میں نے ڈھاکه ڈوبتے محسوس کیا – جنید رضا زیدی
کهنے والے کهتے هیں که جس دن قاعد اعظم نے اردو کو قومی زبان قرار دیا،درحقیقت یه احساس محرومی کابیج تھا جو بنگال کیلیے بویا گیا.لیکن دوسری طرف یه بھی حقیقت هے که تحریک آزادی صرف اردو زبان میں چلی
بیورو کریسی کا رویه
بنگال میں 1906میںمسلم لیگ کی بنیاد پڑی.تحریک آزادی کے لیے بنگال کے مسلمانوں کی بڑی قربانیاں هیں.جب پاکستان بن گیا تو امور مملکت چلانے میں بھی بنگال نے اپنا بھرپور کردار ادا کیا.لیکن قاعد اعظم اور پهر لیاقت علی خان کے بعد تو ھمارا برسر اقتدار حوس کامارا طبقه تو یه تک بھول گیا که قرارداد پاکستان پیش کرنے والے مولوی فضل حق بھی بنگالی تھے.قاعد اعظم کے بعد خواجه نظام الدین کو گورنر جنرل بنایا گیا.خواجه صاحب ایک بنگالی تھے. شھید ملت کی شھادت کے بعد خواجه نظام الدین کو بیوروکریسی نے گورنر جنرل سے تبدیل کرکے وزیر اعظم بنوایا اور جب امور مملکت سنبھل گیے تو دودھ میں سے مکهی کی طرح نکال دیا گیا.اور بیوروکریسی ICSآفیسر غلام محمد کو گورنر جنرل بنایا جس نے پاکستان په مختصر سے عرصے میں سب سے بڑا کھرپا چلایا. اسی طرح حسین شھید سھروردی 50کی دهایی میں ایک اور بنگالی وزیر اعظم بنے اور ان کو بھی رسواء کرکے اقتدار سے الگ کیا گیا
عمومی رویه
مغربی پاکستان نے ھمیشه بنگال کے باشندگان کو نچلے درجے کا شھری تصور کیا.بحیثیت پاکستانی قوم همارایه رویه صرف بنگال کے ساتھ نھیں بلکه اردو بولنے والے مھاجرین کے ساتھ بھی رها جو سندھ میں آباد هویے.اھل بنگال کو هم نے مغربی پاکستان میں جب پکارا “سالابنگالی”که کر مخاطب کیا گیا.بنگال کی غربت کا مذاق اڑایا گیا.یهاں تک که بنگالی عورت بوجه بھوک بکتی رهی اور هم اس کے خریدار بنے بجایے اس کے که مسیحا بنتے
سیاسی رویه
سیاسی رویه مشرقی پاکستان کے ساتھ همیشے سے منافقانه رکھا گیا.اور اس کی بنیادی وجه مغربی پاکستان میں جماعت اسلامی اسلامی ذهن رکھنے والوں کی صورت میں ملک کے بیشتر شھروں میں کام شروع کرچکے تھے.اور بنگال کے من گھڑک قصے سناکر اھل پنجاب کو مشرقی پاکستان سے خار دلاتے تھے.60کی دهایی کے آخری سالوں میں تو جماعت اسلامی اسٹیبلنٹ کی مخصوص آله کار تھی
مشرقی پاکستان کا رویه
جب سیاسی و سماجی رویوں کی بات هوگی تو مشرقی پاکستان کا رویه بھی ذهن نشین هوناچاهیے.که مشرقی پاکستان کے سیاست دانوں نے مغربی پاکستان سے زخم کھانے کے بعد اسے اپنوں کاگھاؤ نه سمجھا بلکه هر فورم په نه صرف اظھار نفرت کیا بلکه نفرت کو باقاعده پروان چڑھایا.ڈھاکه و چٹاگانگ کے اساتذه بچوں کو سکهاتے پایے گیے که هم سے پاکستان بھت دوری په هے اور همارے ساتھ ظلم هوتا هے جبکه ھندوستان پڑوس میں هے.نفرت اس حد تک پروان چڑھ چکی تھی که ایسے جملے بھی سننے کو ملے که جب مشرقی پاکستان ترقی کرجایے گا تو تمھارے یهاں کی عورتیں همارے یهاں کام کیا کریں گی.جب افرادی سوچ کا عالم یه هو تو قومی سوچ کا پروان چڑھنا ناممکن هی تھا.مشرقی پاکستان کا اجتماعی رویه 68/69تک بھت عجیب هوچلاتھا
جماعت اسلامی کا کردار
مولایے کاینات جناب علی المرتضی سے کسی نے پوچھا که ابوبکر ، عمر و عثمان کے زمانے میں تو اتنا فساد نه تھا اتنی جنگ نه تھی جتنی آپ کے دور میں هے؟ آپ کا جواب قابل غور تھا که ان کا مشیر میں تھا میرے تم. تو جماعت اسلامی کی جو یاری اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ 60 میں شروع هویی تھی اب دس سال میں عشق میں تبدیل هوچکی تھی.پاکستان کے برسر اقتدار فوجی و سول حکمرانوں کی بلیو آیی blue eye جماعت اسلامی نے مشرقی پاکستان میں لڑنے کیلیے البدر و الشمس بنایی جب کسی نے ٹکا خان سے پوچھا که آپ کیا پروموٹ کررهے هیں تو ٹکا خان کے الفاظ تھے مجھے افراد نھیں زمین چاهیے. سوال یه پیدا هوتا هے که آج تحریک طالبان سے تو جماعت اسلامی مذاکرات کیلیے بے چین هے اور موقف یه هے که اپنے هیں غلطی هوگیی معاف کیا جانا چاهیے.لیکن مشرقی پاکستان میں یه اصول نه رکھا گیا بلکه البدر و الشمس بنایی جس نے پاکستان آرمی کو نه صرف بدنام کیا بلکه وه قتل و خون کا بازار گرم کیا که ان کی وجه سے انسانی حقوق کی عالمی تنظیمیں پاکستان مخالف هوگییں. دونوں سپر پاورز پاکستان کے خلاف هوگیں اور پاکستان دنیا میں تنھا هوگیا.اور بالآخر آزاد بنگله دیش کا نعره لگا
ذوالفقار علی بھٹو کا کردار
فوجی حکمرانوں کے تسلط کے بعد بالآخر 70کے انتخابات کا انعقاد هوا 313 عام نشستیں په انتخابات هویے169 نشستیں مشرقی پاکستان میں اور 144 نشستیں مغربی پاکستان کیلیے مختص کی گییں.مشرقی پاکستان میں 167 نشستیں صرف عوامی لیگ نے حاصل کیں یعنی ساده اکثریت 313 کے ایوان میں باآسانی حاصل هوگیی تھی.مغربی پاکستان میں ساده اکثریت ذوالفقار علی بھٹو کو ملی.اصولی طور په عوامی لیگ کو حکومت بنانے کا موقع دیا جانا تھا لیکن ناعاقبت اندیش مشیروں و اسٹیبلشمنٹ کا آله کار بن کر بھٹو نے وفاقی حکومت کا اقتدار دینے سے کھلم کھلا منع کیا اور مشھور نعره لگایا جو وجه علیحدی بھی بنا که “نھیں ادھر هم ادھر تم
گرفتاریاں و ھنگامے
چونکه الیکشن کے نتایج پاکستان پیپلز پارٹی ماننے په تیار نھیں تھی مشرقی پاکستان میں فسادات پوٹھ پڑے البدر و الشمس کو قتال کالایسنس دے دیا گیا اور آرمی کو مخصوص ھدایات دے کر گرفتاریاں کرنے کا حکم دیا گیا
پچیس مارچ 1971
عوامی لیگ کی قیادت آرمی کی تعیناتی کے بعد روپوشی اختیار کرتی جارهی تھی که 25-26 تاریخ کی درمیانی رات ڈیڑھ بجے مجیب کو گرفتار کرلیا گیا. اس کی گرفتاری تین دن کے بعد ظاھر کی گیی اور 29مارچ 1971 کو ریڈیو پاکستان سے گرفتاری کا اعلان نشر کیا گیا
ستائیس مارچ 1971
ضیا الرحمن نامی پاکستان آرمی کا باغی بنگالی میجر جس نے 27مارچ کو آزاد بنگله دیش کا نعره لگادیا. عوامی لیگ کی قیادت یا تو اسیر تھی یا روپوش.لیکن ضیا الرحمن سے بات کرنا بھی گواره نه کیا گیا بلکه بنگال لبریشن فورس سے لڑنے کی تیاریاں شروع هوگییں اور اس خانه جنگی کو جماعت اسلامی نے جھاد قرار دیا
بنگله لبریشن آرمی
ان گرفتاریوں اور ظلم کی رات سے نجات پانے کیلیے بنگله لبریشن آرمی کا قیام عمل میں آیا. ضیاء کو صوبایی کمانڈر ان چیف تصور کیا گیا اور ان لوگوں نے باقاعده آرمی کو ٹف ٹایم دینا شروع کیا.خواتین اور بچوں کو سڑکوں په لایا گیا اور ھندوستانی ایجنٹ کے طور په مغربی پاکستان میں یه لوگ جانے پھچانے لگے.ڈھاکه یونیورسٹی اور راجڑ باغ پولیس هیڈ کواٹر والے دنگوں میں مکتی باھنی کا نام سامنے آیا
ھندوستان کا کردار
ھندو همیشه سے کینه پرور رها هے پاکستان دشمنی میں وه هر حد پار کرسکتا هے جو که اس نے کی . انڈین ایجنسی را کی انوالمنٹ بھت بڑھ چکی تھی.مکتی باھنی کو باقاعده لڑوایا جارها تھا. اور دسمبر کی 3 تاریخ کو پاکستان ایر فورس کی کسی اسٹرایک کو وجه بناکر مکتی باھنی کی ھمدردی میں مشرقی پاکستان په حمله کردیا گیا اور اندراگاندھی نے آل انڈیا ریڈیو سے اعلان جنگ کیا.پاکستان کے نوے هزار فوجیوں نے هتھیار ڈالے.هم دنیا جهان میں رسواء هویے.لیکن رات گیی بات گیی والی سوچ لے کر هم کبھی بھی اصلاح کےپهلو کی طرف نھیں جاسکتے.هم آج سوچیں که کیا آدھا پاکستان گنوا دینے کے بعد همارے رویوں میں کویی تبدیلی آیی یا نھیں.هم اپنی بنیادی سوچ تبدیل کرپایے یا نھیں؟ جو اقوام ھار کو قبول کرکے ان کی وجوھات په قابو نھیں پاتیں،جیت ان کا مقدر بھی نھیں بنا کرتی.میں نے ڈھاکه ڈوبتے تو نھیں دیکها لیکن محسوس کیا هے اور جو محسوس کیا وه لکه دیا
Comments
Tags: Bangladesh, East Pakistan
Latest Comments
عبدالقادر ملا کی پھانسی پر پاکستان میں آسمان سر پر اٹھا لینے والے آخر محمد پور اور میر پور کے اقوام متحدہ کیمپوں میں گذشتہ چالیس سالوں سے کسمپرسی زندگی گذارنے والے پاکستانیوں کی وطن واپسی کا مطالبہ کیوں نہیں کرتے ؟؟ آخر کب تک ہم ان مظلوم پاکستانیوں کو نظر انداز کرتے رہینگے، جو آج بھی اپنے کیمپوں اور چھپر کھٹوں پر پاکستان کا جھنڈا لہراتے ہیں۔
Mohajirs are being treated as same as Bengalis were treated in East-Pakistan.
16دسمبر مشرقی پاکستان 1971 پاکستان اور انسانیت کی تاریخ کا سیاہ ترین دن تصور کیا جاتا ہے۔یہ وہ وقت تھا جب کہ ہم اپنےنشیمن پر بجلیوں کے تابڑ تو ڑ حملے کر رہے تھے۔ دھان پان سے پانچ فٹ کے پاکستانیوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ دئیے گئے۔ آخر قوم نے مسلسل ظلم و ستم او ر اپنے مینڈیٹ کی حق تلفی کے بعد \\\”شونار بنگلہ \\\”کا نعرہ لگایا۔مولانا عبد الحمید بھاشانی ، شیخ مجیب الرحمن اور بنگلیوں کی دیگر جماعتوں کے قائدین کی پاکستان میں اس وقت صرف سرسری عزتیں تھیں۔ پاکستان کی تاریخ کے دوسرے عام انتخابات میں عوامی مسلم لیگ (متوسط طبقے ) کی پڑھی لکھی جماعت نے واضح برتری حاصل کی۔ انتخابات کے تنائج آنے پر پتا چلا کہ عوامی لیگ 188 نشستوں کے ساتھ واضح اکثریت سے پاکستان میں حکومت بنانے والی واحد جماعت بن گئی۔ اس وقت پاکستان کے فیلڈ مارشل جرنل یحی خان تھے۔ اس وقت اسٹیبلشمنٹ کی شدید ترین خواہش تھی کہ اس کی پیدا کردہ سیاسی جماعت پیپلز پارٹی کو بر سر اقتدار لایا جائے اور بنگالیوں کو اقتدار نہ دیا جائے۔ اُس وقت کی پاکستانی گورنمنٹ پہلے ہی بنگالیوں سے تنگ تھی اور انکے بارے میں عام طور پر اسطرح کی باتیں کی جاتی تھیں کہ بنگلہ دیش میں ہر سال سیلاب آتا ہے ۔ ہم سیلاب زدگان کے اخراجات برداشت نہیں کر سکتے۔ شاید یہی وجہ ہےکہ سقوط ڈھاکہ کے بعد ہی آئین پاکستان تشکیل دیا گیا۔
ایک بنگالی غدارِ وطن کے لئے ایک پاکستانی غدارِ وطن جماعت کا رنڈی رونا سمجھ سے باہر ہے!ان بے غیرت منافقین کو محصورینِ بنگلہ دیش نظر نہیں آتے جن کو محض پاکستانی پرچم لہرانے کی سزا دی جارہی ہے اور وہ بھی اب تک اپنے آپ کو پاکستانی کہتے ہیں اور پاکستان سے وفادار ہیں لیکن نہ تو آج تک پاکستانی حکومت نہ ہی ان سیاسی جماعتوں کو توفیق ہوئ ان کے باعزت وطن واپسی کے متعلق اقدامات کرنے کی جب کہ ایک قاتل کے لئے سوگ منایا جا رہا ہے!
ایسا ہی کچھ 986ا میں قصبہ علیگڑھ کالونی کے قتلِ عام کے وقت ہوا تھا کہ جب افغانی و پشتونی لینڈ مافیا اور ڈرگ مافیا نے مہاجروں کی بستی پر لشکر کشی کی اور 300سے زائد اردو بولنے والے مہاجرین کا قتلِ عام کیا لیکن اس پر قومی ٹی وی کے خبرنامے میں کوئ ڈیڑھ منٹ کی خبر دی گئی کہ کراچی میں حالات کشیدہ اور کرفیو کا نفاز جبکہ اسی روز لاہور کے چڑیا گھر میں ایک ہتھنی کے مرنے پر نہ صرف پانچ منٹ تک کی خبر نشر کی گئی بلکہ باقاعدہ سوگ بھی منایا گیا !اور وہ دور بھی امیرالنافقین نواز شریف کا تھا!
کراچی سے بلاوجہ دارلخلافہ اسلام آباد منتقل کرنا ہی بنگلہ دیش کے قیام کی پہلی اینٹ تھا۔ قائداعظم کے فیصلوں سے انحراف کا نتیجہ سب نے بھگتا ہے۔
کراچی سے بلاوجہ دارلخلافہ اسلام آباد منتقل کرنا ہی بنگلہ دیش کے قیام کی پہلی اینٹ تھا۔ قائداعظم کے فیصلوں سے انحراف کا نتیجہ سب نے بھگتا ہے۔
چودھری نثار کو جتنا غصہ عبدلقادر ملا کی پھانسی پہ آرہا تھا اتنا تو پچاس ہزار پاکستانیوں کے مرنے پہ بھی نہیں آیا – پھر کہتے ہیں دنیا میں ہماری عزت نہیں ہے
1971 میں بنگال کے متشدد اور خون آشام واقعات میں اکثر پاک فوج کا نام ہی سامنے آتا ہے اور سچ بھی یہی ہے کہ پاک فوج نے یقینا” مظالم کی کئی داستانیں رقم کیں مگر ان واقعات کو ان حالات کے تناظر میں دیکھنا لازمی ہے جو اس وقت بنگال میں رونما کر دئے گئے تھے۔ عوامی لیگ کے متشدد مظاہروں اور مکتی باہنی کے کارکنان نے بہاریوں، مغربی پاکستانیوں، پاکستان کے حامی بنگالیوں اور غیر بنگالیوں کے ساتھ جو مظالم روا رکھے انکی چشم دید تفاصیل قطب الدین عزیز صاحب نے اپنی انگلش کتاب خون اور آنسو میں دی ہیں۔
میرا ہر گز یہ مطلب نہیں ہے کہ ان مظالم سے پاک فوج کسی طرح بری الذمہ ہے جو انہوں نے کئے، مگر میرا مطلب اتنا ضرور ہے کہ ہمیں تصویر کا صرف ایک رخ نہیں دیکھنا چاہیئے بلکہ مکتی باہنی اور عوامی لیگ کی غنڈہ گردی کی بھی مذمت کرنی چاہیئے۔
https://archive.org/stream/BloodAndTears/BloodAndTears-QutubuddinAziz#page/n0/mode/2up