جہادی صحافت
جہادی صحافت
عامر حسینی
اردو صحافت کا اگر آغاز دیکھا جائے تو برصغیر پاک و ہند میں اس کا مزاج بھی اس زمانے کی شاعری کے مزاج سے مختلف نظر نہیں آتا جو اقبال کی شاعری سے تشکیل پاگیا تھا-اس میں غلبہ اسلام اور پین اسلام ازم سے جڑی انتہائی جذباتیت غالب تھی-یہ مزاج آج تک تبدیل نہیں ہوسکا-اس میں زیادتی اس وقت دیکھنے کو ملی جب ضیاءالحق صاحب نے ملک میں قبضہ کرلیا اور “ہر ملک ملک ماست ،چشم روشن دل ما شاد “ماٹو بن گیا-اور ہمارے ہاں افغان وار سے صحافت کی ایک نئی قسم سامنے آئی جس کو ہم “جہادی صحافت”کا نام دے سکتے ہیں-اس جہادی صحافت نے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہمارے پرنٹ میڈیا کے اخبارات کو “جہادی پراکسی”کا علمبردار بنا ڈالا ہے-اور کسی اردو اخبار میں اس علم سے بغاوت کرنے کی ہمت دکھائی نہیں دیتی ہے-اردو صحافت میں ہم روزنامہ امروز سے ہٹ کر پاکستان کے اندر کوئی ایک بھی اخبار ایسا نہیں دیکھتے جس نے معروضی،بے لاگ ،غیر فرقہ وارانہ اور سیکولر،لبرل صحافتی اقدار پر عمل کیا ہو-
اب پرنٹ میڈیا کے ساتھ اردو الیکٹرانک میڈیا بھی اس جہادی صحافت کا سب سے بڑا سٹیک ہولڈر بن گیا ہے-بلکہ اس نے زیادہ تیزی سے جہادی صحافت کو پروان چڑھایا ہے-
یہ جہادی صحافت دو بڑے اور بنیادی اصولوں کے تحت کام کرتی ہے-اس کا سب سے بڑا اصول تو یہ ہے کہ پاکستان کی غیرمنتخب ہئیت مقتدرہ یعنی اسٹبلشمنٹ کی قومی اور داخلی سلامتی کی ڈاکٹرائن کی برکات اور فیوض کو ہمیشہ بیان کیا جاتا رہے اور اس ڈاکٹرائن کو کبھی متنازعہ نہ ہونے دیا جائے-جو بھی پرت اس ڈاکٹرائن کے خلاف بولے یا لکھے اسے ففتھ کالمسٹ قرار دے دیا جائے-اس ڈاکٹرائن کی حمائت میں سرگرم رہنے والی پاکستان کی جہادی صحافت اسٹبلشمنٹ کی جانب سے پاکستان کو ایک ڈیپ ریاست میں بدلنے اور اس کے لیے جن پراکسی کا استعمال کرتی آئی ہے ان کی ناگزیت پر صفحے کالے کرتی ہے-
جہادی صحافت کا دوسرا اصول یہ ہے کہ کھلے عام یا بین السطور مذھبی انتہا پسندی اور اشتعال انگیزی کو سپورٹ کیا جائے-افغان وار اور کشمیر وار کو اسٹبلشمنٹ نے جس طرح سے مقدس جنگ اور جہاد بنایا اس کی تقدیس کا تحفظ ہر قیمت پر کرنا جہادی صحافت کا فرض بنتا ہے-اور جو جنگجو منحرف ہوکر اپنی ہی استاد فوج اور ریاست سے لڑنے لگیں تو ان کے منحرف ہونے اور پاکستان میں ان کی کاروائیوں کے جواز تلاش کئے جائیں اور ان کی درندگی کی کوئی ایسی مثال سامنے آئے کہ جس کی توجیح ممکن نہ لگے تو اسے یہود و ہنود و نصاری کے کھاتے میں ڈال دیا جائے اور پھر امریکہ کی سی آئی اے،بھارت کی را اور اسرائیل کی موساد اور افغانستان کی خاد کو دل کھول کے کوسنے دئے جائیں-
جہادی صحافت جمعہ کی شب حکیم اللہ محسود کی ڈرون حملے میں ہلاکت کے بعد سے یہی کچھ کررہی ہے-آج مورخہ 4 نومبر 2014ء کو اردو اخبارات (جنگ،ایکپریس،روزنامہ خبریں ،نوائے وقت،نئی بات ،دنیا)کے اداریے تحریک طالبان کے ساتھ ہمدردی ظاہر کرنے کے ساتھ ساتھ ان سے مذاکرت کی درخواست بھی کی جارہی ہے-اور مذاکرات کے ناکام ہونے پر تشدد کی نئی لہر پیدا ہونے کے امکانات بھی جنم لینے کے خدشات کا اظہار بھی کیا جارہا ہے-
ان اداریوں میں سے کچھ پاک-امریکہ تعلقات کا ایک جائزہ بھی پیش کرتے ہیں اور ان کو پڑھ کر آپ یہ نتیجہ نکال سکتے ہوکہ جیسے پاکستانی حکمران بہت معصوم ،سادہ لوح بلکہ اللہ میاں کی گائے ہیں جبکہ امریکہ بہت شاطر ہے وہ مطلب نکالتا ہے اور پاکستان کو مشکل میں ہرمرتبہ تنہا چھوڑ دیتا ہے-ایسے بے اعتبار ملک کے ساتھ تعلقات پر نظر ثانی کرنے کی تجويز تقریبا ہر ایک اردو اخبار کے ادارئے میں دی گئی ہے-
غیرت اور حمیت اور بہادرانہ فیصلے کرنے کی تلقین نما وعظ بھی ساتھ ساتھ ہیں-جبکہ کسی ایک اخبار نے اپنے اداریہ میں تحریک طالبان پاکستان اور اس کی اتحادی فرقہ پرسست تنظیموں کے وجود سے پاکستان کی سلامتی کو لاحق خطرات پر ایک جملہ تک نہیں لکھا-
روزنامہ خبریں کا اداریہ “امریکہ سے تعلقات-فیصلہ پارلیمنٹ میں کیا جائے”کے عنوان سے ہے-اس کا درج ذیل اقتباس ملاحظہ کیا جائے
‘امریکہ پاکستان میں امن نہیں چاہتاجبکہ واشنگٹن حکومت ایسا پاکستان چاہتی ہے جو خطے میں اوریکی مفادات کا محافظ ہو اور جب تک وہ اس کی ڈکٹیشن پر عمل نہیں کرے گا ایسے واقعات ہوتے رہیں گے”
اخبار لکھتا ہے کہ حکومت کو طالبان سے مذاکرات میں مزید تاخیر نہیں کرنی چاہئیے اور ایسے اقدامات اٹھانے چاہئیں جس سے طالبان کے خدشات اور شبہات کا خاتمہ ہوسکے-اس اخبار نے حکومت کو نیٹو سپلائی بند کرنے کا مشورہ دیا ہے-
http://khabraingroup.com/epaper.aspx?p=p10
روزنامہ ایکسپریس نے “موجودہ صورتحال میں ہوش مندی کا مظاہرہ کیا جائے “کے عنوان سے اداریہ لکھا ہے-اخبار کہتا ہے کہ
http://www.express.com.pk/epaper/PoPupwindow.aspx?newsID=1102006077&Issue=NP_LHE&Date=20131104
“بعض سیاسی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ ڈرون حملے پاکستان میں خودکش حملے پروان چڑھانے کی منظم سازش ہے-اس استدلال میں کسی حد تک وزن موجود ہےکیونکہ ممکن ہے طالبان اپنا شدید ردعمل دیں”
اخبار نے حکومت کی جانب سے طالبان سے مذاکرات جاری رکھنے کے اعلان کو مثبت قرار دیتے ہوئے طالبان سے درخواست کی ہے کہ وہ بھی اس عمل کو جاری رکھیں-لیکن روزنامہ ایکسپریس نے امریکہ سے پاکستان کے لیے امداد لینے کی حکومتی روش کا زکر کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر اس پروسس کو جاری رکھنا ہے تو پھر ہوش مندی سے کام کرنا ہوگا-
روزنامہ جنگ نے بھی اپنے اداریہ میں امن کی تباہی کی زمہ داری امریکہ پر ڈالی ہے اور طالبان سے کہا ہے کہ وہ اس معاملے میں پاکستان کو ذمہ دار مت ٹھہرائے-روزنامہ پاکستان نے بھی امریکہ کے خلاف اس معاملے میں سخت ردعمل کا اظہار کیا ہے اور پاکستان میں ہرطرح کی دھشت گردی کا زمہ دار امریکی سی آئی اے،راء،موساد اور خاد کو ٹھہرایا ہے-روزنامہ نئی بات کا اداریہ تو تحریک طالبان پاکستان کے امیر حکیم اللہ محسود کی وفات پر “انا للہ وانا علیہ راجعون”لکھ کر آگے امریکہ پر سخت عتاب نازل کرتا ہے-اور امریکہ سے ہر طرح کے تعلقات ختم کرنے کی تلقین کرتا ہے-اسی سے ملتا جلتا اداریہ “نوائے وقت “نے لکھا ہے-
جمعہ کے بعد سے تین روز میں ان اخبارات میں ادارتی صفحات پر جو مضامین اور کالم شایع ہوئے ہیں ان پر ایک نظر ڈالنے سے اندازہ ہوجاتا ہے کہ اردو اخبارات کے اکثر کالم نگار اور مضامین نویس طالبان سے کس قدر ہمدردی رکھتے ہیں جبکہ ان کے نزدیک پاکستان میں دھشت گردی اور لاقانونیت کے تانے بانے ہرگز ریاست کی تزویراتی گہرائی کی پالیسی سے نہیں ملتے-وہ ریاستی و غیر ریاستی سطح پر “جہادی آئیڈیالوجی “جس کے بطن سے تکفیری آئیڈیالوجی کا جنم ہوا کی سرپرستی کرنے اور نجی جہادی لشکروں کو بھی اس کی بنیادی وجہ خیال نہیں کرتے-نہ ہی ان کالموں اور مضامین میں ہمیں سعودی عرب سے آنے والی امداد اور ان کی آئیڈیالوجی بارے بھی کوئی زکر نہیں ملتا-سب نے اس انتہا پسندی ،دھشت گردی اور عسکریت پسندی کے رشتے ناطے یا تو11/9 کے بعد امریکہ کی دھشت گردی کے خلاف جنگ سے جوڑے ہیں یا پھر اس کی جڑیں جنرل مشرف کی جانب سے لال مسجد آپریشن میں تلاش کرنے کی کوشش کی ہے-جہادی صحافت کو 11/9 سے پہلے شیعہ کی ٹارگٹ کلنگ ،پاکستان کی غیر مسلم اقلیتوں پر مذھبی انتہا پسندوں کے حملے نظر نہیں آتے اور نہ ہی امام بارگاہوں ،مزارات پر حملے نظر آتے ہیں-
http://jang.com.pk/jang/nov2013-daily/04-11-2013/col2.htm
جہادی صحافت مکمل طور پر یہ بات بھی نظر انداز کردیتی ہے کہ اس وقت تحریک طالبان پاکستان کے نام سے 2007ء میں جو تنظیم وجود میں آئی وہ ان گروپوں کا مجموعہ تھی اور ہے جو 1979ء کے بعد سے افغانستان اور کشمیر میں جہاد کے نام سے وجود میں آئیں تھیں اور جن کو کشمیر ،فاٹا اور افغناستان کے اندر قائم تربیتی کیمپوں میں مسلح تربیت دی گئی اور ساتھ ساتھ ان کے ذھنوں میں تکفیری آئیڈیالوجی کا ذھر بھی انڈیل دیا گیا-دیوبندی اور وھابی مکاتب فکر نوجوانوں میں جہاد کے نام پر جس نفرت کو پروان چڑھایا گیا اس بارے جہادی صحافت ایک لفظ بھی لکھنے کو تیار نہیں ہے-
یہ جہادی صحافت 80ء کے عشرے میں اپنے محبوب ترین آمر حکمران ضیاء الحق کی قیادت میں اس وقت امریکی ریگن انتظامیہ کے ساتھ ملکر مڈل ایسٹ،مشرق بعید،جنوبی ایشیا اور افریقہ سے جہاد کے نام پر لوگوں کی بھرتی اور ان کو پاکستان کے قبائلی علاقوں میں قائم آئی ایس آئی اور سی آئی اے کی نگرانی میں چلنے والے تربیتی سنٹر میں لانے اور یہاں ان کو منظم دھشت گردی کی تربیت دینے اور ساتھ ساتھ اپنے معاملات میں خود مختار ہونے کے لیے منشیات اور اسلحے کی سپلائی چین قائم کرنے اور ان میں ڈالر،ریال،پاؤنڈ کی تقسیم کا باقاعدہ انتظام کرنے اور پاکستان بھر میں سعودیہ عرب،یو اے ای،کویت،بحرین اور اردن کی امداد سے جہادی مدرسے اور تنظیموں کی تعمیر کی کہانی بیان کرنے سے شرماتی ہے-اور سویت یونین توڑنے کا کارنامہ اور روس کے افغانستان سے چلے جانے کا کریڈٹ صرف اور صرف اپنے مجاہدین اور ان کی تنظیموں کو دینا چاہتی ہے اس میں جو کردار امریکہ اور اس کے مغربی اتحادیوں اور گلف ریاستوں،پاکستان کی ملٹری اسٹبلشمنٹ کا تھا اس کے زکر سے شرماتی ہیں-کیونکہ اس سے “بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی “کا نظریہ غلط ثابت ہوجاتا ہے-
ڈائریکٹر سی آئی آے ولیم کیسی کا افغان تربیتی کیمپ کا دورہ-اکتوبر 1980ء
http://chagataikhan.blogspot.com/2008/11/ronald-reagan-william-case-and-jihad.h
جہادی صحافت کے جہادی قلم کار دستے جذباتیت کی ایک گھمبیر فضاء پیدا کرکے اس مسلح بغاوت کے اندر پائے جانے والے تکفیری نظریات کے بیج اور ان کی کاشت سے ملنے والی تکفیری کوڑھ کی فصل کو عوام کی نظروں سے سستی جذباتیت کی فضاء پیدا کرکے اوجھل کرنا چاہتی ہے-اسی لیے عالمی جہادی آئیڈیالوجی اور سلفی خارجیت سے طالبانی تحریک کے رشتوں کو دھندلانے کی کوشش میں اردو اخبارات کے صفحات کے صفحات کالے کردئے جاتے ہیں-سارا زور اس بات پر لگایا جارہا ہے کہ تحریک طالبان پاکستان (جوکہ لشکر جھنگوی اور پنجابی طالبان سمیت 30 ایسی دھشت گرد تنطیموں کا نیٹ ورک ہے جو سب کی سب شیعہ کے قتل کو واجب خیال کرتی ہیں)کہ یہ تحریک تو بس ایسے نوجوانوں پر مشتمل ہے جن کی اکثریت لال مسجد کے واقعے سے پہلے امن پسند تھی اور لال مسجد آپریشن نے ان کو جنگجو بنا ڈالا-یا اس کو ایسے نوجوانوں پر مشتمل بتایا جاتا ہے جو افغانستان میں امریکی قبضے کے بعد امریکہ کے خلاف جہاد کے لیے ہتھیار اٹھانے پر مجبور ہوئے-لیکن اس تنظیم کے شیعہ ،بریلوی،احمدی،ہندؤ اور عیسائی مخالف اقدامات اور نظریات بارے کوئی توجیح جہادی صحافت کے پاس نہیں ہے اور نہ ہی 50000 ہزار پاکستانی شہریوں کے ان کے ہاتھوں مارے جانے کی کوئی تاویل ان کے پاس ہے-ہاں ایک جواب ہے کہ یہ سب کاروائیاں بلیک واٹر اور دیگر غیر ملکی طاقتوں کے اشارے پر ہوئی ہیں اور اس کا ٹی ٹی پی سے کوئی تعلق نہیں ہے-جبکہ پاکستان میں جو بھی دھشت گردی کا بڑا واقعہ ہوا اس کی زمہ داری یا تو تحریک طالبان نے قبول کی یا پھر کسی اور جہادی تنظیم نے-چرچ پر حملہ بقول شاہد اللہ شاہد حفصہ بریگیڈ نے کیا جو ان سے الگ ہے مگر وہ جائز حملہ تھا”
آئی ایس آئی کے حمید گل ،آئی ایس آئی کے کرنل اور سی آئی کے اہلکار مشترکہ تربیتی کیمپ کا معائنہ کررہے ہیں
پاکستان کی اکثر عوام اپنے خیالات یا تو اخبارات پڑھکر بناتی ہے یا پھر وہ ٹی وی چینلز پر ٹاک شوز کو دیکھکر اپنے خیالات کو مرتب کرتی ہے-پھر عوام کی ایک پرت وہ ہے جو مساجد میں خطبات جمعہ اور اہم مواقع پر ہونے والے مذھبی جلسے کے مقررین کی تقریروں سے اپنے خیالات کو تشکیل دیتی ہے-اور اس کا میڈیم اردو ہے-اس میڈیم کے زریعے زیادہ تر اس تک جو خیالات پہنچ رہے ہیں وہ جہادی +تکفیری قلم کاروں اور صداکاروں کے ہیں-اس سے ان میں انتہا پسندی اور دھشت گردوں سے ہمدردی کے جذبات بہت تیزی سے پھیل رہے ہیں-جبکہ جہادی صحافت ان کو یہ باور کرانے میں بھی مصروف ہے کہ اس ملک میں جتنے لبرل،سیکولر اور ترقی پسند موجود ہیں یہ اسلام کے دشمن اور امریکی ایجنٹ ہیں-اس ملک کے شیعہ،احمدی،ہندؤ اور عیسائیوں کی حب الوطنی کا کوئی اعتبار نہیں ہے-
http://www.washingtonsblog.com/2012/09/sleeping-with-the-devil-how-u-s-and-saudi-backing-of-al-qaeda-led-to-911.html
ضرورت اس امر کی ہے کہ اردو میڈیم میں “جہادی صحافت”اور نسیم حجازی فیم لکھاریوں کی تباہ کاریوں سے عام آدمی کو بچانے کے لیے اعتدال پسند،روشن خیال ،سیکولر ،لبرل صحافت کے رجحانات کو ترقی اور فروغ دیا جائے-
اس سلسلے میں سوشل نیٹ ورک کی سائیٹس نے خاص طور پر کام کیا ہے-ڈان اردو ڈاٹ کام ،بی بی سی اردو،تعمیر پاکستان ،لالٹین ،روشنی(جس کو پی ٹی اے نے بند کردیا)جیسی سائٹس اور فیس بک پر ارتقائے فہم ودانش پیج جیسے پیجز کا اہم کردار ہے-ایکسپریس نے بھی کچھ روشن خیال آوازوں کو اپنے ادارتی پیج پر جگہ دی ہے-جبکہ جنگ کے اندر وجاہت مسعود اور سیاسر پیرزادہ کی تحریریں اگرچہ غیر نمایاں کرکے شایع کی جاتی ہیں (اس کے مقابلے میں انصار عباسی ،شاہین صہبائی،حامد میر ،سلیم صافی اور دیگر جہادی صحافی بڑے طمطراق اور طنطے سے شایع ہوتے ہیں اور جیو پر ان کا وجود غالب بھی ہے)لیکن یہ حوصلہ افزاء ہے-
جہادی صحافت صرف اردو اخبارات اور الیکٹرانک میڈیا پر ہی نہیں غالب بلکہ پاکستان میں کام کرنے والی معروف خبررساں ایجنیسوں میں بھی ان کا اثر بہت غالب ہے-ان پر پاکستان کی ملٹری اسٹبلشمنٹ کے نقش بہت گہرے ہیں-یہ نیوز ایجنسیاں جہادی تکفیری افراد اور گروہوں کی پوجیکشن اور انڈیا مخالف یا امریکہ مخالف پروپیگنڈا کرنے کا بھی موثر زریعہ ہیں-ان سے لی جانے والی خبریں پلانٹڈ ہوتی ہیں اور ٹیبل نیوز سٹوریز گھڑنے میں ان کا اہم کردار ہے-آن لائن،آئی این پی،این این آغی ،ثناء نیوز ایجنسی کی جانب سے چلنے والی اکثر خبروں کا تعاقب میرے خیالات کی تصدیق کرنے کے لیے کافی ہوگا-
جہادی صحافت کی رسائی پاکستان کے گلیوں،محلوں،چائے کے ہوٹلوں ،تھڑوں اور چوکوں و چوراہوں تک ہے-جبکہ روشن خیال صحافت اور روشن خیال افکار سے مزین مضامین و کالم اب تک زیادہ تر سوشل نیٹ ورک سائٹس تک محدود ہیں-جو روشن خیال ٹی وی ٹاک شوز تک چلے جاتے ہیں ان کو وہاں جارح،بد دیانت اور بے ایمان قسم کے اینکرز اور ان سے ملے ہوئے جہادی تجزیہ نگاروں کا سامنا کرنا پڑتا ہے-صورت حال وہ بنتی ہے جو حال ہی میں پرویز ھود بھائی کے ساتھ بنی-اس سے قبل عائشہ صدیقہ،ماروی سرمد،حسین حقانی ،فرح اصفہانی کے ساتھ بنی تھی-
یہاں تو یہ بھی ہے کہ اگر کوئی سائٹ بہت تیزی سے نوجوانوں کو اپنی جانب راغب کرالے اور وہ جہادی صحافت کو ٹف ٹائم دینے لگے تو اس کے خلاف فیک لبرلز کو میدان میں اتار دیا جاتا ہے-اور جو لوگ اپنی جان کے خطرے سے اپنی شناخت چھپاکر لکھ رہے ہوتے ہیں ان کی شناخت ظاہر کردی جاتی ہے جیسا کہ ایل یو بی پاک ڈاٹ کام کے ساتھ ہوا اور اس کے سابق چیف ایڈیٹر عبداللہ نیشاپوری کی اصل شناخت تک ظاہر کردی گئی اور پھر جب اس سائٹ نے فیک لبرلز کے دھشت گردوں کے ساتھ رابطے اور آئی ایس آئی کے ساتھ رشتے ناطوں کا پول کھولا تو بھی ان کو دھمکی دی گئی کہ ان کے کوائف لشکر جھنگوی کو دے دئے جائیں گے-
میرے گھر کے سامنے فائرنگ کی گئی اور مجھے آئی ایس آئی کے مبینہ افسران نے دھمکیاں دیں-جماعۃ الدعوۃ کی جانب سے دھمکیاں دی گئیں اور اب جب انصار عباسی اور اوریا جان جیسے ابو جہل اور کذاب اکبروں کے جھوٹ کا پول کھولا تو مجھے قتل کرنے تک کی دھمکیاں فون پر دی گئیں اور میرا وہ ای میل ایڈریس جوکہ میرے روزنامہ خبریں میں شایع ہونے والے کالم میں شایع ہوتا ہے اس پر غلیظ زبان کے ساتھ میلز کی گئیں اور دھمکیاں دی گئیں-
پاکستان میں جہادی صحافت اور اس کے حامی فاشزم کے سارے ہتھیاروں سے لیس ہیں-وہ جھوٹ بولنے،گھڑنے اور بہتان لگانے اور پھر اپنی گھڑی ہوئی کہانی کو پھیلانے میں ہٹلر کے ساتھی گوئبلز کو بھی شرمادیتے ہیں-اور اگر پھر بھی ان کا تختہ مشق بننے والا قابو میں نہ آئے تو وہ اس کی زندگی کا پتّہ کاٹنے والے آخری حربے کا استعمال کرنے سے بھی نہیں چوکتے-اور آخری حربہ یہ ہے کہ اپنے ہدف کو گستاخ رسول/اصحاب رسول یا توھین قران و سنت کا مرتکب ثابت کردیا جائے-پھر بھلا کون بدبخت ہوگا جو گستاخ کو قتل کرکے جنت میں جام کوثر پینا نہیں چاہے گا-
Comments
Tags: Commercial Liberals & Fake Liberals, General Zia-ul-Haq, ISI, Jihadi and Jihadi Camps, Pakistan Army’s Support to Deobandi ASWJ & Taliban & other militants
Latest Comments
ALLAH SAY DUA HE KAR SAKTAY HAIN IN HALAAT MAY YA TU IN LOGO KO NAIK HIDYAT DAY AUR AGAR ISS QABIL NAHI HAIN TU INHAY NAIST O NABOD KAR
its show the real face and the past of our corrupt media!thumbs up!i salute ur struggle !
I am speechless, I thank you so much for publishing this eye opening article.