عید غدیر اور میرا جنم دن

میرا جنم دن ہر سال 24 اکتوبر کو آتا ہے اور میں اس دن کو بس بہت سادگی سے منا لیتا ہوں-اس مرتبہ یہ دن جب قریب آیا تو میری شریک حیات نے مجھے بتایا کہ اس مرتبہ ان کا دو عیدیں ایک ساتھ منانے کا ارادہ ہے-میں حیران ہوگیا کہ دو عیدیں کون سی؟کہنے لگیں کہ ایک تو عید کبیر ہے اور وہ اجتماع غدیر خم میں مولائے کائنات کی ولائت کا اعلان کئے جانے کی خوشی میں اور دوسری عید صغیر بنسبت غدیر کے آپ کے اس دنیا میں تشریف لانے کی-

میری شریک حیات نے مجھے تھوڑی دیر قبل دو عدد تحفے دئے ہیں-ایک تحفہ ان کی جانب سے “دیوان علی “کا ہے جس کی جلد بہت دبیز ہے اور کاغذ بہت نفیس ہے-یہ تحفہ عید غدیر کی خوشی میں ہے-اور جبکہ دوسرا تحفہ ایک انٹیک ٹیبل لیمپ کا ہے جس کی روشنی میں اس وقت میں اپنے مضمون کو پھر سے ترتیب دے رہا ہوں-

میری والدہ نے مجھے عید غدیر کے موقعہ پر ناد علی اور امام سجاد کی یہ دعا تحفے میں دی ہے

اللھم واجعلنی من اھل التوحید والایمان بک والتصدیق برسولک والآئمۃ الّذین حتمت طاعتھم

وصل علی خیرتک اللھم من خلقک محمد و عترتہ الصفوۃ من بریتک الطاھرین واجعلنالھم سامعین و مطیعین کما امرت

گویا اس مرتبہ 24 اکتوبر کا دن بہت ہی خاص ہوگیا-کہ اس دن عید غدیر بھی آئی اور میرا یوم پیدائش بھی-میرے لیے یہ ایک اعزاز کی بات ہے اور میں اس حسین اتفاق پر بہت خوش بھی ہوں-میرے دوست احباب نے اس موقعہ پر میرے لیے محبت اور نیک خواہشات کا جو اظہار کیا اس پر میں ان سب کا مشکور بھی ہوں-

بلوچستان جہاں سے اب خوشی کی خبریں بہت کم آتی ہیں وہاں سے میرے بھائی عابد میر نے ایک پیغام بھیجا جس میں انہوں نے میری ڈھل چکی جوانی کو ڈھلتی جوانی کے لفظ سے بدل کر میرے ساتھ رعائت عمری کی ہے-میں ان کی اس سخاوت پر ان کا مشکور ہوں-میرے اکثر دوستوں نے مجھے عید غدیر کی مبارک باد دینے کے ساتھ میرے جنم دن کی مبارک باد دی ہے اور میں اجتماعی طور پر ان سب کو بھی عید غدیر کی مبارکباد دیتا ہوں اور اپنی سالگرہ پر ان کے پیغامات محبت پر ان کا شکریہ ادا کرتا ہوں-

میں نے سوچا تھا کہ اس مرتبہ عید غدیر کے دن سے ایسی تحریر کا سلسلہ شروع کروں گا جس کو میں کوشش کرکے یوم عاشور پر جاکر ختم کروں گا-اور جب میں نے یہ ارادہ کرڈالا تو ایک دم سے یہ سوچا کہ اپنی کتاب “علی شناسی”اور “حسینیت عصر حاضر میں”جو کچھ کہہ ڈالا ہے تو کیا اس سے ہٹ کر میں نئے نکات کے ساتھ بارگاہ مرتضوی میں حاضری لگا سکوں گا-بہت اضطراب کا شکار تھا اور میری کئی راتوں کی نیند بھی اسی پریشانی کی نذر ہوگئی-لیکن میں نے ہمت نہ ہاری-اور ایسے ہی پرسوں رات میں اپنے کمرے میں ریک کے اندر لگی کتابوں پر نظر ڈال رہا تھا کہ نہ جانے کس جذبے کے تحت میں نے ابن ابی شیبہ کی “المنصف”کی جلد 12 اٹھا لی اور یونہی درمیان میں سے اس کا ایک ورق کھول لیا-عجب بات ہوئی کہ سامنے حسن بصری کے امام علی کے بارے میں کہا ہوا جملہ سامنے آگیا-

“اراھم السّبیل واقام لھم الدین اذا عوج”

“انہوں(حضرت علی کرم اللہ وجہہ)نے لوگوں کو (سیدھا) راستہ دکھایا-اور جب نظام خراب ہوا تو اس کو ان کے لیے ٹھیک کیا”

ابن ابی شیبہ اگرچہ امام بخاری کے استاد ہیں ویسے ہی جیسے محدث عبدالرازاق تھے مگر ان کی جانب سے حضرت علی کے فضائل و مراتب میں اور ان کی فقہ کے حوالے سے جو کچھ اپنی کتاب میں محفوظ کردیا گیا وہ اسلام کے نظام عدل پر کاری ضرب لگانے والے نام نہاد ناقدین رجال الحدیث کو پسند نہ آیا اور ان پر اپنے تئیں “تشیع”کا الزام عائد کرڈالا-حالانکہ یہ ان کی نظر میں الزام اور ہماری نظر میں اعزاز اور تمغہ ہے جو ابن ابی شیبہ کے حصہ میں آیا-میرے نزدیک صوفیاء کے امام اور عابدوں اور ساجدوں کے امام علی بن حسین بن علی بن ابی طالب کے مدرسہ کے فارغ التحصیل حسن بصری کا یہ جملہ اس تحریر کو شروع کرنے کے لیے بہت مناسب ہے-سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ امام علی کو “السبیل”کی معرفت کیسے ہوئی اور وہ کون سا السبیل تھا جس کی جانب علی نے لوگوں کی رہنمائی کی؟اور وہ کون سا انحراف تھا جس کو ٹھیک کرنے کی سعی امام علی کی جانب سے ہوئی؟

امام علی کے نزدیک “السبیل”وہ راستہ تھا جس پر پیغمبر علیہ السلام ساری عمر چلتے رہے اور ان کا چلنا وحی اللہی کی روشنی میں تھا-اور امام علی اس راستے سے اس لیے کلی طور پر واقف تھے کہ آپ نے قربت رسول میں جتنا وقت گزارا اتنا وقت آپ کے کسی اور رفیق یا کسی اور صحابی کے حصے میں نہیں آیا-اس قربت کا اندازہ نہج البلاغہ کے خطبہ نمبر129 میں حضرت علی کے اس قول سے ہوجاتا ہے کہ

لم یسبقنی الا رسول اللہ بالصلاۃ

رسول اللہ کے سوا کسی نے نماز میں مجھ سے سبقت حاصل نہیں کی

نہج البلاغہ کی شرح لکھنے والے معتزلی غیر امامیہ شعیہ ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ کی جلد13 ص 198 سے لیکر 201 تک علی کرم اللہ وجہہ الکریم کے زمانہ طفولیت میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آپ کی طرف توجہ کرنے اور آپ کی پرورش کرنے سے متعلق اخبار اکٹھی کی ہیں-اور امام علی بن حسین کے صاحبزادے زید بن علی سے روائت ملتی ہے کہ انہوں نے علی بن حسین سے اور انہوں نے حسین علیہ السلام سے اور انہوں نے علی کرم اللہ وجہہ سے روایت کی کہ

 “جب میں ایام طفولیت میں تھا تو محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے منہ سے گوشت اور کجھور نرم کرکے میرے منہ میں رکھا کرتے تھے”

بچپن سے لیکر وفات رسول تک جس قدر قربت اور جس قدر الفت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور علی ابن ابی طالب کے مابین تھی اتنی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کسی اور کے ساتھ نہ تھی-یہی وجہ ہے کہ امام احمد بن حنبل کے مناقب تحریر کرتے ہوئے علامہ ابن جوزی نے “مناقب احمد بن حنبل ” کے ص 160 پر امام احمد بن حنبل کی امام علی کے بارے میں یہ رائے درج کی کہ

جتنے صحیح اور قابل قبول فضائل امام علی کے بارے میں درج ہوئے اتنے کسی اور شخصیت کے بارے میں نہیں ہوئے-یہی بات حنبلی علماء کے حالات بارے لکھی گئی کتاب “طبقات الحنابلہ”کی جلد اول ص 219 پر بھی لکھی گئی-علامہ ابن جوزی نے مناقب احمد بن حنبل ص123 پر یہ شہرہ آفاق جملہ بابت فضیلت علی امام احمد بن حنبل سے نقل کیا

ان ابی طالب لا یقاس بہ احد

بے شک کسی کو بھی علی ابن ابی طالب پر قیاس نہیں کیا جاسکتا

میں ابھی ان جملوں میں پنہاں معانی  و مطالب کی گہرائی میں غوطہ زن تھا کہ میرے موبائل کی ٹون بجنے لگی جوکہ کل ہی میں نے نصرت فتح علی خاں کی پڑھی جانے والی منقبت “من کنت مولاہ”سیٹ کی تھی-میں نے فون کال یس کی تو دوسری طرف میرے دیرینہ دوست اور یار غار محمد یعقوب بول رہے تھے-سلام دعا کے بعد مجھے عید غدیر کی مبارک باد دی اور کہنے لگے کہ

” آج کی مناسبت سے آپ کو بطور تحفہ انساب الاشراف سے ایک واقعہ سنا رہا ہوں-واقعہ کتاب ہذا کی جلد 1 ص 112 پر لکھا ہوا ہےکہ امام علی نے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نماز پڑھتے دیکھا تو ان سے پوچھا

ماہذا؟یہ کیا ہے؟

تو محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا

ہذا دین اللہ یا علی

یہ اللہ کا دین ہے اے علی

پھر ان کو ایمان کی دعوت دی تو علی نے کہا

انظرنی حتی اتفکر فیہ الیلۃ

مجھے رات تک غور وفکر کی مہلت دیں

فانظرہ

انہوں نے مہلت دے دی

ثم اصبح مسلما بعد الرویۃ و الفکرۃ

پھر صبح علی نے غور و فکر کے بعد اسلام قبول کرلیا”

گویا علی نے سبقت ایمان اور سبقت عبادت دونوں کا اعزاز اپنے لڑکپن میں حاصل کرلیا تھا-اور یہی ابتداء تھی ان کی “السبیل “سے آشناء ہونے کی-

ابو سعید خدری سے مروی ہے کہ

لعلی من النبی دخلۃ لیست لاحد۔وکان للنبی من علی دخلۃ لیست لاحد غیرہ فکانت دخلۃ النبی کان یدخل علیھم کل یوم(مصنف عبدالرزاق ج:10،ص 140،انساب الاشراف ج 2،ص 98 ،تاریخ دمشق ج 38۔ص33)

بے شک علی کا بیت پیغمبر میں داخلہ ایسے تھا جیسا کسی کا نہیں تھا-اسی طرح سے پیغمبر کا علی کے ہاں جانا ایسا تھا جیسا کسی اور کے ہاں نہ تھا اور دونوں ہی ایک دوسرے کے ہاں روز ہی آیا جایا کرتے تھے

زید بن ثابت نے ایک مرتبہ کہا کہ

انت من رسول اللہ بالمکان الذی لا یعدلہ

اے (علی)رسول اللہ کے نزدیک جو مقام آپ کا ہے اس کے برابر کوئی نہیں آسکتا

(الفتوح:جلد 2 ص 165)

پھر رسول کریم سے آپ کی قربت کی دلیل یہ ہے کہ دعوت عشیرۃ میں آپ نے اٹھ کر محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعوت پر اثباتی جواب دیا اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپ کو اپنی وصائت عطاء کرنے کی خوشخبری سنائی-

آپ ہی وہ ہستی تھے جن کو ہجرت کے وقت رسول کریم نے اپنے بستر پر سلایا اور لوگوں کی امانتیں ان کو لوٹانے کا فریضہ سونپا-

آپ ہی وہ ہستی تھے جن کو رسول کریم نے میثاق اخوت کے وقت اپنے رشتہ اخوت میں جوڑا-اور آپ ان ہستیوں میں شامل ہیں جن کو زمرہ اہل بیت میں محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شامل کیا اور آیۃ تطہیر کا ایک مصداق آپ کو بھی ٹھہرایا-

میں “السبیل”سے امام علی کی معرفت بارے شواہد تلاش کررہا تھا جس کی ایک اساس رسول اللہ سے آپ کی قربت اور صحبت تھی تو مجھے طبقات الکبری کی ج 8 ص 22 پر ایک روائت ملی جس میں یہ بتایا گیا کہ

جب علی کی شادی فاطمہ سے ہورہی تھی تو محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے علی کو اپنے لیے گھر لینے کو کہا تو آپ نے جو گھر لیا تو وہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گھر سے دور تھا-آپ نے امام علی سے خواہش ظاہر کی کہ وہ آپ کے قریب آکر رہیں-علی نے جب تلاش شروع کی تو بیت النبی کے پاس تو صحابی رسول حارثہ بن نعمان کا گھر تھا-انہوں نے ایثار کا مظاہرہ کیا اور علی اس گھر میں فاطمہ کے ساتھ منتقل ہوگئے-یوں پھر سے رسول کریم نے اپنے گھر سے علی کا گھر متصل کرادیا-اب زرا غور کرلیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم علی سے اپنے گھر کی دوری بھی برداشت نہین کرتے تھے تو کس قدر مواقع تھے علی کرم اللہ وجہہ کو تعلیم و درس لینے کے-امام علی کی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جو قربت اور محبت تھی اس بارے حضرت عمر کے بیٹے صحابی رسول عبداللہ بن عمر کہتے ہیں کہ

جو آدمی نبی کریم کے نزدیک علی کا مقام جاننے کا خواہش مند ہو وہ آپ کے گھر سے علی کے گھر کا مقام دیکھے-

صحیح ترمذی،الاستعیاب ،مصنف عبدالرزاق،مصنف ابن ابی شیبہ،المستدرک،انساب الاشراف،طبقات الکبری سمیت درجنوں کتب میں یہ لکھا ہے کہ رسول اللہ جب خطبہ ارشاد فرماتے تو دور کھڑے لوگوں کو وہ خطبہ دھرا کر سنانے کا کام حضرت علی کا تھا-محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب جلال میں ہوتے تو ان سے بات کرنے کی ہمت علی کیا کرتے تھے-لوگ اپنے مسائل بارگاہ محمدی میں لوگ علی کے وسیلہ سے پہنچایا کرتے تھے-الاستعیاب میں ام المومنین حضرت عائشہ نے روائت کیا ہے

محمد مردوں میں علی کو اور عورتوں میں فاطمہ کو سب سے زیادہ چاہتے تھے-

امام علی کرم اللہ وجہہ الکریم ن خود رسول اللہ کے فیوض و برکات سے مستفید ہونے کا یوں زکر کیا

لانی کنت اذا سالتہ انبانی واذا سکتت ابتدائی

بے شک جب میں سوال کرتا تو رسول اللہ مجھے جواب یتے اور جب میں خاموش ہوجاتا تو رسول اللہ خود گویا ہوتے-

نہج البلاغہ کے خطبے نمبر 208 میں علی نے اپنے مخاطبین کو خبر دی کہ

جب مجھے کسی ایسی بات کا سامنا ہوتا جس سے میں لاعلم ہوتا تو میں پیغمبر سے پوچھ لیا کرتا تھا-اور وہاں سے جو جواب ملتا اسے محفوظ رکھتا تھا-

علی کرم اللہ وجہا کہتے ہیں کہ

میں نے رسول اللہ سے جو سنا حفظ کرلیا اور کبھی اسے نہیں بھولا-

امام علی نے اپنے ایک مکتوب میں درج کیا کہ

وانا من رسول اللہ کالضو من الضو والزراع والعضد

میں اور رسول اللہ ایک ہی درخت سے نکلی ہوئی دو شاخوں اور بازو سے جڑے ہاتھ کی مثل ہیں

علی کہتے تھے کہ

میں رسول اللہ کے پیچھے ایسے چلا کرتا تھا جیسے اونٹنی کا بچہ اپنی ماں کے پیچھے چلتا ہے-

علی کہتے ہیں کہ

انّی لم ارد علی اللہ ولا علی رسولہ ساعۃ قط

میں نے ایک ساعت بھی اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت میں نہیں گزاری

امام علی نے خطبہ قاصعہ میں کہا کہ

خدا کی قسم کوئی آیت یا سورۃ ایسی نہیں ہے جس کے سبب نزول اور مقام نزول سے میں واقف نہ ہوں-

ابن عباس نے کہا کہ

کوئی ایسی سورۃ اللہ نے ایسی نازل نہ کی جس کے امیر وشریف علی کرم اللہ وجہہ نہ ہوں

حضرت ابن عباس کا یہ بھی کہنا تھا کہ

اللہ نے علی کا زکر ہمیشہ احسن انداز میں کیا-اور وہ کبھی عتاب کا مصداق نہ ٹھہرے-

امام احمد بن حنبل نے علی کے بارے میں کہا کہ

ھو قسیم النار والجنۃ

وہ جنت و دوذخ کے قاسم ہیں

کیونکہ ان کے بارے میں قول رسول ہے کہ

لا یحبک الامومن ولا یبغضک الا منافق

سلمان فارسی کہتے تھے کہ

آگر علی لوگوں کے درمیان سے اٹھ گئے تو پھر رموز رسول آشکار کرنے والا کوئی نہیں ہوگا

ابن ابی الحدید نے لکھا کہ

محمد رسول اللہ کی جیسی مدد ابو طالب اور ان کے بیٹوں علی و جعفر نے کی کسی نے نہ کی

اور ایک مرتبہ جب بعض لوگوں نے علی کے بارے لب کشائی کی تو رسول اللہ نے کہا

فان علیا منی وانا منہ وھو ولی کل مومن

بے شک علی مجھ سے ہیں اور میں علی سے ہوں اور علی ہر مومن کے ولی ہیں-

حضرت عائشہ کہا کرتی تھیں

علی اعلم الناس بالسنۃ

علی تمام لوگوں سے زیادہ سنت کے عالم ہیں

معروف تابعی عطاء کہتے تھے کہ

اصحاب رسول میں فقیہ ترین آدمی علی تھے

ان مختصر سے اقوال اور روایات سے یہ ثابت ہوجاتا ہے کہ علی کرم اللہ وجہہ الکریم رسول خدا کے مکتب کے سب سے عالم  اور فاضل شخص تھے-اور بعد از پیغمبر وہ اسلام کے سب سے بڑے عالم تھے-اور اسی لیے ول سبیل اللہ کو بہت اچھی طرح پہچانتے تھے-یہی وجہ ہے کہ جب لوگوں کے سامنے اللہ کا راستہ دھندلانے لگا تو وہ واحد آدمی تھے جنہوں نے اللہ کے راستے کو روشن اور واضح کردیا-اور جب دین میں بگاڑ پیدا ہوا تو وہ اقامت حق کے لیے کھڑے ہوگئے-وہ حضور علیہ السلام کے مکتب میں تحصیل علم سے فراغت پانے والے سب سے کامل آدمی تھے-اور ان کی کاملیت کی دلیل یہ تھی کہ جب رسول کریم حجۃ الوداع سے واپس آرہے تھے تو غدیر خم کے مقام پر ان کو اللہ نے ٹھہر جانے کا حکم صادر کیا اور ان کو کہا کہ وہ رسالت کا ابلاغ کریں تو انہوں نے اصحاب رسول کے مجمع کے سامنے خطبہ دیتے ہوئے یہ اعلان کردیا کہ

“جس کے رسول ولی ہیں اس کے علی بھی ولی ہیں-اور جو علی سے عدوات رکھے گا تو وہ اللہ اور اس کے رسول سے عدوات رکھے”

یہ ولائت علی کی ہر ایک مسلمان پر لازمی تصدیق اس امر کی نشاندھی کررہی تھی کہ رسول اللہ کے بعد اگر مسلمانوں کی ولایت کسی کا حق ہوسکتی ہے تو وہ علی کرم اللہ وجہہ کی ذات ہی ہوسکتی ہے کیونکہ علی کی زات کو رسول اللہ نے اپنے علم کے شہر میں داخلے کا واحد دروازہ علی کو کہا تھا-اور اس میں شک بھی کوئی نہیں تھا کہ علی پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کامظہر تام تھے اور ان کی سیرت اور صورت کا عکس کامل تھے-اسی لیے علی اہل کوفہ سے کہا کرتے تھے

سلونی قبل ان تفقدونی

مجھ سے پوچھ لو اس سے پہلے کہ میں تمہارے درمیان نہ رہوں

امام علی اسی لیے سبیل خدا و رسول کو سب سے زیادہ جاننے والے تھے-اور امام علی کے نزدیک سبیل خدا پر چلنے والوں کا بنیادی نشان عدل اور انصاف ہوا کرتا ہے-اور اس سبیل پر چلنے والا کبھی بھی ظلم اور بے انصافی کے ساتھ نہیں ہوسکتا-علی کرم اللہ وجہہ الکریم کی ذات نے مسلم معاشرے میں استحصال،ناانصافی اور ظلم کو سبیل شیطان و طاغوت قرار دیا-اور انہوں نے اور ان کے رفقاء نے انسانوں کے انساںوں کے ہاتھوں استحصال اور جبر کی شدت سے مذمت کی-اور ان کی جانب سے پیدائش دولت کے سرچشمے زمین کی ذاتی ملکیت کی مخالفت کی گئی-اور یہ علی تھے جنہوں نے اصحاب رسول اور دوسرے خلیفہ عمر کو اس بات پر آمادہ کیا وہ عراق کی زرعی زمین ذاتی ملکیت کی بجائے مشترکہ ملکیت میں رہنے دیں-ہم کہہ سکتے ہیں کہ علی بعد از وفات رسول پہلے آدمی تھے جنہوں نے اسلامی معاشرے میں جاگیرداری طبقاتی نظام کو قائم ہونے سے روکا-دوسرے معنوں میں امام علی نے علم رسول اللہ کی روشنی میں طبقاتی معاشرے کی جانب سفر کو ممنوع قرار دینے کی کوشش کی-

عید غدیر جس واقعے کی جانب اشارہ کرتی ہے اس واقعے کا تقاضا بنتا ہے کہ ہم معاشرے میں طبقاتی نظام جوکہ انسانوں کی قوت محنت تک کو کاموڈیٹی میں بدل چکا ہے سے اپنی بیزاری کا اظہار کریں-اور اس نظام بد کا حصّہ بننے سے انکار کرڈالیں-

اگر ہم طبقاتی سماج ،اس سماج میں محنت کے بدترین استحصال اور سرمایہ کی لوٹ سے خود کو مطابقت دیتے ہیں اور اس کی تبدیلی کی آرزو نہیں کرتے تو پھر ہم پیغام عید غدیر کو نظر انداز کرتے ہیں-

خود کو بارگاہ مرتضی میں حاضر کرتے ہوئے ہمیں اپنا احتساب کرنا چاہئیے کہ کیا ہم اس راستے پر چل رہے ہیں جس کی جانب بقول حسن بصری علی نے لوگوں کو چلایا تھا-اور کیا ہم دین میں پیدا ہونے والے بگاڑ عظیم کو ٹھیک کرنے میں سنجیدہ ہیں؟اس سوال کا جواب ہمیں یوں مل سکتا ہے کہ ہم دیکھیں کہ ہم سے ہر ایک علی کی طرح دنیا کو ذلیل کرنے کا عزم رکھتا ہے؟

Comments

comments

Latest Comments
  1. Akmal Zaidi
    -
  2. Akmal Zaidi
    -
  3. Raza
    -