سندھ فیسٹیول، بلاول کی تقریر اور اس کے بعد؟

52ff6a1001905

سندھ فیسٹیول کی اختتامی تقریب میں پی پی پی کے پیٹرن انچیف بلاول بھٹو زرداری کی تقریر انتہائی حبس زدہ ماحول میں تازہ ہوا کا جھونکا محسوس ہوئی، اس لئے کہ پاکستانی سیاسی جماعتوں کے رہنما ایک عرصے سے انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خلاف یا تو چپ سادھے  ہیں یا اس کو پاکستانی ریاست کے منظر نامے میں شامل کرنے پر کمر بستہ ہیں کہ کسی طرح طالبان اور ان کی حمایت کرنے والے ریاست کا  با قاعدہ حصّہ بن جائیں، اس لئے ریاست اور طالبان میں مذاکرات کی بات کی جا رہی ہے، اور شرم کی بات یہ ہے کہ اس سارے عرصے میں طالبانی سرگرمیوں میں کوئی کمی نہیں آئ، ان کی طرف سے شریعت کے نفاذ کا مطالبہ اور پاکستانی آئین کی نفی ایک  ایسا بیانیہ ہے جو مستقل دہرایا جا رہا ہے، پاکستانی عوام کے خلاف دہشت گردانہ سرگرمیوں میں بھی کوئی کمی نہیں آئی ، پاکستانی مستقل مارے جا رہے ہیں. پاکستانی اشرافیہ کو یہ بیانیہ اس لئے موافق آتا ہے کہ وہ اپنی بنیادوں میں جمہوریت گریز اور عوام سے خوف زدہ ہے، اس کے مفادات اور عزائم میں کہیں بھی پاکستانی عوام کی بھلائی شامل نہیں بلکہ اقتدار اور قوت اور اپنے اختیارات و وسائل کو برقرار رکھنا ہے. ایسے میں ان کی نظریں سعودی عرب اور ایران کی طرف اٹھتی ہیں جہاں شریعت کے نفاذ کے نام پر حکمران طبقات نے اپنے اختیارات کو محفوظ کر رکھا ہے، عوام کے حقوق کی مکمل نفی ،انتہائی بربریت پر مبنی قانونی نظام، مخالفین کی بیخ کنی  اور خوف ان ممالک کے ریاستی نظام کا حصہ ہے اور ہمارے حکمران طبقات ایسی ہی کسی انتہا کی تلاش میں ہیں کہ جہاں وہ سکون سے اپنے اختیارات اور مفادات کو تحفظ دے سکیں. ہمارے جاگیرداری سماج میں ویسے بھی ظلم و بربریت ، انتقام و خوں ریزی ، سفاکی و غارت گری کو احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے، خون کا بدلہ خون، کمی کمین کی بے عزتی اور رسوائی، ملازموں سے بد ترین سلوک، انتہائی درجے کی بیگار، عورتوں کی آبرو ریزی  اور انسانی حقوق کی مکمل تذلیل ہمرے سماج میں درجۂ افتخار ہے، اس لئے طالبانی شریعت ہمارے حکمران طبقات کی کئی ضروریات کا حل ہے اور کسی بھی طرح اس سماج میں تبدیلی کا راستہ روکنے کے لئے ایک اہم رکاوٹ اور عوام کو دبائے رکھنے کا ایک اہم ذریعہ، ایک آسان اور کارآمد حل

.  
دیکھنا یہ ہے کہ بلاول اس تقریر کے بعد کیا کرتے دکھائی دیتے ہیں، سندھ فیسٹیول اس لئے اہم تھا کہ اس کے ذریعے سے عوام  کو ایک متبادل دکھایا گیا ہے، حلانکہ یہ متبادل ہماری عوامی روایات سے جڑا اور اس میں نیا کچھ نہیں، یہی ہماری اصل ہے ، ہماری عوامی  روایت ہماری جاگیرداری روایت سے مختلف ہے، ہمارے عوام کچھ نہ ہوتے ہوئے بھی بہت کچھ ہیں، انہوں نے ہمیشہ کسی نہ کسی طرح  جینے کے بہانے ڈھونڈے ہیں،  ہمہ اوست پر مبنی  صوفی روایات اور شاعری ہو کہ  رقص اور لوک گیت  ، ملھ کے مقابلے ہوں یا مزاروں پر ہونے والے میلے، ہمارے عوام کسی نہ کسیطرح  اپنی مٹی اپنی روایات سے جڑے ہیں، اور وہ جب تک اپنی شناخت برقرار رکھتے ہیں تب تک ان کو پوری طرح دبایا نہیں جا سکتا. شریعت کے نام پر جس نظام کو ہم پر حاوی کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے وہ انتہائی خشک، خوفناک اور ظالم ہے، اس میں خوشی اور سرمستی کی کوئی جگہ نہیں، اس میں رنگا  رنگی اورتنوع کی کوئی گنجائش نہیں، اس میں اختلاف ایک نا  قابل معافی جرم ہے اور ہم دیکھ سکتے ہیں کہ عوام کو تیزی سے اس طرف دھکیلا جا رہا ہے. مثال کے طور پر سندھ میں بڑھتے ہوئے انتہا پسندانہ واقعات جیسے ہندوؤں کی جبری مذہبی تبدیلی، قبروں کی بے حرمتی، مندروں پر حملے یہ سب ایک خوف ناک خواب نظر آتا ہے. اس لئے سندھ فیسٹیول اہم تھا کہ اس کے ذریعے پھر ایک کوشش کی  گئی کہ لوگوں کو یاد دلایا جا سکے کہ وہ کون ہیں، خاص طور پر سندھ میں پھیلتی مڈل کلاس جو اپنی  ساخت اور پرداخت کی بنا پر انتہا پسندانہ رجحانات کی حامل ہے اور ہماری اشرافیہ کا سب سے مضبوط بازو. مگر بات یہ ہے کہ ان رجحانات کو بدلنے کے لئے جن اقدامات کی ضرورت ہے وہ محض ایک فیسٹیول منا کر پورے نہیں ہو سکتے

.
پیپلز پارٹی سندھ میں دوسری بار حکومت میں آئی ہے اور تقریباً چھ سال سے حکومت میں ہے، اس دوران میں سندھ میں انتہا پسندی میں اضافہ ہی دیکھنے میں آیا ہے، کراچی شہر کا یہ حال ہو چکا ہے کہ اب یہاں کے کچھ  علاقوں  باقائدہ شرعی عدالتیں لگتی ہیں، حکومت کا یہاں کتنا اثر رہ گیا ہوگا وہ تو ظاہر ہے. اخباروں میں ایسی خبریں بھی آتی رہی ہیں کہ طالبان اب کراچی سے کروڑوں میں دولت حاصل کر رہے ہیں. سندھ حکومت کی کارکردگی ان کے خلاف کیا رہی ہے؟ کراچی میں ماضی کی تینوں اتحادی جماعتیں پی پی پی، اے این پی اور  ایم کیو ایم اثر رکھتی ہیں، کیا ان کی طرف سے کسی مربوط پالیسی کی اجراء ہو سکا ؟ چلیں یہ چھوڑیں کیا ان کو احساس بھی ہے کہ ان کے آپسی اختلافات سے زیادہ اہم کیا ہے ؟  عوام جس تیزی سے انتہا پسندی کی طرف بڑھ رہے ہیں اس میں ان کا مستقبل کیا ہے ؟ ان جماعتوں میں شامل اشرافیہ تو بدل جانے میں اور بھاگ جانے میں اپنی مثال نہیں رکھتی، یہ اگر قائم رہیں ہیں تو اس لئے کہ ان کے کارکن ان کے لوگ ان کے ساتھ ہیں ، اگر یہ اپنے کارکنوں اپنی اساس کی حفاظت نہ کر سکیں تو کیا ہوگا؟ ان کو ایسی پالیسی پر کام کرنا ہوگا جو تعاون اور اتحاد پر مبنی ہو، جو ملک کے تمام ترقی پسند اور روشن خیال عناصر کو ساتھ لے کر چلے، جو کارکنوں کی تربیت کرے کہ کیسے وہیں عوام میں بیداری پھیلانی ہے اور عوامی رابطے کو مضبوط بنانا ہے ، خوف کو ختم کر کے اعتماد بحال کرنا ہے . اس لئے یہ بھی ضروری ہے کہ ان جماعتوں کے کارکن بھی اس پر غور کریں کہ بدلتے حالات میں ان کی ذمّہ داری کیا بنتی ہے ؟  تبدیلی کا عمل اوپر سے نیچے نہیں بلکہ نیچے سے اوپر کی طرف بھی ہوتا ہے اور یہ بنیادی جمہوری خصوصیت بھی ہے. شعور اور آگہی پھیلانے کی ذمّہ داری صرف لیڈرشپ کی نہیں بلکہ ہر اس پاکستانی کی بھی ہے جو جمہوریت، برداشت ، تعاون ، اور ترقی پر یقین رکھتا ہے، ریاست کو بدلنے کی ذمّہ داری عوام کی  بھی ہے. اچھی بات ہے کہ کسی نے بڑھتے ہوئے انتہا پسندانہ اور ظالم عناصر کو للکارا ہے، ضرورت اس بات کی ہے کہ یہ للکار بار بار سنائی دے اور اس للکار کا اثر ہمارے عمل میں بھی دکھائی دے.

Comments

comments

Latest Comments
  1. Khalid Bhatti
    -
  2. Khalid Bhatti
    -
WordPress › Error

There has been a critical error on this website.

Learn more about troubleshooting WordPress.