طالبان سے مذاکرات – مگر کیوں ؟ از اخوان الصفا

images

کالعدم تکفیری دہشتگرد گروہ تحریک طالبان پاکستان سے مذاکرات کا چرچا ہے. حکومت یہ کہتی ہے کہ مذاکرات آئین پاکستان کے دائرہ کار میں ہوں گے. طالبان کہتے ہیں کہ اگر آئین پاکستان کو قبول کرتے تو ریاست پاکستان کے خلاف بغاوت و خروج ہی کیوں کرتے. یہ واقعہ مجھے صلح حدیبیہ کے موقع پر کفار کا وہ اعتراض یاد دلا دیتا ہے جب رسول الله صلی الله علیہ و آلہ و السلم نے امام علی کو معاہدہ لکھنے کا حکم دیا اور جب یہ لکھا گیا کہ یہ صلح نامہ محمد الرسول اﷲ اور سہیل بن عمرو کے مابین طے ہوا تو کفار مکہ کے نمائندہ سہیل بن عمرو عامری نے کہا کہ اگر ہم ان کو الله کا رسول تسلیم کر لیں تو پھر جنگ کیوں کریں .

طالبان کا کہنا یہ ہے کہ مذاکرات شریعت کے مطابق ہوں گے. بہت اچھی بات ہے، آئین پاکستان بھی قران و سنت کی بالادستی کو قبول کرتا ہےاور آئین پاکستان کا آرٹیکل ٢ بی اس حوالہ سے واضح تر ہے. اور چوں کہ حکومت پاکستان نے اسی آئین کے تحفظ کا حلف اٹھایا ہے اور اسی کی عملداری کو نافذ کرنے کا وعدہ کیا ہے اس لیۓ حکومت ذمہ دار ہے کہ ملکی آئین و قانون کے مطابق بات کرے کیوں کہ مذاکرات کسی بین الاقوامی طاقت اور غیر ملکی گروہ سے نہیں ہو رہے بلکہ ریاست پاکستان کی حدود کے اندر موجود ایک گروہ سے ہو رہے ہیں. اب جب کہ حکومتی موقف سامنے آچکا اور حکومت کا اصرار ہے کہ مذاکرات آئین پاکستان کے مطابق ہی ہوں گے تو پھر میرا سوال حکومتی اہلکاروں اور ان کے ترجمانوں سے ہے کہ آئین پاکستان کی کون سی شق اور دفعہ ایک کالعدم دہشتگرد گروہ سے مذاکرات اور ان کے مطالبات پر غور کی اجازت دیتا ہے.

کیا ہر قاتل اور دہشتگرد کو یہ سہولت حاصل ہے کہ وہ بزور طاقت اپنی بات منواۓ ؟ یا دہشتگردوں سے نپٹنے سے متعلق کوئی دہرا معیار موجود ہے ؟ کیا یہ موجودہ حکومت ہی نہیں ہے جو کہ ایک سابقہ فوجی آمر کے خلاف آئین پاکستان سے بغاوت کا مقدمہ چلا رہی ہے ؟ تو اگر فوج جیسے منظم اور دفاع پاکستان کے ضامن ادارہ کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ ملکی قوانین کو توڑے اور اپنی طاقت کے بل بوتے پر اپنی مرضی چلاۓ تو ایک کالعدم دہشتگرد تنظیم کو کیوں کر یہ سہولت حاصل ہو گئ ؟ میں مذاکراتی عمل کے خلاف نہیں اگر وہ آئین و قانون کی حدود میں ہو تو مگر یہ بات بھی ذہن میں رکھنی چاہیے کہ قاتل دہشتگردوں سے مذاکرات اور بات چیت کر کے ہم کیا نظیر قائم کر رہے ہیں ؟

اور پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اسی نوعیت کی آفر بلوچستان میں دہشتگردی میں ملوث گروہ بی ایل اے کو کیوں نہیں حاصل یا کراچی میں مذاکرات کا راستہ کیوں نہیں اپنایا گیا ؟ ہمیں یہ دہرے معیار ختم کرنے ہوں گے. خود مذاکراتی عمل پر سنجیدہ نوعیت کے سوال اٹھتے ہیں. آیا جن لوگوں نے طالبان کا ترجمان اور نمائندہ بننے کی ٹھانی ہے ان کی اپنی کیا قانونی حیثیت ہے ؟ کیا ایک ملک دشمن گروہ کی ترجمانی اور ان کی نمائندگی قانون کے مطابق ہے اور ریاست سے بغاوت کے زمرہ میں نہیں آتا ؟ دوسری طرف حکومتی مذاکراتی کمیٹی کیا حقیقی معنوں میں تمام اسٹیک ہولڈرز اور عوام کی نمائندہ ہے ؟

اگر ایسا ہے تو کیا وجہ ہے کہ اس مذاکراتی کمیٹی میں اہلسنت بریلوی مکتب، شیعہ مکتب فکر، خواتین اور اقلیتوں کو بالکل نظرانداز کر دیا گیا ہے ؟ طالبان کی دہشتگردی کا سب سے بڑا ہدف و نشانہ تو یہی گروہ ہیں تو پھر کیا وجہ ہے کہ ان تمام لوگوں کو مذاکراتی عمل سے دور رکھا گیا ہے ؟ کیا حکومت پاکستان اور ریاست صرف ایک مکتب فکر کی ترجمان ہے اور اسی ایک مکتب کے مفادات اور افکار کا خیال رکھنا اس کا فریضہ بن گیا ہے ؟

یا یہ کہ مذاکراتی کمیٹی کے چناؤ میں بھی طالبان کو خوش کرنے کی کوشش کی گئی ہے ؟ یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ دوران مذاکرات حکومت نے تو دہشتگردوں کے خلاف آپریشن روک رکھا ہے جبکہ دوسری جانب سے نہتے شہریوں کو مسلسل دہشتگردی کا نشانہ بنایا جا رہا ہے. یہ کہاں کا انصاف ہے کہ ~ سنگ و خشت مقید ہیں اور سگ آزاد لوگوں کے جان و مال کا تحفظ حکومت کی اولین ذمّہ داری ہے. مذاکرات کو کامیاب بنانے کا نام پر دہشتگردوں کو کھلی چھوٹ دے دی گئی ہے کہ وہ پورے ملک میں دندناتے پھریں اور جہاں چاہیں جس کو چاہیں قتل کر دیں، قتل کی تمام حلقوں کی جانب سے مذمت ہو لیکن قاتل کو سامنے نہ لایا جاۓ،

قاتل کو کچھ نہ کہا جاۓ اور سارا الزام تیسری قوت پر ڈال دیا جاۓ. ہمارے یہاں طالبان کے کچھ ہمدردوں نے وطیرہ بنا لیا ہے کہ عوام کو کنفیوژن میں رکھنے کے لیۓ دہشتگردی کے ہر واقعہ کے بعد یہ ڈھنڈورا پیٹنا شروع کر دیتے ہیں کہ یہ مذاکرات کو سبوتاژ کرنے کی امریکی و بھارتی سازش ہے. آج کل یہ حلقہ اس حوالے سے دہشتگرد تنظیم کے “سرکاری” و غیرسرکاری ترجمان کے ان بیانات کا بھی حوالہ دیتے پھرتے ہیں جن میں ایسے کسی بھی واقعہ سے اظہار لا تعلقی کیا گیا ہو مگر کیا کریں کہ حق کی شان یہ ہے کہ وہ واضح ہو کر رہتا ہے. کیا یہی طالبان ترجمان نہیں تھا جس نے سوات میں جرنل نیازی کو قتل کرنے کی ذمہ داری قبول کی تھی جبکہ مذاکرات کی بات شروع ہو چکی تھی جبکہ مذاکرات کی ناکامی کا سارا ملبہ امریکن ڈرون اٹیک پر ڈال دیا گیا تھا.

حال میں پشاور میں ہونے والے پے در پے ہونے والی دشتگردی کی ذمہ داری اسی تحریک طالبان کے سواتی کمانڈر ملا حسن نے قبول کر کے ان سارے لوگوں کے منہ کالے کر دیۓ جو عوام کو یہ الٹا سبق پڑھانے میں مصروف تھے کہ مذاکرات کو امریکہ ناکام بنانا چاہتا ہے حالاں کہ حقیقت یہ ہے کہ جنوری سےلے کر اب تک امریکہ نے پاکستان میں کوئی بھی ڈرون اٹیک نہیں کیا جبکہ یہ تکفیری خارجی دہشتگرد پشاور سے لے کر کراچی تک درجنوں پاکستانی شہریوں کو اپنے حملوں کا نشانہ بنا چکے ہیں.

ملا سواتی، جو طالبان کی مرکزی شوریٰ کا ممبر بھی ہے، کے بیان کی خاص بات ان کے ہمراہ ماضی میں جماعت اسلامی سے وابستہ رہنے ہارون خان عرف میجر مست گل کی موجودگی تھی جو کہ مقبوضہ کشمیر میں مزاحمتی کاروایوں کے حوالے سے جانے جاتے تھے اور ١٩٩٥ میں چرار شریف میں بھارتی فوجیوں سے جھڑپ کے دوران وہاں سے فرار ہونے میں کامیاب ہوۓ تھے. ملا حسن سواتی نے اپنے بیان میں بتایا کہ پشاور میں ہونے والے دہشتگردی کے واقعات جن میں اہل تشیع کو نشانہ بنایا گیا تحریک طالبان کے نائب کمانڈر خالد حقانی کی خواہش پر کیۓ گۓ اور پشاور میں ایسی ساری کاروایوں کی ذمّہ داری “میجر مست گل” کو سپرد کی گئی ہے.

اسی طرح ایک اور طالبان تنظیم احرار الہند کا بھی بیان سامنے آیا جس میں انہوں نے مذاکراتی عمل کے درمیان دہشتگردی جاری رکھنے کا اعلان کیا. گویا جن لوگوں کو طالبان ہمدرد “تیسری طاقت” بنا کر پیش کر رہے تھے وہ کوئی اور نہیں یہی طالبان اور جماعت اسلامی کے سابقہ رہنما ہیں جبکہ امریکہ نے مذاکراتی عمل کے دوران ڈرون حملوں کو محدود کرنے کا اعلان کیا ہوا ہے اور ابھی تک اس پر عمل بھی ہو رہا ہے. دوسری طرف کراچی میں بریلوی سنیوں کا اسی دہشتگرد گروہ نے قتل عام کیاجس میں عورتوں کو بھی نشانہ بنایا گیا اسی طرح عیسیٰ خان گڑھی میں ١٠ فروری کو ہونے والے خودکش حملے میں جس میں چار خواتین جاں بحق ہوئیں تھی اسی تحریک طالبان کا ہاتھ تھا. پولیس نے اس حملے میں ملوث اس گروہ کے دو دہشتگردوں کو گرفتار بھی کیا ہے.

کالعدم دہشتگرد تنظیم تحریک طالبان کے نمائیندہ مولوی عبدالعزیز، جو لال مسجد آپریشن کے دوران برقعہ پہن کر فرار ہونے کی کوشش کے درمیان گرفتار ہونے کی وجہ سے شہرت رکھتے ہیں، ایک پریس کانفرنس میں یہ اعلان اور دھمکی دے چکے ہیں کہ طالبان کے پاس ٥٠٠ خواتین خودکش حملہ اور موجود ہیں اس لیۓ مذاکرات کو جلد از جلد کامیابی سے ہمکنار کیا جاۓ. طالبان ہمدردوں سے سوال ہے کہ اس خارجی تکفیری گروہ نے یہ خواتین اپنے مجاہد بھایئوں کی بارات میں ناچنے اور پٹاخہ پھوڑنے کے لیۓ تیار کی ہیں یا “مجاہدین” کو نکاح الجہاد کی سہولتیں فراہم کرنے کے لیۓ ؟

وہ طالبان ہمدرد جو بار بار اسلام اور شریعت کی دہائی دیتے رہتے ہیں ان کی خدمات میں عرض ہے کہ اس خارجی تکفیری گروہ کی تمام علامات احادیث و اخبار میں تفصیل سے بیان ہو چکی ہیں اور نہ صرف یہ کہ ان خارجی تکفیری دہشتگرد گروہ کا قتل اسلام کے قانون قصاص و دیت کی روشنی میں واجب ہو چکا ہے بلکہ ان احادیث کی روشنی میں بھی ان سے قتال واجب ہے جہاں رسول الله نے صراحتاً اس گروہ کے قتل کا حکم دیا ہے. اس حوالے سے صحیح بخاری سے ایک متفق عليه حدیث میں یہاں تبرکاً بیان کرتا چلوں: سيخرج قوم في آخر الزمان حداث الأسنان سفهاء الأحلام يقولون من قول خير البرية لا يجاوز إيمانهم حناجرهم، يمرقون من الدين كما يمرق السهم من الرمية، فأينما لقيتموهم فاقتلوهم، فإن في قتلهم أجرًا لمن قتلهم يوم القيامة ’’آخری زمانے میں کچھ لوگ ایسے ظاہر ہوں گے جو کم عمر اور کم عقل ہوں گے۔

بہترین لوگوں جیسی باتیں کریں گے ۔ ان کا ایمان ان کے گلے سے نیچے نہیں جائے گا (صرف زبان پر ایمان ہوگا دل میں نہیں )‘ دین سے اس طرح نکل جائیں گے جس طرح (زور سے چلایا ہوا ) تیر شکار میں سے نکل جاتا ہے‘ تم انہیں جہاں ملو‘ قتل کردو‘ ان کے قتل کرنے والے کو ان کے قتل کا ثواب ہے‘ قیامت کے دن تک‘. گویا مذاکرات تو بہت دور اس خارجی گروہ کے افراد جہاں ملیں ان کا قتل واجب ہے. دل تو چاہتا ہے کہ اس تکفیری خارجی گروہ کے حوالے سے ممتاز سلفی عالم شیخ ناصر الدین الالبانی کے فتویٰ التحذير من فتنة التكفير کے کچھ اقتباسات کو پیش کروں جہاں فاضل شیخ نے اس تکفیری دہشتگرد گروہ کے افکار کا ابطال واضح کیا ہے لیکن کلام طویل ہو چکا اس لیۓ اس کو پھر کسی موقعہ کے لیۓ اٹھا رکھتے ہیں اور ویسے بھی قول رسول کے بعد اس کی حاجت نہیں رہتی

Comments

comments

Latest Comments
  1. Ahsan
    -
  2. Shabbir
    -
  3. Zulfiqar
    -
WordPress › Error

There has been a critical error on this website.

Learn more about troubleshooting WordPress.