ایرانی حکومت کا رجوع،اوبامہ کی بڑھتی مشکل
عامر حسینی سے
پیترس برگ روس میں جی-20 کانفرنس میں شام کا ایشو ہاٹ ایشو بنکرچھایا رہا-اس ایشو پر امریکی صدر باراک حسین اوبامہ کی کوشش تھی کہ وہ جی-20 ملکوں سے بھاری اکثریت سے شامی حکومت کے خلاف اپنے مجوزہ فوجی آپریشن کی حمائت پر مبنی قرارداد منظور کرالیں-لیکن سمٹ کے اختمام پر جی-20 ملکوں میں سے گیارہ ملکوں نے جو قرارداد منظور کی اس میں کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کے خلاف سخت رد عمل دینے کی بات تو کی گئی لیکن اس میں “فوجی ایکشن”کرنے یا نہ کرنے کے الفاظ بھی استعمال نہیں کئے گئے-امریکہ اس حوالے سے کوئی بھی اتفاق رائے حاصل کرنے میں ناکام رہا-جبکہ اس دوران باراک اوبامہ نے سمٹ میں شریک ملکوں کے نمائندوں کے ساتھ لابنگ بنانے کی کوشش کی-کانفرنس میں امریکہ کے ساتھ فرانس،ترکی،سعودیہ عرب اور کینڈا کھڑے نظر آئے-
جبکہ یوروپی ملکوں کی اکثر حکومتیں شام کے خلاف فوجی ایکشن کی مخالف پائی گئیں-
امریکی صدر کی جانب سے اس سمٹ کے بعد یہ بھی کہا گیا کہ وہ شام کے خلاف اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم سے کاروائی پر اتفاق پیدا کرنے میں ناکام رہے ہیں تو اسی لیے وہ اپنے اتحادیوں کے ساتھ شام کے خلاف راست اقدام کریں گے-
صدر اوبامہ کے ڈپٹی سیکورٹی ایڈوائزر برائے سٹرٹیجک کمیونیکشن بھی یو این او کی سلامتی کونسل میں کسی ملک کے خلاف فوجی کاروائی کی اجازت دینے کے طریقہ کار کو بہت طویل قرار دیکر اپنے طور پر کاروائی کرنے کا عندیہ دے رہے ہیں-اصل میں امریکی حکام کی یو این او سے مایوسی کا سبب یہ ہے کہ ایک تو امریکہ اپنے مڈل ایسٹ میں سب سے بڑے اتحادی ممالک گلف ریاستوں اور ترکی کی خواہشات کے لیے اور اسرائیل کو خطرات سے پاک کرنے کے لیے شام میں بشارالاسد کی حکومت کا خاتمہ کرنے کے لیے یو این او کے پلیٹ فارم کو استعمال میں نہ لانے کی وجہ سے زیادہ تناؤ میں نظر آرہا ہے-یو این او کی سیکورٹی کونسل میں اس کے منصوبوں کو چین اور روس نے ناکام بناڈالا-جس وقت امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے شام کے دارالحکومت دمشق کے گرد و نواح میں شامی حکومت کی جانب سے باغیوں کے خلاف کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کا الزام عائد کیا تو امریکہ کو امید تھی کہ اب یو این او شام کے خلاف فوجی کاروآئی کی اجازت دے گی اور چین اور روس بھی اس کاروائی کے مخالف نہیں ہوں گے-لیکن اس بار بھی ان ملکوں نے شام کے خلاف سیکورٹی کونسل میں آنے والی کسی بھی قرارداد کو ویٹو کرنے کی دھمکی دی تو اوبامہ نے نیٹو کے پلیٹ فارم کو استعمال کرنے کی کوشش کی مگر برطانوی پارلیمنٹ نے شام کے خلاف فوجی اقدام کے حق میں ووٹ نہیں دیا-اور نیٹو کا پلیٹ فارم استعمال کرنا ممکن نہ رہا-اس پر امریکہ نے زیادہ سے زیادہ ممالک کی شام کے خلاف فوجی ایکشن کی حمائت حاصل کرنے کی ٹھان لی-اب تک باراک اوبامہ عالمی برادری کی اکثریت کی حمائت حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے ہیں-امریکہ کے ساتھ سب سے زیادہ جوش اور سرگرم گلف ریاستیں اور اسرائیل نظر آتے ہیں-فرانس نے اگرچہ شام کے خلاف فوجی ایکشن کی حمائت کی ہے مگر و یو این ای انسپکشن رپورٹ کے آنے کا انتظار کررہا ہے-
روسی صدر ولادیمیر پیوٹن امریکہ کی شام کے خلاف فوجی پیشقدمی کو غیر قانونی اور کھلی جارحیت سے تعبیر کرتے ہیں-ان کے حکم سے روسی جنگی بیڑے خلیج باسفورس سے شام کے قریب آچکے ہیں-جبکہ رسی وزرات خارجہ نے شام پر خصوصی فوجی ایکشن پر مبنی اقدام سے سنگین نتائج برآمد ہونے کی وارننگ جاری کی ہے-
امریکہ کی جانب سےشام پر فوجی کاروائی کے اقدام کے لیے درکار تقاضوں کو پورا کرنے کا سلسلہ شروع کردیا گیا ہے-بیروت میں امریکی سفارت خانے سے غیر ضروری عملے کو چھٹی دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے-جبکہ امریکی شہریوں کو جنوبی ترکی کا سفر نہ کرنے کی ہدائت جاری کردی گئی ہے-اوبامہ امریکی کانگریس سے شام کے خلاف فوجی کاروائی کی اجازت لینے کے منتظر ہیں اور اس حوالے سے بہت کم اکثریت سے کانگریس میں قرارداد منظور ہونے کی توقع کی جارہی ہے-اگر ایسا ہوا تو یہ بھی امریکہ کے لیے ایک سبکی کا سبب بننے والی بات ہوگی-
امریکہ کی شام کے خلاف فوجی کاروائی ایک متنازعہ عمل اس کاروائی کے وقوع پذیر ہونے سے پہلے ہی متنازعہ ہوگئی ہے-جبکہ امریکی صدر باراک اوبامہ اور سیکرٹری خارجہ جان کیری کو سخت ترین تنقید کا سامنا ہے-امریکیوں کی اکثریت بھی اس طرح کے فوجی ایکشن کے خلاف ہے-
دوسری طرف ایران کے نومنتخب صدر حسن روحانی نے ایران کی عالمی برادری کے درمیان امیج کی بحالی اور تنہائی سے نکلنے کے لیے ابتدائی اقدامات کئے ہیں-حسن روحانی نے ایرانی ایٹمی پروگرام کے حوالے سے عالمی برادری سے مذاکرات کے تمام تر اختیارات ایرانی وزارت خارجہ کو سونپ دئے ہیں-ایرانی وزیر خارجہ جاوید ظریف مذاکراتی ٹیم کے سربراہ ہوں گے-ایرانی وزیر خارجہ نے یورپ کی چیف برائے فارن پالیسی کتھرین آشٹن سے فون پر بات چیت کی جو کہ ایران سے ایٹمی پروگرام پر مزاکرات کرنے والی چھے ملکوں کے نمائندوں کی کمیٹی کی سربراہ بھی ہیں-ایرانی وزیر خارجہ جاوید ظریف کا کہنا تھا کہ انہوں نے کتھرین آشٹن کو بتایا ہے ایران اپنے ایٹمی پروگرام کے حوالے سے عالمی برادری کے تحفظات کو دور کرنے اور ان کے خدشات کو ختم کرنے کے لیے ہر ممکن اقدام اٹھانے کو تیار ہے-جاوید ظریف نے اپنے فیس بک پر بنے اکاؤنٹ پر اور ٹیوٹر پر یہودی کمیونٹی کے ںئے سال کے آغاز پر ان کو مبارکباد کا پیغام دیا ہے-جبکہ ٹیوٹر پر امریکی ایوان نمائندگان کی سابق سپیکر نینسی پلوسی کی بیٹی کرسٹائن پلوسی کے ٹیوٹ کے جواب میں لکھا ہے کہ ایران ہالوکاسٹ کی نفی نہیں کرتا-نازیوں کے ہاتھوں یہودیوں کے قتل عام اور فلسطین میں صہیونیوں کے قتل عام کی مذمت کرتا ہے-ایران کے وزیر خارجہ کی جانب سے ان بیانات کو ایران کی خارجہ پالیسی میں بڑی تبدیلی سے تعبیر کیا جارہا ہے-میرے خیال میں ایک طرف تو ایران یورپ اور امریکہ کی جانب سے پیٹرولیم اور بینکنگ سیکٹر پر لگائی گئی پابندیوں کو ختم کرانے کے لیے اہم اقدامات اٹھانا چاہتا ہے تو دوسری طرف وہ امریکیوں کی جانب سے مڈل ایسٹ میں ایران کے مفروضہ غلبے کی کہانی کے تاروپود بھی بکھیرنا چاہتا ہے-اس لیے ایران کے نئے اعتدال پسند صدر تیزی سے احمدی نژاد کے دور کی پالیسیوں کو بدل رہے ہیں-ویسے بھی ایران میں 40 فیصد افراط زر اور کرنسی کی قدر میں خوفناک کمی نے بھی ایرانی حکومت کو کافی کچھ سوچنے پر مجبور کردیا ہے-ایران کی یہ تبدیل ہونے والی پالیسی شام پر امریکی حملے کے تناظر میں بھی تشکیل پاتی نظر آرہی ہے اور اس تبدیلی سے امریکہ کے مڈل ایسٹ میں مقاصد پر خاصی ضرب پڑنے کا امکان بھی ہے-حسن روحانی کی جانب سے ان پالسیوں کے اجراء اور ان کے کامیابی سے اطلاق سے یہ لگتا ہے کہ ایران کی پاسداران انقلاب،سپریم کونسل کے قدامت پرستوں کو بھی ایران کی شدید تنہائی اور بڑھتے ہوئے معاشی بحران کے ممکنہ تباہ کن نتائج کا احساس ہونا شروع ہوگیا ہے-اس لیے وہ حسن روحانی کی راہ میں روکاوٹیں کھڑی نہیں کررہے-ایران کے اٹامک انرجی آرگنائزیشن کے سربراہ علی اکبر صالحی جو کہ سابق وزیر خارجہ بھی رہے ہیں نے بھی کہا ہے کہ ایران انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کو اپنی ایٹمی سائٹس کا معائنہ کرنے کی اجازت دینے پر تیار ہیں-جبکہ انہوں نے یہ عندیہ دیا ہے کہ ایران این پی ٹی کے ایڈشنل پروٹوکول پر بھی دستخط کرسکتا ہے جوکہ اچانک معائنہ کی اجازت سے متعلق ہے-یہ حیران کن پیش رفت ہے جس سے مڈل ایسٹ میں جیوپالٹیکس کے بدل جانے کے امکانات بہت زیادہ ہیں-ایک بات تو طے ہے کہ عالمی برادری شام کے تنازعے کو بڑے تصادم میں بدلنے پر راضی نہیں ہے-اس حوالے سے درمیانی راہ نکالے جانے کی سوچ تیزی سے مقبول ہورہی ہے-ایرانی وزیر خارجہ جاوید ظریف نے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ ایٹمی ہتھیار رکھنا ایران کی قومی سلامتی کی ضمانت نہیں بن سکتا بلکہ اس کے نہ ہونے کا ایران کو فائدہ ہے-ان کا کہنا تھا کہ ایران میں صدراتی الیکشن کے نتائج سے ایرانی قوم نے یورپ اور امریکہ کو جو پیغام دیا اس کو اب تک سمجھا نہیں گیا ہے-انہوں نے ایرانی خبر رساں ایجنسی فارس نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ایران اور ایرانی قوم سے مڈل ایسٹ کے امن کو کوئی خطرہ لاحق نہیں ہے بلکہ خطرات تو مڈل ایسٹ کو صہونیت سے لاحق ہیں-جاوید ظریف کی یہ گفتگو پالیسی شفٹ کی علامت ہے-اور اس سے یہ بھی پتہ چل رہا ہے کہ ایران کی نئی انتظامیہ عقابوں کی بجائے فاختاؤں پر انحصار کررہی ہے-اور ایران کے اٹامک انرجی کیمشن کے نئے سربراہ علی اکبر صالحی ایک اعتدال پسند رہنماء کے طور پر معروف ہیں-
Comments
Tags: جی-20 کانفرنس