خصوصی رپورٹ: طالبان سے مذاکرات، پنجاب حکومت بے نقاب ہوگئی

طالبان سے مذاکرات ،پنجاب حکومت بے نقاب ہوگئی

پنجاب احمدیوں کے لیے سعودیہ عرب بن گیا

اگلا مرحلہ اسے شیعہ اور بریلوی کے لیے سعودیہ عرب بنانا ہے

خصوصی رپورٹ

طالبان سے مذاکرات کے حوالے سے پاکستان کی ریاست کے مختلف اداروں اور ان میں بیٹھے طاقت ور گروپوں کی جانب سے کھینچا تانی کا عمل جاری ہے-

تازہ ترین پیش رفت یہ ہے کہ پاکستان آرمی کی ہائی کمان نے اتفاق رائے سے مرکزی حکومت کو یہ پیغام ارسال کیا ہے کہ وہ طالبان سے مذاکرات کا دائرہ صرف اور صرف جنوبی اور شمالی وزیرستان کے طالبان تک محدود رکھے-مذاکرات جنوبی وزیرستان اور شمالی وزیرستان میں حکیم اللہ محسود اور گل بہادر اور عصمت اللہ معاویہ سے کئے جائیں-جبکہ باجوڑ،کرم،خیبر،مہمند اور مالاکنڈ ایجنسیوں میں کسی بھی گروپ سے مزاکرات نہیں ہوں گے-فوج کی ہائی کمان نے خاص طور پر مولوی فضل اللہ،عبدالولی ،منگل باغ اور قاری ضیاء الرحمان کا نام ذکر کیا ہے-

جبکہ مرکزی حکومت کی جانب سے فوج اور آئی ایس آئی کی ہائی کمان کو ایک درخواست ارسال کی گئی ہے کہ وہ افغان طالبان اور حقانی نیٹ ورک پر اپنے اثررسوخ کا استعمال کرتے ہوئے ان کو آمادہ کرے کہ وہ تحریک طالبان پاکستان اور اس کے زیر اثر کام کرنے والے گروہوں حکومت سے نرم شرائط پر مذاکرات پر آمادہ کرے-

مسلم لیگ نواز کی جانب سے پنجاب حکومت چلانے والے شہباز شریف اور صوبائی وزیر قانون رانا ثناءاللہ کو یہ ٹاسک ملا ہے کہ وہ اپنے روابط سے طالبان سے مذاکرات کی راہ ہموار کریں-

باوثوق زرایع سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق صوبائی وزیر قانون راناء ثناء اللہ اس سلسلے میں متحرک ہوگئے ہیں-انہوں نے اس حوالے سے اپنے پرانے واسطے مولانا زاہدالقاسمی جنرل سیکرٹری پاکستان علماء کونسل (یہ سپاہ صحابہ پاکستان کے بانی رکن اور سابق چئیرمین مولوی ضیاءالقاسمی کے بیٹے ہیں)کو یہ ٹاسک سونپا ہے-جبکہ دوسری طرف انہوں نے ملک اسحاق کے بیٹے قاری عثمان ،ان کے معتمد خاص قاری سعید بھکر والے اور دیگر دو ایک رہنماؤں کو پنجابی طالبان کے امیر عصمت اللہ معاویہ اور لشکر جھنگوی کے عسکریت پسندوں سے روابط کا فریضہ سونپا ہے-

links with taliban

قاری زاہد محمود قاسمی معتمد خاص رانا ثناءاللہ

اہل سنت والجماعت پاکستان دیوبندی جوکہ کالعدم سپاہ صحابہ پاکستان کا دوسرا نام ہے کے قریبی حلقوں میں یا خبریں عام ہیں کہ مسلم لیگ نواز کی مرکزی اور صوبائی حکومتوں کی جانب سے یہ یقین دھانی کرائی گئی ہے کہ ان کی جانب سے تحریک طالبان پاکستان کے سربراہ حکیم اللہ محسود کو مذاکرات کی میز پر لانے اور شرائط نرم کرنے کے صلے میں ان کے دیرنیہ مطالبات پر غور کیا جائے گا-

معلوم ہوا ہے کہ مرکزی حکومت نے وفاق المدارس کی قیادت سے رابطہ کیا ہے-مولانا سلیم اللہ خان اور مفتی نعیم و مولانا تقی عثمانی کو اس مقصد کے لیے آمادہ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے-

اہل سنت والجماعت دیوبندی کی جانب سے مطالبات کی ایک فہرست بھی پنجاب حکومت کو ارسال کی گئی ہے-ان مطالبات میں کیا کچھ شامل ہے اس بارے باوجود کوشش کہ “تعمیر پاکستان”کو زیادہ تفصیلات موصول نہ ہوسکیں مگر پنجاب کے محکمہ داخلہ کے ایک اہل کار نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر اتنا راز افشاء کیا ہے کہ اہل سنت والجماعت نے اس فہرست میں ایک شیٹ حکومتی اداروں میں فائز شیعہ اور احمدی افسران کی لف کی ہے جن کو ان کے عہدے سے ہٹانے کا فی الفور مطالبہ کرنے کے ساتھ جیلوں میں یا گھروں میں نظر بند کالعدم سپاہ صحابہ کے کارکنوں کو رہا کرنے،شیعہ کے مذھبی جلوس اور مجالس کی باہر انعقاد کے طریقے کو ختم کرنے جیسے مطالبات بھی شامل ہیں-تبلیغی جماعت کے مولانا طارق جمیل اور جماعۃ دعوۃ کے حافظ پروفیسر سعید سے بھی اپنا اثر و رسوخ استعمال کرنے کو کہا گیا ہے-

ایک اعلی فوجی افسر نے تعمیر پاکستان کو بتایا کہ اب تک حکومت کی جانب سے طالبان سے مذاکرات کے لیے  جتنے بھی روابط ہوئے ہیں ان روابط کے دوران جو بات چیت ممکن ہوسکی اس میں ایران سے شیعہ مذھب کی درآمد،توھین آمیز مبینہ لٹریچر کی آمد روکنے اور شیعہ کی عاشور اور دیگر ایام میں عزاداری اور مجالس کا کھلے عام چوراہوں اور بازاروں میں انعقاد روکنے اور شیعہ خطیبوں کو کھلے عام اپنے مذھب بارے بات کرنے سے روکنے جیسے مطالبات کو سرفہرست رکھا گیا ہے-اس کے ساتھ ساتھ فورتھ شیڈول میں شامل اور نظر بند سپاہ صحابہ پاکستان کے کارکنوں کو نقل و حمل کی آزادی دینے کے مطالبے بھی سرفہرست ہیں-

یاد رہے کہ تحریک طالبان پاکستان کے امیر حکیم اللہ محسود ،پنجابی طالبان کے امیر عصمت اللہ معاویہ اور تحریک کے ترجمان شاہد اللہ شاہد کے بیانات اور انٹرویوز کی روشنی میں بھی یہ امر کھل کر سامنے آیا تھا کہ طالبان چاہتے ہیں کہ حکومت شریعت کے نفاذ کے لیے ٹھوس قدم اٹھائے اور شریعت کے نفاذ میں شیعہ،بریلوی،احمدی،ہندؤ اور کرسچن کی مذھبی سرگرمیوں کو چاردیواری کے اندر کرنے کا ضابطہ بھی شامل ہے اور اس میں سیکولر لبرل سرگرمیاں میوزک،آرٹ اور کھیلوں پر قدغنیں بھی شامل ہیں-

“تعمیر پاکستان “سے بات چیت کرتے ہوئے مکین میں رہائش پذیر ایک محسود قبائلی بزرگ کا کہنا تھا کہ تحریک طالبان سمیت وزیرستان کا کوئی بھی جہادی گروپ “ناموس صحابہ اور تحفظ حرمت خلفاء راشدین”پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرے گا-اس حوالے سے کوئی رعائت دینا حکیم اللہ محسود سمیت کسی بھی جہادی امیر کے لیے ممکن نہیں ہے-طالبان کے اوپر القائدہ،لشکر جھنگوی اور دیگر تکفیری دیوبندی اور سلفی وہابی عسکری گروپوں کا سخت دباؤ ہے کہ وہ پاکستان میں شیعہ کمیونٹی کی سرگرمیوں کو محدود کرنے اور ریاست کے ایران کے ساتھ تعلقات اور ایران کے خانہ ہائے فرھنگ کو ختم کرانے کی بھرپور کوشش کریں-

انٹیلی جنس اداروں کے پاس ایسی رپورٹس بھی موجود ہیں جن کے مطابق شمالی وزیرستان کے اندر ایران کے صوبے بلوچستان-سیستان سے تعلق رکھنے والے سلفی دیوبندی تکفیری مجاہدوں کو تربیت دینے کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے-اس سلسلے میں ان کا الگ نظم بھی قائم ہوگیا ہے-یہ نظم پنجابی طالبان کی طرح الگ سے قائم کیا گیا ہے-اور اس نظم میں القائدہ،لشکر جھنگوی،لشکر طیبہ سے منحرف الیاس کشمیری گروپ،جیش محمد جو اب غلبہ اسلام تحریک کے نام سے پنجاب میں سرگرم ہے سے تعلق رکھنے والے عسکریت پسند شامل ہوئے ہیں-ایک انٹیلی جنس اہلکار جوکہ تفتان-چمن باڈر پر ڈیوٹی سنبھالے ہوئے کا کہنا تھا کہ ان کے پاس ایسی اطلاعات موجود ہیں کہ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایران کے صوبے بلوچستان-سیستان میں ایسے ہی جہاد شروع کرنے کا پروگرام ہے جیسے شام کے اندر ہورہا ہے-اور اس حوالے سے اس صوبے میں داخلے کے لیے پاکستان کی سرحد کو استعمال کرنے کا ارادہ ہے-حال ہی میں ایرانی سرحدی گارڑز پر العدل نامی گروپ کی جانب سے حملہ بھی اسی سلسلے کی کڑی نظر آتا ہے-

“گلوبل جہاد”پر نظر رکھنے والے ایک تجزیہ نگار کا کہنا ہے کہ 2014ء میں خطے سے امریکی فوج کے انخلاء کے بعد پاکستان کے اندر سرگرم جہادی تنظیموں کا فوکس پاکستان اور ایران ہوں گے-اور ان دونوں ملکوں میں شیعہ کمیونٹی سب سے زیادہ نشانے پر ہوگی-پاکستان کی ملٹری اسٹبلشمنٹ اور موجودہ حکومت 2014ء کے آنے سے پہلے پہلے پاکستان کے اندر کام کرنے والی ان جہادی تنظیموں کو رام کرنے کی سرتوڑ کوشش کررہی ہیں جو ان سے منحرف ہوچکی ہیں اور پاکستان کی ملٹری اسٹبلشمنٹ ان تر اپنا کنٹرول کھوبیٹھی ہیں-اور ان میں سب سے بڑا ہدف حکیم اللہ محسود ہیں جن کے کنٹرول والے علاقے میں پاکستان کی مذھبی برادریوں یعنی شیعہ،بریلوی،احمدی،ہندؤ اور عیسائی کو نشانہ بنانے والے دھشت گرد گروپوں کے اڈے موجود ہیں-اور ان کو حکیم اللہ محسود کی مدد اور تعاون حاصل ہے-ان گروپوں نے حال ہی میں اس وقت آرمی،شیعہ،کرسچن اور احمدی برادری کے لوگوں کو نشانہ بنایا جب پاکستان کی حکومت اور تحریک طالبان کے درمیان مذاکرات کی بات ہورہی تھی-اگرچہ حکیم اللہ محسود اور ان کے ترجمان شاہد اللہ شاہد کی جانب سے ان حملوں میں ملوث ہونے کی تردید کی گئی لیکن جن گروپوں نے یہ زمہ داری قبول کی ان کی مذمت کرنے یا ان کو اپنے کنٹرول والے علاقے سے نکالنے سے بھی انکار کردیا گیا-

“تعمیر پاکستان”کو ملنے والی اطلاعات کے مطابق پنجاب حکومت نے اپنے طور پر ایسے اقدامات اٹھانے کا سلسلہ شروع کردیا ہے جس سے تکفیری دیوبندی اور سلفی گروپوں کے مطالبات کی تسلی کا شائبہ ابھرتا ہے-اس وقت پورے پنجاب کے اندر فورتھ شیڈول کے تحت آنے والے سپاہ صحابہ،جیش محمد،حرکۃ الجہاد الاسلامی،لشکر جھنگوی اور لشکر طیبہ سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو نقل و حمل کی مکمل آزادی حاصل ہوچکی ہے-علاقہ پولیس ان کے بارے میں کوئی قدم اٹھانے سے قاصر ہے-جبکہ یہ عناصر نئے ناموں کے ساتھ آزادی سے کام کررہے ہیں-

ہوم ڈیپارٹمنٹ پنجاب سے تمام اضلاع کے ڈسٹرکٹ پولیس افسران کو یہ ہدایات جاری ہوئی ہیں کہ وہ اہل سنت والجماعت کی تقریبات،کانفرنسز اور ان کے جلسوں اور جلوسوں میں کوئی روکاوٹ نہ ڈالیں-جبکہ دوسرے شہروں سے آنے والے تکفیری خیالات کے مذھبی رہنماؤں کی آمد و رفت اور خطابات کا سلسلہ بھی کسی روکاوٹ کے بنا جاری  ساری ہے-

تعمیر پاکستان کو انٹیلی جینس بیورو اور سپیشل برانچ و سیکورٹی برانچ کے مختلف آضلاع سے ارسال کی جانے والی ایسی باقاعدہ رپورٹس بارے علم ہوا ہے جن میں کالعدم سپاہ صحابہ اور لشکر طیبہ و لشکر جھنگوی کے لوگوں کی پنجاب کے اضلاع میں آزادانہ آمد و رفت اور فرقہ وارانہ سرگرمیوں کا تفصیل سے زکر ہوا ہے-ان اداروں کے اہلکاروں کا کہنا تھا کہ وہ قانون نافذ کرنے والے ادارے نہیں ہیں-ان کا کام انفارمیشن اور انٹیلی جنس رپورٹس اکٹھی کرنا ہیں-ان کی روشنی میں کاروائی تو وفاقی اور صوبائی قانون نافذ کرنے والے اداروں نے کرنی ہے-آئی بی کے ایک عہدے دار کا کہنا تھا کہ پنجاب حکومت کی جانب سے جماعۃ دعوۃ اور دیوبندی مسلک سے تعلق رکھنے والی انتہا پسند جہادی تنظیموں کو کنٹرول کرنے کا کوئی ارادہ دکھائی نہیں دیتا ہے-

آئی بی کی مرتب کردہ ایک رپورٹ میں یہ انکشاف بھی کیا گیا ہے کہ پنجاب کے سرگودھا،ملتان،ڈیرہ غازی خان،بہاول پور ڈیویژنوں میں کالعدم سپاہ صحابہ،لشکر جھنگوی ،جیش محمد(غلبہ اسلام تحریک)کے زیر اثر مدارس اور مساجد میں اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے-ان مدارس و مساجد کے لیے جمع ہونے والی رقوم بارے یہ رپورٹ یہ بھی بتاتی ہے کہ اس میں کالا دھن اور بیرون ملک سے آنے والی رقوم کا بہت بڑا ہاتھ ہے-اور دیوبندی انتہا پسند نظریات سے دیوبندی مدارس میں زیر تعلیم طلباء میں مقبولیت اور وہاں کی انتظامیہ پر بڑھنے والے دباؤ کا زکر بھی کیا گیا ہے-اس رپورٹ میں ان تنظیموں کی جانب سے بریلوی مسلک کی مساجد پر قبضے اور اس دوران مقامی انتظامیہ کی جانب سے جانب داری سے کام لینے کا زکر بھی کیا گیا ہے-

پنجاب حکومت کی جانب سے اضلاع میں ڈسٹرکٹ پولیس افسران کی تعیناتیوں میں صوبآئی وزیر قانون رانا ثناء اللہ کے حمائت یافتہ افسران کو ترجیح دیے جانے پر بھی خاصی چہ مگوئیاں ہورہی ہیں-اور ان کی اشیر باد لئے ہوئے افسران اضلاع کے ڈی سی اوز کو بی خاطر میں نہیں لارہے ہیں-جبکہ ریجنل پولیس افسران اور آئی جی ملتان،بہاول پور اور ڈی جی خان کی تعیناتی پر بھی خاصے تحفظات کا آظہار ہورہا ہے-

پنجاب حکومت کی جانب سے کالعدم تنظیموں کے ساتھ خیر سگالی کی مہم جاری و ساری ہے جس کی بازگشت دورہ امریکہ کے دوران اوبامہ-نواز ملاقات کے دوران بھی سنی گئی جب نواز شریف کو پنجاب کے اندر کالعدم تنظیموں اور خاص طور پر سپاہ صحابہ پاکستان،لشکر طیبہ اور جماعۃ دعوۃ کی آزادانہ سرگرمیوں بارے بتایا گیا اور ان کو کہا گیا کہ ان کی حکومت کی رٹ تو پنجاب کے اکثر اربن علاقوں اور مضافاتی شہروں میں نظر نہیں آرہی ہے-

سیاسی تجزیہ نگار پنجاب کے اندر مسلم لیگ نواز کی روش پر قدرے حیرانی کا شکار بھی ہیں-ان تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ میاں محمد نواز شریف اور شہباز شریف 85ء سے 99ء تک بریلوی مکتبہ فکر کے علماء کی پنجاب میں حمائت کو اپنے لیے اہم قرار دیتے رہے ہیں-اس سلسلے میں ان کے مولانا سرفراز نعیمی،مولانا سرور قادری،مولانا ستار نیازی،صاحبزادہ فضل کریم اور سید ریاض حسین شاہ،پیر کرم شاہ اور شرق پور کے پیر گھرانوں سے تعلقات بہت مثالی رہے-اور ان شخصیات کے گروپوں پر نواز شریف و شہباز شریف کی نوازشات بھی رہیں-لیکن جب میاں محمد نواز شریف اور شہباز شریف جلاوطنی سے واپس آئے تو ان کے تعلقات پنجاب میں اہل سنت بریلوی کے اندر اپنے اتحادیوں سے سرد ہونا شروع ہوگئے-مولانا سرفراز نعیمی کا قتل اور داتا دربار پر حملے پر پنجاب حکومت کے رسپانس نے ان کے بریلوی اتحادیوں کو مایوس کیا-جبکہ عید میلاد النبی کے موقعہ پر پنجاب کے کئی شہروں اور علاقوں میں سپاہ صحابہ پاکستان اور دیوبندی دھشت گرد تنظیموں کے جلوسوں پر حملے کی بعد مقامی انتظامیہ کا جانبدار رویہ بھی ان کے اتحادیوں میں غصہ پیدا کرگیا-ان سے صاحبزادہ فضل کریم کی دوریاں بڑھنے کا سبب راناء ثناء اللہ کے کالعدم تنظیوں سے رابطے اور سرپرستی تھی-موجودہ دور میں تو شہباز شریف کے بریلوی سیاسی گروہوں سے رابطے اور سردمہری کا شکار ہوگئے ہیں-جبکہ ان کے ساتھ ںظر آنے والے بہت سے بریلوی علماء اب ان کے خلاف سرگرم عمل ہیں-

سنّی اتحاد کونسل،جماعت اہل سنت پاکستان کی طرف سے پنجاب حکومت کی خوارج نواز پالسیوں پر سخت تنقید جاری ہے-اور پنجاب حکومت سے اہل تشیع کی ناراضگی کا ایک کھلا اظہار مجلس وحدت المسلمین کی جانب سے عظمت ولائت کانفرنس کراچی میں اس تنظیم کی وکزی قیادت نے اپنے خطاب میں کیا ہے-

طالبان سے مذاکرات بارے مرکزی حکومت اور پنجاب حکومت نے شیعہ اور بریلوی مکاتب فکر کو اعتماد لینے کا کوئی فیصلہ تاحال نہیں کیا ہے-

جہادی پراکسی حکمت عملی پر نظر رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ افغان وار،جہاد کشمیر کے دوران ملٹری اسٹبلشمنٹ کی پالسیوں کی وجہ سے یہ پراکسی تکفیری اور فرقہ وارانہ رنگ اختیار کرگئی تھیں اور اس کے سب سے برے اثرات سواد اعظم اہل سنت بریلوی اور شیعہ مسالک سے تعلق رکھنے والے عوام پر مرتب ہوئے جن کو بندوق ،کالا دھن اور سعودی امداد کے بل پر اقلیت میں بدلنے کی کوشش ہورہی ہے-پنجاب حکومت کی موجودہ روش اور مرکزی حکومت کی اس پر خاموشی سے یہ تاثر جنم لے رہا ہے کہ میاں محمد نواز شریف اور ان کے بھائی شہباز شریف تکفیری دھشت گردوں کے ساتھ معاہدہ امن اس ملک کے دو بڑے مسالک اہل سنت بریلوی اور شیعہ کی قیمت پر کرنا چاہتے ہیں-جبکہ ریاست کی جانب سے احمدی،ہندؤ اور کرسچن کی مذھبی آزادیاں پہلے ہی قریب قریب سلب کی جاچکی ہیں-

شہباز شریف کی قیادت میں پنجاب حکومت پنجاب کو سعودیہ عرب بنانا چاہتی ہے جہاں وہابیت کے سواء کسی اور مذھبی مسلک کو مذھبی آزادی حاصل نہیں ہے-شیعہ،بریلوی کے لیے پنجاب دوسرا سعودیہ عرب بن سکتا ہے جبکہ یہ احمدیوں کے لیے پہلے ہی سعودیہ عرب بن چکا ہے-

(یہ رپورٹ “تعمیر پاکستان نیوز”کے انوسٹی گیشن سیل نے تیار کی ہے)

Comments

comments

Latest Comments
  1. Akmal Zaidi
    -
  2. Salman Gardezi
    -
  3. Kazam Hussain
    -
  4. Safdar Bajwa
    -