دھشت گردی: شیعہ سنّی سول وار ایک فکری مغالطہ ہے یا سوچا سمجھا گمراہ کن استعارہ

takf

اس تصویر میں دیوبندی ملائیت کے سوا کوئی اور نظر نہیں آتا پھر 

اسے سنّی-شیعہ تنازعہ کہنا یا تو فکری مغالطہ ہے یا انتہا درجے کی موقعہ پرستی

اسماعیلی شیعہ فرقے کے روحانی پیشوا نے کینڈا کی پارلیمنٹ سے خطاب کرتے ہوئے عالمی برادری کو کہا کہ مسلم دنیا میں خاص طور پر مڈل ایسٹ،پاکستان،افغانستان،صومالیہ میں شیعہ-سنّی تصادم بہت شدید ہوگیا ہے اور اس تصادم کو حتم کرانے کی ضرورت ہے

Aga Khan, spiritual leader of Ismaili Muslims, addresses a joint session of Parliament as House of Commons Speaker Andrew Scheer listens in Ottawa

انہوں نے یہ بھی کہا کہ مسلم دنیا میں شیعہ-سنّی تصادم آئرلینڈ میں کتھولک اور پروٹسنٹ تصادم کی طرح ہے جو اگر پوری کرسچن ورلڈ میں پھیل جاتا تو بہت تباہی ہوتی ،اسی لیے بڑی تباہی سے بچنے کے لیے اس تصادم کو ختم کرانے کی اشد ضرورت ہے

میں نے آغا خان کے اس خطاب کے مندرجات کو دیکھا تو مجھے ایک مرتبہ پھر اس بات کا اندازا ہوگیا کہ اس وقت مسلم دنیا کے اندر دھشت گردی اور انتہا پسندی کی جس روائت کا چلن عام ہے اس کی ہئیت اور ساخت نیز نوعیت کے بارے میں کس قدر ابہام اور الجھنوں کا سامنا کرنا پڑرہا ہے

آغا خان بھی ان لوگوں میں شامل ہیں جو دھشت گردی اور انتہا پسندی کی تکفیری،خارجی جڑیں تلاش کرنے کی بجائے اسے بہت آسانی کے ساتھ شیعہ-سنّی تضاد،تنازعے اور تصادم کی صورت دیکھنے کی کوشش کررہے ہیں

شیعہ-سنّی تصادم اور تنازعہ ایک ایسا افسانہ ہے جس کی جڑوں کو آپ تلاش کرنے نکلتے ہیں تو کہانی کچھ اور ہی نکل آتی ہے

آغا خان نے پاکستان اور افغانستان کی مثال دی تو یہاں اگر دیکھا جائے تو شیعہ-سنّی اختلافات کبھی بھی ایک منظم جنگ اور تصادم کی شکل اخیتار نہیں کرتے رہے

ہندوستان،پاکستان،افغانستان اور بنگلہ دیش میں اگر تاریخی اعتبار سے بھی جائزہ لیا جائے تو یہ واضح ہوتا ہے کہ یہاں انتہا پسندی اور دھشت گردی کو ایک مربوط اور منظم روائت کے طور پر متعارف کرانے والے دیوبندی اور سلفی مکاتب فکر کے اندر موجود تکفیری خارجی انتہا پسند عناصر تھے جنہوں نے آگے چل کر آج کی کالعدم سپاہ صحابہ پاکستان،لشکر جھنگوی،جنداللہ،جیش العدل ،تحریک طالبان پاکستان،جیش محمد ،جنودالحفصہ وغیرہ کی شکل اختیار کی اور یہ وہ دیوبندی تکفیری خارجی گروہ ہے جو ان تینوں ملکوں میں نہ صرف شیعہ کی نسل کشی کا مرتکب ہورہا ہے بلکہ یہ دیوبندی تکفیری دھشت گرد ٹولہ صوفیانہ روایت کے حامل سنّی ،ہندؤ،احمدی،عیسائی اور پشتون،بلوچ،سندھی ،پنجابی ،کشمیری سیکولر لبرل حلقوں سے تعلق رکھنے والوں پر بھی حملے اور ان کے قتل میں ملوث ہے

مڈل ایسٹ میں اگر ہم شام ،عراق،لبنان،بحرین،کویت جیسے ملکوں کے اندر بڑھتے تشدد اور خون ریزی کا جائزہ لیں تو ہمیں فساد فی الارض اور خود کش بم دھماکوں ،کار بم دھماکوں،منظم طریقے سے مارکیٹوں،مذھبی مقدس مقامات پر حملوں کے پیچھے وہ سارے تکفیری خارجی گروپس نظر آتے ہیں جن کا تعلق سلفی وہابی مکتبہ فکر سے ہے اور ان کو بڑے پیمانے پر سعودیہ عرب،بحرین،قطر وغیرہ کا مالی،لاجسٹک تعاون حاصل ہے اور یہ گروہ اپنے تکفیری خارجی نظریات کے بارے میں یہ دعوہ کرتے ہیں کہ وہ سنّی نظریات ہیں تو ان کے پاس سنّیوں پر حملے کرنے ،ان کے زیر نگرانی مزارات مقدسہ کی تباہی کا اقدام اٹھانے اور سنّی علماء،پروفیشنل،اور عام سنّی شہریوں کو قتل کرنے کا کیا جواز ہے؟

مسلم دنیا میں اس وقت جو دھشت گردی ہے اس کی جڑیں سلفی-دیوبندی تکفیری خارجیت کے اندر پیوست ہیں اور یہ ہرگز سنّی-شیعہ تصادم اور جھگڑے کی پیداوار نہیں ہے

پاکستان میں سنّی مسلک کی اکثریتی شکل وہ ہے جسے عرف عام میں اہل سنت بریلوی کہا جاتا ہے اور اس مسلک کی جانب سے کبھی بھی شیعہ کے خلاف دھشت گردی اور انتہا پسندی کی کوئی باقاعدہ روایت دیکھنے کو نہیں ملی ،اختلافات علمی دائرے تک محدود رہے ،لیکن وہ کبھی بھی ایک دوسرے کے خلاف ہتھیار اٹھانے تک نہیں آئے

جبکہ حقیقت یہ ہے کہ رد شرک،رد بدعت،رد کفر کے نام پر ایک متشدد ،تکفیری خارجی دھشت گردانہ مہم دیوبندی اور سلفی وہابی مکاتب فکر کے اندر سے مربوط اور منظم انداز سے چلائی جاتی رہی اور اس مہم سے کبھی بھی اعلانیہ لاتعلقی ان مکاتب فکر کی جانب سے دیکھنے کو نہیں ملی

آج پاکستان کے اندر یہ تلخ حقیقت ہے کہ دیوبندی مکتبہ فکر کا ہر آدمی چاہے وہ خاص ہو یا کہ عام وہ تحریک طالبان پاکستان،سپاہ صحابہ پاکستان/اہل سنت والجماعت و دیگر ایسے دھشت گرد اور انتہا پسند گروپوں کے بارے میں یہ نہیں کہتا کہ

“تحریک طالبان پاکستان،لشکر جھنگوی،جنداللہ،جیشن العدل،اہل سنت واجماعت دیوبندی جماعتیں نہیں ہیں اور نہ ہی ان کا مسلک دیوبند سے کوئی تعلق ہے”

بلکہ اگر وفاق المدارس ،جے یوآئی ایف(تمام دھڑے)،پاکستان علماء کونسل کے بیانات کا جائزہ لیا جائے تو ان کی جانب سے دو طرح کے موقف سامنے آتے ہیں

ایک موقف تو یہ ہے کہ نفاذ شریعت کے لیے بندوق اٹھانا جائز نہیں ہے

اس موقف کے حامل جے یوآئی ایف فضل الرحمان اور وفاق المدارس کی قیادت یہ بھی کہتی ہے کہ حکومت اگر شریعت کا نفاذ کرتی تو بندوق اٹھانے والے بندوق نہ اٹھاتے

مطلب بہت واضح ہے کہ تحریک طالبان،لشکر جھنگوی،جنداللہ اور دیگر دیوبندی تکفیری دھشت گرد جن مطالبات کے ساتھ دھشت گردی کررہے ہیں وہ مطالبات شرعی اور اسلامی ہیں اور ان کا ریاست اگر نفاذ کردے تو دھشت گردی ختم ہوجائے گی دوسرے لفظوں میں تکفیری خارجی دیوبندی ازم کو ریاستی قانون بنادیا جائے تو دھشت گردی کا خاتمہ ہوجائے گا

دوسرا موقف جو مولوی عبدالعزیز ،مولوی سمیع الحق اور دیگر دیوبندی حلقوں کی جانب سے سامنے آتا ہے وہ یہ ہے کہ پاکستان کا موجودہ آئین اور سارا کا سارا ضابطہ غیر اسلامی اور کفریہ ہے ،اس کو ختم کرکے یکسر ان خیالات کو نافذ کرنے کے لیے جنگ کرنا جائز ہے جن کے لیے طالبان،لشکر جنگ کررہے ہیں

اصل میں دیکھا جائے تو دیوبندی مکتبہ فکر کی ملائیت کے ہاں بس حکمت عملی کا اختلاف ہے وگرنہ آج کی دیوبندیت کا تکفیری خارجیت پر اتفاق کامل ہوچکا ہے اور یہ دیوبندی ملائیت کسی بھی جگہ یہ نہیں کہتی کہ تکفیری دیوبندی دھشت گردوں کا مسلک دیوبند اور اس کی آئیڈیالوجی سے کوئی تعلق نہیں ہے

جب ہم دیوبندی کلرجی ،دیوبندی مذھبی پیشوائیت کی جانب سےایک یا دوسرے طریقے سے دیوبندی تکفیری دھشت گردوں اور قاتلوں کی آئیڈیالوجی اور ان کے موقف کو تقویت پہنچانے والے حربوں کی جانب اشارہ کرتے ہیں اور پاکستان،افغانستان ،ہندوستان کے اندر تکفیری بنیادوں پر دھشت گردی کی جڑوں کے بارے میں اشارہ کرتے ہیں تو ہمیں حیرت ہونے لگتی ہے کہ

بہت سارے پشتون قوم پرست،بہت سے سیکولر لبرل ایک دم سے دیوبندیت کی ملائیت کے وکیل صفائی بن جاتے ہیں اور وہ طالبان،اہل سنت والجماعت وغیرہ کی دیوبندی شناخت پر سیخ پا ہونے لگتے ہیں

ان کی جانب سے یہ کہا جانے لگتا ہے کہ جس طرح کی منظم تکفیری دھشت گرد روائت اور تکفیری انتہا پسند جڑیں دیوبندی مکتبہ فکر کے اندر ہیں ویسی ہی بریلوی،شیعہ اور دیگر اسلامی فرقوں کے اندر بھی موجود ہیں

لیکن وہ اتنی تمام تر کوشش کے باوجود اہل سنت بریلوی،شیعہ،اسماعیلی مکتبہ فکر میں تحریک طالبان پاکستان/اہل سنت والجماعت جیسی منظم دھشت گرد تکفیری روائت کا وجود ثابت نہیں کرپاتے

افسوس کی بات یہ ہے کہ شیعہ،سنّی بریلوی کے اندر بھی ابھی تک ایسے لوگ موجود ہیں جو طالبان،سپاہ صحابہ پاکستان  جیسی دھشت گرد تنظیموں کی دیوبندی شناخت کو بیان کرنے سے گریزاں ہیں اور محض تکفیری،خارجی جیسے الفاظ استعمال کرتے ہیں

پاکستان کے مین سٹریم میڈیا کی روش یہ ہے کہ وہ پاکستان کے طالبان اور کالعدم سپاہ صحابہ پاکستان کی دھشت گردی اور شدت پسندی کو سنّی شدت پسندی اور دھشت گردی لکھتا ہے اور دیوبندی تکفیری لکھنے سے گريزاں ہے

جبکہ پاکستان کی ریاست اور حکومت مصر ہے کہ وہ دھشت گردوں کو بے چہرہ اور بے نام کہے گی اور ان کی اصل شناخت پر پردے ڈالے رکھے گی ،کیونکہ اگر بے نام اور بے چہرہ کہنے کی بجائے چہرے اور شناخت کو ظاہر کیا تو پھر اسے سعودیہ عرب کے ساتھ اپنی سٹریٹجک پارٹنر شپ کو باقی رکھنے کا کوئی جواز باقی نہیں رہ جائے گا

اس لیے تعمیر پاکستان ویب سائٹ کی ادارتی ٹیم کا خیال یہ ہے کہ پاکسان کے اندر دھشت گردی کو شیعہ-سنّی سول وار یا جھگڑا قرار دینا ایک فکری مغالطہ ہوسکتا ہے یا یہ سوچا سممجھا گمراہ کرنے کا منصوبہ تاکہ اس دھشت گردی کی شناخت کے بارے میں الجھن اور ابہام اتنا بڑھے کہ اس کے متاثرہ فریق اتحاد اور یک جہتی کے ساتھ اس کی جڑوں کے خاتمے کی طرف نہ جاسکیں  

Related English: https://lubpak.com/archives/306749

Comments

comments