دیوبندی طالبان وسپاہ صحابہ کے دہشت گردوں کے ہاتھوں شہید ہونے والے پاک فوج کے سینئر ترین افسران
انیس سو اسی کے عشرے سے وطن عزیز پاکستان بد ترین دہشت گردی کا شکار ہے پاکستان میں منظم دہشت گردی کا آغاز گیارہ ستمبر دو ہزار سے کم از کم بیس سال پہلے ہوا جب تکفیری دیوبندیوں کی جماعت لشکر جھنگوی اور اس کی ذیلی سیاسی تنظیم سپاہ صحابہ نے سنی بریلوی، شیعہ، احمدی، مسیحی، اعتدال پسند دیوبندی اور اعتدال پسند اہلحدیث پاکستانیوں کے خلاف تشدد اور کافر کافر کے نفرت انگیز نعرے لگاے
سپاہ صحابہ لشکر جھنگوی کے دیوبندی دہشت گردوں نے شیعہ اور سنی بریلوی مسلمانوں کی مساجد پر حملے کیے، سینئر پولیس افسران جیسا کہ اشرف مارتھ، سینئر سول افسران جیسا کہ کمشنر سرگودھا سید تجمل عبّاس، نامور شاعر جیسا کہ محسن نقوی، پاکستان اسٹیٹ آئل کے ایم ڈی شوکت علی مرزا اور دیگر نامور سنی اور شیعہ مسلمانوں کو چن چن کر شہید کیا – سپاہ صحابہ کے دیوبندی دہشت گردوں نے لاہور اور ملتان میں ایران کےخانہ فرھنگ کے ڈائرکٹرز کو بھی شہید کیا اور وزیر اعظم نواز شریف پر لاہور میں قاتلانہ حملہ کیا اس سے ثابت ہوتا ہے کہ پاکستان میں تکفیری دیوبندی دہشت گردی کو افغانستان میں طالبان کے خلاف امریکہ کی جنگ کا رد عمل قرار دینا سراسر جھوٹ اور بد نیتی ہے
امر واقعہ یہ ہے کہ کابل پر طالبان کے قبضے کے بعد طالبان نے پاکستان کے تکفیری دیوبندی دہشت گردوں کی خاص حوصلہ افزائ کی اور سپاہ صحابہ و لشکر جھنگوی کے ریاض بسرا اور دیگر دہشت گردوں کو پناہ دی جو پاکستان میں دہشت گردی کی کاروائیوں کے بعد افغانستان میں جا کر چھپ جاتے تھے
گیارہ ستمبر کے بعد طالبان اور سپاہ صحابہ کی مشترکہ دہشت گردی کا نشانہ سنی بریلوی اور شیعہ مسلمانوں کے علاوہ پاکستانی فوج کے افسران بھی بنے – یہ امر قابل غور ہے کہ طالبان اور سپاہ صحابہ سو فیصد دیوبندی تنظیمیں ہیں جن میں ایک بھی سنی بریلوی، شیعہ، احمدی وغیرہ شامل نہیں – آج تک پاکستان کے کسی دیوبندی مفتی نے طالبان اور سپاہ صحابہ کے تکفیری دہشت گردوں اور خود کش بمباروں کے خلاف فتویٰ نہیں دیا
دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی شمالی سرحدوں اور قبائلی علاقوں میں بارہ سال سے لڑی والی جنگ میں پاکستانی فوج کے ویسے تو سینکڑوں افسر اور جوان شہید ہو چکے ہیں لیکن میجر جنرل ثنا اللہ پاکستانی فوج کے سینیئر ترین فوجی افسر ہیں جو ستمبر دو ہزار تیرہ میں ’محاذ جنگ‘ پر دشمن کی کارروائی کا نشانہ بنے ہیں۔
ان سے پہلے قبائلی علاقوں میں فوجی آپریشن میں شامل میجر جنرل جاوید سلطان فروری سنہ دو ہزار آٹھ میں جنوبی وزیرستان کے قبائلی علاقے میں ہیلی کاپٹر کے حادثے میں شہید ہوئے تھے۔
تحریک طالبان نے اس ہیلی کاپٹر کو مار گرانے کا دعویٰ کیا تھا اور آزاد ذرایع اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ افغانستان اور پاکستان میں دیوبندی طالبان نے متعدد ہیلی کاپٹر مار گراے ہیں
میجر جنرل عہدے کے ایک اور افسر بھی دہشت گردی کی کارروائی کا نشانہ بنے ہیں۔ میجر جنرل عمر بلال راولپنڈی کی پریڈ لین میں واقع اپنے گھر کے قریب مسجد میں نماز جمعہ کے دوران شدت پسندوں کا نشانہ بنے تھے۔ دسمبر دو ہزار نو میں پریڈ لین مسجد پر ہونے والے اس حملے میں چھ دیگر سینیئر فوجی افسر بھی شہید اور زخمی ہوئے تھے۔
ان برسوں کے دوران شدت پسندوں کا نشانہ بننے والے پاکستانی فوج کے سینیئر ترین فوجی افسر لیفٹیننٹ جنرل مشتاق بیگ تھے جو راولپنڈی میں فوجی صدر دفتر جی ایچ کیو کے قریب اپنی گاڑی پر ایک دیوبندی دہشت گرد کے خودکش حملے میں شہید ہوئے۔ کہا جاتا ہے کہ پاکستانی فوج کے سرجن جنرل، ڈاکٹر مشتاق بیگ اس حملے کا ہدف نہیں تھے بلکہ حملہ آور کا نشانہ ایک اور سینیئر فوجی افسر تھے جو جنرل مشتاق کے ساتھ ہی پچیس فروری دو ہزار آٹھ کی دوپہر جی ایچ کیو میں ایک اہم اجلاس میں شرکت کے بعد نکلے تھے اور ان کی گاڑی جنرل بیگ سے کچھ ہی فاصلے پر تھی۔
دیوبندی دہشت گردوں نے سنہ دو ہزار چار میں کور کمانڈر کراچی لیفٹننٹ جنرل احسن حیات پر قاتلانہ حملہ کیا اس سے پہلے آرمی چیف جنرل پرویز مشرف کو قتل کرنے کی متعدد کوششیں کی گئیں
یوں اگر جنرل رینک کے افسران کا حساب لگایا جائے جنہیں پاکستانی فوج میں’سینیئر‘ افسر قرار دیا جاتا ہے تو تین میجر جنرلز اور ایک لیفٹیننٹ جنرل دہشت گردی کے خلاف جنگ کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔ ان تمام حقائق کے باوجود کچھ نادان لوگ جیسا کہ عمران خان، منور حسن، فضل الرحمن ، نواز شریف وغیرہ کہتے ہیں کہ دہشت گردوں کے خلاف جنگ ہماری نہیں – ایسے لوگ طالبان اور سپاہ صحابہ کے تکفیری دیوبندی دہشتگردوں کی نفسیاتی حمایت کا کردار ادا کرتے ہیں اور ان کے جرائم کو جواز فراہم کرتے ہیں
پاکستان کی فوج، پولیس اور حکومت کی ذمہ داری ہے کہ دہشت گردی میں شامل جماعتوں کے رہنماؤں، ترجمانوں اور حامیوں کو چن چن کر جہنم واصل کرے تاکہ پاکستان امن اور عافیت کا گہوارہ بن سکے
Source: Adapted with changes from BBC Urdu
Comments
Latest Comments
In spite of all this what you say when Pak Army descriminates between good and bad talibans?