تبلیغی جماعت سے طالبان تک – از محمد عمر

download

تبلیغی جماعت اورجہادیوں کےتعلق کو سمجھنے کے لئے انکے خیالات کا موازنہ بہت ضروری ہے۔

دونوں کاخیال ہے کہ ہم مسلمانوں کی اکثریت گمراہی کےراستے پر ہے۔

دونوں کاخیال ہے کہ چودہ سوسال پہلے نبی کادور سب سے بہترین دور تھااور ہم سب کواس دور کو واپس لانے کی جدوجہد کرنا چاہئے۔

دونوں ہی گروہ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ مسلمان دنیا کی باقی تمام قوموں سے افضل ہیں۔ ان دونوں گروہوں کا خیال ہے کہ پوری دنیا پر حکومت مسلمانوں کا حق ہے اور ایک دن پوری دنیا پر اسلام کا غلبہ ہوگااور ہمیں اس کے لئے جدوجہد کرنا ہوگی۔

دونوں کاخیال ہے کہ یہ دنیا چونکہ فانی ہے اور بعد کی آنے والی زندگی ہمیشہ ہمیشہ کی ہے، اس لئے ہمیں اس دنیا کو اتنی اہمیت نہیں دینی چاہئے بلکہ آخرت کی تیاری کرنا چاہئے۔

یہ نظر یہ جہاں عام آدمی کو سائنس اور ٹیکنالوجی اور دنیاوی ترقی سے دور لے جاتا ہے، وہیں خود کش حملہ کرنے والے کا ذہن تیار کرنے میں بھی مددگار ثابت ہوتا ہے۔

دونوں کا خیال ہے اس دنیا کے تمام غیرمسلم افراد مسلمانوں کے خلاف سازشیں کررہے ہیں اور دراصل اسلام کی طاقت سے خوفزدہ ہیں۔

دونوں ہی اس بات کا اکثر تذکرہ کرتے ہیں کہ نبی نے فرمایا کہا ٓخری زمانے میں ایک گروہ ایسا ہوگا جوحق پر ہوگا اور وہ گروہ ایسا ہوگا جو اللہ کا پیغام لے کر اٹھے گا۔

دونوں ہی گروہ اس بات پر مکمل طور پر یقین رکھتے ہیں کہ اسلام دنیا کا واحد صحیح مذہب ہے اور اس دنیا کی نجات صرف اسلام قبول کرنے میں ہے۔ دونوں ہی اس بات کا اکثر تذکرہ کرتے ہیں کہ دنیا میں اللہ کا پیغام پہنچانا ہماری ذمہ داری ہے اور اگر ہم نے یہ ذمہ داری نہ نبھائی تو قیامت کے دن ہم سے سخت باز پرس کی جائے گی۔

دونوں گروہ جنت کی نعمتوں کا بکثرت ذکر کرتے ہیں۔ اکثر اوقات بات کو اتنا بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے کہ ایک غیر جانبدار آدمی حیرت سے دنگ رہ جاتا ہے۔ حوروں کے قصے، جنت میں ملنے والے محلات، آسانیاں اور وغیرہ وغیرہ غیر مسلموں اور گناہ گار مسلمانوں کے لئے سخت عذاب کے قصے۔ اسلامی سزاوں کے متعلق دونوں کے نظریات ایک جیسے ہیں۔

دونوں ہی گروہ داڑھی بڑھانے پر ایک جیسا ہی اصرار کرتے ہیں۔ عورتوں کے پردے کے متعلق دونوں گروہوں کے خیالات ایک جیسے ہیں۔

جدید تعلیم اور سائنس و ٹیکنالوجی کو دونوں گروہ ضمنی سمجھتے ہیں اور شدت پسندی سے بعض اوقات انہیں غیرضروری اور دین سے متصادم قرار دے کر حرام بھی ٹھہراتے ہیں ۔

تبلیغی جماعت عام لوگوں، خاص طور پر نوجوانوں کو کس طرح جہادی یا پھر ان کا حمایتی بناتی ہے۔

فرض کیجئے آپ طبیعتاً ایک حساس نوجوان ہیں۔ پھر آپ کو ٹی وی اور اخبار میں دکھائی دیتا ہے کہ دنیا بھر میں مسلمانوں پر ظلم ہو رہا ہے۔

بچپن سے آپ نے مذہبی قصے بھی سن رکھے ہیں اسلام دنیا کا آخری مذہب ہے، قیامت کا عذاب بہت سخت ہو گا، جنت میں زندگی بہت آسان ہو گی وغیرہ وغیرہ۔

آپ کو اپنے ارد گرد ہونے والی نا انصافیوں پر تھوڑا دکھ بھی ہوتا ہے، آپ جھوٹ اور فریب کو اس دنیا سے ختم کرنا چاہتے ہیں، امن اور انصاف لانا چاہتے ہیں۔

آپ ایک مسلمان گھرانے میں بھی پیدا ہوئے ہیں اور بچپن سے دی گئی تعلیم اور والدین کے اصرار پر نماز ادا کرنے مسجد جانے لگتے ہیں۔

وہاں تبلیغی جماعت کے لوگ آپ کو اکثر نظر آتے ہیں۔ دیکھنے میں یہ لوگ نہایت اچھے، خوش اخلاق، باریش نورانی چہروں والے دکھائی دیتے ہیں۔

بچپن سے پاکبازی کے جو قصے آپ نے سن رکھے ہیں، یہ لوگ آپ کو اس کی تصویر دکھائی دیتے ہیں۔

یہ جب نماز کے بعد قرآن و حدیث کی تعلیم کا کہہ کر آپ کو روکتے ہیں، آپ ثواب اور نیکی کی نیت سے مسجد میں رک جاتے ہیں۔

یہ آپ کو بتاتے ہیں کہ اللہ کا دین ہماری زندگیوں میں نہیں آیا اور ہمارے اردگرد تمام خرابیوں کی جڑ دین سے یہی دوری ہے۔ آپ جو پہلے ہی ان خرابیوں سے نالاں ہیں، ان کی پاکبازی کو دیکھتے ہوئے ان کی بات مان لیتے ہیں۔

پھر یہ آپ کو بتاتے ہیں کہ اس دین کو اگر رائج کر لیا جائے تو تمام برائی ختم ہو جائے گی، اور اس دین کو دنیا میں رائج کرنے سے پہلے اسے ہمیں اپنی ذات میں لانا ہوگا۔

دین سیکھنا ہو گا، اور تمام انسانوں کی زندگی میں اسے لانے کے لئے محنت کرنا ہو گی۔ اس محنت کے سلسلے میں.

یہ وہ جملہ ہے جو ہر تبلیغی دعوت دیتے وقت کہتا ہے۔ پھر آپ ان کے ساتھ ملنا جلنا شروع کر دیتے ہیں۔ یہ آپ کو پہلے بیان پر، پھر گشت پر، پھر شب جمعہ پر اور پھر سہ روزے پر راضی کرتے ہیں۔

کہا جاتا ہے کہ دین کے لئے ماحول کی ضرورت ہوتی ہے اور آپ اس ماحول کی تلاش میں ان لوگوں سے ملنا جلنا شروع کر دیتے ہیں۔

جب آپ کسی حد تک ان کے ساتھ مل جاتے ہیں تو تعلیمات کا دوسرا فیز شروع ہوتا ہے۔ آپ کو بتایا جاتا ہے کہ کیسے مسلمان ساری دنیا میں ظلم کا شکار ہیں، کشمیر اور فلسطین کی مثالیں دی جاتی ہیں۔ ٹی وی اور میڈیا پر آپ یہ پہلے بھی سن چکے ہوتے ہیں اس لئے فوراً مان جاتے ہیں۔ پھر یہ بتایا جاتا ہے کہ مسلمانوں کے اس زوال کی دو وجوہات ہیں، ایک دین کے راستے سے دوری اور دوسرا اغیار کی سازشیں۔

آپ کو بتایا جاتا ہے کہ دنیا بھر کے کفار مل کر اسلام اور مسلمانوں کے خلاف سازشیں کر رہے ہیں ۔ اسلام کو غالب کرنا ہو گا تا کہ دنیا سے ظلم ختم ہو سکے اور ساتھ ساتھ یہ بحیثیت مسلمان ہم پر لازم بھی ہے۔

آپ اب اپنے بیشتر دوستوں اور گھر والوں سے دور، ان کی محفل میں بیٹھے یہ سب کچھ سیکھ رہے ہیں اور اندر ہی اندر تبدیل ہوتے جا رہے ہیں۔

اردگرد کے لوگوں میں سے کوئی آپ کو محتاط رہنے کا کہتا ہے تو آپ سمجھتے ہیں کہ یہ مجھے اللہ کے راستے سے ہٹا رہا ہے اس لئے اس کی بات کو آپ سنی ان سنی کر دیتے ہیں۔ پھر ایک دن ایسا آتا ہے جب آپ سہ روزے لگانا شروع کر دیتے ہیں۔ یہاں آپ کو نبی کی زندگی، تقویٰ، جنت کے قصے، دوزخ کا عذاب وغیرہ وغیرہ سکھایا جاتا ہے۔ آپ آہستہ آہستہ اس فانی دنیا سے نفرت کرنے لگتے ہیں۔ ایک حدیث جس کا ذکر تبلیغی حضرات اپنے ہر بیان میں کرتے ہیں وہ ہے اس دنیا کی مچھر کے بال سے بھی حقیر ہونے کے بارے میں نبی کا فرمان۔

اس دوران آپ کی ملاقات کچھ ایسے تبلیغی ساتھیوں سے بھی ہوتی ہے جو یا تو کسی جہادی تنظیم کے سرگرم رکن ہوتے ہیں یا پھر کوئی سرگرم رکن ان کا قریبی دوست ہوتا ہے۔

آپ کا ذہن تیار ہو چکا ہے پہلے ہی۔ آپ اسلام کو واحد حل سمجھتے ہیں، دنیا کو گمراہ، اسے سدھارنے کو اپنا مذہبی فریضہ ، اور اس سارے کام کے بدلے جنت کی آسائشیں۔

اس کے ساتھ ساتھ آپ غیر مسلموں کو تمام کی تمام برائیوں کی جڑ سمجھ کر انہیں راہ راست پر لانے یا اگر وہ آپ کا راستہ روکیں تو ان کو نیست و بابود کرنے پر بھی آمادہ نظر آتے ہیں۔

اس صورتحال میں ایک جہادی تبلیغی بھائی آپ کو یہ بتاتا ہے کہ فلاں فلاں گروہ اسلام کی سربلندی کے لئے کام کر رہا ہے۔ وہ اسلام کے دشمنوں مثلاً بھارت، امریکہ اسرائیل وغیرہ کے ساتھ جہاد کا ذکر کرتے ہیں۔

جھوٹے سچے قصے سناتے ہیں کہ کیسے اسلام کے یہ مجاہدین دشمنوں کے دانت کھٹے کر رہے ہیں، اور پھر ان واقعات کا موازنہ غزوہ بدر سے کر کے یہ ثابت کرتے ہیں کہ کیسے اللہ بھی ان کی مدد کر رہا ہےکیونکہ یہ بالکل حق پر ہیں۔

اب آپ تبلیغ میں بھی ریگولر ہو چکے ہیں، شب جمعہ پر اکثر جاتے ہیں، سہ روزہ بھی لگا لیتے ہیں، میل جول بڑھ جاتا ہے۔ یعنی آپ ماحول میں آجاتے ہیں۔ روزانہ آپ ان کی تعلیمات سنتے ہیں، داڑھی بڑھاتے ہیں، اسے کٹوانا گناہ خیال کر نا شروع کر دیتے ہیں، عورتوں کو سخت پردے میں رہنے کی تلقین کرنے لگتے ہیں۔

نماز چھوڑنے والے کو مجرم خیال کرنے لگتے ہیں، تمام برائیوں کا حل اسلامی قانون کے نفاذ یعنی اسلامی سزاوں میں دیکھنے لگتے ہیں اور دن رات اس لگن میں لگ جاتے ہیں کہ یہ دین کیسے پوری دنیا پر چھا جائے۔

جہادی بھائی آپ کے ساتھ ساتھ ہیں، وہ آپ کو سمجھا رہے ہیں کہ اسلام خطرے میں ہے، دشمن سازشیں کر رہے ہیں، اللہ کا دین خطرے میں ہے۔ آپ کے نماز روزے آپ کے اپنے لئے لیکن دنیا میں اسلام کے غلبے کی جو ذمہ داری آپ پر ہے وہ جہاد سے ہی آئے گی۔

لو جی آپ جہاد کے راستے پر گامزن۔ اگر ہمت ہو گی تو خود ٹریننگ اور جہاد کے لئے نکل پڑیں گے، نہیں تو ان کے لئے دعا کریں گے، وقت پڑنے پر مالی امداد بھی دیں گے۔

کسی وقت پناہ دینا پڑی کسی مجاہد کو تو وہ بھی دیں گے، اس کی معاونت بھی کریں گے اور جب ٹی وی پر ان کے حملوں کے قصے سنیں گے، جیسے کہ ورلڈ ٹریڈ سنٹر حملے، تو اسلام کی فتح کی خوشی سے سرشار بھی ہوں گے۔

ہو سکتا ہے اللہ اکبر کے نعرے بھی لگا دیں۔ یہ سب کچھ جتنی آسانی سے ہوتا دکھائی دیا، ہوتا بھی ایسے ہی ہے۔ اول تو معاشرے میں تبلیغی جماعت کو کم ہی لوگ شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، سو آپ بھی ان کی طرف آسانی سے راغب ہو جاتے ہیں۔ پھر یہ کہ تبلیغی جماعت اور طالبان القائدہ والے تقریباً ایک ہی مسلک یا ایک دوسرے سے ملتے جلتے مسلک سے تعلق رکھتے ہیں اس لئے شدت پسندوں کے خیالات آپ کو اجنبی بھی نہیں لگتے۔

پھر یہ کہ جماعت میں ہر شخص کو آنے جانے کی آزادی ہے، اس لئے مجاہدین بڑی آسانی سے اس میں شامل ہو جاتے ہیں۔ پھر یہ کہ جماعت کی اعلیٰ قیادت اپنے بیانات میں ہمیشہ ان مجاہدین کی کامیابیوں کے لئے دعائیں بھی کرواتی ہے۔

ایجنسیوں کے وہ لوگ جنہوں نے ان مجاہدین کی پرورش کی، تبلیغی جماعت کے حلقۂ خواص میں شامل ہیں، مثلاً جنرل جاوید ناصر، مرحوم کرنل امام وغیرہ، اس لئے تبلیغی جماعت کو ہر ایجنسی سے بھی کلین چٹ مل جاتی ہے۔

اب چاہے تبلیغی جماعت کے لوگ لاکھ کہیں کہ ان کی جماعت کے دہشت گردوں سے تعلقات نہیں، اور اگر کوئی دہشت گرد جماعت کا حصہ رہا ہے تو ہم ذمہ دار نہیں، لیکن قرائن کسی اور طرف اشارہ کرتے ہیں۔

آج تک جماعت کی طرف سے ان دہشت گردوں کی کھلے الفاظ میں مذمت نہیں کی گئی۔دوسری طرف تمام کے تمام دہشت گرد، کسی نہ کسی انداز میں جماعت سے کسی نہ کسی وقت منسلک رہے ہیں، اس لئے اگر یہ کہا جائے کہ جماعت کی مکمل رضامندی اور سپورٹ سے ایسا سب کچھ ہوتا ہے تو کچھ غلط نہ ہوگا۔ تبلیغی اجتماع ان دہشت گردوں کے اکٹھ اور نقل و حرکت کا ایک بڑا ذریعہ بھی ہے، بھانت بھانت کے دہشت گرد سالانہ اجتماعات میں دکھائ دیتے ہیں۔

اس موضوع پر مزید بہت کچھ لکھا جا سکتا ہے، اور میں خود اس پر مزید لکھنے کا ارادہ رکھتا ہوں لیکن اس کے لئے درکار تحقیق میں شائد کچھ وقت چاہئے ہو گا اور میں آجکل کچھ اور ضروری کاموں کی وجہ سے وقت نہیں نکال پا رہا۔

سر دست یہ مضمون نصرت جاوید اور مولانا طارق جمیل کے قصے کے پس منظر میں لکھا گیا ہے۔

آج تک تبلیغی جماعت پر کھل کر اس طرغ تنقید نہیں ہوئی جس طرح جماعت اسلامی یا دیگر جماعتوں پر ہوئی ہے۔ حالانکہ تبلیغی جماعت طالبان کی نرسری ہے اور میرے خیال میں زیادہ بڑی بڑائی اور ایک ناسور ہے۔ اس مضمون کا مقصد اردولکھنے والے بلاگرز میں اس موضوع پر ایک بحث کا آغاز کرنا ہے۔

 

Source :

http://www.rationalistpakistan.com/%D8%AA%D8%A8%D9%84%DB%8C%D8%BA%DB%8C-%D8%AC%D9%85%D8%A7%D8%B9%D8%AA-%D8%B3%DB%92-%D8%B7%D8%A7%D9%84%D8%A8%D8%A7%D9%86-%D8%AA%DA%A9/

Comments

comments

Latest Comments
  1. Sohail Anjum
    -
  2. sadeeqakbar
    -
  3. muhammad imran
    -
  4. imran
    -
  5. ھارون
    -
  6. ساجدنثار
    -