دیوبندی تکفیری گروہ سماجی خارجیت کی منظم مہم چلارہا ہے

ball-pen

ایک مقامی ہوٹل میں ایس پی او اور بیٹھک کے اشتراک سے ہمارے سماج میں سب سے زیادہ ہونے والے سماجی اخراج اور سب سے کم زیر بحث آنے والے اہم ترین سماجی،سیاسی،قانونی اور ثقافتی و معاشی مسئلہ پر مذاکرہ ہورہا تھا جب مجھے علامہ ناصر عباس کی شہادت کی خبر موصول ہوئی-ابھی کچھ دن پہلے تو ہمارے دوست مرتضی علی شاہ اور سید فرمان علی نے بتایا تھا کہ علامہ ناصر عباس لندن میں گئے تھے اور ان کو اہل سنت کی لندن میں مرکزی مسجد میں خطاب کرنے کی دعوت ملی تھی اور ان کے خطاب کو لندن میں اہل سنت اور اہل تشیع دونوں نے بہت زیادہ سراہا تھا-ویسے بھی علامہ ناصر عباس ان علماء میں شامل تھے جنہوں نے ہمیشہ لوگوں کو اپنی اپنی شناختوں کے ساتھ مل جل کر رہنے کا درس دیا اور انہوں نے ام المصائب زینب سلام اللہ علیھا کی زات مبارکہ پر اپنے خصوصی دروس میں ان کی زات کے ایسے گوشے اجاگر کئے جس سے درس اتحاد و یک جہتی ملتا تھا-ان کی شہادت کسی بھی طرح سے سنّی-شیعہ تنازعہ کا نتیجہ نہیں ہے

اس سے پہلے کالعدم سپاہ صحابہ پاکستان کے پنجاب کے صدر مولانا شمس معاویہ کو لاہور میں اسی طرح سے مشاق شوٹرز نے جاں بحق کیا-مولانا شمس کے بارے میں بھی کہا جاتا ہے کہ وہ اپنی جماعت کے اندر اور باہر تشدد اور دھشت گردی کے حامیوں کے سخت مخالف تھے-پنجاب میں راولپنڈی کے سانحہ کے بعد یہ تیسرا قتل ہے اور ابھی تک کسی ملزم کی گرفتاری نہیں ہوئی ہے-مقامی ہوٹل میں جس اہم موضوع پر مذاکرہ ہورہا تھا اس کا اس طرح کے واقعات سے بہت گہرا تعلق بنتا ہے-

سماجی طور پر خارج کردئے جانے والے گروہ ہمارے سماج میں ایک ایسی حقیقت بن چکے ہیں کہ ہم چاہیں بھی تو اس کا انکار نہیں کرسکتے-سوشل فلاسفی کی نظر میں سماجی طور پر خارج کردینے کا عمل ایک سوشل پروسس ہے جس میں کسی ایک یا زیادہ سماجی گروہ کے افراد کو ان کے حقوق سے محروم،وسائل تک رسائی کا برابر کا حق سے ان کو خارج اور ثقافتی طور پر ان کی شناخت سے انکار کردیا جاتا ہے

ھیگل جیسے جرمن فلاسفر نے اس عمل کو کسی بھی سماجی گروہ کے وجود اور اس کی پہچان سے انکار سے تعبیر کیا-اس کا کہنا تھا کہ سیاسی طور پر اس کا مطلب یہ ہے کہ خارج کئے گئے سماجی گروہ کو پوری شہریت یا سیٹزن شپ سے محروم کردیا جائے یا اس کے معاشی معانی یہ ہیں کہ خارج کردہ سماج گروہ کو زندگی بنیادی ضرورتوں اور روزگار سے محروم کردیا جائے-اس کے قانونی معنی یہ ہیں کہ ایسے قوانین بنائے جائیں کہ وہ خاص قسم کے معاشی،آئینی حقوق سے محروم ہوجائیں-اس کے ثقافتی معنی یہ ہیں کہ اس سماجی گروہ کی بعض رسوم،رواج اور چلن کو غیر قانونی قرار دے دیا جائے یا ان کی پریکٹس کو محدود کردیا جائے-میرے خیال میں سماجی طور پر کسی مذھبی ،نسلی یا معاشی درجہ بندی میں آنے والے سماجی گروہ کو خارج کرنے کا عمل ایک طرف تو اس گروہ کو محروم کرنے اور اس کی شناخت و پہچان سے انکاری ہونے کا عمل ہوتا ہے تودوسری طرف یہ خارج ہونے والے نسلی یا مذھبی گروہ کو جسمانی طور پر ختم کرنے کا عمل بھی ہوتا ہے-

اسلام کی تاریخ میں ہم نے یہ عمل اس وقت ہوتے دیکھا تھا جب پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اعلان نبوت کیا تو قریش مکّہ کے کفار سرداروں نے ان کو مکّی سماج سے خارج کرنے اور ان کا سماجی مقاطعہ کرنے جیسے اقدامات کئے اور پھر مسلمانوں کو جسمانی طور پر ختم کرنے کا فیصلہ کیا تو ہجرت حبشہ سے ہجرت مدینہ تک کے فیصلے سامنے آئے اور بدر،احد،خندق اور پھر فتح مکّہ جیسے واقعات بھی کفار کی جانب سے سماجی اخراج سے جسمانی خاتمے کی کوششوں کا ایک عمل تھا-اس سے پیچھے اگر جائیں تو حضرت موسی علیہ السلام کی آل فرعون کے خلاف جدوجہد ہے-آل فرعون بھی تو بنی اسرائیل کو سماجی اخراج سے جسمانی خاتمے یا نسل کشی تک آئی تھی-اسی طرح جب مسیح علیہ السلام نے اپنے حواریوں کے ساتھ جدوجہد شروع کی تھی تو ان کو بھی پہلے سماج سے خارج کیا گیا اور پھر نسل کشی شروع کردی گئی-دور جدید میں ہٹلر کے نازی ازم اور فاشسٹ فکر نے یہودیوں کو سماج سے خارج کرنے اور پھر ان کی نسل کشی کرنے کا آغاز کیا-اسی طرح سے فلسطینی عوام کو صہیونیت کی جانب سے سماجی اخراج اور نسل کشی کا سامنا کرنا پڑا

ہم کشمیریوں کو بھی سماجی طور پر خارج کئے جانے والے گروہ میں شمار کرسکتے ہیں-آج کے دور میں اگر ہم پاکستانی سماج کا جائزہ لیں تو ہمیں بہت واضح نظر آئے گا کہ مذھبی طور پر ایک ایسا فاشسٹ گروہ پیدا ہوچکا ہے جو تکفیر کے کند بھالے سے ہمارے سماج کے مذھبی گروہوں کے افراد کو سماج سے باہر کردینے کی کوششوں میں مصروف ہے-یہ گروہ نہ صرف کئی ایک مذھبی اقلیتی گروہوں کو سماج سے خارج کرنے کی کوششو میں لگا ہوا ہے بلکہ یہ ان کی نسل کشی کا مرتکب بھی ہورہا ہے-دوسری طرف اس مذھبی فاشسٹ گروہ نے ہمارے سماج کے اکثریتی مذھبی گروپوں کی نسل کشی اور ان کے کلچر کو ریاستی اور سماجی طور پر کالعدم قرار دلوانے کی مہم بھی شروع کررکھی ہے-اور اس مذھبی فسطائی گروہ کے اس مذھبی فاشزم کو جو علماء،دانشور،شاعر،ادیب ،سیاسی ورکر،سماجی کارکن بے نقاب کرنے اور اس گروہ کے اصل عزائم کو عریاں کرنے کی کوشش کرتے ہیں یا ان کی مذھبی فسطائت پر مبنی دھشت گردی کو جواز فراہم کرنے سے انکار کرتے ہیں یہ گروہ ان کی آواز کو بارود سے خاموش کرنے کی ہم ممکن کوشش کرتا ہے

آج کل یہ مذھبی فسطائی لوگ پوری کوشش کررہے ہیں کہ کسی طرح سے شیعہ اور سنّی مکاتب فکر کے ماننے والوں کے درمیان خانہ جنگی شروع ہوجائے اور اس مقصد کے لیے دونوں مکاتب فکر کے نزدیک انتہائی قابل احترام ہستیوں کے بارے میں گستاخانہ جملوں اور واقعات کے ڈرامے رچائے جاتے ہیں-پھر اس گروہ کا مقصد دیوبندی اور شیعہ عوام کے درمیان جنگ کرانا مقصد اولین ہے-اس کے لیے مشاجرات صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کو تاریخ کی کتابوں سے ڈھونڈ ڈھونڈ کر زندہ کیا جارہا ہے-ہمیں ایسے مذھبی فسطائی ٹولے کے خلاف مل جل کر جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے-پنجاب میں ڈاکٹر سرفراز نعیمی،ڈاکٹر علی حیدر،ڈاکٹر شبیر نقوی،ڈاکٹر شبیہ الحسن،شاکر رضوی ایڈوکیٹ،شمس معاویہ اور اب علامہ ناصر عباس کا قتل اسی فسطائی مذھبی ٹولے نے کیا ہے جو پنجاب میں بھی وہی کھیل کھیلنے کی کوشش کررہا ہے جو اس نے پہلے گلگت بلتستان،پھر پارا چنار کرم ایجنسی ،اس کے بعد کراچی اور پھر کوئٹہ کے اندر کھیلا اور شیعہ و دیوبندی کو ایک دوسرے کے مدمقابل کھڑا کرنے اور سنّی بریلویوں کو بھی بھڑکانے کی کوشش کی

میں کہتا ہوں کہ یہ مذھبی فسطائی تکفیری خارجی ٹولہ اس لیے بھی اپنی سازشوں میں کامیاب ہورہا ہے کہ پنجاب حکومت نے اس ٹولے کی جانب سے نفرت انگیز مہم کا کوئی نوٹس نہیں لیا ہے

یہ ٹولہ شیعہ،بریلوی،اعتدال پسند دیوبندی اور اہل حديث کے خلاف اسی طرح سے سرگرم ہے جس طرح سے یہ غیر مسلم مذھبی اقلیتوں کے خلاف سرگرم عمل ہے-افسوس ناک بات یہ ہے کہ پنجاب میں برسراقتدار مسلم ليگ نواز اس فسطائی ٹولے کے خلاف کاروائی تو کیا کرتی الٹا اس ٹولے کے حامیوں کے ساتھ پہلے قومی اور صوبائی انتخابات میں سیٹ ایڈجسمنٹ کی گئی اور پھر اب بلدیاتی انتخابات میں اس کو اکاموڈیٹ کرنے کی پالیسی بنا لی گئی ہے-گویا پنجاب کے حاکم خود سماجی طور پر خارج کئے جانے کی پالیسی کی بالواسطہ حمائت کررہے ہیں-چند نشستوں کے لیے کی جانے والی یہ ڈرٹی پاور گیم پورے پنجاب میں مذھبی ہم آہنگی اور اتحاد بین المسلین و بین المذاہب کے سخت خطرہ بن چکی ہےجس سے فوری طور پر واپس پلٹنے کی ضرورت ہے

احمدی،عیسائی ،ہندؤ ہمارے سماج میں عرصہ ہوا خارج اور الگ کردی جانے والی مذھبی برادریاں ہیں-جبکہ شیعہ سماج سے خارج کی جارہی کمیونٹی کی صف شامل ہوچکی ہیں اور بریلوی ویٹنگ لسٹ میں شامل ہیں-مگر اس خارج کرنے کے عمل کے خلاف سول سوسائٹی کا ردعمل بہت ہی کمزور ہے اور بلکہ فیک اور جعلی ہے

Comments

comments

Latest Comments
  1. Irfan Afridi
    -
  2. imran
    -