سلیم صافی کا” مولانا” عصمت معاویہ ۔ حقیقت کیا ہے؟
روزنامہ جنگ کے کالم نگار سلیم صافی نے جنود الحفصہ المعروف تحریک طالبان پاکستان کے امیر عصمت اللہ معاویہ کا ایک خط اپنے کالم کے آخر میں درج کیا ہے اور ان کو مولانا عصمت اللہ معاویہ لکھا ہے-پہلی بات تو یہ ہے کہ عصمت اللہ کسی بھی مدرسے سے تخصص فی الفقہ اور مفتی کورس پاس کرکے نہیں نکلے ہیں کہ ان کے ساتھ “مولانا “کا لقب لگایا جائے-وہ ایک مدرسے میں ابتدائی کتابیں پڑھ رہے تھے کہ وہاں سے وہ پہلے جیش محمد میں گئے ااور پھر لشکر جھنگوی میں اور رہاں سے وہ وزیرستان چلے گئے اور جنود الحفصہ بنائی اور پھر پاکستانی ریاست اور اس کے اداروں اور عام شہریوں کے خلاف خود کش حملوں اور بم دھماکوں،اغواء برائے تاوان و ٹارگٹ کلنگ جیسے جرائم کی منصوبہ بندی کرنے لگے-ان بھائی صبغۃ اللہ معاویہ کو وہاڑی میں اغواء کی واردات کرتے ہوئے پکڑا گیا اور پھر پنجاب پولیس نے اپنے ایک اہلکار اور پٹواری کو چھڑانے کے لیے اسے رہا کردیا مگر پنجاب پولیس کا وہ اہلکار اور پٹواری اب تک رہا نہیں کئے گئے-عصمت اللہ صاحب اور ان کا گروہ جنگ کرتے ہوئے کسی اخلاقیات اور اسلامی اصولوں تک کی پیروی نہیں کرتا اور اس گروہ کے حملوں میں بچے،عورتیں ،بوڑھے،مریض ،عبادت گاہیں سب کے سب نشانہ بنائے جاتے رہے ہیں جن پر حملوں کی اجازت اسلام میں ہرگز نہیں ہے-اس لیے ایسے کسی بھی آدمی کو مولانا لکھنا اور اس کی عزت و تکریم کرتے ہوئے پروجیکشن کرنے کے عمل کی جتنی بھی مذمت کیجائے کم ہے
–http://www.thenews.com.pk/Todays-News-2-198040-Asmatullah-Muavia-is-a-product-of-Lal-Masjid-operation
عصمت اللہ معاویہ کے بارے میں پاکستان کی انٹیلی جنس ایجنسیوں نے جو معلومات اکٹھی کیں ہیں ان کے مطابق عصمت اللہ معاویہ کے امریکی انٹیلی جنس ایجنسی سی آئی اے،بھارتی ایجنسی راء اور افغان انٹیلی جنس ڈائریکٹوٹ اورریاستی امور امانات ملیہ (راما(سے تعلقات ہیں اور وہ ان سے مالی مدد بھی لے رہا ہے اور ان کے کہنے پر پاکستان کے مفادات کو نقصان بھی پہنچارہا ہے–یہ رپورٹس تھیں جن کی بنیاد پر محکمہ داخلہ کے کرائسس منیجمنٹ سیل نے ایک مراسلہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے پاس بھیجا تھا اور اس کو اخبارات نے شایع کیا-
http://tribune.com.pk/story/430027/foreign-intelligence-services-bankrolling-terror-report/
اس رپورٹس میں جنود الحفصہ کی مجرمانہ سرگرمیوں اور پاکستان میں شیعہ اور احمدیوں کو دھشت گردی کا نشانہ بنائے جانے کے منصوبوں کا انکشاف بھی کیا گیا تھا-ان سارے حقایق سے سلیم صافی ناواقف تو نہیں ہوں گے پھر بھی انہوں نے عصمت اللہ معاویہ کو ایک مذھبی سکالر اور مذھبی انٹلکیچوئل بناکر دکھانے کی کوشش کی جو کسی بھی طرح سے قابل تحسین اقدام نہیں ہے-
سلیم صافی صاحب نے اپنے کالم میں عصمت اللہ کا پورا خط شایع کیا جس میں ان کے مخالفین اور ان سے اختلاف کرنے والوں کو دائرہ اسلام سے خارج قرار دیتے ہوئے کافر قرار دے دیا گیا ہے-عصمت اللہ کا موقف یہ ہے کہ پاکستان کی ریاست ایک حربی کافر ریاست ہے اور اس کی حکومت بھی حربی کافر ہے اور جو بھی اس ریاست کے آئین ،قانون اور اس ریاست کے خلاف جنگ کرنے کو ٹھیک خیال نہیں کرتا اس سے جنگ جائز ہے اور وہ کافر ہے-
عصمت اللہ نے اپنے خط میں مفتی نظام الدین شامزئی کا حوالہ دیا ہے تو مفتی نظام الدین شامزئی وہ عالم تھے جو سابق ڈی جی آئی ایس آئی جنرل محمود کے ساتھ ملاّ عمر کے سے ملے تھے اور ان سے کہا تھا کہ وہ اسامہ بن لادن کو امریکہ کےحوالے کرکے افغان امارات اسلامی کو تباہی سے بچالیں-مفتی نظام الدین شامزئی اگر پاکستانی حکومت کے خلاف جہاد کو ٹھیک خیال کرتے تھے تو ان کے پاکستان کی ملٹری اسٹبلشمنٹ سے تعلقات کیوں بہتر تھے؟اور مفتی نظام الدین شامزئی وہ عالم دین تھے جن کے جنلر ضیاء،مشرف اور جنلرل محمود اور جنلرل شاہد عزیز سے تعلقات تھےاور وہ افغانستان اور انڈیا میں جہادی پراکسی کے حامی رہے اور پھر وہ امریکہ کے خلاف بھی ہوئے-انہوں نے انٹرنیشنل اسلامک فرنٹ بنانے میں اہم کردار ادا کیا جوکہ نہ صرف پاکستان کے اندر بلکہ اس سے باہر کرسچن،شیعہ اور ہندؤں کے خلاف دھشت گردی کی کاروائیاں کررہا تھا-اور مفتی نظام الدین شامزئی کی ہلاکت کی زمہ داری کا شبہ القائدہ پر بھی کیا گیا کیونکہ وہ القائدہ کی جانب سے سعودی عرب اور آل سعود کے خلاف کاروائیوں کو حرام خیال کرتے تھے-
عصمت اللہ نے حقائق سے پردہ پوشی کرتے ہوئے یہ بات چھپالی ہے کہ علمائے دیوبند کی اکثریت جن میں جامعہ بنوریہ ٹاؤن کراچی ،دارالعلوم کراچی ،جامعہ اشرفیہ لاہور،جامعہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ،اکوڑہ خٹک جیسے نمائندہ دارالعلوم کے آفیشل مفتیان کرام نے پاکستان کی ریاست ،اس کے فوجیوں اور اس کے شہریوں کے خلاف قتال کرنے کو حرام اور ایسا کرنے والوں کو باغیوں کے زمرے میں قرار دیا-اور ان مولویوں کی رائے کو رد کرڈالا جنہوں نے فتوی تکفیر دیتے ہوئے پاکستان میں قتال کو جائز قرار دے ڈالا تھا-مولانا زاہد الراشدی نے اس حوالے سے مبسوط مقالے بھی لکھے-
جمعیت علمائے ہند جوکہ علمائے دیوبند کی نمائندہ جماعت ہے اس نے مئی دو ہزار آٹھ میں ایک علمی پریس کانفرنس ہندوستان میں بلائی تھی جس میں دارالعلوم دیوبند،ندوۃ العلماء اور مجلس عالمی نے بھی شرکت کی تھی-اس میں ایک متفقہ قرارداد میں دھشت گردی کی سخت مذمت کی گئی اور خود کش بم دھماکوں کے خلاف بھی قرارداد منظور کی گئی-
http://www.bbc.co.uk/urdu/india/story/2008/05/printable/080531_muslim_fatwa_np.shtml
افسوس ناک بات یہ ہے سلیم صافی نے تصویر کے دوسرے رخ کو اپنے کالم میں بیان کرنا مناسب خیال نہیں کیا-وہ اب اس معاملے کو اسلامی نظریاتی کونسل میں بھیجنے کی بات کرتے ہیں-
علمائے دیوبند پاکستان کی اکثریت نے جب اقلیتی تکفیری خارجی گروہ کے فتوے کو تسلیم نہیں کیا تو اس گروہ کی کیا خثیت رہ جاتی ہے-دوسری جانب اس فتوے کے جواب میں علمائے اہل سنت بریلوی نے اتفاق سے اس فتوے کو رد کردیا اور یہ فتوی دینے والوں اور اس پر دستخط کرنے والوں کو ظالم اور ناواقف شرع و دین قرار دے ڈالا-اس حوالے علامہ طاہر القادری ،ڈاکٹر سرفراز نعیمی اور دیگر علمائے اہل سنت کی واضح تصریحات موجود ہیں-http://www.urduweb.org/mehfil/threads
علمائے شیعہ نے بھی اس فتوی تکفیر سے اختلاف کیا اور اس طرح کی بات کو شرانگیزی قرار دیا-خود جماعت اسلامی کا تازہ ترین خط بھی اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ وہ پاکستان کو دارالحرب نہیں سمجھتے اور پاکستان کے اندر قتال کو ٹھیک خیال نہیں کرتے اگرچہ وہ اپنے امیر کی خارجی ذھینیت اور اقوال کی تعبیر و تاویل پر تلے بیٹھے ہیں-
سلیم صافی کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ ایسی ذھنیت اور سوچ کو اپنے کالم میں جگہ دیں جو کہ مین سٹریم میڈیا کے ایک بڑے اخبار میں شایع ہوتا ہے جس سے فتنہ اور فساد پھیلانے والے ھیرو لگنے لگیں-
اس وقت دیوبند مکتبہ فکر پر خارجی اور تکفیری گروہ کا سخت دباؤ ہے اور وہ اس دباؤ کی وجہ سے یہ بھی کھل کر کہنے کو تیار نہیں ہے کہ “کفر اور قتال “کے فتوے جاری کرنے والوں کا ان سے کوئی تعلق نہیں ہے-دیوبند مکتبہ فکر کے مدراس اس وقت زبردست قسم کی سخت گیر سلفی عقائدی لہر کا دباؤ برداشت کررہے ہیں اور ان مدراس میں پڑھنے والے طلباء اور اکثر اساتذہ کا جھکاؤ بھی اسی رجحان کی طرف ہے-ایسے دباؤ کے موقعے پر ضرورت اس امر کی ہے کہ دیوبند مکتبہ فکر کے اعتدال پسند اور صلح جو علماء اور عوام کو ہائی لائٹ کیا جائے نہ کہ ان لوگوں کی پروجیکشن کی جائے جو تکفیری اور خارجی سوچ اور عمل سے دور ہیں-
سلیم صافی صاحب غلطی پر ہیں کہ پاکستان کی اکثر عوام جہاد اور قتال کے حوالے سے کنفیوژن کا شکار ہیں نہیں بلکہ کنفیوژڈ تو وہ لوگ ہیں جو ایک طرف تو حکیم اللہ محسود اور ان کے ساتھیوں کو شہید اور پاکستانی افواج اور شہریوں کو حرام موت مرنے کا فتوی دیتے ہیں اور خود پاکستانی آئین،قانون اور ریاست کی وفاداری کا حلف دیتے ہیں-خیبر پختون خوا میں صوبائی حکومت میں سئنیر وزرات کے عہدے کو بھی پاس رکھتے ہیں اور خود نہ تو جہاد و قتال پر جاتے ہیں اور نہ ہی ریاست سے ملنے والی سہولتوں اور فوائد سے دست بردار ہوتے ہیں-کنفیوژڈ اگر کوئی ہے تو وہ جماعت اسلامی کے امیر ہیں یا جے یوآئی ایف کے فضل الرحمان یا مولانا سمیع الحق ہیں-
یہاں پر ایک اور غلطی کی درستگی کرلینا بھی ضروری ہے کہ جن علمائے کرام نے افغانستان میں جہاد کو درست قرار دیا وہ بھی وہاں کے امریکہ کے حامی مسلمانوں اور مسلم حاکموں کو اسلام سے خارج نہیں کرتے-یہاں بھی عصمت اللہ نے انصاف سے کام نہیں لیا-
مولانا حسن جان ، ،ڈاکٹر سرفراز نعیمی یہ دو جید علمائے کرام خود کش حملوں کو حرام قرار دے چکے تھے-اور ان میں ڈاکٹر سرفراز نعیمی کی شہادت کی زمہ داری تحریک طالبان پاکستان نے قبول کی جبکہ مولانا حسن جان کی شہادت کی زمہ داری کسی گروہ ن قبول نہیں کی-ان کی شہادت پر انگلیاں طالبان پر اٹھتی ہیں-کیونکہ یہ تحریک طالبان پاکستان کے ناقدین میں شمار ہونے لگے تھے-اور خودکش بم دھماکوں پر ان کے موقف نے ٹی ٹی پی کو خاصی مشکل میں ڈال دیا تھا
https://lubpak.com/archives/233399
http://www.sunniforum.com/forum/archive/index.php/t-27591.html
اس لنک پر ان تمام علماء کی فہرست موجود ہے جنہوں نے خود کش حملوں کو حرام قرار دیا-اور جمعیت علمائے اسلام فضل الرحمان کی جانب سے ایک کانفرنس کا زکر بھی موجود ہے جس میں 2000 دیوبندی علماء نے دھشت گردی کے خلاف اور پاکستان میں جنگ کرنے والوں کے خلاف فتوی اتفاق سے جاری کیا تھا-اور لنک نیچے موجود ہے-
Source: http://www.dailytimes.com.pk/default.asp?page=2007%5C05%5C07%5Cstory_7-5-2007_pg7_11
Comments
Latest Comments
Saleem safi sahab bhi taliban -e-shaitan kay taruman hain…
Saleen Safi too can also be involved in getting money. Sheer lie and immatured behavior of sensible like person. Greediness dilute and gradually remove all social, religious, humanitarian and ethic values.