دیوبندی اہل سنت والجماعت پاکستان دھشت گرد تکفیری جماعت ہے اس کا اہل سنت سے کوئی تعلق نہیں-مولانا داؤد رضوی مرکزی رہنما سنّی اتحاد کونسل
انٹرویو :سٹاف رپورٹر تعمیر پاکستان
مولانا صادق رضوی اہل سنت بریلوی کے محدث اعظم پاکستان مولانا محمد سردار احمد محدث پاکستان رحمۃ اللہ علیہ کے خلیفہ مجاز اور رضائے مصطفے پاکستان کے صدر ہیں-ان کے بیٹے مولانا داؤد رضوی سنّی اتحاد کونسل کے مرکزی رہنماء ہیں-ان سے تعمیر پاکستان نے ایک خصوصی انٹرویو کا اہتمام کیا جس میں انہوں نے دیوبندیت کے تکفیری،خارجی آئیڈیالوجی سے تاریخی رشتوں پر روشنی ڈالی-جبکہ انہوں نے اہل سنت بریلوی کے موقف پر بھی خاصی روشنی ڈالی-
انہوں نے اپنی تصویر بنانے یا ویڈیو بنانے سے منع کیا کہ وہ اسے غیر شرعی فعل خیال کرتے ہیں-
تعمیر پاکستان:دیوبندی فرقہ سے تعلق رکھنے والی ایک جماعت نے اپنا نام اہل سنت والجماعت رکھا ہے-یہ جماعت خود کو اہل سنت کا نمائندہ کہتی ہے-آپ کا اس بارے میں خیال کیا ہے؟
داؤد رضوی:اہل سنت والجماعت کے نام سے کام کرنے والی جماعت کا اہل سنت سے کوئی تعلق نہیں ہے-یہ سپاہ صحابہ پاکستان کاتیسرا نام ہے-جب سپاہ صحابہ پاکستان پر پابندی لگی تو ملت اسلامیہ کے نام سے جماعت بننے دی گئی-اور جب اس پر پابندی لگی تو اہل سنت والجماعت کے نام سے جماعت بنا لی گئی-اور اس کا کام دھشت گردی کی مذھبی بنیادوں پر محور وسیع کرنا رہ گیا-
سب سے زیادہ تشویش کی بات یہ ہے کہ یہ جماعت کھلے عام تفرقہ ،دھشت گردی اور تشدد کو فروغ دے رہی ہے،منافرت پر مبنی لٹریچر کی تقسیم کررہی ہے لیکن اس کے خلاف صوبائی حکومتوں اور وفاقی حکومتوں نے چپ سادھ رکھی ہے-یہ جماعت ان گروہوں میں شامل ہے جو طالبان،لشکر جھنگوی،جیش محمد ،لشکر طیبہ سمیت دھشت گرد تنظیموں کی حمائت کرتے ہیں-ان دھشت گردوں کو لاجسٹک سپورٹ بھی فراہم کرتے ہیں-
اس جماعت کا اہل سنت سے کوئی تعلق نہیں ہے –یہ وہابی دیوبندی فرقہ کا زیادہ تشدد پسند اور جنونی چہرہ ہے-
تعمیر پاکستان:دیوبند مکتبہ فکر میں اس جماعت کا اثر بہت غالب نظر آرہا ہے-وفاق المدارس جیسی تنظیم بھی اس کے زیر اثر نظر آرہی ہے-اس کی کیا وجہ آپ کو نظر آتی ہے؟
علامہ داؤد رضوی:یہ صرف اس جماعت کے غلبے اور اثر کی بات نہیں ہے-بلکہ دیوبند مکتبہ فکر میں خارجی،تکفیری وہابی خیالات کے پروان چڑھنے اور غالب آنے کا ایک تاریخی پس منظر موجود ہے-اس کی ابتداء مولوی اسماعیل دھلوی کی کتاب “تقویۃ الایمان” سے ہوئی جس میں عالم اسلام کی اکثریت کو مشرک اور کافر قرار دیا گیا تھا-شاہ ولی اللہ کے نواسے مولوی اسحاق مہاجر مکّی پر بھی وہابیت اثر کرگئی تھی-اور یہ دیوبندی اکابرین کے اساتذہ کے گرو تھے-لیکن پھر بھی وہابی اثر دیوبندی فرقے میں اس وقت تک غالب نہیں آیا جبتک ترک خلافت قائم تھی اور اس وقت حجاز میں نجدیوں کی مخالف حکومت موجود تھی-مفتی محمود حسن ،خلیل احمد انبٹھوی ،شیخ حسین احمد مدنی نے ڈپلومیسی سے کام لیتے ہوئے وہابی فرقے کے خلاف عربی زبان میں رسالے تحریر کئے-الشہاب الثاقب حسین احمد مدنی نے اور المھند علی المفند خلیل احمد نے لکھی-اور شیخ نجدی کو گمراہ،فاسق،خارجی ،خبیث،ظالم تک کہا-مولوی انور کاشمیری نے “فیض الباری علی شرح البخاری”میں لکھا
اما محمد بن الوہاب النجدی فانہ کان رجلا بلید اقلیل العلم فکان یسارع الی الحکم بالکفر
لیکن 1924ء میں سعودی عرب کے فرمانروا سلطان عبدالعزیز نے اپنے دوست علماء کی ایک مئوتمر بلائی-جس میں دیوبندیوں کی نمائندگی مولوی شبیر احمد عثمانی اور مفتی کفائت اللہ کررہے تھے-اگر آپ خطبات عثمانی کا مطالعہ کریں تو اس میں مولوی شبیر عثمانی کے سلطان ابن سعود کے سامنے دئے گئے خطبات بھی ہیں-ان خطبات میں وہ سلطان ابن سعود کو عادل،دیندار،جلالت الملک اور خادم اسلام عامل قران وسنت قراردیتے ہیں-شیخ ابن تیمیہ،حافظ ابن قیم جوزی سے اپنی عقیدت کا اظہار کرتے ہیں اور شیخ محمد بن عبدالوہاب نجدی کو محافظ قران و سنت قرار دیتے ہیں-اور وہ اہل سنت کے شعار کو محمد بن عبدالوہاب کی جانب سے شرک اور کفر قرار دینے اور دیوبندی مولویوں کی جانب سے اسے بدعت اور حرام کہنے کو نزاع لفظی قرار دیتے ہیں گویا یہ کہتے ہیں کہ وہابی اور دیوبندیوں میں کوئی اصولی اختلاف نہیں ہے-جبکہ یہ تو ہو نہیں سکتا کہ دیوبندیوں کے اس شیخ الاسلام نے اپنے بزرگ و اکابر شیخ حسین احمد مدنی کی الشہاب الثاقب اور خلیل احمد کی المھند نہ پڑھی ہو-یہ دونوں کتابیں وہ ہیں جس میں محمد بن عبدالوہاب کی تصنیف کردہ کتابوں کے اصل حوالے درج کرکے تنقید موجود ہے جبکہ شبیر عثمانی ابن سعود کو کہتے ہیں کہ ان کے بعض علماء کی وہابیہ سے بدگمانی کا سبب ان پر لگی تہمیتیں تھیں-بہرحال یہ 1924ء تھا جب دیوبندیوں اور آل سعود کے درمیان تعلقات استوار ہوئے اور پھر سعودی امداد اور لٹریچر نے دیوبندی مدارس میں آنا شروع کردیا-مظاہر العلوم سہارن پور،ندوۃ العلماء انڈیا میں اور پاکستان میں جامعہ بنوریہ ،دارالعلوم کراچی سعودی امداد اور لٹریچر کا مرکز بنے-1970ء میں مسجد بنوی کے امام جب پاکستان آئے تو کراچی میں دیوبندی مدراس نے وہابی مدارس کے ساتھ ملکر ان کا شاندار استقبال کیا-علمائے اہل سنت بریلوی نے اس وقت بھی یہ کہا تھا کہ مکّہ اور مدینہ پر قابض آل سعود کے نمکخوار مولوی ہرگز اس قابل نہیں ہیں کہ ان کی اقتداء میں نماز ادا کی جائے-70ء کے آخری عشرے میں مولوی منظور احمد نعمانی نے دیوبندیوں کے ترجمان رسالے “الفرقان”میں محمد بن عبدالوہاب نجدی کے بارے میں ایک قسط وار سلسلہ مضمون شایع کیا جس میں انہوں نے محمد بن عبدالوہاب نجدی کو سنت کو زندہ کرنے والا اور بدعات کو مٹانے والا قرار دیا-یہ ایک طرح سے ہندوستان اور پاکستان کے اندر عوام کی اکثریت میں وہابیت کے خلاف پائی جانے والی فضاء کو دور کرنا تھا-اور مقصد دیوبندی مولویوں اور جماعتوں کا سعودیہ عرب سے مال بٹورنا تھا-
دیوبندی مدارس اور مساجد کے اندر عقائد کے معاملے میں عوام کے اندر خارجیت کے جراثیم اس وقت تیزی سے بڑھنے لگے جب ایک طرف تو ایران میں امریکہ مخالف حکومت آگئی اور امرکی مفادات کا محافظ رضا شاہ کا تختہ الٹ دیا گیا-امریکہ نئی حکومت کو گرانے کے لیے سعودیہ عرب کو مڈل ایسٹ میں جونئیر پارٹنر سے سنئیر پارٹنر بنانے پر مجبور ہوگیا-اور سعودیہ عرب نے عالم اسلام میں ایک طرف تو شیعہ کمیونٹی کے خلاف اپنی مہم تیز کی تو دوسری طرف غیر وہابی سنّی مسلک کے خلاف بھی کام شروع کردیا-پاکستان میں جونکہ غیر مقلد وہابی اقلیت میں اور کم تھے تو ان کو سنّی اور شیعہ کے خلاف براہ راست میدان میں اتارنے کے دیوبندی فرقہ کے لوگوں کو اتارنے کا فیصلہ کیا گیا-اسی دوران افغان جنگ شروع ہوگئی اور دیوبندی اور وہابی مدارس اور نئے تشکیل پانے والے مدارس بھرتی کا مرکز بن گئے-یہ سب امریکہ اور سعودی عرب کی نگرانی میں ہورہا تھا-ضیاء الحق سعودیہ عرب کا غلام بنا ہوا تھا-اس زمانے میں پاکستان کی فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو تباہ کرنے اور پاکستان کے اندر وہابیت کو پھیلانے کے لیے سعودیہ عرب کی امداد اور لٹریچر پاکستان آنا شروع ہوگیا-اکثر دیوبندی مدارس اب درس نظامی پڑھانے والے مدارس نہیں رہے تھے بلکہ یہ عسکریت پسندوں کی بھرتی کے ریکروٹمنٹ سنٹر بن گئے تھے-جبکہ صوبہ خیبر پختون خوا اور قبائیلی ایجنسیوں میں ایسے مدارس وجود میں آگئے جو دراصل افغانستان ہی نہیں بلکہ پاکستان کے اندر سنّی اور شیعہ کے خلاف لڑنے والوں کی پناہ گاہیں بھی تھے-اس دوران سپاہ صحابہ پاکستان بنی-اور پھر 90ء کے عشرے میں لشکر جھنگوی اور جہاد کشمیر کے نام پر بننے والی دیوبندی وہابی مسلح پرائیوٹ لشکر وجود میں آئے اور یہ سب وہابی خارجی اور تکفیری فکر کے حامل تھے-ان کے اندر اگر اختلاف کوئی تھا تو وہ تقلید/غیر تقلید کا تھا-
تعمیر پاکستان:جامعہ بنوریہ کے کردار کو آپ کیسے دیکھتے ہیں؟
علامہ ابوداؤد رضوی:یہ جو 80ء کی دھائی تھی تو اس میں مولوی نظام الدین شامزئی کی سیادت میں سعودیہ عرب اور امریکہ سے اس جامعہ کے روابط تیزی سے ترقی پانے لگے-اور شامزئی کے تعلقات سعودی رائل فیملی سے بہت مضبوط ہوگئے-یہ مدرسہ نہ صرف افغانستان کے اندر لڑنے والے مجاہدین کا پشتیبان تھا بلکہ یہ سپاہ سپاہ پاکستان اور دیگر تکفیری ،خارجی دھشت گرد تنظیموں کی سرپرستی بھی کررہا تھا-یہی شامزئی تھے جنہوں نے اکوڑہ خٹک والوں سے ملکر تحریک طالبان افغانستان کی بنیاد رکھی اور پھر جب امریکہ نے افغانستان پر حملہ کیا تو یہ شامزئی تھے جنہوں نے پاکستان آنے والے دیوبندی مسلح گروپوں کو اکٹھا کرکے انٹرنیشنل اسلامک جہاد فرنٹ بنایا-اور اس کے عرب،چیچن،ازبک،تاجک وہابی دھشت گردوں کے ساتھ لنک بنائے-شامزئی نے پاکستان سمیت دنیا بھر میں امریکی مفادات کو نشانہ بنانے کا فتوی دیا مگر ساتھ ہی سعودی رائل فیملی اور سعودیہ عرب کو نشانہ نہ بنانے کی ہدائت جاری کی-اس دوران شامزئی کے القائدہ سے اختلافات بھی اسی لیے رونماء ہوئے تھے-اور شامزئی ملاّ عمر کو کہہ رہے تھے کہ اسامہ بن لادن کو امریکہ کے حوالے کردیا جائے-القائدہ کے ہاتھوں ان کے مارے جانے کی افواہ بھی سنی گئی-یہ جو ٹی ٹی پی ہے یہ دراصل ان کے انٹرنیشل اسلامک جہادی فرنٹ کا دوسرا نام ہے-اور اس نے پاکستان کی ریاست،آئین ،قانون کو ماننے سے انکار کیا اور 50000 ہزار سے زائد پاکستانی شہری شہید کئے-
تعمیر پاکستان:کیا پاکستان میں حال ہی میں ہونے والی دھشت گردی اور پھیلنے والی انتہا پسندی میں شیعہ-سنّی کشیدگی کا ہاتھ ہے؟
علامہ داؤد رضوی:میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ پاکستان کے اندر شیعہ-سنّی کشیدگی موجود ہہے ہی نہیں –جبکہ پورے ملک میں جو دھشت گردی ہورہی ہے اس میں 99۔9 فیصد تو دیوبندی دھشت گرد ملوث ہیں-اعشاریہ ایک فیصد دھشت گردی اگر کسی اور مذھبی برادری کی جانب سے ہوئی تو وہ ردعمل ہے لیکن وہ بھی ٹھیک نہیں ہے-دیوبندی دھشت گرد تنظیمں اور گروپس پاکستان کے اندر اب تک شیعہ-سنّی سول وار کرانے کی سرتوڑ کوشش کرچکے ہیں لیکن ان کے منصوبے اس لیے ناکام ہوئے کہ سواد اعظم اہل سنت بریلوی نے امن اور آتشی کے ساتھ ملک کی دوسری مذھبی برادریوں کے ساتھ رہنے کا فیصلہ کررکھا ہے-سنّی اتحاد کونسل اور دیگر سنّی تنظیمیں دیوبندی تکفیری خارجی گروہوں کی سازش کا ادراک رکھتی ہیں-وہ سانحہ راولپنڈی کی سازش کو بھی سمجھ گئیں تھیں اس لیے اہل سنت بریلوی پرامن رہے اور انہوں نے خارجیوں کی سازش کو ناکم بنایا-
تعمیر پاکستان:بعض حکومتی اور غیر سرکاری حلقوں کی جانب سے محرم اور ربیع الاول کے جلوسوں پر پابندی لگائے جانے کی بات کررہے ہیں-کیا یہ جلوس دھشت گردی اور فرقہ واریت کا سبب ہیں؟
علامہ داؤد رضوی:یہ شرانگیزی دیوبندی-وہابی دھشت گرد انتہا پسندوں کی جانب سے پھیلائی جارہی ہے-اہل سنت اور شیعہ صدیوں سے محرم اور میلاد النبی کے جلوس نکالتے آرہے ہیں-یہ جلوس کبھی بھی دھشت گردی اور انتہا پسندی کا سبب نہیں رہے-بلکہ ان جلوسوں کو دھشت گردی کا سامنا ہے-فرقہ واریت تو ان کو روکنے اور ان پر پابندی عائد کرنے کا مطالبہ ہے-سنّی اتحاد کونسل اس ملک کو دوسرا سعودیہ عرب نہیں بننے دے گی-ہم اپنے عقائد کے مطابق مذھبی فریضے ادا کرتے رہیں گے-پابندی اگر لگانی ہے تو دیوبندی-وہابی دھشت گرد تنظیموں پر لگائیں-
تعمیر پاکستان:پنجاب حکومت کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟کیا اس کی پالیساں مذھبی ہم آہنگی کو برقرار رکھنے میں ممد و معاون ہورہی ہیں؟
علامہ داؤد رضوی:سنّی اتحاد کونسل کے قیام کا ایک سبب پنجاب حکومت کا دھشت گرد،انتہا پسند دیوبندی و وہابی گروپوں کے ساتھ اتحاد اور ان کی سرپرستی بھی ہے-اس وقت پنجاب کا جو وزیر قانون ہے وہ انتہائی متنازعہ شخص ہے-اور وہ دھشت گرد انتہا پسندوں کی سرپرستی کے الزامات کی زد میں ہے-شہباز شریف کی بجائے وہ عملی طور پر پنجاب کی ایڈمنسٹریشن اور پولیس و صوبائی ایجنسیوں کا انچارج بنا ہوا ہے-پنجاب کے شہروں اور دیہاتوں میں دیوبندی اور وہابی انتہا پسندوں کو فری ہینڈ ملا ہوا ہے-اور ان کو امن کمیٹیوں میں بھی جگہ دی گئی ہے-ہمارے خیال میں پنجاب حکومت مذھبی شدت پسندی کے معاملے مکمل طور پر جانبدار بنی ہوئی ہے-سنّی مساجد اور مدارس پر قبضوں میں دیوبندی دھشت گرد ملوث ہیں مگر ان کے خلاف کوئی کاروائی نہیں ہوتی-یہ رویہ سنّی بریلوی عوام کے اندر تشویش کا سبب بنا ہوا ہے-پھر یہ حکومت دیوبندی دھشت گردوں سے مذاکرات کرنے پر اصرار کررہی ہے جس سے عوام اہل سنت میں اپنی توھین کئے جانے اور ان کے مقتولین کے خون کا سودا کرنے کا احساس پیدا ہورہا ہے-پنجاب اور وفاق کے حکمرانوں کو ہوش کے ناخن لینے چاہئیں-اور جو دھشت گرد عوام کے خون سے ہاتھ رنگ رہے ہیں ان کے خلاف فوجی ایکشن ہونا چاہئیے –ورنہ عوام خود قاتلوں سے انتقام لینے پر مجبور ہوں گے-
Comments
comments