شیعہ نسل کشی – اک تلخ حقیقت – از محمد جبران ناصر

1526755_278047575678788_1520910197_n

آج کل بہت سے لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ شعیہ قتل عا م میں کوئی حقیقت نہیں دہشتگرد بنا کسی تفریق کے قتل عام جاری رکھے ہوئے ہیں ساتھ ساتھ یہ توجہی بھی پیش کرتے ہیں کہ شیعہ قتل عام کہنے سے فرقہ واریت کو ہوا ملتی ہے۔ آج ڈان کے بلاگ میں بھی ایسا کچھ شایع کیا گیا۔

بات درست ہے کہ دہشتگرد کسی انسانی جان کی قیمت نہیں گردانتے مگر مندرجہ ذیل نقات کی روشنی میں یہ ماننے سے انکار کرتا ہوں کہ شیعہ قتل عام فسانہ ہے (یاد رہے یہ نقات شیعہ قتل عام کی تمام وجوہات کہ نشاندہی نہیں کرتے) عرفِ عام میں مقبول فقرہ “کافر کافر شیعہ کافر، جو نہ مانے وہ بھی کافر” کو کبھی بھی “کافر کافر سنی کافر جو نہ مانے وہ بھی کافر “نہیں پکارا گیا۔

شعیہ قتل عام میں ملعوث تنظیم لشکر جھنگوی، تحریک طالبان، لشکر ع طیبہ یا سپاہ صحابہ میں کوئی بھی شیعہ موجود نہیں 2001 سے شیعوں پر 362 حملے کئے گئے ہیں جن میں2190 کے لگ بھگ لوگ شہید جبکہ 4119 زخمی ہوئے ہیں یہ بات درست ہے کہ لشکر جھنگوی شیعہ نسل کشی کے لئے بنی ہے اور یہ ٹارگٹ بھی شیعوں کو کرتی ہےاور طالبان زیادہ طر بنا کسی تفریق کے کاروائی کرتی ہے، لیکن بلاگر یہ بات سامنے لانے میں قاصر رہے کہ تحریک طالبان کے صفحہ اول کے لیڈران کاتعلق لشکر جھنگوی یا سپاہ صحابہ سے رہا ہے جن میں تحریک طالبان کے قاری حسیں (جو خودکش حملہ سکواڈ کے سربراہ رہے) اورتحریک طالبان کے نمائندہ احسان اللہ احسان شامل ہیں جو کسی نہ کسی وقت میں لشکرجھنگوی کے ممبر رہ چکے ہیں۔

نہ ہی یہ بلاگر یہ بات سمجھ سکے کہ لشکر جھنگوی اور انکے ساتھی گروہ انتہائی اہم تکنیکی اور افرادی قوت ان تمام تر دہشت گرد گروۃ کو مہیا کرتی ہے جو ٹرایبل بیلٹ میں دہشتگردی پھیلا رہے ہیں ان گروہ میں حقانی نیٹورک اور دوسرے گروہ شامل ہیں۔ شاید یہ بلاگر نومبر 2013 کی یہ خبر بھی نظر انداز کر گئے جس میں 5 تحریک طالبان کے دہشتگردوں (جمیل ٹاؤن کے عثمان غنی الیاس، غلام محمد آباد، رضا آباد کے غلام علی عاظم الیاس فاروق، چک جھمورہ کے مبشر ندیم ، لاہور کے عثمان اور گرونانک پورہ کے کے شہزاد علی) نے اعتراف کیا کہ انہیں یہ ہدف خاص طور پر دیا گیا تھا کہ شیعہ اور احمدیوں کو تاوان کے لئے اغواء کیا جائے اور انکے گھروں کو لوٹا جائے جس سے طالبانوں کے آپریشن کے لئے فنڈ حاصل کئے جا سکیں۔

چونکہ ہم میں سے کوئی بھی وزارت داخلہ سے بات کرنے کہ زحمت اٹھانا گوارہ نہیں کرتا ورنہ ہمیں پتہ ہوتا کہ کراچی کہ وہ رہائشی علاقے جن میں زیادہ تر شیعہ حضرات رہتے ہیں جیسا کہ ( انچولی، عباس ٹاؤن، جعفر تیار اور گلستان جوہر ) کو وزارت داخلہ حساس ترین علاقے قرار دیتی ہے

دو ہزار تیرا کی سیاہ سرد راتوں کی میں پیپلز پارٹیکی حکومت تھی اور دو ہزار چودہ کی سیاہ سرد راتوں میں نواز لیگ کی حکومت ہے مگر جنازے ابھی بھی سڑکوں پر موجود ہیں قاتل اور مقتول بھی وہی ہیں – ہاں مگر اسے نسل کشی کہنا درست نہیں ہوگا ؟

Source :

https://www.facebook.com/mjnasir/posts/10151880743104599?stream_ref=10

Comments

comments

Latest Comments
  1. farooq Usmani
    -