وہابیت نے ملائشیا میں شیعہ سنّی مکالمے میں رکاوٹ پیدا کررکھی ہے- ڈاکٹر موحد فاضل
ڈاکٹر موحد فاضل موسی ملائی ماہر عمرانیات
جنہوں نے ملیشیا میں شیعہ کی تاریخی جڑوں
پر ایک مبسوط مقالہ لکھا ہے
شیعہ مسلمانوں کی جنوب مشرقی ایشیا میں جڑیں 14 ویں صدی تک جاتی ہیں-ڈاکٹر موحد فاضل موسی
ملائشیا جنوب مشرقی ایشیا کا وہ اسلامی ملک ہے جہاں 1996ء میں قومی فتوی کونسل نے وہابیت کے دباؤ میں آکر شیعہ مذھب پر عمل کرنے کو غیر اسلامی قرار دے ڈالا اور اس پر عمل کرنے کو فوجداری جرم قرار دے ڈالا-ملائشیا میں اس وقت شیعہ برادری کی تعداد 2لاکھ ہے اور یہ سنّی برادری کے بعد دوسری بڑی برادری ہے-
ملائشیا کے شیعہ مسلمانوں کو ملائشیا کے اندر وہابیت اور کٹرپنتھی نام نہاد سنّی گروپوں کی جانب سے بالکل اسی چیلنج کا سامنا ہے جس چیلنج سے آج برما کے روہینگا مسلمان نبرد آزماء ہیں اور ملیشیا میں وہابی لوگ ایک طرف تو شیعہ مسلمانوں کو کافر اور بے دین قرار دے رہے ہیں تو دوسی طرف یہ شیعہ مسلمانوں کو ملائشیا کے اصل باسی ماننے سے انکاری ہیں-
وہابیت کے ماننے والوں کا اثر ملآئشیا کی دائیں بازو کی لارجسٹ پارٹی امونو پر بہت اثر ہے-اس پارٹی نے اپنی سالانہ جنرل اسمبلی میں ملیشیا کی سرکاری مذھبی اتھارٹی سے مطالبہ کیا کہ وہ شیعہ کو ہم جنس پرستی ،کافرانہ اور توھین آمیز غیر اسلامی مذھبی شعائر ادا کرنے پر احتساب کے دائرے میں لیکر آئے-ان کا کہنا ہے کہ شیعہ مذھب 1979ء سے ایران میں شیعہ انقلاب کے بعد درآمد ہونا شروع ہوا-اور وہ شیعہ مذھب کی جڑیں میلیشیا کے باشندوں میں نہیں تسلیم کرتے-
لیکن ملائشیا میں اسلام کی آمد اور اس کی بشریاتی تاریخ سے واقف علماء اور ماہرین امونو پارٹی اور دیگر وہابی گروپوں کے دعوے کو نہیں مانتے-کوالالمپور کی ایک یونیورسٹی کے استاد کا کہنا ہے کہ
“وہابیت جوکہ اسلام کی مسخ شکل ہے جہالت پھیلارہی ہے-اور یہ ملائشیا میں حالیہ شیعہ مخالف تحریک کو تیز کرنے کا سبب بن رہی ہے-شیعہ اسلام کی جڑیں ملیشیا کی تاریخ میں صدیوں پر محیط ہیں-
ماہر بشریات اور یو کے ایم کے ادارے برائے ملائی دنیا و تہذیب سے منسلک ماہر عمرانیات ڈاکٹر موحد فاضل موسی کہتے ہیں کہ سرکاری مذھبی حکام کی انتہا پسندی اور وہابیت کے زییر اثر گروپوں نے یہ جھوٹ پھیلایا ہے کہ ملیشیا میں اسلام 1979ء میں امپورٹ ہوا-اور یہ کہ شیعہ ایک غیر ملکی خطرہ ہے ملیشیا کے لیے-جبکہ سنّی مسلک کے بعد شیعہ ملیشیا کا دوسرا بڑا اسلامی مسلک ہے-
ڈاکٹر موحد فاضل موسی کا کہنا تھا کہ وہابیت نے شیعہ مذھب کو غیر ملکی مذھب مشہور کرنا شروع کیا ہوا ہے-اور شیعہ کو کافر،منحرف اور باغی قرار دلانے کی کوشش بھی وہابیت کی ہے-انہوں نے وہابیت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ملائشیا میں وہابیت نے سنّی اور شیعہ میں بات چیت کو مشکل بنایا ہے-اور سنّی برادری میں غلط فہمیاں پیدا کرکے ان میں شیعہ برادری کا خوف پیدا کررہی ہے-
ڈاکٹر موحد فاضل موسی شیعہ برادری کے ملیشیا کے اندر موجودگی کا سراغ لگاتے ہوئے کہتے ہیں کہ جنوب مشرقی ایشیا میں اسلام عرب تاجروں کے زریعے سے 14 ویں صدی عیسوی میں آیا تو یہ جہاں سنّی تاجروں کے زریعے پھیلا وہیں اس میں شیعہ تاجروں کا بھی کردار تھا-تو ملیشیا میں شیعہ مسلمانوں کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنی سنّی مسلمانوں کی تاریخ پرانی ہے-
ڈاکٹر موحد کا کہنا تھا کہ جنوب مشرقی ایشیا میں شیعہ آبادی میں اضافہ پاکستان،افغانستان اور ہندوستان وغیرہ سے شیعہ مسلمان تارکین وطن کی آمد سے ہوا-ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ شیعہ اور سنّی مسلمان کئی صدیوں سے ملائشیا میں اکٹھے رہ رہے ہیں اور ان کے درمیان شادیاں بھی کئی صدیوں سے ہورہی ہیں-جبکہ ان کے درمیان تصادم اور لڑائی کے بھی کوئی شواہد نہیں ہیں-
ڈاکٹر موحد کہتے ہیں کہ ماہرین بشریات نے جب ملائشیا میں شیعہ مسلمان گھرانوں کی تاریخی جڑوں بارے تحقیقات شروع کیں تو انھیں 18 ویں صدی عیسوی میں بھی شیعہ گھرانوں کا سراغ ملنا شروع ہوگیا اور ڈاکٹر موحد کا کہنا ہے کہ جب میں نے شیعہ مسلمانوں کی ملائشیا میں تاریخ کی جڑوں کی تلاش کرنا شروع کی تو مجھے ایک خاندان کیتلان شہر میں ملا جن کے بڑے ترکی سے اس وقت نقل مکانی کرکے آئے تھے جب عثمانی سلطنت کے سلطان عبدالحمید کے دور میں جابرانہ محصولات کی پالیسی آئی تھی-ڈاکٹر موحد نے جب عثمانی سلطنت کا ریکارڑ کھنگالا تو انھیں پتہ چلا کہ 1890ء میں عثمانی سلطنت نے سلطان عبدالحمید دوم کے دور میں شیعت کو ختم کرنے اور شیعہ کو سنّی بنانے کی ایک مہم چلائی تھی-
ڈاکٹر موحد فاضل سمیت ملائشیا اور جنوب مشرقی ایشیا کے بہت سے ماہرین بشریات اور عمرانیات کے ساتھ ساتھ بہت سے تاریخ کے ماہر امونو پارٹی سمیت دیگر وہابی نیشنلسٹ کے شیعہ مذھب کو ملیشیا کی تاریخ میں نیا درآمد کردہ مذھب قرار دینے اور شیعہ برادری کو غیرملکی قرار دینے کے دعوے کو غلط،گمراہ کن اور جاہلانہ دعوی قرار دیتی ہے-
ڈاکٹر موحد فاضل سمیت بہت سارے لوگ ملآئشیا کی سرکاری مذھبی اتھارٹی کی جانب سے شیعہ مذھب پر پابندی اور اس مذھب پر عمل کو ممنوع قرار دینے کو غلط قرار دے رہی ہے-
ڈاکٹر موحد فاضل نے ملائشیائی شیعہ کی تاریخ اور وہابیت کی جانب سے کئے جانے والے گمراہ کن پروپیگنڈے کے رد میں ایک مبسوط مقالہ تحریر کیا ہے-اور اس میں انہوں نے مصر کی سب سے قدیم جامعہ ازھر کے علماء کی جانب سے مذھب امامیہ کو اسلامی مسلک اور اس کے فقہ جعفریہ ویسے ہی فقہ کا ایک مکتب مانا ہے جیسے مذاہب اربعہ ہیں-
http://www.themalaysianinsider.com/malaysia/article/ignorance-extremist-sunnis-fuelling-anti-shia-sentiments-in-malaysia-says-a
Comments
Latest Comments
Shiism is nothing short of kufar and it’s the biggest threat faced by Islam . Ahmdiyas are less dangerous than Shia kafirs . They should be brought into fold of Islam and Shias should be ex communicated . No business of relations with the Shia kafirs .
it is fiqh jafri hmm….do you know….who was imam jaffar-al-sadiq(as).for your information.he was the teacher of imam abu hanifa(rz)(hanfi are from him),imam malik(rz)(malikises),imam hanbal(rz)(hanbali). now Q for you? are you sunni.if sunni then your fiqhs imams were the students of imam jafar(as) whom shias call 6th imam. now if you r not sunni and muslim . then its your right to do that type of comments. and only for you that in Quran-e-pak in many places there is written. shias of musa(as) , shias of ibraheem(as). now study islam and my fellow human(not muslim) then do any comments any where about shias.
How can a people who believe in Tauheed Khatam e Nabuwaat and follow all Islamic obligations be Kaafir mind you; Majority of Shias are Saadaat and direct descendents of the Holy Prophet Peace be Upon him, his family and his companions; the allegation of
Kufr of shiaism is a fitna