مسلم لیگ نواز کی حکومت اجارہ داریوں کے رستے پر بگٹٹ بھاگی جارہی ہے

نجکاری بورڑ کے چئیرمین ڈاکٹر زبیر عمر کی صدارت میں ہونے والے اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ پی آئی اے سمیت 31 سرکاری اداروں کی نجکاری کردی جائے گی جس سے حکومت کو 60 ارب روپے حاصل ہوں گے

نجکاری بورڑ کے چئیرمین زبیر عمر جوکہ پاکستان تحریک انصاف کے مرکزی رہنماء اسد عمر کے بھائی ہیں نے صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ مسلم لیگ نواز کی حکومت نے بورڑ کو مکمل بااختیار بنادیا ہے اور نجکاری اسقدر تیزی سے ہوتی دکھائی دے گی جس قدر تیزی سے پہلے کبھی نہیں ہوئی تھی

زبیر عمر کا کہنا تھا کہ بورڑ کے کئے گئے فیصلوں کو سوائے عدالتوں کے کہیں اور چیلنج نہیں کیا جاسکے گا

اس کا مطلب یہ ہوا کہ پارلیمنٹ اور قومی اسمبلی یا سینٹ کی متعلقہ قائمہ کیمٹیوں میں نجکاری کا معاملہ ڈسکس نہیں ہوگا اور نہ ہی پارلیمنٹ کے اندر سے اس عمل کو رکوایا جاسکے گا

قومی اداروں کی نجکاری پاکستان مسلم لیگ نواز کے منشور میں شامل تھی اور پھر مسلم لیگ کے وزیر خزانہ اسحاق ڈار جس ٹیم کے ساتھ آئی ایم ایف سے مذاکرات کرنے گئے تھے اس ٹیم نے آئی ایم ایف سے اپنے معاہدے میں یہ بات تسلیم کی تھی کہ پاکستان کی حکومت نجکاری کا وہ پروسس جو پی پی پی کی حکومت میں رک گیا تھا اس کو دوبارہ شروع کرے گی اور دو سالوں میں اس کو مکمل کرلیا جائے گا

آئی ایم ایف نے پاکستان کے ساتھ معاہدے کو مشترکہ مفادات کونسل سے منظور کرانے کی ہدایات بھی کی تھی اور یہ معاہدہ باقاعدہ مشترکہ مفادات کونسل سے منظور ہوا جس میں صوبہ سندھ،بلوچستان،پنجاب،خیبرپختون خوا کی حکومتوں کے نمائندے بھی موجود تھے-گویا حزب اختلاف نے بھی اس معاہدے کی منظوری دی تھی

پی آئی اے،ہیوی الیکٹریکل کپملیکس اور نیشنل پاور کنسٹرکشن کمپنی کے اداروں کی نجکاری کا عمل شروع ہوچکا ہے اور اس کے لیے مالیاتی مشیروں کے تقرر اور نجکاری کے روڈ میپ کی تشکیل کی منظوری دے دی گئی ہے

نجکاری بورڈ او جی ڈی سی ایل،تھرمل پاور سٹیشن مظفر گڑھ ،بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں اور سرکاری بینکنگ سیکٹر کے حصص کی فروخت کا روڈمیپ بھی تیار کررہا ہ

نجکاری بورڈ کے چئیرمین زبیر عمر کا کہنا ہے کہ نجکاری کرتے ہوئے ملازمین کے تحفظ کا حقوق یقینی بنائیں گے

مجھے چئیرمین نجکاری بورڈ کی بات پر یقین اس لیے نہیں آرہا ہے کہ 1993ء میں جب نجکاری کا باقاعدہ پروگرام شروع ہوا اور گھی کی تمام ملیں فروخت گردی گئیں تو اگلے دن گھی کی قیمتوں میں اضافہ ہونا شروع ہوگیا

1993ء،1997ء اورس بعد میں 1999ء کے تین ادوار میں جتنے بھی ادارے فروخت کئے گئے وہاں سے ملازمین کو ڈاؤن سائزنگ،رائٹ سائزنگ اور گولڈن ہینڈ شیک کے ساتھ ساتھ جبری برطرفیوں کے نام پر نکالا گیا اور ملازمین کی نوکری کے تحفظ کے لیے کوئی موثر قانون سامنے نہ آسکا

پاکستان میں اب تک جتنے بھی ادارے نجکاری کی نذر ہوئے وہاں وہاں کارٹیل،مناپلی اور ناجائز منافع خوری کی بدترین مثالیں دیکھنے کو ملیں-کھاد،سیمنٹ،آئرن،چینی ،آٹے،گھی کے کاروبار اور مینوفیکچرنگ پر نجی کاروباریوں کی اجارہ داری نے مہنگائی میں بے تحاشہ اضافہ کرنے اور محنت کشوں کے حالات کار کو بدتر بنانے میں اہم کردار ادا کیا بلکہ ان کاروباروں سے وابستہ مالکان ایک مافیا کی شکل میں سامنے آئے اور مناپلی کنٹرول اتھارٹی بے اختیار ادارہ ثابت ہوا

مسلم لیگ نواز کی حکومت جب بھی برسراقتدار آئی اس نے پاکستان میں ایسے اقدامات معشیت کے باب میں اٹھائے جس سے پرائیوٹ بزنس کی مناپلی اور کارٹیل کو زبردست فائدے ہوئے اور ریاست کے وسائل زیاہ سے زیادہ چند بزنس مین خاندانوں کے لیے وقف کرنے کی پالیسی اختیار کی گئی

نجکاری کرنے کے لیے جن شخصیات کو زمہ داری سونپی جارہی ہے اور جو لوگ سرکاری کارپوریشنوں کے بورڑ آف ڈائریکٹرز کے لیے چنے جارہے ہیں وہ یا تو کارپوریٹ سیکٹرز کے بڑے کنگز کے سابق ملازم ہیں یا خود کارپوریٹ بزنس کے بڑے ٹائیکون ہیں

ہاشوانی،سہگل،عارف حبیب سمیت بہت سارے ایسے نام ہیں جو مشرف کے ساتھ بھی تھے اور جن کو 97ء میں نواز شریف نے بہت سے بینک اور کارخانے اونے پونے دام بیچ دئے تھے

پاکستان کے 100 کے قریب ایسے کاروباری خاندان ہیں جن کو پاکستان کی عوام کے ٹیکسوں سے اور پاکستان کی عوام کے نام پر لیے گئے قرضوں سے بنائے جانے والے سرکاری اداروں کو اور ان کے کھربوں روپے کے اثاثوں کو اونے پونے دام فروخت کیا گیا اور آج وہ پاکستان کی قسمت کے مالک بنے بیٹھے ہیں

جن کو میاں نواز شریف نے الائیڈ بینک،یو بی ایل اور ایم سی بینک اونے پونے دام بیچا تھا وہ آج پاکستان کے باقی ماندہ سرکاری بینکنگ سیکٹر پر نظر لگائے بیٹھے ہیں اور ان کی ںطریں پاکستان کی واحد قومی ائیر لائن،پاکستان سٹیل مل،پاکستان کی تاور جنریشن کمپنیوں پر لگی ہیں

میاں محمد نواز شریف پاکستان میں سرمایہ داری کی اس شکل کو مزید مستحکم کرنے جارہے ہیں جس کو ہم کرونی کپیٹل ازم کہتے ہیں اور یہ کرونی کیپٹل ازم وہی ہے جس کا پوری طاقت سے نفاذ مصر میں حسنی مبارک نے کیا اور اب ترکی میں طیب اردگان کرنے جارہے ہیں

میاں محمد نواز شریف اور ان کے بھائی شہباز شریف پاکستان میں بالعموم اور پنجاب میں بالخصوص کرونی کیپٹل ازم کی بدترین شکل کا نفاز کرنے جارہے ہیں اور اس مقصد کے لیے پاکستان کی لائیو سٹاک،انرجی سیکٹر،زراعت ،ٹرانس پورٹ کے سیکٹرز کو مڈل ایسٹ،مشرق بعید  اور ترکی کے سرمایہ داروں کے حوالے کیا جارہا ہے اور اس میں میاں محمد نواز شریف اور ان کے قریب سرمایہ داروں اور بزنس ٹائیکون کا درجہ ثانوی حصّہ داروں کا ہوگا

اس ساری ڈیل میں پاکستان کے متوسط اور غریب طبقات کے ہاتھ کیا آئے گا ؟اس کے آثار ابھی سے واضح ہیں کہ بے رزوگاری کا عذاب ڈاؤن سائزنگ کی شکل میں،کچی اور سستی لیبر کا سٹیٹس اور مزید لیبر رائٹس سے محرومی،اور زیادہ مہنگاہی اور اچھی اور بہتر سفری سہولتیں،علاج و معالجے کی سہولت،بجلی کی بہتات کے لیے آپ کا بہت امیر ہونا لازمی ہوجائے گا

مسلم ليگ نواز کی ترجیحات کیا ہیں اس کا اندازا اس خبر سے لگالیجئے کہ پاکستان ریلوے کے لیے صرف 8 ارب روپے کا بیل آؤٹ پیکج سیکرٹری فنانس پاکستان ریلوے کو دینے سے انکار کیا مگر 25 ارب روپے لیپ ٹاپ سکیم کے لیے جاری کردئے گئے

پنجاب میں سرکاری اسکولوں کی بے حد کمی ہے اور ہزاروں سکولوں میں اساتذہ کی کمی اور وہاں کا انفرا سٹرکچر انتہائی خراب ہے اور ہسپتالوں کی حالت پہلے ہی پتلی ہے

تعلیم اور صحت کے سرکاری شعبے کی زبوں حالی نے عوام کو نجی شعبے کے رحم و کرم پر ڈال دیا ہے جبکہ پاکستان بھر میں سرکاری بس سروس کے خاتمے کا سہرا بھی مسلم ليگ نواز کے سر ہی ہے جس سے نجی ٹرانسپورٹ بس سروسز کے ہاتھوں عوام کا بدترین استحصال ہورہا ہے

سرمایہ داروں کی ترجیح ہے کہ ہوائی،زمینی اور ریل کے راستوں پر سفر پر ان کی مناپلی قائم ہو جیسے وہ اشیائے ضرورت،تیل،بجلی،گیس بینکنگ سیکٹرز پر اپنی مناپلی روز بروز بڑھاتے چلے جارہے ہیں

اس مناپلی کے پروسس میں اگر نقصان والی سمت کوئی جارہا ہے تو وہ اس ملک کی ورکنگ کلاس ہے جس کی کسی کو کوئی فکر نہیں ہے

سرمایہ کی حکمرانی اور اجارہ داری قائم کرنے کے خواہاں یہ مناپلی و کارٹیل مافیا مسلم لیگ نواز،پی پی پی،ایم کیو ایم،اے این پی،جماعت اسلامی ،پاکستان تحریک انصاف الغرض کہ ہر پارٹی میں موجود ہے اور صرف موجود ہی نہیں بلکہ ان جماعتوں کی پالیسیوں پر کنٹرول بھی رکھتا ہے

پاکستان کی ورکنگ کلاس اور اس سے تعلق رکھنے والی انٹیلیجنٹیسیا کو پاکستان میں ابھرتے ہوئے کارٹیل مافیا اور کرونی کپیٹل ازم کے خلاف ویسی ہی تحریک شروع کرنے کی ضرورت ہے جیسی عرب سپرنگ انقلاب یا آکوپائے وال سٹریٹ سے شروع ہوئی تھی کیونکہ ایی کسی بھی تحریک کی عدم موجودگی میں موجودہ وفاقی یا صوبائی حکومتوں کو عوام دشمن اور سرمایہ دار دوست پالیسیاں بنانے سے روکا نہیں جاسکتا

Comments

comments

Latest Comments
  1. rabnawaz
    -