رہنماء اپنا راستہ بدل رہے ہیں
حال ہی میں امریکہ میں برطانیہ،امریکہ کے انٹیلی جنس سربراہوں کی شام کے حوالے سے خفیہ میٹنگ ہوئی جس میں سعودی انٹیلی جنس ڈائریکٹر بندر بن سلطان غیر حاضر تھے
جبکہ رابرٹ فورڑ جوکہ شامی باغیوں کو منظم کرنے کے امریکہ کی طرف سے زمہ دار تھے اور جینیواء میں شامی حکومت اور باغیوں کے درمیان بات چیت کے ناکام دوسرے مرحلے میں باغیوں کے بائیکاٹ اور اس کے خاتمے میں یہی امریکی سفیر اہم کردار ادا کرتے رہے ان سے یہ ٹاسک واپس لے لیا گیا ہے
دو سال پہلے کنگ عبداللہ اور امریکہ نے سعودی انٹیلی جنس چیف بندر سلطان کو شامی حکومت کو تباہ کرنے کا ٹاسک دیا تھا اور اس نے اس جنگ میں نام نہاد ماڈریٹ باغیوں سے لیکر تکفیری سلفی دھشت گردوں کے لیے وسائل پوری طرح سے جھونکے تھے لیکن اب لگتا ہے کہ ان کو اس مشن میں امریکہ اور برطانیہ کی حمائت حاصل نہیں رہی
ادھر امریکی انتظامیہ نے سعودی عرب کے سامنے ایک فائل رکھی جس میں اس کے یمن،عراق لبنان میں دھشت گردی کے ثبوت بھرے ہوئے تھے
(صدر اوبامہ نے سعودی عرب کا اپریل میں دورہ کرنے کا اعلان تب کیا جب کنگ عبداللہ نے اعلان کیا کہ جس پر یہ ثابت ہوا کہ وہ سعودیہ عرب سے باہر جاکر لڑرہا ہے یا اس کے لیے لوگ بھرتی کررہا ہے تو اسے جیل بھیج دیا جائے گا)
صدر اوبامہ اگلے ماہ سعودیہ عرب کا جو دورہ کریں گے وہ اس حوالے سے بہت اہم ہوگا
کروک کا کہنا ہے کہ مغربی طاقتوں کو اب یہ سمجھ آرہی ہے کہ ان کے پاس چوائس ایک ہے کہ یا تو اسد سے نجات پالیں یا القائدہ سے لڑلیں لیکن ایسی چوائس ان کے پاس کبھی نہیں تھی کہ وہ دونوں سے اکٹھے نجات پالیں
https://lubpak.com/archives/307235