لبنان کے اعتدال پسند سنّی سیاست دان محمد بہاء شطح کا قتل کیوں ہوا؟

chatah

لبنان کی سنّی کمیونٹی کی ترجمان سب سے بڑی پارٹی فیوچر پارٹی کے رہنماء اور سابق مرحوم وزیراعظم رفیق حریری کے ساتھی محمد بہا شطح کو بیروت میں اس وقت ہلاک کردیا گیا جب وہ اپنی کار میں سفر کررہے تھے-ان کو کار بم دھماکے میں ہلاک کیا گیا جس میں 7 دوسرے ساتھی بھی ہلاک ہوئے اور 70 سے زائد افراد زخمی ہوگئے

محمد بہاء شطح لبنان کی سنّی برادری کے اہم ترین سیاست دان اور امریکہ کے بہت قریب سمجھے جاتے تھے اور وہ حزب اللہ ،ایران اور شامی کی اسد حکومت کے سخت ترین مخالفوں میں شمار ہوتے تھے

محمد بہاء شطح لـبنانی سنّی کمیونٹی کی اس بالائی مڈل کلاس کے آدمی تھے جو ہمیشہ سے امریکی سرمایہ دارانہ کیمپ میں رہی اور اس نے لبنان میں جہاں بائیں بازو کی سیاست،عرب قوم پرست سیاست اورشیعہ سیاست کی مخالفت کی وہیں اس نے اپنا ہمیشہ وزن امریکی سرمایہ دارانہ کیمپ میں ڈالے رکھا

امریکی سرمایہ داری کیمپ میں ہونے کی وجہ سے محمد بہا شطح نے اپنی سیاست کا آغاز بھی رفیق حریری کی فیوچر پارٹی سے کیا اور اسی وجہ سے سعودی عرب سے بھی ان کے قریبی تعلق رہے

لیکن محمد بہاء شطح کے بارے میں ایک بات بہت وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ وہ حزب اللہ،ایران اور شام کے اسد رجیم کی اپنی تمام تر مخالفت کے باوجود نہ تو نظریات کے اعتبار سے سلفی وہابی تھے اور نہ ہی تکفیری دھشت گرد گروپوں کی لبنان کی سیاست میں مداخلت کے حامی تھے

محمد بہاء شطح اپنے نظریات کے اعتبار سے سیکولر لبرل ڈیموکریسی کے سخت حامی تھے اور ہر قسم کی متشدد اور مسلح سیاست کے مخالف تھے

محمد بہا شطح شام میں ہونے والی سول وار کے لبنان تک آجانے اور لبنان کے سرپر منڈلاتے شیعہ-سنّی سول وار کے سایوں کو تشویش کی نظر سے دیکھ رہے تھے

محمد بہاء شطح بہت سنجیدگی سے لبنان کے متحارب گروپوں میں مفاہمت اور امن کے لیے کوشاں تھے

اس دوران یہ بھی ذھن میں رکھنا چاہئیے کہ شام اور ایران کے حوالے سے امریکہ اور یورپ کے مائینڈ سیٹ میں آنے والی تبدیلیوں نے مڈل ایسٹ کی امریکہ نواز سیکولر لبرل سیاسی جماعتوں اور گروہوں کی پالیسی میں بھی تبدیلی پیدا کی تھی اور ان کی جانب سے سعودی عرب کی شدت پسند پالیسیوں پر تنقید کا سلسلہ بڑھ رہا تھا محمد بہاء شطح بھی اس تبدیلی سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے تھے

لبنان کے اندر بڑھتی ہوئی فرقہ وارانہ کشیدگی اور شیعہ-سنّی ہم آہنگی میں دراڑیں ڈالنے میں سعودی حمائت یافتہ سلفی مولویوں اور دھشت گردوں کا بڑا ہاتھ ہے

سعودیہ عرب نے اس دوران لبنانی فوج کے اندر بھی سلفی دھشت گرد ذھن کا غلبہ کرنے کی کوشش کی اور لبنانی فوج کو ایک بڑی بھاری رقم بھی دی

سعودیہ عرب لبنان میں شام کی طرز پر ایک وسیع پیمانے کی خانہ جنگی ہوتا دیکھنا چاہتا ہے اور اس کی یہ خواہش بھی ہے کہ سنّیوں کے نام پر ایسی قیادت سامنے آئے جو زیادہ سخت گیر اور تشدد پسند ہو اور ایسی قیادت کو لانے کے لیے محمد بہاء شطح جیسے قدرے معتدل لیڈر روکاوٹ ثابت ہوتے ہیں

شام میں سلفی جنگجوؤں نے آزاد شامی فوج کے اندر سیکولر ،لبرل لیڈروں کو مارنا شروع کیا اور سنّی صوفی اعتدال پسند مذھبی رہنماؤں کا قتل بھی کیا گیا

اس سارے عمل کا مقصد سنّی اعتدال پسند قوتوں کا خاتمہ کرکے سنّی کمیونٹی کے نام پر سلفی سعودیہ نواز دھشت گردوں کا قبضہکرانا تھا

سعودیہ عرب اور القائدہ دھشت گردوں کی لبنان کے اندر بڑھتی ہوئی مداخلت اور لبنان کے اندر سلفی نظریات کا سنّی علاقوں میں بندوق کے زور پر پھیلاؤ سنّی کمیونٹی کے اندر زبردست تشویش کا سبب بنا ہوا ہے اور سلفی آئیڈیالوجی کے خلاف سنّی کمیونٹی  کے مذھبی و لبرل حلقوں میں بے چینی بڑھ رہی ہے

حریری کی پارٹی فیوچر پارٹی جوکہ سنّی معتدل،لبرل اور سیکولر حلقوں کی نمائندہ پارٹی ہے کو بھی اپنی سیاسی جگہ سکڑنے اور سلفی گروپوں کے پھیلتے ہوئے اثر پر تشویشلاحق ہے

یہ پارٹی دو ہزار سات میں رفیق حریری کے بیٹے سعد حریری نے بنائی تھی اور اس کا منشور خالص سیکولر اور لبرل ہے جبکہ پارٹی کی بنیاد رکھتے ہوئے سعد حریری نے حزب اللہ پر الزام عائد کیا تھا کہ وہ لبنان کو ایران کی طرح ایک مذھبی بنیاد پرست شیعہ ریاست میں بدلنا چاہتی ہے اور وہاں جو مذھبی ضابطے سرکاری طور پر نافذ ہیں ان کو لبنان میں بھی نافذ کرنے کی خواہش مند ہے -فیوجر پارٹی نے لبنان کو مکمل سیکولر لبرل ڈیموکریٹک ملک بنانے کا منشور پیش کیا تھا -سعودی عرب کے لیے فیوچر پارٹی کا یہ منشور بھی خاصا تشویش کا باعث بنا ہوا ہے

ایسے میں محمد بہاء شطح کا قتل اور اس کا الزام سعودی نواز حلقوں کی جانب سے فوری طور پر حزب اللہ پر لگایا جانا سنّی برادری کے سیکولر،لبرل جمہوری حلقوں کی سیاست کو اور تنگ کرنے کا سبب بن سکتا ہے

محمد بہاء شطح کا قتل کس گروپ نے کیا ہے اس کا تو ابھی پتہ نہیں چلا لیکن سعودی عرب اور سعودی نواز لابی نے ابی سے اس قتل کا الزام حزب اللہ،ایران اور شام میں اسد رجیم کو دینا شروع کردیا ہے

یہ الزام لگانا اس لیے بھی آسان لگ رہا ہے کہ محمد بہا شطح نے اپنے آخری بلاگ اور اپنے آخری ٹیوٹ میں انھی تین پر تنقید کی تھی

محمد بہاء شطح اس سنّی کمیونٹی کے سیاست دانوں کی اس نسل سے تعلق رکھتے تھے جن کی ساری تعلیم امریکی اداروں میں ہوئی اور جن کا زیادہ عرصہ امریکہ میں پڑھاتے یا آئی ایم ایف کی نوکری کرتے گزرا یا پھر ان کے پاس امریکہ کی حمائت یافتہ حریری حکومت کے عہدے رہے

محمد بہاء شطح 1951ء میں پیدا ہوئے اور انہوں نے لبنان میں مخلتف مذھبی کمیونٹی کے اندر سول وار اور شامی افواج کی لبنان میں آمد کے اندر شعور کی منزلیں طے کیں اور انہوں نے اپنی نسل کے اندر بہت زیادہ شیعہ-سنّی سول وار سے پیدا ہونے والی حقیقتوں کا اثر لیا-

اس لیے محمد بہاء شطح کے حزب اللہ،تہران اور دمشق کی حکومتوں بارے خیالات کا شدید ہونا حیران کن امر نہیں ہے مگر یہ بات ذھن میں رہنی چاہئیے کہ ان کی تمام تر سیاسی زندگی میں جب وہ فواد سینورا کے مشیر،سعد حریری کے وزیر خزانہ اور مشیر خارجہ امور بھی رہے تو کبھی کوئی قاتلانہ حملہ نہیں ہوا اور نہ ہی کبھی کسی طرف سے یہ خبر ملی کہ وہ کسی شعیہ عسکری گروپ کی ہٹ لسٹ پر ہیں

بلکہ ان کو فیوچر پارٹی کا ایک مرکزی رہنماء اور حزب اللہ کا سخت ناقد ہونے کے باوجود اعتدال پسند،قومی اور آزاد شخصیت کے طور پر جانا جاتا رہا اور شیعہ کمیونٹی میں بھی وہ اعتماد کی نظر سے دیکھے جاتے رہے

ان کے قتل کا حزب اللہ ،تہران اور شآمی رجیم کو کوئی فائدہ نہیں ہوسکتا اور نہ ہی اس سے حزب اللہ کی پوزیشن مستحکم ہونے میں کوئی مدد مل سکتی تھی

لبنان کی صورت حال بگڑنے اور یہاں پر شیعہ-سنّی تناؤ پیدا ہونے کا فائدہ اگر کسی کو ہوسکتا ہے تو وہ سعودیہ عرب ہی

ہوسکتا ہے

http://en.wikipedia.org/wiki/Mohamad_Chatah

http://mohamadchatah.blogspot.com/

http://www.washingtonpost.com/blogs/worldviews/wp/2013/12/27/the-final-ominous-tweets-of-mohamad-chatah-lebanese-politician-killed-in-car-bomb/

https://lubpak.com/archives/300819

 

 

Comments

comments