
یہ علمائے دیوبند اپنی صفوں سے خارجی گروہ کو نہیں نکالتے تو پاکستان کو سول وار سے کوئی نہیں بچا سکے گا
پاکستان کے صوبے پنجاب کے وسطی حصے میں موجود ضلع راولپنڈی کے معروف راجہ بازار میں واقع دیوبندی تکفیری خارجی مدرسے جامعہ تعلیم القران کے پاس دس محرم الحرام کو عاشورہ کے جلوس پر نامعلوم افراد کی فائرنگ اور اس دوران جامعہ تعلیم القران کی مسجد کے خطیب کی جانب سے ایمپلی فائی ایکٹ کی صریح خلاف ورزی اور یزید ملعون کی قصیدہ گوئی دو ایسی حقیقتیں جن سے کوئی انکار نہیں کرسکتا-یہ اشتعال انگیزی اور دھشت گردی پولیس اور ضلعی حکومت کے انتظامی افسران کی موجودگی میں ہوئی-جبکہ یہ جامعہ ایک عرصہ سے نہ صرف شیعہ برادری کے خلاف بلکہ اس ملک کے سواد اعظم اہل سنت بریلوی کے خلاف بھی شرانگیز تقریروں اور پروپیگنڈا کا مرکز بنی ہوئی ہے-لیکن آج تک اس جامعہ کی انتظامیہ کے خلاف کوئی نوٹس نہیں لیا گیا-پولیس نے اب تک اس واقعہ کے حوالے سے جو ابتدائی رپورٹ داخل کی ہے وہ بھی جانبدار اور حقائق کے برخلاف ہے اور اس سے یہ احساس ہوتا ہے کہ پولیس اس واقعہ کو دو فرقوں کی باہمی چتقلش قرار دینا چاہتی ہے-جبکہ ہماری نظر میں یہ دو فرقوں کی باہمی چتقلش کا معاملہ نہیں ہے بلکہ یہ ایک تکفیری خارجی انتہا پسند دھشت گرد گروہ کی شیظانی اور تخریبی کاروائی کا نتیجہ ہے جس نے ایک سوچے سمجھے منصوبے کے زریعے راجہ بازار کے قریب جامعہ تعلیم القران کی چھت سے عاشورہ کے جلوس پر فائرنگ کی اور خود مسجد و مدرسے کو آگ لگائی اور پھر اس سارے واقعے کا زمہ دار عاشورہ کے جلوس کے شرکاء کو ٹھہرادیا-اس حوالے سے جو شواہد اور ثبوت سامنے آئے ہیں وہ یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہیں کہ ملک بھر میں فرقہ وارانہ فساد کرانے کی سازش میں اہل سنت والجماعت جوکہ سپاہ صحابہ پاکستان کا نیا نام ہے اور لشکر جھنگوی و تحریک طالبان پاکستان کا سیاسی چہرہ ہے ملوث ہے اور وہ پورے ملک میں فرقہ وارانہ نفرت اور اشتعال آزادی کے ساتھ پھیلارہی ہے-
کیونکہ راولپنڈی کے اس واقعے کے رونما ہونے کے دوران اور بعد میں اس دھشت گرد تکفیری جماعت کی جانب سے سوشل میڈیا اور موبائل میسجز کے زریعے سے جھوٹی افواہوں کے پھیلانے کا سلسلہ شروع کیا گیا-برما اور شام میں ذبح ہونے والے بچوں کی تصویریں پوسٹ کرکے یہ دکھانے کی کوشش کی گئی کہ عاشورہ کے جلوس کے شرکاء نے معصوم بچوں کو زبح کرڈالا-جامعہ تعلیم القران کی مسجد کے امام کے اہل خانہ کو زندہ جلائے جانے کی افواہ بھی پھیلائی گئی-افسوس ناک بات یہ ہے کہ جامعہ بنوریہ کے مفتی نعیم نے بغیر تصدیق کئے راولپنڈی میں مارے جانے والے لوگوں کی تعداد 90 بتلادی جبکہ لیاقت باغ میں صرف تین تابوت لائے گئے جبکہ باقی 87 میتیں کہاں ہیں ان کا کچھ پتہ نہیں ہے-مفتی نعیم جامعہ بنوریہ کے دارالافتاء کے سربراہ ہیں ان کو بے بنیاد باتوں پر پریس کانفرنس کرنا زیب نہیں دیتا-پھر جس طرح سے انہوں نے ایک خارجی،تکفیری اور انتہا پسند دھشت گرد تنظیم اور اس کے بانی کا دفاع کرنے کی کوشش کی اس سے بھی لوگوں کے اندر یہ شکوک و شبہات پیدا ہوگئے ہیں کہ کہیں علمائے دیوبند کی اکثریت نے تکفیری خارجی دھشت گردوں کے سامنے گھٹنے تو نہیں ٹیک ڈالے ہیں؟ https://lubpak.com/archives/290805
(احمد نورانی نیوز انٹرنیشنل جنگ گروپ کے اخبار کی انوسٹی گیٹو ٹیم کے رکن ہیں انہوں نے راولپنڈی سانحے کے حوالے سے فیک تصاویر اور جھوٹے پروپگنڈے کا پردہ اس رپورٹ میں فاش کیا ہے-جسے مندرجہ بالا لنک میں دیکھا جاسکتا ہے)
(تعمیر پاکستان کا یہ اوپر دیا گیا لنک جامعہ بنوریہ کے مفتی نعیم کی تضاد بیانی اور افسوس ناک حد تک ایک فرقہ پرست ٹولے کی سائیڈ لینے کی پول کھولتا ہے)
تعمیر پاکستان جامعہ بنوریہ میں علمائے دیوبند کے اجلاس میں دھشت گرد تکفیری ،خارجی تنظیم کے مرکزی جنرل سیکرٹری اورنگ زیب فاروقی کی موجودگی اور اس دھشت گرد تنظیم کے فرقہ پرستانہ موقف کو علمائے دیوبند کا موقف قرار دیکر اس پر تحریک چلانے کی خبروں پر اظہار افسوس کرتا ہے اور اسے ہرگز امن کے لیے نیک شگون قراردینے کے لیے تیار نہیں ہے-وفاق المدارس تنظیم کے صدر مولانا سلیم اللہ خان کو اس فیصلے پر نظر ثانی کرنی چاہئیے اور اپنی تنظیم کی رکنیت سے دھشت گرد تکفیری خارجی تنظیم اہل سنت والجماعت (سپاہ صحابہ پاکستان)کے زیر اثر چلنے والے مدارس کی رکنیت فی الفور ختم کرنی چاہئیے تاکہ دیوبندی مسلک کے اوپر سے یہ الزام ہٹ سکے کہ وہ دھشت گردی اور فرقہ پرستی کا فروغ دینے کا سبب بن رہا ہے-وفاق المدارس پاکستان کو کم از کم دارالعلوم دیوبند اںڈیا کی جانب سے ایک علمی کانفرنس کے اندر القائدہ،طالبان سمیت نام نہاد جہادی دھشت گردوں سے لاتعلقی پر مبنی اعلامیے کی پیروی کرلینی چاہئیے-مفتی نعیم اور مولانا سلیم اللہ خان کو دارالعلوم دیوبند انڈیا کی پالیسی کو ہی کم از کم اپنی پالیسی بنالینا چاہئیے-
(اس لنک میں علمائے دیوبند کے تکفیری خارجی نظریات بارے تاریخی موقف اور حال میں آنے والی تبدیلی کا احوال موجود ہے)
ہم سمجھتے ہیں کہ پاکستان کے اندر اس وقت اہل سنت والجماعت کے نام سے کام کرنے والی کالعدم تنظیم سپاہ صحابہ پاکستان پر فوری طور پر پابندی عملی طور پر نافذ کرنی چاہئیے اور اس کے ملک بھر میں قائم دفاتر کو بند کرنا چاہئیے-جبکہ فورتھ شیڈول میں موجود ان تمام لوگوں کو گرفتار کرنا چاہئیے جوکہ اشتعال انگیزی اور نفرت پھیلانے میں ملوث ہیں-
چشتیاں کے اندر جس جلوس نے امام بارگاہ اور دو دوکانوں کو آگ لگائی اس کی قیادت غلام رسول نامی وہ آدمی کررہا تھا جو فورتھ شیڈول میں شامل ہے اور اس پر محرم میں بین تھا لیکن اس کو مقامی انتظامیہ نے گرفتار نہیں کیا-نہ ہی اس کی نگرانی کا بندوبست کیا گیا-یہ شخص اپنے فرقہ وارانہ پس منظر کے باوجود نہ جانے کیسے پاکستان بار کونسل سے وکالت کا لائسنس حاصل کرنے میں کامیاب رہا اور یہ ایک ایسا رسالہ بھی نکال رہا ہے جس میں لشکر جھنگوی کے جیلوں میں بند دھشت گردوں کو سورما اور شیعہ و بریلوی اہل سنت کے خلاف فرقہ وارانہ نفرت پھیلانے والا مواد آزادی کے ساتھ شایع کیا جاتا ہے اور اس کی فروخت بھی کھلے عام ہورہی ہے-پنجاب کا محکمہ داخلہ اور پی آئی ڈی کے حکام سب کچھ جانتے بوجھتے اور اس حوالے سے ایجنسیوں کی رپورٹس ہونے کے باوجودکوئی اقدام نہیں اٹھارہے-اس سے پنجاب اور وفاق کے حکام شیعہ اور بریلوی اہل سنت جوکہ اس ملک کی آبادی کا 85 فیصد ہیں کو کیا پیغام دینا چاہتے ہیں؟
ذھن نشین کرنے والی بات یہ ہے کہ ملک میں شیعہ-سنّی یا شیعہ-دیوبندی کمیونل لڑائی یا کشیدگی کی فضاء نہیں ہے-نہ ہی عام لوگ کمیونل بنیادوں پر ایک دوسرے کے خلاف صف آراء ہیں-ایک تکفیری،خارجی،انتہا پسند دھشت گردوں کا حامی ٹولہ ہے جو کمیونل فساد اور مذھبی بنیادوں پر سول وار کی طرف پاکستان کو دھکیلنا چاہتا ہے-اس ٹولے کو بدقسمتی سے ایک طرف تو علمائے دیوبند کے مدارس کی تنظیم وفاق المدارس نے ڈھیل دے رکھی ہے تو دوسری طرف اس ٹولے کے خلاف وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے آنکھیں بند کررکھی ہیں اور اس ٹولے کی تنظیم کو کالعدم قراردینے سے ہچکچا رہی ہیں-بلکہ وفاقی اور پنجاب میں مسلم لیگ نواز کی حکومتیں تو اس ٹولے کے ساتھ مبینہ طور پر ڈیل اور معاہدے میں بتلائی جاتی ہیں-اس حکومت کے بہت سے ایم این اے اور ایم پی اے اس تنظیم کے سرپرست بتلائے جاتے ہیں-جبکہ پنجاب کے موجودہ وزیر قانون رانا ثناءاللہ تو اس تنظیم کے گاڈ فادر (مائی باپ)بن چکے ہیں-مسلم ليگ نواز اور تکفیری خارجی دھشت گردوں کے باہمی تعلقات پر امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے اپنے ادارتی صفحے پر ایک مضمون اس وقت شایع کیا جب وزیر اعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف وہائٹ ہاؤس میں صدر باراک اوبامہ سے ملنے والے تھے-
تعمیر پاکستان وفاق المدارس اور حکومت پاکستان سے یہ کہتا ہے کہ وہ فرقہ پرست ،انتہا پسند،دھشت گرد ٹولے کی پرچھائیں اپنے اوپر سے دور کریں اور حکومت پاکستان کو سب کی حکومت ہونے کا احساس پیدا کرنے کی اشد ضرورت ہے اور اس کو پاکستان کے شیعہ،بریلوی ،ہندؤ،احمدی،عیسائی مذھبی برادریوں سے اپنی دوری اور بےگانگی ختم کرنے کی ضرورت ہے-یہ دوری اسی صورت ختم ہوسکتی ہے جب حکومت اپنے اندر سے دھشت گردوں کے حامیوں کو نکال باہر کرے اور فرقہ پرستوں کو بے نقاب کرتے ہوئے ان پر پابندی عائد کرے-
Comments
comments