بلوچستان میں سرائیکیوں کا قتل کیوں؟

587158-deadbodies-1375768147-377-640x480

میرے قارئین جانتے ہیں کہ میں نے انسانی حقوق کی پامالی،کسی بھی نسلی یا لسانی گروہ کے حقوق کے غصب کئے جانے اور ان کے وسائل کی لوٹ مار پر کبھی خاموشی اختیار نہیں کی-میں نے کبھی استحصال کرنے والوں کو ان کی نسل،انکی لسانی شناخت یا ان کی مذھبی  شناخت پر ان سے کوئی رعائت برتنے یا ان کے جرم پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی ہے-اپنے اسی اصول کو میں نے بلوچ قوم کی جدوجہد کے باب میں بھی بدستور برقرار رکھا اور میں نے ان افراد یا گروہوں کی مذمت کرنے اور ان کو بے نقاب کرنے میں کسی حیل و حجت سے کام نہیں لیا جو بلوچ قوم کی نسل کشی کے مرتکب ہورہے ہیں اور ان کے وسائل کی لوٹ مار کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں-میں نے کسی بھی ادارے کے دباؤ کو کبھی اہمیت نہیں دی اور ہمیشہ پہاڑوں پر جانے والوں کا مقدمہ کسی بھی غلط بات کی آمیزش کے بغیر پیش کرنے میں کوئی عار نہیں سمجھا-میرے اس عمل کو بعض شاہ اے وفاداروں نے کسی لالچ یا کسی کے کے اشارے کا نتیجہ قرار دیا بھی تو میں نے کوئی پرواہ نہ کی-بلوچستان کا واحد بلوچی زبان کا ٹی وی وش کی نشریات دیکھنے والے گواہ ہیں کہ میں نے سابق دور حکومت اور موجودہ حکومت کے اراکین کو بھی پاکستان کی ہیت مقتدرہ کے آگے جھک جانے پر ملامت کی-اور ایف سی،آئی بی،ایم آئی کے کردار پر بہت سارے سوالات اٹھائے-سیاسی کارکنوں کی جبری گمشدگی اور ریاستی اداروں کی جانب سے انسانی حقوق کی سخت پامالیوں پر میری آواز ٹی وی ٹاک شوز اور میرے کالموں اور میری تحقیقاتی رپورٹنگ میں بہت نمایاں نظر آتی رہی-میری اس طرز کی مدح سرائی ڈاکٹر اللہ نذر،حیربیار مری اور مرحوم بالاچ مری سمیت بلوچستان کے ان اہم رہنماؤں کی جانب سے بھی ہوتی رہی جن کو سرمچاروں کے فکری استاد کہا جاتا ہے-

مجھے یہ سب اس لیے لکھنا پڑرہا ہے کہ بلوچستان سے پے درپے سرائیکیستان سے مزدوری کرنے کے لیے جانے والے محنت کشوں کی لاشیں مل رہی ہیں اور اس پر پورے بلوچستان سے بلوچستان کی تحریک مزاحمت کی حمائت کرنے والوں نے خاموشی اختیار کررکھی ہے-بلوچ قوم کے لکھاری اور بلوچ قوم کے سیاسی کارکن سرمچاروں کو یہ بتانے سے قاصر ہیں کہ جن محنت کشوں کا قتل عام وہ کررہے ہیں ان کا بلوچ قوم پر ظلم کرنے والوں اور ان کے وسائل کو لوٹنے والوں سے کوئی تعلق اور رشتہ نہیں ہے-بلکہ جس خطے میں وہ غریب محنت کشوں کی لاشوں کے تحفے بھیج رہے ہیں اس خطے کے بلوچ قوم کے ساتھ گہرے رشتے ناطے ہیں-اور اس خطے کے لوگوں نے بلوچستان کی خدمت کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے-یجہ وہ خطہ ہے جہاں پر بلوچستان کے عظیم قوم پرست سیاست دان جن میں بابائے بلوچستان میر غوث بخش بزنجو،نواب خیر بخش مری،عطاء اللہ مینگل اور گل خان نصیر کو پذیرائی ملتی رہی اور بلوچستان کے عوام کے مقدمے کو بھی ہمدردی کی نگاہ سے دیکھا جاتا رہا-آج بھی اس خطے میں بلوچ قوم کے مقدمے سے ہمدردی پائی جاتی ہے اور اس خطے کی عوام کی اکثریت کی بلوچ تحریک مزاحمت بارے وہ متعصب سوچ نہیں ہے جس کا غلبہ ہمیں سنٹرل پنجاب میں نظر آتا ہے-ایسے میں بلوچستان لبریشن آرمی نامی عسکریت پسند گروپ کی جانب سے سرائیکی خطے کے محنت کشوں کو اغواء کرنے کے بعد بےدردی سے قتل کرنا بہت زیادہ ناقابل فہم ہے-کیونکہ اگر یہ گروہ واقعی بلوچستان کی عوام کے حقوق کے لیے لڑرہا ہے تو یہ اپنے دوست خطے کے اندر لاشیں کس لیے بھیج رہا ہے؟بی ایل اے کی جانب سے معصوم اور بے گناہ شہریوں کی لاشیں گرآئے جانے کا عمل اتنا ہی نفرت انگیز اور قابل مذمت ہے جتنا کسی ریاستی ادارے کے کسی اہل کار کے ہاتھوں بلوچ قوم کے نوجوانوں کا جبری اغواء اور قتل قابل مذمت ہے-

مجھے بہت زیادہ صدمہ ان حضرات کی روش پر ہوا ہے جو خود کو ترقی پسند سوچ کا علمبردار کہتے ہیں وہ معصوم اور بے گناہ شہریوں کی بلوچ گوریلوں کے ہاتھوں ہلاکتوں کا جواز تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور وہ اس کھلی دھشت گردی کو معمول کی بات ظاہر کرنے کی کوشش کررہے ہیں-

میں ان حضرات کو بتانا چاہتا ہوں کہ بی ایل اے سمیت بلوچستان میں تحریک مزاحمت چلانے والے دیگر گروپس اگر انسانی حقوق کی سنگین پامالیوں کا ارتکاب کرتے رہے-اور معصوم شہریوں پر حملوں کا جواز ڈھونڈتے رہےتو نہ صرف ان کی سرائیکی خطے میں حمائت میں کمی آئے گی بلکہ ان کی جدوجہد بارے عالمی برادری کے اندر جو ہمدردانہ رمق موجود ہے وہ بھی ختم ہوجائے گی-

بلوچستان کی جانب آنے والی بسوں اور ٹرینوں میں سوار مسافروں پر حملے،ان پر فائرنگ اور معصوم بچوں تک کی ہلاکتیں بلوچستان کے کیس کو کمزور تو بناسکتی ہیں-اس آگے نہیں لیجاسکتی ہیں-یہ بات ہر ذی شعور ،سمجھدار آدمی سمجھ سکتا ہے-لیکن سوال یہ جنم لیتا ہے کہ یہ بات سرمچاروں کے بھیس بدلنے والوں کی سمجھ میں آتا دکھائی نہیں دے رہا-اس بات کے انکشاف سے یہ سوال بھی ذھنوں میں گردش کرتا ہے کہ آخر کس کے کہنے پر بلوچستان کی بلوچ عوام اور سرائیکی خطے کے عوام کے درمیان دشمنی اور دوری پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے؟وہ کون سی قوتیں ہیں جو پاکستان میں نسلی بنیادوں پر دو خطے کے باسیوں کو لڑانے کی خواہش مند ہیں؟ان سوالوں کا جواب تلاش کرنا بہت ضروری ہے-

بلوچستان سے تعلق رکھنے والے ایماندار اور صاف ستھرے سول سوسائٹی کے ان لوگوں کو آگے بڑھکر یہ سوال اٹھانے چاہئیے-

ڈاکٹر عبدالمالک ،شہباز شریف کو متاثرہ خاندانوں کی مالی امداد کرنے اور ان کی کفالت کا انتظام کرنا چاہئے-ابھی تک تو کسی بڑے حکومتی عہدے دار نے متاثرہ خاندانوں کے گھروں کا دورہ بھی نہیں کیا-اور خطے میں موجود سیاسی جماعتوں کی قیادت نے بھی اس قتل عام پراحتجاج منظم نہیں کیا-یہ بھی ایک لمحہ فکریہ ہے-

سرائیکستان کے لوگوں کو قتل کرنا اور پھر اس پر حکومت و حزب اختلاف ہر ایک کی بے حسی اس خطے کے نوجوانوں کو بغاوت کا راستہ دکھارہی ہے-جبکہ اس خطے میں نوجوانوں کے غصے اور تناؤ کا ایک اظہار یہاں سے دھشت گردی کے لیے ریکروٹمنٹ میں اصافہ دیکھنے کو مل رہا ہے-غربت،افلاس اور مہنگائی نے ملکر پہلے ہی یہاں کی اصلی مڈل کلاس کا دائرہ تنگ کردیا ہے ایسے میں رزق کی تلاش میں بلوچستان جانے والوں کی لاشیں مزید انتہاپسند رویوں کو جنم دیں گے-

Comments

comments

Latest Comments
  1. malik shoaib
    -
WordPress › Error

There has been a critical error on this website.

Learn more about troubleshooting WordPress.