Imran Khan will sweep next elections
Related articles: Is Imran Khan the new choice of agencies (ISI) in Pakistan?
Pakistan Tehreek-e-Khaal and the future coalition government of Pakistan – by Bawa
حضرت ہارون الرشید اور عمران خان سلمہ
پاکستان تحریک انصاف کے قائد عمران خان میں دو صفات ایسی ہیں جو ان حضرت کا آئ ایس آئ سے گہرا رابطہ واضح کرتی ہیں – اول صفت ان حضرت کے مداحوں، سرپرستوں اور طرفداروں میں جنرل حمید گل اور ہارون الرشید کا وجود مسعود – اور دوم ان حضرت کے عہدے داروں میں جماعت اسلامی کے پرانے جاں نثاروں کی بھرمار ، مثال کے طور پر ڈاکٹر عارف علوی
ان صفات کے ہوتے ہوۓ اس میں اچنبھے کی کوئی بات نہیں کہ عمران خان سلمہ کا طالبان پر معذرت خواہانہ موقف ، فوج اور عدلیہ پر تنقید سے پرہیز، عوامی منتخب سیاستدوں پر سخت تنقید، یہ تمام معاملات واضح کرتے ہیں کہ عمران خان ایر مارشل اصغر خان کا نیا جنم ہیں – اسی لیے ان کا انجام اور عوام کے ہاتھوں ان کی رسوائی کی کہانی بھی اصغر خان سے مختلف نہیں
دلچسپ امر یہ ہے کہ پاکستان کے دو اصلی دشمن (یعنی مذہبی رجعت پسند اور جمہور دشمن سوڈو لبرل) بالعموم عمران خان کی قیادت پر اعتماد کا اظہار کرتے ہیں – عمران خان کے دربار میں یہ دونوں گروپ ایک ہی صف میں کھڑے ہیں
کیا جمہوریت کے دشمن سوڈو لبرل اور کیا انسانیت کے دشمن طالبان اور ان کے معذرت خواہان
تیری زلفوں کے سب اسیر ہوۓ
لیکن پاکستان کے غیور اور انتہائی سمجھدار عوام عمران خان کو ایسے ہی جوتے رسید کرتے ہیں جس طرح وہ جمہور دشمن جعلی لبرلز اور انسانیت دشمن طالبان کو جوتے رسید کرتے ہیں – ہر الیکشن میں عوام کروڑوں تھپڑ انسانیت اور جمہور دشمنوں کے منہ پر رسید کرتے ہیں – تبھی تو سوڈو لبرل اور طالبان دونوں جمہوریت اور جمہوری پارلیمنٹ سے ہمہ وقت بیزاری کا اظہار کرتے نظر آتے ہیں
مندرجہ بالا حقائق کے با وجود اس امر کو دیکھ کر ہنسی آتی ہے کہ جنرل اختر عبدالرحمان کی خوشامد میں آئ ایس آئ سے پیسے لے کر کتاب لکھنے والے حضرت ہارون الرشید پچھلے چند سالوں سے مسلسل عمران خان کی تعریف میں کالم لکھے جا رہے ہیں لیکن عوام کالانعام کے کانوں پر جوں بھی نہیں رینگتی
اپنے تازہ ترین کالم میں حضرت ہارون الرشید بشارت دیتے ہیں کہ اگلا الیکشن عمران خان کے نام ہو گا اور یہ کہ خیبر پختونخواہ سے لے کر پنجاب اور سرائیکی وسیب تک عمران خان کی دھوم مچ گئی ہے
…………….
حضرت ہارون الرشید سخن طراز ہیں
از خود نوٹس….ناتمام…ہارون الرشید
کیا اللہ تعالی ٰ نے پاکستان کے حالات کا از خود نوٹس لے لیا ہے ؟ کیا ہم امید کر سکتے ہیں کہ دس پندرہ لاکھ نوجوان بروئے کار آئیں او ر ملک جرائم پیشہ لیڈروں سے نجات پائے؟ کل شب درویش کے ساتھ ملاقات کے بعد میرا دل امید سے جگمگاتا رہا۔ ان کا کہنا یہ تھا ” میری آرزو یہ ہے کہ کبھی میچ فکس نہ کرنے والا کپتان اب کامران ہو
جام پور کے جلسہ ء عام کے بعد دو باتیں اعجاز چوہدری نے بتائیں۔ اوّل یہ کہ خلقِ خدا ٹوٹ پڑی ہے ۔ کم از کم دس ہزار کے اجتماع میں دو ہزار سے زیادہ خواتین تھیں، اکثر باپردہ۔ ثانیاً خان میں خطابت کا جوہر اب نکھر آیا ہے۔ ہجوم اس پر فریفتہ اور وہ ہجوم کا حصہ بن جاتا ہے ۔ کسی بے مثال نغمے کی طرح جو کبھی ذہنوں سے اتر نہ سکے ، وہ ایک اکائی بن جاتے ہیں اور آنے والی سحر کا استعارہ ۔ کل شب درویش نے اچانک کہا: ذوالفقار علی بھٹو اپنے ایجنڈے اور شعلہ فشانی سے جیتے ۔ عمران خاں اپنی ساکھ کے بل پر کامران ہوں گے ۔ کوئی دن جاتا ہے کہ آندھی کی طرح وہ چھا جائیں گے ۔ ایک بار پھر انہوں نے تاکید کی : کپتان سے کہو : ٹیلی ویژن کو بھول جائے اورہجوم کا ہو رہے ۔
ہارون آباد میں تقریباً دس ہزار ، دولتانہ قبیلے کے اس چھوٹے سے گاؤں لڈّن میں سات ہزار سے زیادہ ، چشتیاں میں تقریباً بارہ ہزار اور ڈیرہ غازی خاں میں بیس ہزار بے تاب لوگ قومی ہیرو کا استقبال کرنے آئے۔
قبائلی علاقے اور پختون خوا میں خان اس وقت سب سے زیادہ مقبول ہے ۔ جنوبی پنجاب میں برف پگھل چکی اور ڈھنگ کے امیدوار تعاقب میں ہیں ۔ لاہور اور فیصل آبادمیں موسم بدل رہا ہے ۔ کیا اللہ تعالی ٰ نے واقعی پاکستان کے حالات کا از خود نوٹس لے لیا ہے ؟ کیا ہم امید کر سکتے ہیں کہ دس پندرہ لاکھ نوجوان بروئے کار آئیں او ر ملک جرائم پیشہ لیڈروں سے نجات پالے۔
کل شب درویش کے ساتھ ملاقات کے بعد میرا دل امید سے جگمگاتا رہا۔ ان کا کہنا یہ تھا “اللہ کے سوا جو کسی در کے گداگر نہیں ہوتے ، وہ آرزو کے گھوڑے پر سواری کرتے اور منزل کو جا پہنچتے ہیں۔ میری آرزو یہ ہے کہ کبھی میچ فکس نہ کرنے والا کپتان اب کامران ہو”۔
…………
ہارون الرشید کا کالم پڑھ کر مجھے دو مضامین یاد آ گئے – پہلا مضمون توایکسپریسس اخبار میں ایک خبر ہے جس میں عمران خان کے جلسے میں لوگوں کے لائے جانے کا احوال ہے – اور دوسرا مضمون اصل میں ایک تبصرہ ہے جو برخوردار باوا نے پی کے پولیٹکس پر چند دن قبل پوسٹ کیا تھا – ملاحظہ کیجئے اور سر دھنیے
یہ عمران خان کو “چٹی اکھیں” مروائیں گے
آج کل ہر شخص عمران خان کو کہ رہا ہے, “شیر بن شیر – یہ عمران خان کو “چٹی اکھیں” مروائیں گے
ایک لومڑی اور بندر کی دوستی ہوگئی. بندر تھوڑا بے وقوف تھا اور لومڑی بہت چالاک. ایک دن بندر نے لومڑی سے کہا کہ مجھ میں کیا کمی ہے کہ میں شیر کی طرح شکار نہیں کر سکتا؟ لومڑی (المعروف ہارون رشید آبپارہ والے ) نے ہنسی ضبط کرتے ہوئے کہا کہ کوئی ایسی خاص نہیں بس شکار کرنے کا طریقہ ہے جو شیر کو آتا ہے اور تجھے نہیں آتا. لومڑی نے مزید کہا کہ ہم چھپ کر شیر کو شکار کرتے دیکھیں گے اور پھر جیسے وہ شکار کرتا ہے ویسے ہی ہم بھی دوسرے جانوروں کا شکار کریں گے. ایک دن لومڑی اور بندر چھپ کر بیٹھ گئے اور شیر کو شکار کرتے دیکھنے لگے. انہوں نے نوٹ کیا کہ اور تو کوئی خاص کام شیر نہیں کرتا. صرف شکار کی طرف غور سے دیکھتا ہے اور جب اسکی آنکھیں سرخ ہو جاتی ہیں تو وہ شکار پر حملہ کر دیتا. لومڑی نے بندر سے کہا کہ یہ تو کوئی مشکل کام نہیں ہے تم بھی ایسے ہی شکار کو دیکھتے رہنا اور جب تمہاری آنکھیں سرخ ہو جائیں تو شکار پر حملہ کر دینا. بندر نے کہ کہ مجھے کیسے پتہ چلے گا کہ میری آنکھیں سرخ ہو گئی ہیں؟ لومڑی نے کہا کہ تم فکر نہ کرو. میں تمہیں بتا دوں گی کہ تمہاری آنکھیں سرخ ہو گئی ہیں اور تم حملہ کر دینا.
اگلے دن بندر ایک جنگلی بھینسے کے قریب نشانہ لیکر بیٹھ گیا اور غصے سے جنگلی بھینسے کو دیکھنے لگا جو کسی اور طرف متوجہ تھا. تھوڑی دیر بعد لومڑی نے اسے بتایا کہ تمہاری آنکھیں سرخ ہو گئی ہیں اور اس نے جنگلی بھینسے پر حملہ کر دیا. بس پھر کیا تھا بھینسے نے بندر کو پٹک پٹک کر زمین پر مارا اور لومڑی موقع سے فرار ہوگئی. بندر نے منت ترلا کرکے جان چھڑائی. اگلے دن جب بندر اور لومڑی کی ملاقات ہوئی تو لومڑی نے پوچھا کہ تم نے مجھے بتایا ہی نہیں کہ تمھارا پہلا شکار کیسا رہا؟ بندر لنگڑاتا ہوا بولا کہ تم نے مجھے “چٹی اکھیں” مروایا یعنی تم نے آنکھیں سرخ ہونے سے پہلے ہی مجھ سے حملہ کروا دیا رونہ شکار کرنا تو مجھے آگیا ہے
اب ملاحظہ فرمائیں یہ خبر
ایکسپریس اخبار کے مطابق ڈیرہ غازی خان میں عمران خان کے جلسے میں سیلاب زدگان کو یہ وعدہ کر کے اکٹھا کیا گیا کہ عمران خان امداد تقسیم کریں گے – امداد کیا تقسیم کرنی تھی، عمران خان نے اپنی روایتی آئ ایس آئ کی لکھی ہی تقریر پڑھی جس میں سیاستدانوں اور پارلیمنٹ کو خوب صلواتیں سنائی گئی تھیں. لوگوں کو کوئی امداد فراہم نہیں کی گئی – بلآخر لوگوں کا صبر جواب دے گیا – انھوں نے عمران خان اور تحریک انصاف کو بد د عا یں دیں اور تحریک انصاف کے دفتر کے باہر مظاہرہ بھی کیا
……….
حاصل گفتگو
طالبانیوں اور سوڈو لبرلز نے عمران خان کو الیکشن سے پہلے ہی “چٹی اکھیں” مروا دیا
Comments
Tags: Haroon-ur-Rashid, Imran Khan, ISI
Latest Comments
Asal mai inka kasoor nahe ha ! KHowab dekhnay per pabandy nahe ha ya majbor log hain inko kuch na kahen . Amerul momeneen kay dor say baher nahe niklay bOttle choren tu niklengay na baher !
Voters in NA-55 mistakenly gave vote to ‘Lion’ thinking it was Imran Khan? A sneak peek into PTI Forum
http://criticalppp.com/archives/6297
Well, I believe he has as much right in politics as anyone else has. But for a successful political career in any third world country, one should follow the Bhutto’s way of politics i.e; to live and die for poor. If he has the same courage and a “COMPLETE” political agenda, an agenda which not only mentioning problems all the time alongwith some TV anchors, but it can provide solutions of all these problems of today like;
1.How to tackle terrorism? 2.How to revive economy?
3.Price Hike 4.Religious extremism 5.Law and Order especially in Karachi 6.Rehabilitation of flood effecties. 7.Corruption 8.Bolochistan problem and last but not least whether HONOURABLE CHIEF JUSTICE would allow anybody to take any steps indepedently…..?????????? !! Big Question…???????….
And if he has answers to all these questions then of course he can win the hearts of poor masses. After all there is still a vacuum of leadership. Whoever works hard can fill it anytime.
electoral politics takes place with the voter seeing who can deliver them “something”. That something is usually in form of individual gains for the voter than anyone else. Let Imran Khan contest 3-4 elections. He is usually heard saying that pehlay 20 years Mahatir bhee hara tha. In that case, Imran is unlikely to win anything till 2015
سب جانتے ہیں کہ میں عمران خان کی طرز سیاست سے متفق نہیں اور سخت تنقید کرتا رہا ہوں۔ لیکن پاکستان کے غیور عوام کی اصطلاح سن کر ناجانے کیوں میرے پیٹ میں گدگدیاں ہوتی ہیں کہ اس ملک میں غیور عوام بھی بستی ہے۔
ہاں بھئی نوے روپے کلو چینی، چالیس روپے آٹا۔ سو روپے چاول۔ ساٹھ روپے دودھ اور ساڑھے تین سو روپے گوشت کھا کر یہ قوم غیور نہ ہو تو کیا ہو اور جمہوریت کو دن رات سلام نہ کرے تو کیا کرے۔
دیہی علاقوں میں جہاں سے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کو ووٹ ملتے ہیں کیا وہاں انسان بستے ہیں؟ کیا ان جاگیرداروں نے انہیں انسان رہنے دیا ہے یا جیتے جی حیوان اور غلام بن دیا ہے۔
اوع جمہوریت کی بات کرتے ہوءے سوچنا چاہءے کہ خاندانی اور مزارعی سیاست کرنے والے خود کتنے جمہوری ہیں۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ، تحریک انصاف، اے این پی اور دیگر جماعتوں کے اندر کتنی جمہوریت ہے۔ معزرت کے ساتھ یہاں پارٹیاں نہیں باپ دادا کی میراث ہیں جن پر خاندانوں کا قبضیہ ہے۔ صرف دو جماعتیں کسی حد تک جمہری ہیں ایک جماعت اسلامی اور ایک ایم کیو ایم اور باقی تمام جماعتیں چو چوں کا مربع ہیں اور جب یہ جماعتیں جمہریت کی بات کرتی ہیں تو ہنس ہنس کر میرے پیٹ میں مروڑ پڑ جاتے ہیں
Even if the figures given in Haroon Rashid’s column are taken to be true, he (Haroon Rashid) seems to forget two things:
1- The population of this country is not in thousands. But even without any false charity promises, a million people will gather to catch a glimpse of Angelina Jolie; and
2- Three million people were on the road in Karachi on October 18,2007 to welcome their mother and sister back.
What does Haroon Rashid’s darwaish have to say about that?
The froth of Imran Khan – by Nadeem Paracha
http://criticalppp.com/archives/5194
PTI is JI B Team . previously known as Shabab-e-Milli.
Its now proven that Imran khan has no idea about the politics and situation .He is just like a brain washed college student of Jamiat .
Imran’s revolutionary road — II
Mehreen Khan
But that adulation and admiration for his cricketing achievement and philanthropic prowess must not preclude an objective analysis of his political ideology and credentials. Even young, modern, English-medium educated Imran fans seem intolerant of any critical examination or analysis of their hero. “Imran Khan is a legend blessed with enormous talent, honesty and patriotism who will save Pakistan” — a PTV style homage is what his supporters wish to see written about their leader, judging from reactions to the first part of this piece on Imran’s political promise. Anyone daring to excavate Khan’s ideological underpinnings, question his past or reveal flaws that portend future scandal is subjected to an emotional ‘Imran cyber-brigade’ attack, replete with ‘Bush-ist’ accusations of being ‘against Imran’ or an agent of ‘the other side’.
Imran’s supporters need to face reality and employ reasoned arguments rather than puerile statements about Khan’s ‘personal life’ being irrelevant. If Imran Khan ever does become prime minister of the Islamic Republic, as his supporters wish, his ‘personal life’ will be front page fodder for the international press. They will excoriate Khan’s untenable situation of having an illegitimate daughter, Tyrian White, whilst advocating ‘Islamic values’, where adultery is a capital offence.
Imran Khan’s past will be exhumed in gory, ghastly detail with comment a lot less respectful than that by domestic observers.
Pakistan Tehreek-e-Insaf strategists also need to address glaring inadequacies in their party’s policy prescriptions on key issues. The 31-page manifesto does not even once mention, let alone tackle, the menace of ‘suicide bombings’ or ‘extremism’. ‘Terrorism’ is referred to just once, on page 30, almost as an afterthought, that too as a criticism of current government policy. Having interviewed Khan on several occasions, Imran, the politician, has seemed unsteady on how to balance his populist opinions with political reality, especially his opposition to American influence.
In politics, every policy is subject to rigorous scrutiny and the vicissitudes of the political landscape. Sincerity, sporting success and philanthropic service cannot compensate for an inchoate, inconsistent and immature political agenda, especially when facing grave multiple challenges of terrorism, corruption and economic meltdown.
Perhaps we have become desperate as a nation, willing to grab on to anyone who offers a glimmer of hope. When so many pages are filled with the brazen corruption, incompetence and hypocrisy of the government and its opponents, our cry for change is understandable. But decisions borne of desperation always end in disillusionment. I do not wish to see the ‘Great Khan’, a national icon, demoted and discredited as yet another political failure. I refuse to join those who adoringly paint him as a messiah, as our political saviour, despite his lack of credentials for revolution. Imran may be more honest than other politicians, just as Obama is far more enlightened than Bush, but unreasonably lofty expectations will be Imran’s demise just as Obama’s over-promise has been his. It is Imran’s personality, more than his political ideology, which attracts media attention and popular support. He has the potential to bring meaningful social reform and to inspire young people, to an extent, but it is criminal to place Imran Khan on the towering pedestal of grand, national salvation — for when he falls from such a height, the legend of the ‘Great Khan’ may tumble too and that would truly be a very painful loss indeed.
Published in The Express Tribune, November 6th, 2010.
Share
اسلام آباد کی جانب مارچ کی کال دوں گا توانقلاب آئے گا، عمران خان
محسن وال( نامہ نگار)عمران خان نے کہا ہے کہ اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ کی کال دونگا تو انقلاب آجائیگا۔ اللہ نے مجھے بہت کچھ دیا ہے میں غریب عوام کی جنگ لڑ رہا ہوں دونوں بڑی پارٹیاں جو جمہوریت کی علمبردار ہونے کا دعویٰ کررہی ہیں لوٹ مار میں مصروف ہیں ان کی لوٹ مار اور اقتدار کیخلاف عنقریب لانگ مارچ اور سول نافرمانی کی تحریک کیلئے قوم کو کال دی جائے گی ۔
وہ میاں چنوں میں اجتماع سے خطاب کررہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ میر جعفر اور میر صادق نے ملک کے بعض حصوں میں افواج پاکستان کے ہاتھوں پاکستانیوں کو مروانا شروع کررکھا ہے جس کے بھیانک نتائج نکل سکتے ہیں۔ بڑے چور اور ڈاکو جنہیں جیل میں ہونا چاہئے تھا پارلیمنٹ میں بیٹھے ہیں ۔ صدر آصف علی زرداری اور میاں محمد نواز شریف کے درمیان اقتدار کیلئے ایکا ہے ان کی لفظوں کی جنگ ہاتھی کے دانت دکھانے کے اور کھانے کے اور کے مصداق ہے۔ جلسہ سے کالم نگار ہارون الرشید، سیمی بخاری، ڈاکٹر روبینہ اختر، اعجاز احمد چوہدری اور مہر محمد افضل دلو نے بھی خطاب کیا۔ تلمبہ سے نامہ نگار کے مطابق عمران خان نے جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ حکمران عذاب الٰہی سے کم نہیں۔ بیروز گاری اور مہنگائی نے عوام کو تنگ کر رکھا ہے میں 8روز کے لئے جیل گیا تو میں نے دیکھا کہ وہاں چھوٹے چھوٹے چور جیلوں میں بند ہیں عدالتوں سے صرف امیروں کو انصاف ملتا ہے ۔ غریبوں کو انصاف نہیں ملتا بلکہ عدالتوں میں انصاف فروخت ہوتا ہے ۔ جب میں پارلیمنٹ میں گیا تو میں نے دیکھا بڑے بڑے چور اور ڈاکو جن کو جیل میں ہونا چاہیے تھا وہ پارلیمنٹ میں بیٹھے ہیں۔ رائے ونڈ کے بادشاہ نواز شریف نے صرف 5ہزار ٹیکس دیا جبکہ وہ اربوں پتی ہیں، آصف زرداری ‘ یوسف رضا گیلانی ٹیکس نہیں دیتے۔ انہوں نے کہا کہ بڑے مرغوں سے ٹیکس کون لے گا؟ بڑے مرغوں کی قربانی عمران خان کرے گا ۔ ان کا احتساب عمران خان کرے گا ۔ اب بیان آئے گا کہ آصف زرداری سوئٹزر لینڈ سے اثاثے ملک میں لائیں تو اگلے روز بیان آئے گا کہ نواز شریف کے لندن اور سعودیہ کے اثاثے ملک میں لائے جائیں تو تیسرے روز اسلام آباد میں دونوں بیٹھ کر تیتروں کی دعوت کھاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جمہوریت کو بچانا ہے اور مک مکا ہو جاتا ہے اور ایک ناشتے میں سب کچھ ختم ہو جاتا ہے ۔ آپ کو میرے ساتھ مل کر حقوق کی جنگ لڑنا ہو گی ۔ عمران خان عنقریب سول نافرمانی کا فیصلہ کرے گا ۔ پھر آپ سب لوگ ٹیکس اور بجلی کے بلوں کی ادائیگی بند کر دیں گے پھر حکمرانوں کو ٹیکس اور بجلی کے بل دینا ہونگے۔ بل عوام ادا کرتے ہیں بجلی کی چوری حکمران کرتے ہیں۔ ٹیکس کی ادائیگی عوام کرتے ہیں جبکہ عیاشی حکمران کرتے ہیں ۔ یہ حکمران امریکہ سے ڈالروں کے ذاتی لالچ میں اپنی فوج کو اپنے عوام سے لڑا رہے ہیں۔ بہاولپور سے نمائندہ جنگ کے مطابق عمران خان نے کہا کہ ملک بچانے کیلئے چوروں لٹیروں کا احتساب کرنا ہوگا‘ تبدیلی کے بغیر ملک آگے نہیں چل سکتا۔
Jang
27/12/2010
http://www.jang.net/urdu/details.asp?nid=493629